اپنی جنگ رہے گی
عابد حسن منٹو ایک باعمل سیاسی کارکن ہی نہیں ہیں، بلکہ وہ معروف سیاسی دانشور بھی ہیں ۔
اس وقت میرے سامنے معروف سیاسی دانشور اور رہنما عابد حسن منٹو کی تحاریر، تقاریر اور انٹرویوز پر مشتمل کتاب ''اپنی جنگ جاری رہے گی'' رکھی ہوئی ہے۔ یہ کتاب بقول منٹو صاحب بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد سے تادم تحریر پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کی اجمالی تاریخ ہے۔ اس طرح یہ کتاب ایک ایسی دستاویز ہے، جو پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کے مد وجذر، رہ جانے والی کمزوریوں، مشکلات اور سخت ترین حالات میں حاصل ہونے والی بعض کامیابیوں کا احوال بیان کرتی ہے۔
عابد حسن منٹو پاکستان کے ان معدوے چند سیاسی رہنماؤں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے اپنی سیاسی بصیرت اور دانش کو اس ملک کے عوام کے سیاسی شعور کو مثبت انداز میں اجاگر کرنے کی کوششوں میں صرف کیا ہے۔ انھوں نے1950میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن (DSF) سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ بعد میں کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ ہوگئے۔ نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی گروپ) سے عوامی ورکرز پارٹی تک نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط اپنے سیاسی سفر کے دوران ان کی اولین کوشش یہ رہی کہ ملک میں موجود بائیں بازو کے مختلف دھڑوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جا سکے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران نیشنل ورکرز پارٹی سے عوامی ورکرز پارٹی تک کا سفر بھی اسی خواہش اورکاوش کا نتیجہ ہے۔
عابد حسن منٹو ایک باعمل سیاسی کارکن ہی نہیں ہیں، بلکہ وہ معروف سیاسی دانشور بھی ہیں ۔جنہوں نے 60برس پر محیط اپنی سیاسی زندگی میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے پلیٹ فارم سے ترقی پسندی کی تحریک کو جلابخشنے کی کوشش کی۔ انجمن کے مختلف اجلاسوں میں پڑھے گئے مضامین کا مجموعہ ''نقطہ نظر'' 1986میں اس کی گولڈن جوبلی کے موقعے پر شایع ہوا۔ عابد حسن منٹوجو پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں۔مگر انھوں نے اپنے پیشے کو دولت کمانے کا ذریعہ بنانے کے بجائے معاشرے کے کچلے ہوئے محروم طبقات کے حقوق کے حصول کے لیے بھی استعمال کیا۔ انتخابات میں ہونے والے اخراجات کا مقدمہ ہو یا زرعی اصلاحات کے بارے میں پٹیشن، بیشتر عوامی مفادات کے مقدمات منٹو صاحب کے دائرہ کردہ ہیں ۔
اب اگر زیر مطالعہ کتاب کی بات کریں تو اس میں پانچ ابواب یا حصے ہیں۔ پہلا باب سیاسی دستاویزات کا ہے۔ اس میں کل پانچ مضامین شامل ہیں، جو موضوع کے لحاظ سے انتہائی اہم ہیں، کیونکہ 1970کے عشرے میں عالمی اور خطے کی سیاست میں جو تبدیلی اور تغیر رونما ہورہا تھا، اس پر ترقی پسندانہ انداز میں جائزہ عابد حسن منٹو جیسا وسیع المطالعہ اور وسیع النظر سیاسی رہنما ہی پیش کرسکتا ہے۔ اسی طرح 1975اور1986کی سیاسی رپورٹس پر مبنی دو مضامین ہیں۔ دو مضامین پاکستان سوشلسٹ پارٹی کے حوالے سے ہیں۔
دوسرا باب عوامی جمہوریت کے اداروں کے بارے میں ہے۔ اس باب میں 7مضامین شامل ہیں۔ یہ تمام مضامین انتہائی فکر انگیز ہیں، جن میں پاکستانی سیاست کے نشیب وفراز کا احاطہ کیا گیا ہے۔ جمہوریت کو درپیش چیلنج، 9/11کے بعد کی عالمی صورتحال، ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن کے علاوہ نجکاری، دہشت گردی اور کرپشن کے بارے میں فکرانگیز مضامین شامل ہیں۔ تیسرے باب میں وہ تقاریر ہیں، جو عابد حسن منٹو نے مختلف مواقعے پر کیں۔ اس باب میں 10 مضامین ہیں، جن میں متفرق موضوعات پر کی گئی تقاریر کو جمع کیا گیا ہے۔
