ناران تک
کوسٹر کشادہ اور آرام دہ تھی ڈرائیور کاشف بھی نہ صرف اپنے کام میں ماہر اور ذمے دار تھا
چند دن قبل جب عید کی غیرمعمولی طویل تعطیلات کے حوالے سے یہ پروگرام بن رہا تھا کہ بچوں کے ساتھ کہیں تفریح کے لیے نکلا جائے تو ایک بار پھر یہ خیال دامن گیر ہوا کہ صرف مناسب انفراسٹرکچر' سرکاری اداروں کی روایتی خراب کارکردگی اور سہولیات کی کمی کی وجہ سے ہمارا اتنا خوب صورت ملک سیاحت کے اعتبار سے کس قدر پیچھے چلا گیا ہے یہاں میں نے امن و امان کی عمومی صورت حال دہشت گردی' تحفظ اور غیرملکی سیاحوں کے لیے درکار مطلوبہ سہولتوں کا عمداً ذکر نہیں کیا کہ وہ ایک الگ مسئلہ ہے جس کی وجہ سے ہم قیام پاکستان سے لے کر اب تک غیرملکی زرمبادلہ کی اتنی بڑی رسد سے محروم چلے آ رہے ہیں جو شاید ہماری اجتماعی برآمدات کا غالب حصہ ہوتی کہ اس کے لیے ''جس وژن اور کمٹ منٹ کی ضرورت ہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت کے پروگرام کا حصہ نہیں ہے۔
سو اس بحث کے دوران ہمارے پیش نظر صرف یہ تھا کہ کسی ایسی جگہ کا انتخاب کیا جائے جہاں یہ متعلقہ مسائل نسبتاً کم ہوں۔ بات مری' نتھیا گلی' ایبٹ آباد اور سوات کے بارے میں مختلف حوالوں سے منفی ووٹوں کی اکثریت کی وجہ سے ''ناران'' پر آ کر ٹھہری اور فیصلہ کیا گیا کہ اس خوبصورت علاقے کے قدرتی حسن سے لطف اندوز ہوا جائے۔ اس ضمن میں میرا تجربہ سب سے پرانا' فرسودہ اور ناقابل اعتبار تھا کہ یہ تقریباً 50برس قبل کے ایسے زمانے سے متعلق تھا جب ابھی اس علاقے میں سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں اور اس وقت تک ابھی ناران اپنے انفرادی تشخص کے بجائے وادی کاغان کے عمومی حوالے سے ہی جانا جاتا تھا اور یہ کہ ہماری پہنچ بھی صرف بالاکوٹ تک رہی تھی جسے زیادہ سے زیادہ اس علاقے کا داخلی دروازہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ایک مرحلہ سفر کے روٹ اور ناران میں قیام کا تھا۔ معلوم ہوا کہ بکنگ ادارے کے اسلام آباد آفس میں ہوتی ہے اور یہ کہ آج کل عید کی وجہ سے بیک وقت اتنے لوگوں کے لیے جگہ مل جانا کسی معجزے سے کم نہ ہو گا۔
میرے داماد عزیزی عاقب انور نے متعلقہ کارروائی مکمل کرنے کے بعد واٹس ایپ پر ریزرویشن کی رسید بھجوادی، اس دوران میں پی ٹی ڈی سی ناران کے انچارج افسر علی اصغر سے بھی رابطہ رہا جنہوں نے ہر ممکن تعاون کا نہ صرف یقین دلایا بلکہ آگے چل کر اس پر توقع سے بھی زیادہ عمل کا مظاہرہ کیا، اس قدر دباؤ کے باوجود میں نے پورے قیام کے دوران اس نوجوان کو ہمیشہ خندہ رو' پر اعتماد' خوش اخلاق اور ہر شخص کے جائز مطالبات کے لیے سرگرم اور مدد گار پایا وہ اور اس کا عملہ جن نامساعد حالات میں گاہکوں کو اتنی اچھی سروس فراہم کررہے ہیں وہ یقیناً لائق تعریف اور قابل تقلید ہے ۔
