ٹی اوآرز نوازشریف کی مفاہمت کی ایک اورکوشش
مگر بے صبرے مخالفین حکومت کا جلد سے جلد خاتمہ کر کے خود کو وزیر اعظم بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔
وزیراعظم محمد نوازشریف لندن میں دل کی سرجری کرانے کے بعد وطن پہنچ کر ایک بار پھر معمول کی سیاسی و سرکاری سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے ہیں ۔ قارئین کو یاد ہو گا وزیراعظم کی بیماری اور لندن میں علاج کے دوران مخالفین نے کیسی کیسی افواہیں پھیلا دی تھیں۔ اب وزیر اعظم واپس نہیں آئیں گے وہ پانامالیکس کے معاملے پر دباؤ میں ہیں اور احتساب سے ڈر کر بھاگ گئے ہیں بعض منچلوں نے تو وزیراعظم کی بیماری کو ہی ڈراما قرار دیدیا تھا، مگر مقام شکر ہے کہ قوم کی بے شمار دعاؤں کے طفیل وزیر اعظم نوازشریف نہ صرف صحت مند ہو گئے بلکہ پانامالیکس پر اپوزیشن سے مذاکرات کا سلسلہ بھی ایک بار پھر شروع کرنے کے خواہاں ہیں۔
آپ کو یاد ہو گا پانامالیکس کے حوالے سے وزیراعظم نوازشریف نے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان متفقہ ٹی او آرز تیار کرنے کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی قائم کی تھی۔ کمیٹی کے حکومتی ارکان کا موقف یہ تھا کہ ٹی او آرز کے تحت پاناما لیکس کی بھی تحقیقات کی جائیں۔ اس میں وزیراعظم کا نام شامل نہیں ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ مخالفین خود مدعی اور خود ہی منصف بن کر فیصلہ کرنا چاہتے ہیں جب کہ اپوزیشن اراکین کا کہنا تھا کہ پانامالیکس پر تحقیقات کی ابتداء وزیراعظم اور ان کے خاندان سے کی جائے، لیکن حکومت کی جانب سے مثبت جواب نہ آنے پر یہ بات چیت بے سود ثابت ہوئی۔
وزیراعظم لندن میں تھے اور ادھر اپوزیشن نے مذاکرات ختم کر کے احتجاج اور دھرنوں کی دھمکیاں دینی شروع کر دیں اور اعلان کیا گیا کہ عید کے بعد دمادم مست قلندر ہو گا۔ اس بات سے تو سب ہی آگاہ ہیں کہ پانامالیکس میں وزیر اعظم کا نام شامل نہیں مگر اپوزیشن نے صرف وزیر اعظم کو اپنا ہدف بنا لیا جب کہ نوازشریف خود کو احتساب کے لیے پیش کر چکے ہیں اور وہ سب کا احتساب چاہتے ہیں مگر مخالفین موجودہ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے صرف نوازشریف کے احتساب کا نعرہ بلند کر رہے ہیں۔ اس نعرے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے کیونکہ پاکستان کے عوام نے موجودہ حکومت کو 5 سال کے لیے منتخب کیا ہے اور آئین و قانونی اعتبار سے وزیر اعظم کا حق ہے کہ اپنی آئینی مدت پوری کریں۔
مگر بے صبرے مخالفین حکومت کا جلد سے جلد خاتمہ کر کے خود کو وزیر اعظم بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے وہ حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ خاص طور پر عمران خان کا لب و لہجہ غیر جمہوری ہے اور وہ حکومت پر بے جا الزامات عائد کر رہے ہیں۔ لگتا ہے اپوزیشن کے پاس پانامالیکس کے سوا کوئی ایشو نہیں ہے۔ احتجاج، دھرنے توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کی سیاست کسی طرح بھی پاکستان کے حق میں نہیں۔ موجودہ حکومت نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک میں امن و امان قائم کیا۔ دہشتگردوں کو راہ فرار اختیار کرنے پر مجبورکیا اورخاص طورپر کراچی میں امن کا قیام نہایت قابل ذکر ہے۔ دوسری جانب ملکی معیشت بدترین صورتحال سے دوچار تھی مگر اب پاکستان کا معاشی ترقی کی شاہراہ پرگامزن ہو چکا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر تاریخ میں پہلی بار 23 ارب ڈالر سے زائد ہو چکے ہیں۔ مہنگائی میں کمی آئی ہے۔ توانائی کا بحران کم ہوا ہے۔