چوتھے باب میں وہ انٹرویوز ہیں جو انھوں نے مختلف اخبارات و رسائل کو دیے۔ یہ کل8انٹرویوز ہیں، جو متفرق موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں ،لیکن کچھ انٹرویوز ایسے ہیں، جو ذہن کے خوابیدہ گوشوں کو کھولنے کا باعث ہیں۔ مثال کے طورپر ''پاکستان میں کمیونسٹوں پر کی گئی الزام تراشیوں کی حقیقت' قرآن کو سمجھنے کے لیے کسی مولوی کی ضرورت نہیں، صنعتی ترقی کے بغیر معیشت مستحکم نہیں ہوسکتی، اور ترقی پسندی کی تحریک آج بھی مؤثر اور فعال ہے ۔ان انٹرویوز کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے ذہنوں میں جو ابہام(Myths)پیدا کیے ہوئے ہیں، وہ کس حد تک لغو اور بے بنیاد ہیں۔ پانچویں اور آخری باب میں مختلف مواقعے پر منٹو صاحب نے جو گفتگو کی اسے شامل کیا گیا ہے۔ اس باب میں خواتین اور انسانی حقوق ،گلوبلائزیشن، پاکستان میں جمہوری نظام کی استواری ، ترقی پسندی کی روایت اور گلوبلائزیشن، ہماری معیشت اور سماجی تقاضوں پر گلوبلائزیشن کے اثرات جیسے موضوعات شامل ہیں۔
کتاب کے ابتدائیہ میں منٹو صاحب لکھتے ہیں کہ 1954میں کمیونسٹ پارٹی کو غیر قانونی قرار دیے جانے کے پس منظر میں دو باتوں کا اہم حصہ ہے۔ اولاً یہ حقیقت کہ پاکستان میں حکومتی مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کے سوا دائیں بازو کی کوئی سیاسی جماعت متحرک نہیں تھی۔ البتہ کمیونسٹ پارٹی اور اس سے منسلک مختلف تنظیمیں فعال اور متحرک تھیں۔ پاکستان بھر میں اردو زبان میں چھپنے والا کوئی بھی معروف رسالہ ترقی پسند تحریک کے اثر سے آزاد نہیں تھا۔ علاوہ ازیں دو بڑے اخبارات پاکستان ٹائمز اور امروز جو پروگریسوپیپرزلمیٹڈ کے زیر اہتمام میاں افتخار الدین شایع کرتے تھے، بائیں بازو کی جمہوری سیاست کے پرچارک تھے جب کہ پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن ملک کی ایک طاقتورمزدور تحریک کی قیادت کرتی تھی جس سے برسر اقتدار طبقہ اور اس کی پشت پناہی کرنے والا امریکی سامراج پریشان تھا۔ دوسرے یہی وہ زمانہ تھا، جب امریکا اور پاکستان باہمی معاہدات میں باضابطہ منسلک ہوچکے تھے۔ ان معاہدات کا تقاضا بھی یہی تھا کہ کمیونسٹ پارٹی کا سدباب کیا جائے۔''
منٹو صاحب کے ابتدائیہ سے لیے گئے اس اقتباس کو نقل کرنے کا مقصد اس کھیل کے بارے میں اعادہ کرنا ہے، جو قیام پاکستان کے وقت سے جاری ہے جس کے نتیجے میں بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں، ادبی و سماجی تنظیمیں تتر بتر ہوگئیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستانی عوام اپنے عقائد سے بے لوث محبت کرنے کے باوجود کبھی فرقہ وارانہ تنگ نظری کا شکار نہیں ہوئے۔ انھوں نے ہمیشہ ان سیاسی جماعتوں کو اپنا مینڈیٹ دیا جو اپنی سرشت میں کسی نہ کسی طور آزاد خیال رہی ہیں۔ اس کا ثبوت دو واقعات ہیں، جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ دونوں واقعات اس بات کا اظہار ہیں کہ پاکستانی عوام کی اجتماعی دانش ریاستی سرپرستی میں مذہبی جماعتوں کے پروپیگنڈے اور ذرایع ابلاغ کے مذہبی شدت پسندی کے بار ے میں نرم رویے سے متاثر نہیں ہوئی۔ بلکہ اس نے اپنے تئیں فیصلے کیے۔
