افغان مہاجر اور ڈیورنڈ لائن

محمود خان اچکزئی اگرچہ کافی عرصہ سے بلوچستان کی سیاست میں سرگرم ہیں

mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

محمود خان اچکزئی اگرچہ کافی عرصہ سے بلوچستان کی سیاست میں سرگرم ہیں ، لیکن جواہمیت ان کو نوازشریف کے موجودہ دورحکومت میں ملی ہے ، وہ پہلے کبھی میسر نہیں آ سکی ہے ۔اردو کا یہ معروف محاورہ کہ ' فلاں کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں ،ان پر صادق آتا ہے ۔ وہ خود رکن قومی اسمبلی ہیں۔ ان کے ایک بھائی محمد خان اچکزئی گورنر بلوچستان ہیں ، ان کے کئی اور قریبی عزیز بھی اقتدار کا حصہ ہیں ۔ تاہم باوجود اس کے محمود خان اچکزئی کے ' اندر کی تلخی ' کم ہونے میں نہیں آرہی ، اور جب بھی ان کو موقع ملتا ہے ، وہ کوئی نہ کوئی ایسی منفی بات کر جاتے ہیں ، جو ان کے اندر کی تلخی کی چغلی کھا رہی ہوتی ہے ۔

جون 2013 ء میں کوئٹہ میں زیارت ریذیڈنسی کو بلوچ علیحدگی پسندوں نے بموں سے اڑا دیا ۔ زیارت ریذیڈنسی میں بانی پاکستان قائداعظم نے اپنی زندگی کے آخری ایام ، جب وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھے ،گزارے تھے۔ قائداعظم کی رحلت کے بعد زیارت ریذیڈنسی کو قومی ورثہ قرار دے دیا گیا ، اور دوران علالت ان کے زیر استعمال رہنے والی اشیا بطور یادگار محفوظ کر لی گئیں ۔

زیارت ریذیڈنسی کی تباہی پر پورا پاکستان افسردہ تھا ، لیکن محمود خان اچکزئی کی پارٹی پختون خوا ملی عوامی پارٹی نے زیارت ریذیڈنسی کو 'غلامی کی یادگار' قرار دے کر اس کی مذمت کرنے سے انکار کردیا ۔ جنوری2016 ء میں کسی دہشت گرد گروپ نے پٹھانکوٹ (بھارت ) ائربیس پرحملہ کر دیا ۔ بھارت نے جیساکہ اس کی عادت رہی ہے ، ابتدائی طور پر بغیر کسی ثبوت کے اس کا الزام پاکستان کی ایجنسیوں پر جڑ دیا ۔دل چسپ بات یہ ہے کہ بعد میں جب بھارت میں خود اس حادثہ کی انکوائری کی گئی تو پاکستان کے اس موقف کی تصدیق ہو گئی کہ پاکستان کی کوئی ایجنسی اس میں ملوث نہیں تھی ۔ محمود خان اچکزئی کو مگر نجانے کس چیز کی جلدی تھی کہ کسی انکوائری سے پہلے ہی پارلیمنٹ میں اس موضوع پر تقریر کرڈالی ۔ اس پس منظر میں محمودخان اچکزئی کا یہ بیان کہ خیبرپختون خوا افغانوں کا ہے ، ان کے مائنڈ سیٹ کی عکاسی کرتا ہے ۔

محمود خان اچکزئی نے اپنے متنازعہ بیان کے دفاع میں ڈیورنڈ لائن پر جو گفتگو کی ہے ، وہ تاریخی اور قانونی لحاظ سے کسی اہمیت کی حامل نہیں ۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد میں کئی قدرتی اور کئی خود نکالی گئی گزرگاہیں ہیں۔ 78 گزرگاہیں معروف ہیں، جن میں سے 16 سرکاری طور پر تسلیم شدہ ہیں۔ تاہم ان 16 گزرگاہوں میں سے بھی 9 بالکل بند کر دی گئی ہیں اور صرف 7 فعال ہیں۔ ان7 میں سے 2 گزرگاہیں بہت مشہور ہیں ، بلوچستان میں چمن اور قبائلی علاقوں میں طورخم۔ ڈیورنڈ لائن 1893ء سے تسلیم شدہ انٹرنیشنل بارڈر ہے اور اس کی یہ حیثیت کبھی کسی انٹر نیشنل لیگل فورم میں چیلنج نہیں کی گئی ۔