پیٹرول اور بجلی کی قیمتیں کم ہوئی ہیں، موٹرویز تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ درجن سے زائد عالمی ادارے پاکستان کی معیشت کی بہتری پر اس کی تصدیق کر رہے ہیں۔ اسے ایک ابھری ہوئی مارکیٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ پاکستان ان دنوں جن حالات سے گزر رہا ہے ایسے میں اپوزیشن کی کوئی تحریک جمہوریت کے استحکام اور معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ جس سے قوم اور ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ پاکستان کی سرحدوں پر افغانستان اور بھارت کی ریشہ دوانیاں اور مقبوضہ کشمیر کی سلگتی ہوئی صورتحال اس بات کا ثبوت ہے کہ ایسے میں کوئی احتجاجی تحریک ملک کی خدمت نہیں ہو گی بلکہ اس سے ملک و قوم کے مفادات کو سخت نقصان پہنچے گا۔
پاکستان ان دنوں گوناگوں مسائل کا شکار ہے۔ ہمیں ان میں اضافہ کرنے کی بجائے انھیں حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یوں بھی جمہوریت اور جمہوری نظام میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مسائل حل کرنے کا بہترین طریقہ بات چیت یا مذاکرات کو ہی قرار دیا جاتا ہے۔ اب بھی وقت ہاتھ سے نہیں گیا ہے حکومت اور اپوزیشن کو فوری طور پر مسائل بات چیت سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آپ کو یاد ہو گا عمران خان اور طاہر القادری نے جب اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا اس سے ملک کو شدید نقصان پہنچا تھا۔
ایک جانب پورا دارالحکومت مفلوج ہو گیا تھا اور دوسری جانب چین کے صدر نے پاکستان کے اندرونی حالات کے پیش نظر اپنا دورہ ملتوی کر دیا تھا جب کہ وہ وطن عزیز میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی غرض سے اسلام آباد آنا چاہتے تھے۔ اپوزیشن کی غیر دانشمندانہ روش کی وجہ سے پاک چائنا کوریڈور کا منصوبہ بھی متاثر ہوا۔ جو مستقبل میں پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت ثابت ہو گا۔ ایک بار پھر اپوزیشن کی احتجاج کی دھمکیوں کے جواب میں وزیر اعظم نوازشریف نے صبر و تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پانامالیکس پر دوبارہ مذکرات شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ انھوں نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو ہدایت کی ہے کہ وہ ٹی او آرز پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک بار پھر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں اور یہ کوشش بھرپور اور نتیجہ خیز ہونی چاہیے اس معاملے میں تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے۔ آپ اسے مفاہمت کی ایک اور کوشش کہہ سکتے ہیں۔
دوسری جانب اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ حکومت گڑھے مردے اکھاڑنے کی بجائے پہلے پانامالیکس پر تحقیقات کرائے۔ وزیراعظم کو مشورہ دیتا ہوں وہ خود مداخلت کریں اور ٹی او آرز پر ڈیڈ لاک ختم کرائیں۔ وزیر اعظم اوراپوزیشن لیڈر کے یہ بیانات حوصلہ افزاء ہیں کیونکہ سیاست میں ضد، انا اور شخصیت پسندی کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ سیاست اور حقیقت بھی صولی سمجھوتوں کا نام ہے۔ عوامی فلاح و بہبود اور جمہوری اداروں کے استحکام کے لیے بعض اوقات سیاست دانوں اور اراکین پارلیمنٹ کو کڑوی گولی نگلنی پڑتی ہے۔
سیاست میں ذاتی پسند اور ناپسند کا اسیر نہیں ہونا چاہیے۔ میرے خیال میں یہ خوش آیند بات ہے کہ حکومت اور قائد حزب اختلاف اور دیگر جماعتوں میں ڈیڈ لاک ختم کرنے کی خواہش موجود ہے۔ کیونکہ اگر ڈیڈ لاک ختم نہ ہوا تو انتشار اور تصادم کی فضا سیاسی ماحول کو خراب کر دے گی۔ میری رائے ہے کہ اپوزیشن وزیر اعظم نوازشریف کی ذات کو نشانہ بنانے کی بجائے جن جن سیاسی جماعتوں کے ارکان پر آف شور کمپنیوں کے الزامات ہیں ان سب کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا جانا چاہیے کیونکہ فرد واحد کو نشانہ بنانے سے سیاسی انتقام کی بو آئے گی۔ امید کی جانی چاہیے کہ حکومت اور اپوزیشن کسی ایسے نتیجے پر پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گی جو ملک وقوم کے مفاد میں ہو گا۔