پہلا واقعہ ملالہ یوسف زئی پر سوات میں ہونے والا حملہ ہے، جس میں وہ خوش قسمتی سے بچ گئی اور پھر فوجی قیادت کے تعاون سے علاج کی غرض سے ملک سے باہر جانے میں کامیاب ہوئی۔ بعض حلقوں نے اس پر ہونے والے حملے کو جعلی ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش کی، مگر عوام کی اکثریت نے ملالہ یوسف زئی کو جو عزت اور توقیر بخشی، وہ ان کی اجتماعی دانش کی دلیل ہے۔ دوسرا واقعہ عبدالستار ایدھی مرحوم کو دی جانے والی عزت و احترام ہے۔خاص طورپر ان کے انتقال کے بعد تدفین کی رسومات میں پاکستانی عوام اور سیاسی وعسکری قیادت نے جن جذبات واحسات کا مظاہرہ کیا، اس نے پاکستان پر لگے ان الزامات کو کھرچنے میں خاصی مدد کی ہے کہ پاکستان مذہبی شدت پسندی کی آماجگاہ اور شدت پسند عناصر کی محفوظ پناہ گاہ ہے۔
یہ دونوں واقعات اس بات کا اظہار ہیں کہ پاکستانی عوام کسی بھی طور پر مذہبی شدت پسندی اور فرقہ واریت کو قبول کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ ساتھ ہی وہ ان قومی جماعتوں سے بھی اکتا گئے ہیں، جو جمہوریت کے نام پر Status quoکو برقرار رکھنے کی مذموم کوشش کررہی ہیں۔ وہ ایک ایسی سیاسی جماعت کے متلاشی ہیں، جو اپنی سرشت میں آزاد خیال اورجمہوری ہو لیکن ساتھ ہی عوام کو درپیش مسائل کو حل کرنے کی اہلیت اور استعداد بھی رکھتی ہو۔ لہٰذا عوامی ورکرز پارٹی کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ عوامی جذبات و احساسات کا ادراک کرتے ہوئے، اپنے سیاسی ایجنڈے کو مزید بہتراور فعال بنانے کے ساتھ عوام کے لیے قابل قبول بنانے پر توجہ دے۔
جہاں تک کتاب کا تعلق ہے، تو یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوگی۔ ترقی پسندی کی تحریک کو کس طرح ناجائز ہتھکنڈوں کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی گئی۔ یہ کتاب سیاسیات، عمرانیات اور صحافت کے طلبا و طالبات کو بالخصوص پڑھنا چاہیے، کیونکہ اس کتاب کے مطالعے کے بغیر پاکستانی سیاست پر ان کا علم نامکمل ہی رہے گا۔ اس کے علاوہ متوشش شہری جو پاکستانی سیاست کے نشیب وفراز کو سمجھنا چاہتا ہے، اس کتاب کا لازمی مطالعہ کرے۔ اس کتاب کو لاہور کے اشاعتی ادارے سانجھ نے شایع کیا ہے جس کی قیمت7 سو روپے ہے۔
عابد حسن منٹو پاکستان کے ان معدوے چند سیاسی رہنماؤں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے اپنی سیاسی بصیرت اور دانش کو اس ملک کے عوام کے سیاسی شعور کو مثبت انداز میں اجاگر کرنے کی کوششوں میں صرف کیا ہے۔ انھوں نے1950میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن (DSF) سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ بعد میں کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ ہوگئے۔ نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی گروپ) سے عوامی ورکرز پارٹی تک نصف صدی سے زائد عرصے پر محیط اپنے سیاسی سفر کے دوران ان کی اولین کوشش یہ رہی کہ ملک میں موجود بائیں بازو کے مختلف دھڑوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جا سکے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران نیشنل ورکرز پارٹی سے عوامی ورکرز پارٹی تک کا سفر بھی اسی خواہش اورکاوش کا نتیجہ ہے۔