کوسٹر کشادہ اور آرام دہ تھی ڈرائیور کاشف بھی نہ صرف اپنے کام میں ماہر اور ذمے دار تھا بلکہ اس علاقے' اس کے روٹس اور مسائل سے بھی بخوبی آگاہ تھا۔ طے یہ پایا کہ ہم ایک رات ایبٹ آباد میں رکنے کے بعد گزشتہ روز علی الصبح ناران کے سفر کا آغاز کریں کہ عزیزان وسیم اور صائقہ نے (جو مانسہرہ ہی کے رہنے والے ہیں) شوکت فہمی سمیت بہت ڈرا رکھا تھا کہ ٹریفک کے رش کی وجہ سے بعض اوقات ایبٹ آباد سے مانسہرہ تک کا آدھے گھنٹے کا سفر تین سے چار گھنٹوں تک میں پھیل جاتا ہے، اس کی تائید برادرم واحد سراج نے بھی کی جو ایبٹ آباد میں ماڈرن ایج کے نام سے ایک بہت ہی عمدہ اور معیاری اسکول سسٹم چلا رہے ہیں اور جن کی میزبانی کا لطف میں پہلے بھی دو بار اٹھا چکا ہوں۔
ایک بار تو میری بیگم اور علی ذی شان بھی ساتھ تھے وہ ہمیں اپنے گھر پر ٹھہرانا چاہ رہے تھے، بڑی مشکل سے انھیں قائل کیا گیا کہ اس کے بجائے کسی ہوٹل میں ہمارا قیام بوجوہ زیادہ بہتر رہے گا سو وہ اس میزبانی کو اس ڈنر تک ہی محدود رکھیں جس کا اہتمام ہماری بھابی اور ان کے بچے مل کر کر رہے ہیں۔ واحد سراج کا گھر بھی ان کے دل کی طرح وسیع اور خوب صورت ہے چنانچہ بہت اچھا وقت گزرا اور اگر اگلی صبح پانچ بجے روانگی کا پروگرام نہ ہوتا تو شاید یہ محفل دراز تر ہوتی چلی جاتی، ہاں یہ تو میں بتانا بھول ہی گیا کہ موٹروے سے برہان تک کے سفر کے بعد جب ہم حسن ابدال کے راستے ایبٹ آباد کی طرف روانہ ہوئے تو تنگ سڑک اور زیادہ ٹریفک کی وجہ سے یکدم ہماری رفتار بہت سست ہو گئی۔
اتفاق سے ایک رات قبل ہی میرے چھوٹے داماد ناصر قریشی نے اپنے بیج میٹ اور ایبٹ آباد کےDPO عزیزی خرم کو ہمارے آنے کی اطلاع دے دی تھی تاکہ ایبٹ آباد کے اندر کے اس متوقع رش سے نکل سکیں جس کا چرچا ٹی وی پر کئی دن سے جاری تھا ۔ کچھ لوگ گزشتہ رات سے اس بے معنی اور بے ہنگم قسم کے جام میں پھنسے ہوئے ہیں اور ناران سے بالاکوٹ تک پہنچنے میں ابھی انھیں سات آٹھ گھنٹے لگے ہیں حالانکہ یہ سفر زیادہ سے زیادہ تین گھنٹے کا ہے ۔ علی ذی شان غزالی اسکول سسٹم کی ایک ڈاکیومینٹری کی شوٹنگ کے لیے چند ماہ قبل اس علاقے میں آیا تھا اس کے مشورے پر ایک ہوٹل میں رات گزارنے کا انتظام کیا گیا جو ایک بہت اچھا فیصلہ ثابت ہوا کہ رات تک پھنسی ہوئی ٹریفک کسی نہ کسی طرح نکل گئی اور اگلی صبح ہم پانچ بجے ہوٹل سے روانہ ہو کر ساڑھے آٹھ بجے پی ٹی ڈی سی کے Resort میں داخل ہو رہے تھے۔
سو اس بحث کے دوران ہمارے پیش نظر صرف یہ تھا کہ کسی ایسی جگہ کا انتخاب کیا جائے جہاں یہ متعلقہ مسائل نسبتاً کم ہوں۔ بات مری' نتھیا گلی' ایبٹ آباد اور سوات کے بارے میں مختلف حوالوں سے منفی ووٹوں کی اکثریت کی وجہ سے ''ناران'' پر آ کر ٹھہری اور فیصلہ کیا گیا کہ اس خوبصورت علاقے کے قدرتی حسن سے لطف اندوز ہوا جائے۔ اس ضمن میں میرا تجربہ سب سے پرانا' فرسودہ اور ناقابل اعتبار تھا کہ یہ تقریباً 50برس قبل کے ایسے زمانے سے متعلق تھا جب ابھی اس علاقے میں سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں اور اس وقت تک ابھی ناران اپنے انفرادی تشخص کے بجائے وادی کاغان کے عمومی حوالے سے ہی جانا جاتا تھا اور یہ کہ ہماری پہنچ بھی صرف بالاکوٹ تک رہی تھی جسے زیادہ سے زیادہ اس علاقے کا داخلی دروازہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ایک مرحلہ سفر کے روٹ اور ناران میں قیام کا تھا۔ معلوم ہوا کہ بکنگ ادارے کے اسلام آباد آفس میں ہوتی ہے اور یہ کہ آج کل عید کی وجہ سے بیک وقت اتنے لوگوں کے لیے جگہ مل جانا کسی معجزے سے کم نہ ہو گا۔
