چندا ماموں کی تلاش
منطقی استدلال پر مبنی یہ جملہ بلا شبہ سریع الفہم اردو زبان میں تھا
QUETTA:
ماضی قریب میں بازاروں شاپنگ مراکز میں رمضان کے الوداعی ایام میں نفیس ڈیزائن یافتہ اور نہایت دلآویز خوبصورت رنگین عید کارڈز کے اسٹالز لگائے جاتے تھے۔ اہم رہائشی اور کاروبار ی علاقوںمیں شوقین مزاج نوجوان لڑکے بھی فٹ پاتھوں پر اسی طرح کے دیدہ زیب عیدکارڈر فروخت کے لیے لگا لیا کرتے تھے جس سے ان کو بھی عیدبونس کی شکل میں کچھ منافع مل جایا کرتا تھا۔ یکدم جدید سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی نے جہاں کمیونیکیشن کو نئی جہت بخشی وہاں موبائل Cell کی صنعت کو بہت تیزی سے عروج حاصل ہوا ۔
ترقی کی انتہا تو یہاں تک پہنچ گئی کہ کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ کی مدد سے انٹرنیٹ کے استعمال کو موبائل میں ٹچ سسٹم کی ایجاد نے پورا کر دیا۔ اب عید کارڈ اپنے پیاروں کو بذریعہ ڈاک ترسیل کی جگہ کمپیوٹرز اور موبائل کے SMS نظام نے لے لیا ہے۔ ہمارے ایک معزز دوست نے ہمیں گزشتہ سالوںکی طرح امسال بھی متبرک عید کے خوشی کے موقع پر Wish کیا جو کچھ اس طرح سے تھا۔''روزے مبارک ، چاند مبارک، عید مبارک'' پڑھ کر دل کو بھا گیا۔
منطقی استدلال پر مبنی یہ جملہ بلا شبہ سریع الفہم اردو زبان میں تھا پھر ہم نے بھی تھوڑی بہت تردید و اضافے کے بعد اس جملے کو کچھ اس طرح سے مکمل کیا اور اپنے تمام متعلقین کو روانہ کر دیا جس کی ترتیب کچھ اس طرح سے تھی ''آپ کوتین عشروں کے روزے، ایک مختصر سی شام کے سیاہ بادلوں میں چھپے ہوئے شوال کے چندا ماموں اور ایک ہفتے کی مسلسل عید (بغیر لوڈشیڈنگ) بہت بہت مبارک ہو! جواب میں متعلقین کی جانب سے زبردست پزیرائی موصول ہوئی اور ہماری زبان سے بے اختیار یہ جملہ نکلا ''یہ سب میرے مولا کا کرم ہے کہ اس بے حس اورمادیت پرستی کے پرآشوب دور میں بات اب تک بنی ہوئی ہے ورنہ تو ہماری وقعت و منزلت محض دنیا کی ریت نما خاک کے ایک حقیر ذرے کی سی ہے''حکم ہے کہ شوال کے چاند کی زیارت کرو تو قرآن مجید کی سورۃ فتح کی تلاوت کرو یا فیروزہ، پانی یا کوئی سبز رنگ دیکھو۔ گزرے ہوئے سالوں کی طرح اس مرتبہ بھی انفرادی طور پر براہ راست شوال کا باریک تہواری چاند دیکھنے کے عمل کی بجائے مفتی منیب الرحمن کی سربراہی میں تمام مکاتب فکر علماء و اکابرین پر مشتمل مرکزی رویت ہلال کمیٹی نے لاہور میں متفقہ طور پر چاند نظر آنے کی ٹھوس شہادتوں کی بنیاد پر باضابطہ طور پر شوا ل کے آغاز کا اعلان کیا۔ قابل حیرت ہے یہ امر کہ اب ہم چاندکی زیارت محکمہ موسمیات کے قدیم زمانہ کے آلہ ''ٹیلی اسکوپ'' کے مکمل طور پر محتاج ہو چکے ہیں اور وہ بھی چشمہ والی چار آنکھوں میں سے ایک آنکھ سے چاند کا نظارہ۔ سبحان اللہ! یعنی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ قوت باصرہ سے چاند دیکھنے سے قطعی قاصر ہیں۔
جدید مشینی دور میں نورانی نور کہاں سے لائیں؟ شاید ہم ناکردہ گناہوں کا منبع ہوں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم فضامیں آلودگی پھیلانے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ہم سے مقدس چاند ناراض معلوم ہو رہا ہے کہ اپنی ذرا سی جھلک بھی دکھانے سے گریزاں ہے۔ ایک زمانہ تھا لوگ اپنے گھروں کی چھتوں اور وسیع میدانوں میں جمع ہو کر عید کا چاند دونوں آنکھوں سے دیکھا کر تے تھے۔ چاند دیکھ کرایک دوسرے کے ساتھ معانقہ و مصافحہ کر کے اور عید مبارک، عید مبارک کا ورد کرتے تھے یعنی چاند کا نظر آنا ایک حقیقی روحانی خوشی تھی۔ رمضان سے ایک ہفتہ قبل ہی استقبال رمضان کے عنوان پر مساجد سے رات گئے، ایمان افروز تقاریر کا سلسلہ جاری رہتا۔ تمام ٹی وی چینلز سے رمضان کی مناسبت سے پروگرام ترتیب دیے۔ ہر مکاتب فکرکے علمائے کرام کا گویا ایک جمعہ بازار لگا ہوا تھا۔ رنگا رنگ ورائٹی انعامی پروگرامز پیش کیے گئے جس میںضرورت مند حاضرین کی مخصوص تعداد نے شرکت فرمائی مگر افسوس ہوا کہ اس مختصر سے سوالات کے دورانیے میں معمولی نوعیت کے سوالات کے جواب دینے سے حاضرین قاصر رہے۔ چند چینلز نے تو گویا رمضان کے تقدس کو پامال کرنے میں کچھ کسر نہ رکھی۔ شوبزکی شخصیات جن کا کام دوران رمضان عموماً مندا پڑ جاتا ہے ۔