عابد حسن منٹو ایک باعمل سیاسی کارکن ہی نہیں ہیں، بلکہ وہ معروف سیاسی دانشور بھی ہیں ۔جنہوں نے 60برس پر محیط اپنی سیاسی زندگی میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے پلیٹ فارم سے ترقی پسندی کی تحریک کو جلابخشنے کی کوشش کی۔ انجمن کے مختلف اجلاسوں میں پڑھے گئے مضامین کا مجموعہ ''نقطہ نظر'' 1986میں اس کی گولڈن جوبلی کے موقعے پر شایع ہوا۔ عابد حسن منٹوجو پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں۔مگر انھوں نے اپنے پیشے کو دولت کمانے کا ذریعہ بنانے کے بجائے معاشرے کے کچلے ہوئے محروم طبقات کے حقوق کے حصول کے لیے بھی استعمال کیا۔ انتخابات میں ہونے والے اخراجات کا مقدمہ ہو یا زرعی اصلاحات کے بارے میں پٹیشن، بیشتر عوامی مفادات کے مقدمات منٹو صاحب کے دائرہ کردہ ہیں ۔
اب اگر زیر مطالعہ کتاب کی بات کریں تو اس میں پانچ ابواب یا حصے ہیں۔ پہلا باب سیاسی دستاویزات کا ہے۔ اس میں کل پانچ مضامین شامل ہیں، جو موضوع کے لحاظ سے انتہائی اہم ہیں، کیونکہ 1970کے عشرے میں عالمی اور خطے کی سیاست میں جو تبدیلی اور تغیر رونما ہورہا تھا، اس پر ترقی پسندانہ انداز میں جائزہ عابد حسن منٹو جیسا وسیع المطالعہ اور وسیع النظر سیاسی رہنما ہی پیش کرسکتا ہے۔ اسی طرح 1975اور1986کی سیاسی رپورٹس پر مبنی دو مضامین ہیں۔ دو مضامین پاکستان سوشلسٹ پارٹی کے حوالے سے ہیں۔
دوسرا باب عوامی جمہوریت کے اداروں کے بارے میں ہے۔ اس باب میں 7مضامین شامل ہیں۔ یہ تمام مضامین انتہائی فکر انگیز ہیں، جن میں پاکستانی سیاست کے نشیب وفراز کا احاطہ کیا گیا ہے۔ جمہوریت کو درپیش چیلنج، 9/11کے بعد کی عالمی صورتحال، ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن کے علاوہ نجکاری، دہشت گردی اور کرپشن کے بارے میں فکرانگیز مضامین شامل ہیں۔ تیسرے باب میں وہ تقاریر ہیں، جو عابد حسن منٹو نے مختلف مواقعے پر کیں۔ اس باب میں 10 مضامین ہیں، جن میں متفرق موضوعات پر کی گئی تقاریر کو جمع کیا گیا ہے۔
چوتھے باب میں وہ انٹرویوز ہیں جو انھوں نے مختلف اخبارات و رسائل کو دیے۔ یہ کل8انٹرویوز ہیں، جو متفرق موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں ،لیکن کچھ انٹرویوز ایسے ہیں، جو ذہن کے خوابیدہ گوشوں کو کھولنے کا باعث ہیں۔ مثال کے طورپر ''پاکستان میں کمیونسٹوں پر کی گئی الزام تراشیوں کی حقیقت' قرآن کو سمجھنے کے لیے کسی مولوی کی ضرورت نہیں، صنعتی ترقی کے بغیر معیشت مستحکم نہیں ہوسکتی، اور ترقی پسندی کی تحریک آج بھی مؤثر اور فعال ہے ۔ان انٹرویوز کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے ذہنوں میں جو ابہام(Myths)پیدا کیے ہوئے ہیں، وہ کس حد تک لغو اور بے بنیاد ہیں۔ پانچویں اور آخری باب میں مختلف مواقعے پر منٹو صاحب نے جو گفتگو کی اسے شامل کیا گیا ہے۔ اس باب میں خواتین اور انسانی حقوق ،گلوبلائزیشن، پاکستان میں جمہوری نظام کی استواری ، ترقی پسندی کی روایت اور گلوبلائزیشن، ہماری معیشت اور سماجی تقاضوں پر گلوبلائزیشن کے اثرات جیسے موضوعات شامل ہیں۔
کتاب کے ابتدائیہ میں منٹو صاحب لکھتے ہیں کہ 1954میں کمیونسٹ پارٹی کو غیر قانونی قرار دیے جانے کے پس منظر میں دو باتوں کا اہم حصہ ہے۔ اولاً یہ حقیقت کہ پاکستان میں حکومتی مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کے سوا دائیں بازو کی کوئی سیاسی جماعت متحرک نہیں تھی۔ البتہ کمیونسٹ پارٹی اور اس سے منسلک مختلف تنظیمیں فعال اور متحرک تھیں۔ پاکستان بھر میں اردو زبان میں چھپنے والا کوئی بھی معروف رسالہ ترقی پسند تحریک کے اثر سے آزاد نہیں تھا۔ علاوہ ازیں دو بڑے اخبارات پاکستان ٹائمز اور امروز جو پروگریسوپیپرزلمیٹڈ کے زیر اہتمام میاں افتخار الدین شایع کرتے تھے، بائیں بازو کی جمہوری سیاست کے پرچارک تھے جب کہ پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن ملک کی ایک طاقتورمزدور تحریک کی قیادت کرتی تھی جس سے برسر اقتدار طبقہ اور اس کی پشت پناہی کرنے والا امریکی سامراج پریشان تھا۔ دوسرے یہی وہ زمانہ تھا، جب امریکا اور پاکستان باہمی معاہدات میں باضابطہ منسلک ہوچکے تھے۔ ان معاہدات کا تقاضا بھی یہی تھا کہ کمیونسٹ پارٹی کا سدباب کیا جائے۔''
