اٹوٹ انگ کا پول کھل گیا
کشمیر اس کے حکمرانوں کے اعصاب پر بری طرح سوار ہے۔
بھارت گزشتہ 68 برسوں سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو کچلنے کی جان توڑ کوشش کر رہا ہے مگر وہ اپنی اس خواہش کی تکمیل میں مکمل ناکام رہا ہے۔ اس لیے کہ کشمیری سات لاکھ بھارتی فوجوں کے وحشیانہ ظلم و ستم کے باوجود بھی اپنی آزادی کی مانگ پر اڑے ہوئے ہیں۔ بھارت بدقسمتی سے کشمیرکے بین الاقوامی مسئلے کو اپنی ہوس ملک گیری کی تسکین کے لیے اپنا گھریلو مسئلہ بنا کر بے شمار مسائل میں پھنس گیا ہے۔ اس وقت بھارت کی بے چارگی کا یہ حال ہے کہ اس کی تمام داخلی اور خارجہ پالیسیاں کشمیر کے گرد گھوم رہی ہیں۔
کشمیر اس کے حکمرانوں کے اعصاب پر بری طرح سوار ہے۔ بھارتی حکومتوں کی غلط کشمیر پالیسی کی وجہ سے خود بھارتی عوام اب سخت بیزار ہو چکے ہیں کیونکہ یہی مسئلہ ان کی غربت کا اصل سبب بھی ہے۔ اب بھارتی عوام کے ساتھ ساتھ بھارتی میڈیا بھی بھارت کے کشمیر پر جابرانہ قبضے اور ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ کشمیر میں آزادی کے متوالوں پر اس وقت جاری بھارتی بربریت کی بھارتی میڈیا نے کھل کر کوریج کی ہے جس پر نریندر مودی نے سخت ناگواری کا اظہار کیا ہے۔ ذیل میں ایک ہندو صحافی کے کشمیر سے متعلق آرٹیکل کو پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ مضمون بی بی سی ہندی ویب سائٹ پر شایع ہوا ہے، اس کے لکھاری مسٹر شوم وپج ہیں۔ مضمون نگار نے اس مضمون کے ذریعے اپنی حکومت کی غلط کشمیر پالیسی پر کھل کر تنقید کی ہے۔
''کشمیر کی موجودہ خطرناک صورتحال جس میں اب تک چالیس ہزار کشمیریوں کو مارا (شہید کیا) جا چکا ہے سے ایسا لگتا ہے جیسے کہ پورا کشمیر بھارت کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اب یہ ایک مستقل معاملہ بن گیا ہے کہ کشمیر میں حالات ہر تین چار سال بعد خراب ہو کر قابو سے باہر ہو جاتے ہیں اس سے کشمیر کے بھارت کے ساتھ رہنے پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ مانا کہ نریندر مودی مشکل حالات کو قابو میں کرنے میں مہارت رکھتے ہیں مگر یہاں کشمیر میں نہ صرف وہ بلکہ ان سے پہلی سرکاریں بھی ناکام رہی ہیں وہ تمام سرکاریں کانگریس سے لے کر بی جے پی تک طاقت کے استعمال کے ذریعے کشمیریوں کو کچلنے کی پالیسی پر چلتی رہی ہیں۔ مودی جی بھی اس وقت طاقت کا ہی سہارا لے رہے ہیں کیونکہ کشمیر میں ان کا کرشماتی جادو چلنے والا نہیں ہے۔
کشمیر میں 1990ء سے 2001ء اور 2008ء پھر 2010ء اور افضل گورو کو پھانسی دیے جانے کے وقت 2013ء میں دہلی سرکاروں نے اپنی سات لاکھ فوج اور ٹاڈا جیسے غیر انسانی قانون کا سہارا لیا ہے۔ وقتی طور پر کشمیریوں کو طاقت کے ذریعے کچل کر بگڑے ہوئے حالات پر ضرور قابو پایا گیا مگر آنے والی نسل کو ضرور اپنا دشمن بنا لیا گیا۔ 2010ء کے ہنگاموں میں 112 کشمیری مارے گئے جن میں سارے فوج پر پتھر پھینکنے والے لڑکے تھے جن کی عمریں بیس سال سے کم ہی تھیں۔ میں نے جب ایک کشمیری لڑکے سے پوچھا کہ وہ کیوں ایسا کرتے ہیں؟ تو اس نے جواب دیا تھا کہ ہم مرنے سے نہیں ڈرتے ہمارے بزرگ بھی آزادی پر اپنی جانیں قربان کرتے آئے ہیں ہم بھی آزادی پر قربان ہو جائیں گے۔
جب پوچھا کہ تمہیں کشمیر کی تاریخ کون بتاتا ہے بھارت میں کتابوں اور انٹرنیٹ پر اس موضوع پر کچھ دستیاب نہیں ہے؟ تو اس نے کہا کہ ہمیں پیدا ہوتے ہی ہمارے ماں باپ کشمیر کی تاریخ سے آشنا اور بھارتی ظلم و ستم سے آگاہ کر دیتے ہیں۔ ہمارے والدین اور دادا، نانا ہمیں انٹرنیٹ اور کتابوں سے زیادہ معلومات فراہم کر دیتے ہیں، ہم کشمیر کی تاریخ جاننے کے لیے کسی کتاب یا انٹرنیٹ کے محتاج نہیں ہیں۔ ہماری آزادی کے خلاف بھارتی تشدد سے نئی نسل مزید آزادی پسند ہوتی گئی۔ اب وہ بھارت کو اپنی سرزمین پر ایک منٹ بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
