آزادکشمیرکے عام انتخابات 2016ء فتح کا تاج کس کے سرسجے گا
برسراقتدار آنے والی جماعت کے لیے ریاست کے عوام کی محرومیوں کا ازالہ بڑا چیلنج ہوگا
آزادکشمیر میں منتخب حکومت کئی طرح کے اندیشوں اور خدشوں کا شکار رہنے کے باوجود اپنی آئینی مدت پوری کرچکی ہے اور آج پورے آزادکشمیر میں قانون ساز اسمبلی کی 41 جبکہ مہاجرین کشمیر مقیم پاکستان کے لیے مخصوص12 نشستوں پر انتخابات ہو رہے ہیں۔یہ آزادکشمیر کی پارلیمانی تاریخ کے 10 ویں عام انتخابات ہیں ۔
آزادکشمیر کی روایتی سیاست کی تاریخ کا طائرانہ جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اس خطے میں خواندگی کی شرح پاکستان کے تمام صوبوں کی نسبت کہیں زیادہ ہونے کے باوجود انتخابات میں سیاست دان برادری اور علاقائی تعصبات کو اپنی انتخابی مہم کے ایک مؤثر کارڈ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی مدنظر رہنی چاہئے کہ عام طور پر وفاق(اسلام آباد) میں جوبھی سیاسی جماعت برسراقتدار ہوتی ہے ،آزادکشمیر میں اسی جماعت کاسیاسی ونگ انتخابی معرکے کا فاتح تصور کیا جاتا ہے ۔ یہ عمومی تأثر اس لیے قائم ہوا کہ سوائے چند ایک کے آزادکشمیر کے جملہ انتظامی اختیارات وفاق (جس میں وزارت امور کشمیر اور آزادکشمیر کونسل شامل ہیں) کے پاس ہیں ۔
ترقیاتی اور غیر ترقیاتی فنڈر کا اجراء بھی وفاق کے ان مذکورہ اداروں سے ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ریاست کا عام ووٹر ہوا کا رُخ دیکھ کر اپنا فیصلہ کرتا ہے۔ حالیہ انتخابات ایک ایسے وقت میں منعقد کیے جارہے ہیں ،جب خونی لکیر کے اُس پار بھارتی مقبوضہ وادی میں ریاستی تشدد کی شدید لہر جاری ہے۔اس صورت حال میں اِ س پار ہونے والے انتخابات کی شفافیت کی اہمیت بڑھ جانے کی ایک وجہ اس کے مقبوضہ حصے میںمثبت پیغام پہنچانا بھی ہے ۔
آزادکشمیر میں آج ہونے والے عام انتخابات میں مجموعی طور پر41نشستوں پر براہ راست انتخاب کے لیے 26سیاسی جماعتیں میدان میں ہیں تاہم ریاست کے عوام مسلم لیگ نواز،پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی اور قدیم ریاستی سیاسی جماعت مسلم کانفرنس کو ہی نمایاں حریف پارٹیوں کے طور پر دیکھ رہے ہیں ۔اس الیکشن میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے مختلف انتخابی حلقوں کی مخصوص صورت کے پیش نظر دیگر جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور اتحاد کیے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کا اتحاد جماعت اسلامی آزادکشمیر اور جموں کشمیر پیپلز پارٹی سے ہوا ہے ،مسلم کانفرنس نے کئی حلقوں میں تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کیا ہے جبکہ حال ہی میں اپنے اقتدار کی آئینی مدت پوری کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی اس دنگل میں چند حلقوں کے علاوہ تنہا کھڑی ہے ۔مذکورہ تمام سیاسی جماعتوں میں مسلم کانفرنس واحد سیاسی جماعت ہے جس کے تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کو کافی تنقید کا سامنا ہے کیونکہ مسلم کانفرنس ماضی میں اپنے ریاستی تشخص کی پر زور وکالت کے ساتھ ساتھ دیگر جماعتوں کو غیر ریاستی قرار دیتی رہی ہے ۔مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عتیق احمدخان کے غیر ریاستی جماعتوں کے ونگز کے خلاف درجنوں بیانات قومی و ریاستی اخبارات کی زینت بھی بنتے رہے ہیں۔ بہت سے لوگ اس تضاد کو بنیاد بنا کر اس سیاسی جماعت پر تنقید کررہے ہیں ۔ یہی حال جماعت اسلامی آزادکشمیر کا ہے ۔
