ملک میں پولیس تھانوں کی بھی بولیاں لگتی ہیں چیف جسٹس پاکستان

ملزم کے خلاف کوئی الزام نہیں تو اس کیس ختم کرانے کے لئے درخواست دائر کرنی چاہئے، چیف جسٹس


ویب ڈیسک July 20, 2016
سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے سابق وزیر خوراک بلوچستان اسفندیار کاکڑ اور عبد الولی کاکڑ کی درخواست ضمانت کی درخواستوں کی سماعت کی، فوٹو: فائل

چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے سابق وزیر خوراک بلوچستان اسفندیار کاکڑ کی درخواست ضمانت کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں پولیس تھانوں کی بولیاں لگتی ہیں۔

چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے سابق وزیر خوراک بلوچستان اسفندیار کاکڑ اور عبد الولی کاکڑ کی درخواست ضمانت کی درخواستوں کی سماعت کی، دوران سماعت اسفندیار کاکڑ کے وکیل افتخار گیلانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل کے خلاف کوئی الزام نہیں ،انھیں اس لئے نیب نے کرپشن کے کیس میں ملوث کیا ہے کہ ان کی وزارت کے ایک کلرک کو بدعنوانی کے الزام میں پکڑا گیا تھا۔ جام صادق کیس کے فیصلے میں یہ طے ہوچکا ہے کہ اگر کسی مقدمے کے پیچھے بدنیتی شامل ہو، اسے بدنام کرنا یا انھیں ڈرا دھمکا کر دباؤ میں لانا مقصود ہو عدالت قبل از گرفتاری ضمانت کے بعد ملزم کو مستقل ضمانت دے سکتی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر ملزم کے خلاف کوئی الزام نہیں تو پھر کیس ختم کرانے کے لئے درخواست دائر کرنی چاہئے۔

نیب کے وکیل نے درخواست ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ملزم بادی النظر میں کرپشن میں ملوث ہے، اس کے خلاف ریفرنس دائر ہوچکا ہے فرد جرم عائد ہوچکی ہے اور شواہد پیش کئے جارہے ہیں لیکن ملزم احتساب عدالت میں پیش نہیں ہورہا۔ اس لئے ملزم عبوری ضمانت کا مستحق نہیں، قبل از گرفتاری ضمانت غیر معمولی صوتحال میں دی جاتی ہے لیکن زیر غور مقدمے میں تو ملزم کے خلاف ثبوت موجود ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے تجویذ دی کہ اگر معاملہ شواہد پیش کرنے کے مرحلے پر ہے تو ہم احتساب عدالت کو 3 مہینے میں کیس کا فیصلہ کرنے کی ہدایت کردیتے ہیں اس دوران ٹرائل کورٹ عبوری ضمانت جاری رکھنے یا اسے منسوخ کرنے کا فیصلہ کرسکتی ہے۔

مدعی کے وکیل افتخار گیلانی نے تجویز سے اتفاق نا کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں نیا تماشا بن گیا ہے کہ کسی کو بدنام کرنے کے لئے ایک کلرک کے معاملے میں اسے بھی کیس میں نامزد کرکے جیل میں ڈال دیا جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مرکزی ملزم ضلعی فوڈ ڈائریکٹر حسنین خان آفریدی تو اعتراف کرچکا ہے کہ انھوں نے اپنی پوسٹنگ کے لئے سفارش کی تھی۔ آپ بہت کچھ کہہ سکتے ہیں لیکن ہم کچھ نہیں کہیں گے۔ ہم کچھ بولیں گے تو سرخیاں لگ جائیں گی لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس ملک میں تھانوں کی بھی بولیاں لگتی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں