سال 2016ء بازیابیوں کا سال
اویس شاہ کی بازیابی بلاشبہ فوج اور خفیہ اداروں کی کاوشوں کا نتجہ ہےلیکن بازیابی کی اس کوشش نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے
2016ء بازیابیوں کا سال ثابت ہوا جس میں سابق وزیراعظم، سابق گورنر پنجاب اور موجودہ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کے صاحبزادوں کو بازیاب کرایا گیا، تینوں شخصیات کے صاحبزادوں کو آپریشن کے بعد بازیاب کرایا گیا اور تینوں شخصیات کی بازیابی کی خوشخبری قوم کو پاک فوج کی جانب سے سے ہی سنائی گئی ہے۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس سجاد علی شاہ کے صاحبزادے اویس شاہ کی بازیابی کے بعد وہ تمام افواہیں دم توڑ گئیں کہ ان کے اغواء میں سیاسی جماعتوں کا ہاتھ ہے یا بعض بااثر افراد من پسند فیصلوں کے لئے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کو دباؤ میں لانا چاہتے ہیں جس کے لئے ان کے صاحبزادے کو اغواء کیا گیا تاہم حقیقت جو کچھ بھی ہو لیکن ایک سوال اپنی جگہ مکمل آب و تاب کے ساتھ موجود ہے کہ اویس شاہ کے اغواء کی خبر چند گھنٹوں بعد میڈیا پر آنے کے بعد بھی پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے بروقت ٹھوس کارروائی کیوں نہ کرسکے اور بالاخر اویس شاہ کی بازیابی کے لئے فوج کو متحرک کیوں ہونا پڑا؟ اور پھر فوج کی جانب سے قوم کو بازیابی کی مبارکباد ایک ایسے موقع پر دی گئی جب قوم سربراہ پاک دوج کو جانے کی نہیں بلکہ آنے کی دعوت دے رہی ہے۔
اس سے قبل سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے صاحبزادے شہباز تاثیر کی بازیابی کے موقع پر بھی فوج کی جانب سے قوم کو مبارکباد دینے کی کوشش کی گئی لیکن شاید اس میں تھوڑی جلد بازی کردی گئی تھی کیوںکہ بازیاب ہونے والے شہباز تاثیر نے خود بتادیا تھا کہ ان کی بازیابی میں فوج کا کردار انہیں کوئٹہ سے لاہور لانے تک کا تھا جبکہ اس سے قبل یہی ڈھنڈورا پیٹا جارہا تھا کہ انٹیلیجنس فورسز اور پولیس اہلکار کوئٹہ کے شمال میں 25 کلومیٹر دور واقع کچلاک نامی علاقے میں ایک کمپاؤنڈ میں گئے، کمپاؤنڈ کو گھیرے میں لیا اور چھاپہ مارا، وہاں کوئی نہیں ملا، وہاں صرف ایک ہی شخص تھا اور اس نے بتایا کہ اس کا نام شہباز ہے اور اس کے باپ کا نام سلمان تاثیر ہے۔ اس کے علاوہ فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کی جانب سے شہباز تاثیر کی تصاویر بھی جاری کی گئیں جبکہ اس سے قبل بلوچستان ایف سی کی جانب سے شہباز تاثیر کی بحفاظت بازیابی کا اعلان کیا گیا۔
شہباز تاثیر کی بازیابی کا معاملہ مبہم ہونے پر اس کی تحقیقات کا حکم دیا گیا اور تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں سفارش کی کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کسی اہلکار کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس واقعے کو اپنی کارکردگی سے منسوب کرے۔ تاہم سیکیورٹی فورسز کی جلد بازی اور ایک دوسرے پر برتری لے جانے کی دوڑ میں شہباز تاثیر کے اغواء کے پس پردہ حقائق اب تک سامنے نہیں آسکے کہ آخر انہیں کیوں اغواء کیا گیا، کس نے اغواء کیا اور کس طرح متعدد چیک پوسٹوں کے باوجود انہیں افغانستان منتقل کردیا گیا۔
سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی حیدر گیلانی کو 2013ء کی انتخابی مہم کے دوران انہیں اغوا کیا گیا جس کے بعد ناجانے وہ کیسے چیک پوسٹیں عبور کرتے ہوئے پہلے فاٹا اور اس کے بعد افغانستان پہنچ گئے تاہم علی حیدر گیلانی کی بازیابی کے موقع پر ایک مرتبہ پھر قوم کو مبارکباد سنائی گئی کہ انہیں افغانستان سے بازیاب کرایا گیا لیکن ان کی بازیابی امریکی اور افغان فورسز کی مشترکہ کارروائی کے نتیجے میں عمل میں آئی۔ علی حیدر گیلانی کے اغواء پر بھی وہی سوال جنم لیتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بغل کے نیچے سے ایک زندہ شخص کو کس طرح ایک مقام سے دوسرے مقام منتقل کردیا جاتا ہے؟ کیا پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی چیک پوسٹوں پر گاڑیوں کی چیکنگ درست انداز سے نہیں ہوتی؟ اگر چیکنگ ہوتی ہے تو اغوا کاروں کے پاس ایسا کون سا جادو ہے کہ وہ کسی بھی شخص کو جہاں چاہیں آزادانہ طور پر لے جاتے ہیں۔