رمضان المبارک میں دینی وعظ کا اپنے ''انداز'' میں ادراک کرتے نظر آئے۔ خدارا قوم پر ترس کھائیں۔ مدبر و دانا اور علماء کرام کا پاکستان میں اتنا بھی قحط نہیں کہ اب دینی درس بھی شوبز شخصیات اور ماڈلز کے حوالے کر دیا جائے۔ دوسری طرف سے فلاحی تنظیموں کی جانب سے غریبوں کی خدمات کا شور و غوغا اور زکوٰۃ، فطرہ کی مانگ نے ایسا رنگ دیا کہ پوری کی پوری ریاست کی رعایا انھی فلاحی اداروں پر چل رہی ہے۔ بعض فلاحی تنظیموں کے ذمے داران کو میڈیا اور بذریعہ ہورڈنگز، پر تشہیر ہوتے ہوئے دیکھا گیا۔
تشہیر کیا تھی ون مین شو ماڈلنگ تھی۔ یاد رکھیے! صرف آپ کا کام آپ کا اشتہار ہے جو کام کرتے ہیں وہ ہی تنظیمیں عوام کے دلوں پر راج کرتی ہیں، فلاحی کاموں میں مولانا عبدالستار ایدھی معاشرے کے رول ماڈل کے طور پر نمایاں نظر آتے ہیں، انھوں نے زندگی میں کبھی بھی سرکاری مشینری یا میڈیا کا سہارا نہیں لیا۔ ٹاک شوز میں آنے سے ہمیشہ گریزکیا، نہ ہی انھوں نے اپنی شخصیت کی تصاویرکی تشہیر سڑکوں پر نصب بڑے بڑے پہاڑ نما ہورڈنگز پرکروائی۔ صحت مند پیشہ ور کاروباری گداگروں کا طوفان شہر میں اُمڈ آیا اور انھوں نے ثواب داریں حاصل کرنیوالوں کی خوب درگت بنائی۔ ادھر اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کردہ نئے کرنسی نوٹوں کے اجراء کے ایشو نے بینکوں کی تمام مجوزہ شاخوں میں عوام کا خوب رش اور بیوٹی پارلرز پر مہندی لگوانے والی خواتین کے ہجوم نے اس عیدکو چار چاند لگا دیے۔
خدا کا شکر ہے کہ ان دنوں میں کسی بھی قسم کا ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا البتہ بعض علاقوں میں بجلی اور پانی کی قلت کا شور و غوغا بدستور جاری رہا۔ دنیا کا کوئی مذہب یا فرقہ ایسا نہیں جہاں عید جیسے خوشیوں کے تہوار سال میں ایک ایک یا دو مرتبہ نہ منائے جاتے ہوں۔ یہی انسان کی فطرت کی معراج ہے۔ عید کے پر لطف لمحات کا مقصد انسانوں کے درمیان سماجی تعلقات کو استوار کرنا ہے ''کیوں نہ ہو'' کیونکہ عید کی خوشیاں منانا اُمت مسلمہ کا سماجی اور مذہبی کلچر ہے۔
ناراض دوست احباب، عزیز و اقارب اور متعلقین کے ساتھ مل بانٹ کر بیٹھ جانے، ناراضگیاں دورکرنے، فرصت کے لمحات کو enjoy کرنے، بچوں غربیوں، مساکین کے درمیان خوشیاں بانٹنے، احساس محرومی کو کسی حد تک کم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ مسئلہ ہے تو شوال کے چاند دیکھنے کا۔ افسو س ہے کہ حکومت وقت اس بات کا تعین اب تک نہیں کر سکی ہے کہ فی زمانہ چاند کا اجراء خالص اسلامی مسئلہ نہیں بلکہ اس کا موجود ہ سائنسی تحقیق کی روشنی میں احسن طریقے سے حل کرنا ہے۔ کاش! گوروں کو پتہ چل جائے کہ امت مسلمہ اس چاند کو دیکھنے میں دشواری کا سامنا کرتی ہے تو یقین جانیے آج سے انھوںنے خلائی تحقیق کا باقاعدہ آغازکر دینا ہے۔ ویسے بھی جدید سائنسی ترقی جس تیز رفتاری سے اپنی منزل کی طرف گامزن ہے قیاس ہے کہ مستقبل قریب میں رویت ہلال کمیٹیوں کا ''سیاپا'' ہی مک جائے اور لوگ چاند اپنے موبائل ہی میں دیکھنے کے قابل ہو جائیں۔ بقول مرزا غالبؔ کے۔
اپنے پہ کر رہا ہوں قیاس اہل دہر کا
سمجھا ہوں دل پذیر متاع ہنر کو میں