منٹو صاحب کے ابتدائیہ سے لیے گئے اس اقتباس کو نقل کرنے کا مقصد اس کھیل کے بارے میں اعادہ کرنا ہے، جو قیام پاکستان کے وقت سے جاری ہے جس کے نتیجے میں بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں، ادبی و سماجی تنظیمیں تتر بتر ہوگئیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستانی عوام اپنے عقائد سے بے لوث محبت کرنے کے باوجود کبھی فرقہ وارانہ تنگ نظری کا شکار نہیں ہوئے۔ انھوں نے ہمیشہ ان سیاسی جماعتوں کو اپنا مینڈیٹ دیا جو اپنی سرشت میں کسی نہ کسی طور آزاد خیال رہی ہیں۔ اس کا ثبوت دو واقعات ہیں، جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ دونوں واقعات اس بات کا اظہار ہیں کہ پاکستانی عوام کی اجتماعی دانش ریاستی سرپرستی میں مذہبی جماعتوں کے پروپیگنڈے اور ذرایع ابلاغ کے مذہبی شدت پسندی کے بار ے میں نرم رویے سے متاثر نہیں ہوئی۔ بلکہ اس نے اپنے تئیں فیصلے کیے۔
پہلا واقعہ ملالہ یوسف زئی پر سوات میں ہونے والا حملہ ہے، جس میں وہ خوش قسمتی سے بچ گئی اور پھر فوجی قیادت کے تعاون سے علاج کی غرض سے ملک سے باہر جانے میں کامیاب ہوئی۔ بعض حلقوں نے اس پر ہونے والے حملے کو جعلی ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش کی، مگر عوام کی اکثریت نے ملالہ یوسف زئی کو جو عزت اور توقیر بخشی، وہ ان کی اجتماعی دانش کی دلیل ہے۔ دوسرا واقعہ عبدالستار ایدھی مرحوم کو دی جانے والی عزت و احترام ہے۔خاص طورپر ان کے انتقال کے بعد تدفین کی رسومات میں پاکستانی عوام اور سیاسی وعسکری قیادت نے جن جذبات واحسات کا مظاہرہ کیا، اس نے پاکستان پر لگے ان الزامات کو کھرچنے میں خاصی مدد کی ہے کہ پاکستان مذہبی شدت پسندی کی آماجگاہ اور شدت پسند عناصر کی محفوظ پناہ گاہ ہے۔
یہ دونوں واقعات اس بات کا اظہار ہیں کہ پاکستانی عوام کسی بھی طور پر مذہبی شدت پسندی اور فرقہ واریت کو قبول کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ ساتھ ہی وہ ان قومی جماعتوں سے بھی اکتا گئے ہیں، جو جمہوریت کے نام پر Status quoکو برقرار رکھنے کی مذموم کوشش کررہی ہیں۔ وہ ایک ایسی سیاسی جماعت کے متلاشی ہیں، جو اپنی سرشت میں آزاد خیال اورجمہوری ہو لیکن ساتھ ہی عوام کو درپیش مسائل کو حل کرنے کی اہلیت اور استعداد بھی رکھتی ہو۔ لہٰذا عوامی ورکرز پارٹی کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ عوامی جذبات و احساسات کا ادراک کرتے ہوئے، اپنے سیاسی ایجنڈے کو مزید بہتراور فعال بنانے کے ساتھ عوام کے لیے قابل قبول بنانے پر توجہ دے۔
جہاں تک کتاب کا تعلق ہے، تو یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوگی۔ ترقی پسندی کی تحریک کو کس طرح ناجائز ہتھکنڈوں کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی گئی۔ یہ کتاب سیاسیات، عمرانیات اور صحافت کے طلبا و طالبات کو بالخصوص پڑھنا چاہیے، کیونکہ اس کتاب کے مطالعے کے بغیر پاکستانی سیاست پر ان کا علم نامکمل ہی رہے گا۔ اس کے علاوہ متوشش شہری جو پاکستانی سیاست کے نشیب وفراز کو سمجھنا چاہتا ہے، اس کتاب کا لازمی مطالعہ کرے۔ اس کتاب کو لاہور کے اشاعتی ادارے سانجھ نے شایع کیا ہے جس کی قیمت7 سو روپے ہے۔