اویس شاہ کی بازیابی بلاشبہ فوج اور خفیہ اداروں کی کاوشوں کا نتجہ ہے لیکن بازیابی کی اس کوشش نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ وہ ادارے جن کی بنیادی ذمہ داری عوام کو سیکیورٹی فراہم کرنا ہے وہ اس میں ناکام دکھائی دیئے جو اغواء کے 6 گھنٹے بعد علم ہونے کے باوجود کچھ نہ کرسکے اور جن اداروں نے اویس شاہ کو بازیاب کرانے میں اہم کردار ادا کیا کیا وہ اصل ملزمان تک پہنچ پائے یا طالبان اور القاعدہ پر اغواء کی ذمہ داری ڈال کر معاملے کو نمٹا دیا جائے گا۔
اویس شاہ کے اغوا کے مقاصد کیا تھے؟
یہ سوال اب تک سوال ہی ہے کیوںکہ اگر طالبان یا القاعدہ نے اویس شاہ کو اغواء کرایا تھا تو اس کے پس پردہ کیا مقاصد تھے؟ کیا وہ کسی ملزم کی رہائی میں معزز چیف جسٹس صاحب کا تعاون چاہتے تھے؟ یا اگر اس اغواء میں سیاسی جماعت ملوث ہیں جو کسی ایسے شخص کو رہا کرانا چاہتی تھیں جو سیاسی جماعتوں کے لئے سب سے زیادہ ضروری تھا۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اویس شاہ کے کیس کو ٹیسٹ کیس بنانا ہوگا کیوںکہ کراچی کے پوش علاقے سے اہم شخصیت کے صاحبزادے کے اغواء میں اگر کالعدم تنظیمیں ملوث ہیں تو یہ باعث تشویش ہے اور اس اغواء اور اس کے بعد پولیس کی جانب سے کی گئی کوششوں پر بھی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ پس پردہ حقائق تک پہنچا جائے تاکہ اگر کالعدم تنظیمیں اس میں ملوث ہیں تو ان کے نیٹ ورک کو توڑا جائے اور اگر یہ کوئی سیاسی کھیل تھا تو اس قسم کے تماشوں کو بھی نہ صرف روکا جائے بلکہ منظر عام پر بھی لایا جائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس سجاد علی شاہ کے صاحبزادے اویس شاہ کی بازیابی کے بعد وہ تمام افواہیں دم توڑ گئیں کہ ان کے اغواء میں سیاسی جماعتوں کا ہاتھ ہے یا بعض بااثر افراد من پسند فیصلوں کے لئے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کو دباؤ میں لانا چاہتے ہیں جس کے لئے ان کے صاحبزادے کو اغواء کیا گیا تاہم حقیقت جو کچھ بھی ہو لیکن ایک سوال اپنی جگہ مکمل آب و تاب کے ساتھ موجود ہے کہ اویس شاہ کے اغواء کی خبر چند گھنٹوں بعد میڈیا پر آنے کے بعد بھی پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے بروقت ٹھوس کارروائی کیوں نہ کرسکے اور بالاخر اویس شاہ کی بازیابی کے لئے فوج کو متحرک کیوں ہونا پڑا؟ اور پھر فوج کی جانب سے قوم کو بازیابی کی مبارکباد ایک ایسے موقع پر دی گئی جب قوم سربراہ پاک دوج کو جانے کی نہیں بلکہ آنے کی دعوت دے رہی ہے۔
8 مارچ 2016
اس سے قبل سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے صاحبزادے شہباز تاثیر کی بازیابی کے موقع پر بھی فوج کی جانب سے قوم کو مبارکباد دینے کی کوشش کی گئی لیکن شاید اس میں تھوڑی جلد بازی کردی گئی تھی کیوںکہ بازیاب ہونے والے شہباز تاثیر نے خود بتادیا تھا کہ ان کی بازیابی میں فوج کا کردار انہیں کوئٹہ سے لاہور لانے تک کا تھا جبکہ اس سے قبل یہی ڈھنڈورا پیٹا جارہا تھا کہ انٹیلیجنس فورسز اور پولیس اہلکار کوئٹہ کے شمال میں 25 کلومیٹر دور واقع کچلاک نامی علاقے میں ایک کمپاؤنڈ میں گئے، کمپاؤنڈ کو گھیرے میں لیا اور چھاپہ مارا، وہاں کوئی نہیں ملا، وہاں صرف ایک ہی شخص تھا اور اس نے بتایا کہ اس کا نام شہباز ہے اور اس کے باپ کا نام سلمان تاثیر ہے۔ اس کے علاوہ فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کی جانب سے شہباز تاثیر کی تصاویر بھی جاری کی گئیں جبکہ اس سے قبل بلوچستان ایف سی کی جانب سے شہباز تاثیر کی بحفاظت بازیابی کا اعلان کیا گیا۔