برہان وانی ایک کمسن حریت پسند تھا۔ 2010ء میں جب اس نے بھارت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اس کی عمر صرف 16 سال تھی۔ اس کی بہادری کے ہر طرف چرچے تھے اس نے اپنے اسلحے کے ساتھ فوٹو فیس بک پر پوسٹ کیے تھے جس سے کشمیریوں کے علاوہ عام نوجوان بھی اس سے متاثر ہوئے تھے بلکہ اسے اپنا ہیرو ماننے لگے تھے اور اس لیے اس کی شہادت کے بعد اس کے جنازے میں ہر کشمیری شریک ہونا چاہتا تھا۔ شوم وپج لکھتے ہیں آج کشمیر میں 14 سال کے بچے بھی کرفیو کی پرواہ نہیں کرتے وہ دراصل اپنے بڑوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔
کشمیر کے مسئلے پر میری بھارت کے وفاقی ریسرچ اینڈ اینالیس ونگ کے سابق سربراہ اے ایس دُلت سے بات ہوئی انھوں نے کشمیر کے مسئلے کے سیاسی حل پر زور دیا کیونکہ ان کے نزدیک کشمیر کا پائیدار حل گفتگو میں ہی مضمر ہے نہ کہ طاقت کے استعمال میں لیکن دہلی میں چاہے مودی سرکار ہو یا منموہن سرکار وہ کشمیر کا حل طاقت کے ذریعے نکالنا چاہتی ہیں جو کہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ماضی میں دہلی کی سرکاروں نے کشمیریوں سے بات کرنے کے ڈرامے بھی رچائے ہیں مگر کشمیری بھارت کی اب کسی چال میں پھنسنے والے نہیں ہیں۔
بھارت زور زبردستی سے انھیں اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے مگر وہ خود اپنے لیے گڑھا کھود رہا ہے۔ جب آسام کے باغیوں کے مسئلے پر بھارتی حکومت سنجیدگی دکھا سکتی ہے، نکسل باڑیوں کو ہتھیار پھینکنے کی شرط پر ان کے مطالبات ماننے کو تیار ہو سکتی ہے تو پھر وہ کشمیریوں کی مانگوں کو پورا کرنے کے لیے کیوں قدم اٹھانا نہیں چاہتی جب کہ کشمیری ایک عرصہ قبل اپنے ہتھیار پھینک چکے ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ بھارت سرکار کشمیریوں سے سنجیدہ بات چیت شروع کرے اور اگر بھارت سرکار کشمیریوں سے بات کرنے میں الجھن محسوس کرتی ہے تو پھر اسے اس مسئلے پر پاکستان سے مذاکرات کرنے میں کیا حرج ہے لیکن جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے تو آگ ٹھنڈا کرنے کے بجائے بھارت سرکار پاکستان سے اس کے آزاد کشمیر کو ہتھیانے کے منصوبے بنانے لگتی ہے۔
جب بھارت اپنے حصے کے کشمیر کو نہیں سنبھال سکتا تو پھر وہ پاکستانی کشمیر کو کیوں ہتھیانے کی بات کرتا ہے؟ اگر کوئی کشمیری آزادی کا نعرہ لگاتا گھر سے نکلے اور اسے مار دیا جائے جیسا کہ برہان وانی کے ساتھ ہوا تو وہاں کے لوگ اس نوجوان کو اپنا ہیرو کہنے کا پورا حق رکھتے ہیں۔ کیونکہ وہ سب آزادی چاہتے ہیں اور مرنے والے کو بھارتی فوجیوں نے محض آزادی کا نعرہ لگانے کی پاداش میں ہی ہلاک کیا تھا پھر اس کے جنازے میں شرکت کرنے والوں کو گولیوں سے سزا دی جائے تو پھر بات بڑھے گی اور کشمیری 90ء کی دہائی کی طرح سڑکوں پر آ کر سرکار کو چیلنج کریں گے۔
اس وقت دلی سرکار کشمیر کے خونی ہنگاموں سے سہم گئی ہے اسے کچھ سجھائی نہیں دے رہا کہ وہ کیا کرے لیکن گولیوں کی بوچھاڑ سے تو مزید آگ بھڑکے گی اور پھر کشمیریوں کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکار فوراً حریت کانفرنس اور دوسرے لوگوں سے بات شروع کرے۔ پاکستان سے بھی بات کی جائے اس سے یہ ہو گا کہ کشمیریوں کو سرکار کی سنجیدگی کا پیغام ملے گا۔
لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ فوج کو دیے گئے خصوصی اختیارات فوراً واپس لیے جائیں۔ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے مودی کے کچھ صلاح کار ضرور امن کی بجائے جنگ کی صلاح دیں گے پھر قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال امن کے دشمن ثابت ہو چکے ہیں۔ پہلے تو بھارت سرکار کشمیر کے ہنگاموں کی ذمے داری پاکستان پر ڈال کر عالمی برادری کی ہمدردی حاصل کر لیتی تھی مگر موجودہ طوفان کے ذمے دار تو خودکشمیری ہیں جس نے کشمیر کے بھارت کے اٹوٹ انگ کی رٹ کی پول کھول دی ہے اب بھارت کے لیے اس مسئلے سے چشم پوشی کرنا خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہو گا۔''