درد کی صدی سے مکالمہ
زمان و مکان کے احساس سے مستثنیٰ ہمارے درد مشترکہ ہیں۔ ہمارے احساس کو صدیوں کی دھول بھی گرد آلود نہیں کر سکتی۔
زمان و مکان کے احساس سے مستثنیٰ ہمارے درد مشترکہ ہیں۔ ہمارے احساس کو صدیوں کی دھول بھی گرد آلود نہیں کر سکتی۔
ایک آنکھ سے دوسری آنکھ تک، ایک دل سے دوسرے دل تک درد کا روپ اوڑھ کر احساس کا یہ سفر ازل سے ابھی تک جاری ہے۔
اور ہم موت و مایوسی سے لڑتے ہوئے زندگی کے خواب دیکھتے رہیںگے۔ جس میں باطل پر حاوی فتح، امیدکی ندی کے شفاف پانیوں میں چاند کی کرنوں کی مانند جھلملاتی رہے گی۔
ایسی زندگی میں دل کا درد، سرد جذبے، موت کی تمنا بھی لازوال احساس کو فنا نہیں کرسکتے۔ غم کی بھٹی میں سلگ کر یہ خیال امرت بن جاتا ہے اور پھر یہ جذبے وقت کا ہاتھ چھڑاکر زندگی کو دلکش عنوان،کوئی خوبصورت معنی عطا کرتے ہوئے وقت کی لے پر دھڑکتے رہتے ہیں۔
کیونکہ طبعی موت سے روحانی موت کا دورکا بھی واسطہ نہیں ہے جس نیند میں شعور بیدار ہو وہ کھلی ہوئی انجان اور بے تاثر آنکھوں سے بہتر ہے۔
وہ ذہن یا دل جس نے ادراک کی سرحدیں عبور نہ کی ہوں۔ وقت کے تالاب میں ٹھہرے پانیوں کی طرح ہے جس میں شعورکے کنول نہیں کھلتے اور نہ ہی فاصلے، جدائی کی راہوں میں مسکراتے ہوئے ملتے ہیں جب کہ فاصلے نظرکا دھوکا ہیں اور روح کے رشتے،کائنات اورجذبوں کی صداقت تک سدا وصل کی ڈور سے بندھے ہیں۔ پرانجان رہنا اہل زمین کا المیہ ہے۔ جو انجان بنے رہتے ہیں، جبر کی رات میں سسکتے لمحوں سے، بے صدا آہوں سے جو انسانیت کے نوحے پر نوحہ کناں ہیں۔
ہم با خبر رہتے ہیں اس جھوٹ سے جو چہروں سے شناخت چھین لیتا ہے۔
جو دیمک کی طرح وجودکی دیواریں چاٹ لیتا ہے، اس نفرت سے جو امید کے آسماں سے خوشیوں کی ردا نوچ لیتی ہے۔
اے راز ازل کچھ تو بتا! روح کے شفاف
آئینوں پر مصلحتوں کے پہرے کیوں ہیں
محبتیں کیوں روایتوں کے سلو پوائزن کے
بھینٹ چڑھا دی جاتی ہے
اور خواب کیوں تعبیرکی تتلیوں کے تعاقب میں ناممکن کے کانٹوں سے الجھ کر زخمی ہوتے رہتے ہیں۔دوستی کی آڑ میں فریب کے سلسلے جاری رہتے ہیں کب تک انسانیت کو رنگ، نسل یا مذہب کی آگ میں جلایا جائے گا۔
اور آخرکب امن وآزادی کے جھنڈے بے شناخت بھڑکتی قوموں کے ایوان میں لہرائیںگے؟ کب زمین سے جلاوطنی کی رسم ختم ہو گی؟
سوچیں ڈستی رہتی ہیں صبح سے شام تک
سورج ڈوبنے لگا ہے افق کے اس پار
اور میں سوچ رہی ہوں کہ من کی روشنی سے بے خبر ہم خارجی دنیا میں تلاش کے سفر پر نکل جاتے ہیںاور یہ نہیں سمجھ پاتے کہ منزل پر جاتے وقت ہر راستہ من کی سچائی سے جھوٹ کہتا ہے، پھر بھی جستجو لاحاصل رہتی ہے۔
ہر ادھوری کہانی تکمیل کا اشارہ بھی ہوسکتی ہے یہ رمز نہ سمجھنے والے منزل پر پہنچ کر بے نام مسافتوں کے دکھ میں گھرے رہتے ہیں۔
شام تھکی ہوئی جوگن کی مانند اندھیرے کی بانہوں میں چھپ جاتی ہیں۔ ہونے اور نہ ہونے میں کیا فرق باقی رہا ہے کیا محض سانس لینے کا نام ہے زندگی؟
کیا محض طبعی زندگی وجود کے ہونے کی گواہی دیتی ہے، کیا زندگی کی حقیقت وہی ہے جو دکھائی دیتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ شہرکی گہما گہمی میں احساس سوچکا ہے، انسانیت سوزمناظر کا عادی ہوکر احساس، جو شعورکی ارتقا سے وجود کی حقیقت کی تلاش میں بھڑک رہا ہے۔ اپنائیت کے مرکز سے دور بے روح جسم نامعلوم سمت کی طرف محو سفر ہیں اور اس دورکی بے حسی میں زندگی محض گمان بن کے رہ گئی ہے حتیٰ کہ ہنسنا، بولنا، جاگنا، سونا بھی قیاس آرائی بن چکا ہے۔ واہمے، ذات کی نفی سے ترتیب پاتے ہیں، ہر طرف نفی کا لین دین عروج پر ہے، خواہشوں کے جنگل میں فقط اشتہا کا شور ہے، جذبے فٹ پاتھ پر بے قیمت چیزوں کی طرح دھرے ہیں۔
شیلف سے باہر پھینکی ہوئی کتابوں کی طرح اور ہم یہ امر سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہر شے مدار میں اچھی لگتی ہے، اپنے وجود کے خالص پن کے ساتھ موتی، سیپ کے بغیر اورآسمان بادلوں کے بنا ادھورے ہیں۔
ہم انسانیت سے خالی احساس کے بغیر کھڑکیوں کے بغیر بند مکان کی طرح بنتے جارہے ہیں مگر سوچ کی لا محدود وسعتوں سے کسی ایک نکتے پر مرکوز ہونے تک اس ایک پل میں وقت کے چہرے سے رازداری کا نقاب ہٹنے لگا ہے۔ وجود کے ہونے کا احساس کائنات کی نبض کے ساتھ دھڑک رہا ہے، نفی، اصلیت سے شناخت نہیں چھین سکتے۔ وقت ریت کے ذروں کی طرح اختیار کے دائرے سے کھسک رہا ہے۔
گہری نیند،رتجگوں کے تعاقب میں مستقل دوڑ رہی ہے، نیند اگر اپنے مہربان ہاتھ آنکھوں پر رکھ بھی دے گی تو کیا، آنکھیں تھک کے سو بھی گئیں مگر درد پھر بھی جاگتا رہے گا۔