پاکستان میں جماعت اسلامی پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت کے خلاف بھرپور انداز میں 'کرپشن فری مہم' چلا رہی ہے لیکن آزاد کشمیر میں اسی جماعت کی شاخ مسلم لیگ نواز کی سرگرم حلیف کے طور پر سرگرم ہے ۔خلاصہ یہ کہ آزادکشمیر کے حالیہ انتخابات میں ہر بڑی سیاسی جماعت نے اپنی سیاسی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لئے کئی نوع کے سیاسی اتحاد سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر رکھی ہیں۔
سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور کی بات کریں توکاغذی سطح پر زمین وآسمان کے قلابے ملائے گئے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کے وفاقی وزراء نے الیکشن مہم کے دوران عوام کے ساتھ جو وعدے کیے ہیں زمینی حقائق کے مطابق ان کا اگلی حکومت کی آئینی مدت میںپورا ہونا محض ایک خواب ہی لگتا ہے جبکہ تحریک انصاف ''کشمیر کے فیصلے کشمیر میں'' کے عنوان سے انتخابی اکھاڑے میں اتری ہے لیکن متنازع ایکٹ 1974ء اور کشمیر کونسل کی موجودگی میں مستقبل قریب میں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ مسلم کانفرنس انتخابی اتحاد کی بیساکھی سے کسی نہ کسی صورت میں اپنی ایوان میں موجودگی کو یقینی بنانا چاہتی ہے جبکہ جماعت اسلامی نے ایک مخصوص نشست پر نگاہ مرکوز رکھی ہوئی ہے۔
اس ساری صور ت حال سے یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیںکہ آزادکشمیرمیں اس وقت نظریے کی سیاست بہت پسندیدہ اور نتیجہ خیز تصور نہیں کی جارہی بلکہ سیاست دان روایتی برادری وعلاقائی دائروں ہی میں متحرک نظر آ رہے ہیں۔اس پس منظر کے بعد اختصار کے ساتھ مختلف اہم سیاسی جماعتوں کی اب تک کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں۔اس جائزے میں ہمارے پیش نظر وہ نشستیں ہیں جن پر اب تک کی صورت حال کے مطابق مختلف امیدواروں کی کامیابی کی امکانات نسبتاً زیادہ ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (نواز)
آزادکشمیر کے ان انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے مجموعی طور پر 38امیدوار اس وقت میدان میں ہیں۔ اس جماعت کو وفاق میں اپنی حکومت ہونے کی بنا پر نفسیاتی برتری تو حاصل ہی ہے مگر انتخابات کے ممکنہ نتائج کے اعتبار سے بھی اس جماعت کے رہنما کافی پرامید دکھائی دے رہے ہیں۔مسلم لیگ نواز کا دعویٰ ہے کہ وہ کم از کم 22سے 24نشستوں پر آسانی سے جیت جائے گی مگر اب تک کی صورت حال کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ نواز مجموعی طور پر 10 سے 12 نشستوں پر مستحکم ہے جبکہ 18 سے 20دیگر نشستوں پر اسے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔
مستحکم نشستوں میں حلقہ ایل اے4 میرپور4(کھڑی شریف)سے تحریک انصاف کے چوہدری ارشد حسین کے مدمقابل مسلم لیگ نواز کے چوہدری رخسار،ایل اے 7بھمبر3 (بھمبر شہر)سے آزادامیدوار چوہدری انوار الحق کے مدمقابل چوہدری طارق فاروق،سخت مقابلہ ،ایل اے 10 کوٹلی 3(سہنسہ)سے پیپلز پارٹی کے چوہدری محمد اقبال کے مدمقابل مسلم لیگ نواز کے راجہ محمد نصیر،ایل اے15 باغ3سے پی پی پی کے ضیاء القمر کے مد مقابل مسلم لیگ نواز کے میر علی اکبر،ایل اے 16 (حویلی) میں پیپلز پارٹی کے طارق سعید کے مدمقابل مسلم لیگ نواز کے چوہدری عزیز،ایل اے 18 پونچھ 2کے پی پی کے امیدوار سردار