عوام کا غیر منطقی اشتعال
بلاشبہ عوام کا غصہ اور اشتعال فطری بات ہے لیکن جو بات غور طلب ہے
پچھلے دنوں کراچی کی ایک مضافاتی بستی کورنگی میں دو ''ڈاکوؤں'' کو دوران واردات پکڑ کر پہلے شدید تشدد کیا گیا۔ اس کے بعد ان پر پٹرول چھڑک کر جلادیا گیا، ایک ڈاکو موقعے پر ہی ہلاک ہوگیا، دوسرا اسپتال میں دوران علاج چل بسا ۔ پہلی بات تو یہ کہ ان دونوں ہلاک شدگان کو ڈاکو نہیں بلکہ معمولی لٹیرے ہی کہا جاسکتا ہے کیونکہ انھوں نے ایک چھوٹی سی پرچون کی دکان کے مالک سے معمولی سی رقم چھیننے کی کوشش کی اور اس قسم کی چھوٹی موٹی وارداتیں ڈاکو نہیں بلکہ معمولی لٹیرے ہی انجام دیتے ہیں ۔
انھیں ہماری اصطلاح میں اسٹریٹ کرائم ہی کہا جاسکتاہے۔ ایک چھوٹی سی پرچون کی دکان میں بہت بڑی رقم نہیں ہوتی لیکن بہرحال یہ ایسی واردات تھی جو اسٹریٹ کرائم کے زمرے ہی میں آتی ہے۔ ڈاکو کبھی ایسی معمولی وارداتیں نہیں کرتے یہ غربت کے ستائے ہوئے وہ لوگ ہوتے ہیں جنھیں غربت اور بے روزگاری اس قسم کی چھینا جھپٹی پر مجبورکردیتی ہے اور بنیادی طور پر ان کا تعلق غریب طبقات ہی سے ہوتا ہے اس قسم کی وارداتیں عام ہیں اور اس قسم کی وارداتوں کے مجرموں کو آگ لگا کر جلانے کا واقعہ بھی پہلا واقعہ نہیں بلکہ ملک کے مختلف شہروں میں ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں ۔
اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ''ڈاکوؤں'' کو آگ لگا کر جلانے والے بھی ان ہی بستیوں میں رہنے والے غریب لوگ ہی ہیں۔ ان غریب لوگوں کے اشتعال کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ کرپٹ قانون اور انصاف کے نظام سے مایوس ہیں اگر کسی معاشرے میں مجرموں کو قانون کے مطابق سزائیں ملنے لگیں اور قانون نافذ کرنے والے ایماندار ہوں تو عوام قانون کو اپنے ہاتھوں میں نہیں لیتے جب عوام دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے مجرم رشوت دے کر چھوٹ جاتے ہیں تو یہی غصہ اور مایوسی انھیں قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے پر مجبور کردیتی ہے۔
یہ ایک اوپن سیکریٹ ہے کہ پولیس چھوٹے چھوٹے مجرموں کو ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے مجرموں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے ان کی سرپرستی کرتی ہے بلکہ ان مجرمانہ کارروائیوں میں خود شریک رہتی ہے۔ شہرکے ہر تھانے کو مجرم باضابطہ بھتہ دیتے ہیں اس بھتے کے عوض مجرموں کو آزادانہ جرائم کے ارتکاب کی سہولت حاصل ہوتی ہے۔
بلاشبہ عوام کا غصہ اور اشتعال فطری بات ہے لیکن جو بات غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ ہمارا میڈیا اعلیٰ سطحی لٹیروں کی وارداتوں سے بھرا رہتا ہے کروڑوں نہیں، اربوں روپوں کی لوٹ مار کے واقعات عام ہیں اور اس بھاری لوٹ مار کا ارتکاب کرنے والوں کا تعلق عموماً صاحب اختیار لوگوں سے ہوتا ہے جن کے خلاف عوام زبان کھولنے کی ہمت نہیں کرسکتے۔ یہ بھی درست ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے بعض اعلیٰ سطح کے مجرموں کو پکڑا بھی جا رہا ہے جن میں اربوں کی لوٹ مار کرنے والے اشرافیہ کے کارندے شامل ہیں۔