یہ بھی ثابت نہیں کہ 1893ء میں افغانستان کے والی امیر عبدالرحمان اور برطانوی راج کے سرموٹمر ڈیورنڈکے درمیان ہونے والا سرحدی معاہدہ زائد المعیاد یا کالعدم ہو چکا ہے ،کیونکہ مذکورہ معاہدہ میں اس طرح کی کوئی چیز نہیں تھی ۔یہ بھی درست نہیں کہ پاکستان بننے کے بعد افغان حکومت نے اس بنیاد پرہی اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کو چیلنج کیا تھا ۔اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت پراعتراض یہ داغا گیا کہ آیا پاکستان انٹرنیشنل لا کے بموجب برطانوی راج کیsuccessor state ہے یا نہیں۔ اقوام متحدہ نے پاکستان کو successor state تسلیم کیا ، جس کا مطلب یہ تھا کہ ڈیورنڈ لائن پاکستان اور افغانستان کے درمیان بالکل اسی طرح انٹرنیشنل بارڈر ہے ، جس طرح کہ برطانوی راج میں تھا ۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں واضح طور پرکہا گیا ہے کہ all borders stand frozen as existed in 1945 یعنی 1945 ء میں ملکوں کے درمیان جو سرحدیں تھیں ، ان میں اب کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی ، بلکہ آرٹیکل 24 کے تحت اب کوئی ملک کسی دوسرے ملک کی حدود میں مداخلت نہیں کر سکتا۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ 1979 سے لے کر آج تک ، جو بھی افغان باشندہ اپنے ملکی حالات کی خرابی کے سبب پاکستان میں پناہ گزین ہوا ہے ، اس کو ہمیشہ ریفیوجی ہی کہا گیا ہے اور عالمی اداروں نے ان کے ریفیوجی ہونے کے بنا پر ہی ان کی مالی امداد کی ہے ۔ ڈیورنڈ لائن کو کراس کرکے پاکستان میں پناہ گزین ہونے والے افغان شہریوں کو 'ریفیوجی' قرار دینا اس امرکا ثبوت ہے کہ ڈیورنڈ لائن عالمی طور پر تسلیم شدہ انٹرنیشنل بارڈر ہے ۔ لہٰذا محمود خان اچکزئی کا یہ کہنا کہ ڈیورنڈ لائن عالمی طور پر متنازعہ بارڈر ہے ، درست نہیں ہے ۔


یہاں یہ تذکرہ بھی ضروری ہے کہ ڈیورنڈ لائن کے انٹرنیشنل بارڈر ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت میں مشہور زمانہ زیورخان کیس 1969ء میں تفصیلی بحث ہو چکی ہے ۔ تفصیل اس کی یوں ہے کہ زیورخان نامی افغان شہری افغانستان کو اسمگلنگ کے الزام میں پاکستانی کسٹم حکام نے گرفتار کر لیا ۔ زیورخان نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور یہ موقف اختیارکیا کہ چونکہ ڈیورنڈ لائن انٹرنینشل بارڈر نہیں ، لہٰذا قانونی طور پراس کو اسمگلنگ کا مرتکب قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ جسٹس حمود الرحمان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے ۔

جسٹس حمودالرحمن نے اس قانونی مسئلہ پر نہ صرف یہ کہ حکومت پاکستان سے دستاویزات طلب کیں ، بلکہ برطانوی حکومت اور ہاوس آف کامن سے بھی دستاویزات منگوائیں ۔ان تمام دستاویزات کا انتہائی باریک بینی سے مطالعہ کرنے اوران پر تفصیلی بحث کرنے کے بعد چیف جسٹس حمودالرحمان نے اپنے تفصیلی فیصلے میں لکھا کہ انٹرنینشل لا اور متعلقہ دستاویزات کے بموجب اس امر میں کسی شک وشبہ کی گنجایش نہیں کہ ریاست پاکستان ، برطانوی راج کیsuccessor state ہے اورڈیورنڈ لائن پاکستان اور افغانستان کے درمیان تسلیم شدہ انٹرنیشنل بارڈر ہے ۔سپریم کورٹ کے اس فیصلہ پر محمود خان اچکزئی کے ڈیورنڈ لائن پر متنازعہ بیان کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔

محمود خان اچکزئی کی پختون خوا ملی عوامی پارٹی ، نوازشریف حکومت کی سرگرم اتحادی ہے ۔ پچھلے تین سال میں جب بھی حکومت کسی بحران کا شکار ہوئی ہے ، محمود خان اچکزئی اس کی حمایت میں سینہ تان کر نکلے ہیں۔ بقول انکے، وہ آئین پاکستان کی بالادستی کے آرزومند ہیں ۔ یاد رہے کہ پارلیمنٹ کا ہر رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے پر آئین پاکستان سے وفاداری کا تحریری اور زبانی حلف اٹھاتا ہے اوراقرار کرتا ہے کہ وہ بہر صورت اس کا وفادار رہے گا ۔ آئین پاکستان کے تحت خیبر پختون خوا ، پاکستان کا صوبائی یونٹ ہے ، یعنی خیبرپختون خوا پر پاکستان کی براہ راست آئینی اور قانونی عملداری ہے ۔اس تناظر میں محمود خان اچکزئی کا یہ کہنا کہ خیبرپختون خوا ، افغانوں کا ہے ، اس حلف کی بھی خلاف ورزی ہے ، جو انھوں نے رکن قومی اسمبلی کے طور پراٹھایا ہوا ہے اور جس کی پاسداری کے لیے وہ نواز شریف حکومت کی حمایت میں کمر بستہ رہتے ہیں ۔

محمود خان اچکزئی کا یہ کہنا بھی قانونی طور پر درست نہیںکہ افغان پناہ گزینوں کو زبردستی واپس نہیں بھیجا جا سکتا ۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ اقوام متحدہ کا ریفیوجی کنونشن ، جہاں دنیا کے ہر ملک کے باشندے کو جانی خطرے کی صورت میں کسی دوسرے ملک میں پناہ گزین بننے کا حق دیتا ہے ، وہاں جانی خطرہ ختم ہونے کے شواہد ملنے پر ان پناہ گزینوں کو واپس ان کے ملک میں بھیجنے کا حق بھی تسلیم کرتا ہے ۔ لہٰذا ، اگر پاکستان اپنی سرحد پر باڑ لگاتا ہے ، یا آہنی گیٹ تعمیر کرتا ہے ۔

یا افغان پناہ گزینوں کو واپس افغانستان بھیجنے کی کوشش کرتا ہے، یاافغان شہریوں کی پاکستان میں آمدورفت کے لیے پاسپورٹ کو لازمی قرار دیتا ہے ، تو اقوام متحدہ کے کسی کنونشن کے تحت اس پر قدغن عائد نہیں کی جا سکتی ہے ۔یہ قانونی گنجایش البتہ پیدا کی جا سکتی ہے کہ ڈیورنڈ لائن کے آر پار خاندانوں کو easement right کے تحت دونوں طرف مقررہ حدود کے اندر آمدورفت کے لیے مخصوص کارڈز جاری کردیے جائیں ۔ اس طرح جو افغان شہری پاکستانی شہریت کے خواہاں ہیں، ان کے بارے میں بھی عالمی قوانین کی روشنی میں کیس ٹوکیس فیصلہ کیا جا سکتا ہے ، لیکن یہ کہناکہ خیبر پختون خوا افغانوں کا ہے ،یا ڈیورنڈ لائن متنازعہ بارڈر ہے ، نہ صرف یہ کہ عالمی قوانین سے بے خبری کا ثبوت ہے ، بلکہ سیاسی ناپختگی بھی ہے ۔ شاعر نے کہا تھا ،

غلطی ہائے مضامین مت پوچھ

لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں
Load Next Story