میرے داماد عزیزی عاقب انور نے متعلقہ کارروائی مکمل کرنے کے بعد واٹس ایپ پر ریزرویشن کی رسید بھجوادی، اس دوران میں پی ٹی ڈی سی ناران کے انچارج افسر علی اصغر سے بھی رابطہ رہا جنہوں نے ہر ممکن تعاون کا نہ صرف یقین دلایا بلکہ آگے چل کر اس پر توقع سے بھی زیادہ عمل کا مظاہرہ کیا، اس قدر دباؤ کے باوجود میں نے پورے قیام کے دوران اس نوجوان کو ہمیشہ خندہ رو' پر اعتماد' خوش اخلاق اور ہر شخص کے جائز مطالبات کے لیے سرگرم اور مدد گار پایا وہ اور اس کا عملہ جن نامساعد حالات میں گاہکوں کو اتنی اچھی سروس فراہم کررہے ہیں وہ یقیناً لائق تعریف اور قابل تقلید ہے ۔
کوسٹر کشادہ اور آرام دہ تھی ڈرائیور کاشف بھی نہ صرف اپنے کام میں ماہر اور ذمے دار تھا بلکہ اس علاقے' اس کے روٹس اور مسائل سے بھی بخوبی آگاہ تھا۔ طے یہ پایا کہ ہم ایک رات ایبٹ آباد میں رکنے کے بعد گزشتہ روز علی الصبح ناران کے سفر کا آغاز کریں کہ عزیزان وسیم اور صائقہ نے (جو مانسہرہ ہی کے رہنے والے ہیں) شوکت فہمی سمیت بہت ڈرا رکھا تھا کہ ٹریفک کے رش کی وجہ سے بعض اوقات ایبٹ آباد سے مانسہرہ تک کا آدھے گھنٹے کا سفر تین سے چار گھنٹوں تک میں پھیل جاتا ہے، اس کی تائید برادرم واحد سراج نے بھی کی جو ایبٹ آباد میں ماڈرن ایج کے نام سے ایک بہت ہی عمدہ اور معیاری اسکول سسٹم چلا رہے ہیں اور جن کی میزبانی کا لطف میں پہلے بھی دو بار اٹھا چکا ہوں۔
ایک بار تو میری بیگم اور علی ذی شان بھی ساتھ تھے وہ ہمیں اپنے گھر پر ٹھہرانا چاہ رہے تھے، بڑی مشکل سے انھیں قائل کیا گیا کہ اس کے بجائے کسی ہوٹل میں ہمارا قیام بوجوہ زیادہ بہتر رہے گا سو وہ اس میزبانی کو اس ڈنر تک ہی محدود رکھیں جس کا اہتمام ہماری بھابی اور ان کے بچے مل کر کر رہے ہیں۔ واحد سراج کا گھر بھی ان کے دل کی طرح وسیع اور خوب صورت ہے چنانچہ بہت اچھا وقت گزرا اور اگر اگلی صبح پانچ بجے روانگی کا پروگرام نہ ہوتا تو شاید یہ محفل دراز تر ہوتی چلی جاتی، ہاں یہ تو میں بتانا بھول ہی گیا کہ موٹروے سے برہان تک کے سفر کے بعد جب ہم حسن ابدال کے راستے ایبٹ آباد کی طرف روانہ ہوئے تو تنگ سڑک اور زیادہ ٹریفک کی وجہ سے یکدم ہماری رفتار بہت سست ہو گئی۔
اتفاق سے ایک رات قبل ہی میرے چھوٹے داماد ناصر قریشی نے اپنے بیج میٹ اور ایبٹ آباد کےDPO عزیزی خرم کو ہمارے آنے کی اطلاع دے دی تھی تاکہ ایبٹ آباد کے اندر کے اس متوقع رش سے نکل سکیں جس کا چرچا ٹی وی پر کئی دن سے جاری تھا ۔ کچھ لوگ گزشتہ رات سے اس بے معنی اور بے ہنگم قسم کے جام میں پھنسے ہوئے ہیں اور ناران سے بالاکوٹ تک پہنچنے میں ابھی انھیں سات آٹھ گھنٹے لگے ہیں حالانکہ یہ سفر زیادہ سے زیادہ تین گھنٹے کا ہے ۔ علی ذی شان غزالی اسکول سسٹم کی ایک ڈاکیومینٹری کی شوٹنگ کے لیے چند ماہ قبل اس علاقے میں آیا تھا اس کے مشورے پر ایک ہوٹل میں رات گزارنے کا انتظام کیا گیا جو ایک بہت اچھا فیصلہ ثابت ہوا کہ رات تک پھنسی ہوئی ٹریفک کسی نہ کسی طرح نکل گئی اور اگلی صبح ہم پانچ بجے ہوٹل سے روانہ ہو کر ساڑھے آٹھ بجے پی ٹی ڈی سی کے Resort میں داخل ہو رہے تھے۔