شہباز تاثیر کی بازیابی کا معاملہ مبہم ہونے پر اس کی تحقیقات کا حکم دیا گیا اور تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں سفارش کی کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کسی اہلکار کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس واقعے کو اپنی کارکردگی سے منسوب کرے۔ تاہم سیکیورٹی فورسز کی جلد بازی اور ایک دوسرے پر برتری لے جانے کی دوڑ میں شہباز تاثیر کے اغواء کے پس پردہ حقائق اب تک سامنے نہیں آسکے کہ آخر انہیں کیوں اغواء کیا گیا، کس نے اغواء کیا اور کس طرح متعدد چیک پوسٹوں کے باوجود انہیں افغانستان منتقل کردیا گیا۔
10 مئی 2016
سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی حیدر گیلانی کو 2013ء کی انتخابی مہم کے دوران انہیں اغوا کیا گیا جس کے بعد ناجانے وہ کیسے چیک پوسٹیں عبور کرتے ہوئے پہلے فاٹا اور اس کے بعد افغانستان پہنچ گئے تاہم علی حیدر گیلانی کی بازیابی کے موقع پر ایک مرتبہ پھر قوم کو مبارکباد سنائی گئی کہ انہیں افغانستان سے بازیاب کرایا گیا لیکن ان کی بازیابی امریکی اور افغان فورسز کی مشترکہ کارروائی کے نتیجے میں عمل میں آئی۔ علی حیدر گیلانی کے اغواء پر بھی وہی سوال جنم لیتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بغل کے نیچے سے ایک زندہ شخص کو کس طرح ایک مقام سے دوسرے مقام منتقل کردیا جاتا ہے؟ کیا پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی چیک پوسٹوں پر گاڑیوں کی چیکنگ درست انداز سے نہیں ہوتی؟ اگر چیکنگ ہوتی ہے تو اغوا کاروں کے پاس ایسا کون سا جادو ہے کہ وہ کسی بھی شخص کو جہاں چاہیں آزادانہ طور پر لے جاتے ہیں۔
19 جولائی 2016
اویس شاہ کی بازیابی بلاشبہ فوج اور خفیہ اداروں کی کاوشوں کا نتجہ ہے لیکن بازیابی کی اس کوشش نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ وہ ادارے جن کی بنیادی ذمہ داری عوام کو سیکیورٹی فراہم کرنا ہے وہ اس میں ناکام دکھائی دیئے جو اغواء کے 6 گھنٹے بعد علم ہونے کے باوجود کچھ نہ کرسکے اور جن اداروں نے اویس شاہ کو بازیاب کرانے میں اہم کردار ادا کیا کیا وہ اصل ملزمان تک پہنچ پائے یا طالبان اور القاعدہ پر اغواء کی ذمہ داری ڈال کر معاملے کو نمٹا دیا جائے گا۔
اویس شاہ کے اغوا کے مقاصد کیا تھے؟
یہ سوال اب تک سوال ہی ہے کیوںکہ اگر طالبان یا القاعدہ نے اویس شاہ کو اغواء کرایا تھا تو اس کے پس پردہ کیا مقاصد تھے؟ کیا وہ کسی ملزم کی رہائی میں معزز چیف جسٹس صاحب کا تعاون چاہتے تھے؟ یا اگر اس اغواء میں سیاسی جماعت ملوث ہیں جو کسی ایسے شخص کو رہا کرانا چاہتی تھیں جو سیاسی جماعتوں کے لئے سب سے زیادہ ضروری تھا۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اویس شاہ کے کیس کو ٹیسٹ کیس بنانا ہوگا کیوںکہ کراچی کے پوش علاقے سے اہم شخصیت کے صاحبزادے کے اغواء میں اگر کالعدم تنظیمیں ملوث ہیں تو یہ باعث تشویش ہے اور اس اغواء اور اس کے بعد پولیس کی جانب سے کی گئی کوششوں پر بھی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ پس پردہ حقائق تک پہنچا جائے تاکہ اگر کالعدم تنظیمیں اس میں ملوث ہیں تو ان کے نیٹ ورک کو توڑا جائے اور اگر یہ کوئی سیاسی کھیل تھا تو اس قسم کے تماشوں کو بھی نہ صرف روکا جائے بلکہ منظر عام پر بھی لایا جائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