ایک ملزم پر دوسرے بے شمار کرپشن کے الزامات کے علاوہ 462 ارب روپوں کی کرپشن کا الزام بھی ہے۔ اس قسم کے مجرم چونکہ حکمران طبقات کے فرنٹ مین ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انھیں اطمینان ہوتا ہے کہ وی آئی پی مجرموں کو تھانوں اور جیل خانوں میں بھی گھر جیسی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ سیاسی پارٹیاں اور حکمران طبقات ان کی گرفتاریوں کو ''انتقامی'' کارروائی قرار دیتے ہیں اور انھیں آزاد کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔ ہمارا میڈیا اس قسم کے قصوں کہانیوں سے بھرا رہتا ہے اور عوام جرائم کی بلکہ ڈکیتیوں کی داستانوں سے واقف تو ہوتے ہیں لیکن جب انھیں سزاؤں سے محفوظ دیکھتے ہیں تو اپنا سارا غصہ اور اشتعال اسٹریٹ کرائمر پر اتارتے ہیں کورنگی میں دو ڈاکوؤں کو جلانے کا واقعہ اسی سلسلے کی ایک کڑی کہلاسکتا ہے۔
ہمارا عدالتی نظام ناقابل بیان حد تک سست رفتار ہی نہیں بلکہ ایسے شدید دباؤ کا شکار ہے کہ اس سے بلاامتیاز اور بلاتاخیر انصاف کی توقع ہی نہیں کی جاسکتی۔ ہمارے دو سابق وزرائے اعظم کے خلاف اربوں کی کرپشن کے الزامات ہیں جو برسوں سے زیر سماعت ہیں یہ محترمین پیشی پر عدالتوں میں جمع کیے ہوئے سیاسی کارکنوں کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلاتے ہیں اور بڑے اعتماد سے وکٹری کا نشان بناکر میڈیا کی طرف شان بے نیازی سے دیکھ کر بلٹ پروف گاڑیوں میں واپس چلے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے تاریخ پر تاریخ ملتی رہتی ہے یوں انصاف کی توہین کی جاتی ہے۔
امریکا دیگر مغربی ممالک اور بعض دولت مند عرب ممالک حکمران طبقات کو انصاف سے بچانے کے لیے سفارش اور دباؤ سے کام لیتے ہیں حکمرانوں کے لیے دبئی اور لندن ایسی پناہ گاہیں بنی ہوئی ہیں جہاں وہ آزادی کے ساتھ خودساختہ جلاوطنی گزارتے ہیں ان ملکوں میں اربوں ڈالر کے قیمتی محل اور فلیٹ موجود ہیں جہاں وہ بادشاہوں کی زندگی گزارتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ محترم لوگ دبئی اور لندن کی لگژری رہائش گاہوں میں بیٹھ کر پاکستان کی سیاست بھی کرتے ہیں اور حکمرانی بھی کرتے ہیں۔
یہ ساری عیاشی عوام کی محنت کی کمائی پر ہوتی ہیں بے چارے عوام ان بڑے ڈاکوؤں کا غصہ اسٹریٹ کرائم کے مرتکب غریب طبقات ہی سے تعلق رکھنے والے ڈاکوؤں پر اتارتے ہیں۔ لیکن جب ظلم بڑھتا ہے اور اس کے ساتھ عوام کا غصہ بھی بڑھتا ہے تو ان کا رخ ایلیٹ کی بستیوں کی طرف ہوجاتا ہے اور پھر ایسے اعلیٰ سطح کے کرپٹ لوگوں کا وہی حال ہوتا ہے جو 1789 کے انقلاب فرانس میں اشرافیہ کا ہوا تھا۔