غلام صادق کے مدمقابل مسلم لیگ نواز کے سردار خان بہادر(خیال رہے کہ پیپلز پارٹی کے غلام صادق کو تین دن قبل دو عہدوں سے کئی ماہ تک مسلسل تنخواہ وصول کتنے کے جرم نے آزادکشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے نااہل قرار دیا تھا لیکن الیکشن سے ایک دن قبل سپریم کورٹ آف آزادکشمیر کے جسٹس اعظم خان اور جسٹس سعید اکرم پر مشتمل بینچ نے غلام صادق کو ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو معطل کر کے انتخابات کے لیے اہل قرار دے دیا تھا ۔
تاہم اب ان کی پوزیشن پہلے والی نہیں ہے)، ایل اے22سدھنوتی سے پی پی کے فہیم اختر ربانی کے مقابلے میں مسلم لیگ نواز کے طاہر فاروق ، ایل اے 27مظفرآباد 4 (کھاوڑہ)سے پیپلز پارٹی کے چوہدری لطیف اکبر کے مقابلے میں مسلم لیگ نواز کے راجہ عبدالقیوم خان،ایل اے 24مظفرآباد 1(کوٹلہ) سے پی پی کے جاوید ایوب کے مقابل مسلم لیگ نواز کی نورین عارف ، ایل اے 28مظفرآباد 5 (چکار)سے پی پی کے اشفاق ظفر کے مقابلے میں مسلم لیگ نواز کے صدر راجہ فاروق حید ر اور ایل اے 23نیلم 1میں پی پی پی کے میاں عبدالوحید کے مقابلے میں مسلم لیگ نواز کے شاہ غلام قادر کی پوزیشن مضبوط دکھائی دیتی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف
پاکستان تحریک انصاف مسلم کانفرنس سے اتحاد کے بعد کافی پر اعتماد دکھائی دیتی ہے ۔ اب تک کی صورت حال میںیہ جماعت کم از کم چار نشستوں پر کافی مضبوط پوزیشن میں ہے۔ تحریک انصاف کی ایل اے 3 میرپور 3 (میرپور شہر)میں مسلم لیگ نوازکے مدمقابل پی ٹی آئی کے سربراہ بیرسٹر سلطان محمود کی نشست کے علاوہ ایل اے12 کوٹلی5(کھوئی رٹہ) میں مسلم لیگ نواز کے راجہ نثار احمد کے مدمقابل پی ٹی آئی کے نئیر رفیق، ایل اے14 باغ 2 میں مسلم لیگ کے مشتاق منہاس اور پی پی کے قمر زمان کے مدمقابل پی ٹی آئی کے راجہ خورشید اور ایل اے 27مظفرآباد 3سے مسلم لیگ نون کے افتخار گیلانی کے مقابل پی ٹی آئی کے خواجہ فاروق مستحکم دکھائی دیتے ہیں تاہم دو دن قبل ہونے والی پیش رفت کے باعث اس سیٹ پر کسی بھی اپ سیٹ کی توقع کی جاسکتی ہے۔
آل جموں وکشمیرمسلم کانفرنس
اس جماعت نے کئی نشستوں پر تحریک انصاف کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور سیاسی اتحاد کیا ہے تاہم اس کی مستحکم نشستوں کی تعداد بھی 4 ہی ہے۔ مسلم کانفرنس کی ایل اے 8کوٹلی 1(کوٹلی شہر) سے مسلم لیگ کے امیدوار ملک یوسف کے مقابلے میں مسلم کانفرنس کے ملک نواز ،ایل اے 13باغ 1میں جماعت اسلامی کے میجر لطیف خلیق کے مقابلے میں مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عتیق احمدخان،ایل اے 17پونچھ 1میں مسلم لیگ نواز کے چوہدری یاسین گلشن کے مقابلے میں مسلم کانفرنس کے سردار قیوم نیازی جبکہ ایل اے 20پونچھ 4 میںجموں کشمیر پیپلز پارٹی کے سردار محمود اقبال کے مقابلے میں مسلم کانفرنس کے سردار صغیر احمد کی پوزیشن کافی بہتر دکھائی دے رہی ہے۔ ان نشستوں کے علاوہ مسلم کانفرنس کے اکثر امیدوار ووٹ بینک متاثر کرکے دیگر پارٹیوں کی جیت کی شرح کو متاثر کر سکتے ہیں لیکن ان کا جیتتا بظاہرمشکل دکھائی دے رہا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی
اس جماعت کو پانچ سال مسلسل اقتدار میں رہنے کی وجہ سے کارکردگی کے حوالے سے کافی تنقید کا سامنا ہے تاہم آزادکشمیر میں کم از کم 6 نشستیں ایسی ہیں جن پر پیپلز پارٹی کی صورت حال کافی بہتر ہے ۔ان کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ ایل اے 1 میرپور 1 میں مسلم لیگ نواز کے چوہدری مسعود خالد کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے افسر شاہد،ایل اے 2 میرپور2(چکسواری) سے مسلم لیگ کے امیدوار محمد نذیر کے مقابلے میںچوہدری عبدالمجید(جو حال ہی میںبطور وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری کر چکے ہیں۔
(،حلقہ ایل اے5بھمبر1 (برنالہ)میں مسلم کانفرنس کے شفیق جرال کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے امیدوار پرویز اشرف (اس سیٹ پر تازہ ترین اطلاعات کے مطابق صورت بدل بھی سکتی ہے)،ایل اے 9 کوٹلی2 (نکیال)میں مسلم لیگ نواز کے فاروق سکندر کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے جاوید اقبال بڈھانوی ،ایل اے 11 کوٹلی4 (چڑھوئی) میں مسلم لیگ نواز کے راجہ محمد اقبال خان کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے چوہدری یاسین (اس سیٹ پر بھی سخت مقابلے کی توقع ہے) ، ایل اے 29مظفرآباد6 (لیپہ ویلی)میں مسلم کانفرنس کے دیوان علی چغتائی کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے چوہدری رشید کی پوزیشن کافی مستحکم دکھائی دے رہی ہے۔ تاہم ضلع نیلم میں پیپلز پارٹی کو اپنا ووٹ بینک تقسیم ہو جانے کی وجہ سے مسلم لیگ نواز کے ساتھ سخت مقابلے کا سامنا ہے۔
جموں کشمیر پیپلز پارٹی
اس پارٹی کے سربراہ آزادکشمیر کے پہلے صدر سردار ابراہیم خان کے بیٹے سردارخالد ابراہیم خان ہیں۔ مسلم لیگ نواز کے وفاقی وزراء اور مقامی مسلم لیگی رہنماؤں کی مسلسل کوششوں سے جموں کشمیر پیپلز پارٹی کے صدر اور امیدوار سردار خالد ابراہیم کے ساتھ مسلم لیگ نواز کا انتخابی اتحاد ہوا ہے اور جیت کی صورت میں سردار خالد ابراہیم کو اہم ریاستی عہدہ دینے کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں ۔ اس پارٹی کے ایل اے19پونچھ 3 میں پیپلز پارٹی کے سردار یعقوب کی بیٹی اور سابق وزیر فرزانہ یعقوب،جماعت اسلامی کے اعجاز افضل کے مقابلے میں سردار خالد ابراہیم مستحکم نظر آرہے ہیں اور حلقے میں انہیں مسلم لیگ نواز کے ووٹروں کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔
جمعیت علمائے اسلام آزاد جموں وکشمیر
جمعیت علمائے اسلام بھی اس الیکشن میں ایک نشست پر مستحکم پوزیشن میں ہے ۔ ایل اے 21 سدھنوتی پونچھ 5میں مسلم لیگ نوازکے ڈاکٹر نجیب نقی کے مقابلے میں جمعیت علماء اسلام جموں وکشمیر کے مولاناسعید یوسف خان مسلم کانفرنس کی بھرپور حمایت کے باعث بظاہر برتر نظر آرہے ہیں۔ اس پارٹی کو راہ حق پارٹی کی حمایت بھی حاصل ہے۔
جماعت اسلامی آزادکشمیر
جماعت اسلامی آزادکشمیر نے اس الیکشن میں دلچسپ قسم کے سیاسی اتحاد کیے ہیں۔ خیبر پختون خوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حلیف جماعت کے آزادکشمیر کے ونگ نے مسلم لیگ نواز کے ساتھ اتحاد کیا ہے اور اس کے کارکن مسلم لیگ نواز کے امیدواروں کی بھرپور مہم چلا رہے ہیں۔ جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے امیر عبدالرشید ترابی کو مسلم لیگ آزادکشمیر کی قیادت کی جانب سے اسمبلی کی ایک مخصوص نشست ملنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔
آزادامیدوار
اس وقت اگر مستحکم صورت حال کی بات کی جائے تو پورے آزادکشمیر میں صرف ایک امیدوار ایل اے 6بھمبر2(سماہنی)سے آزاد امیدوار چوہدری علی شان سونی کافی مضبوط بتائے جارہے ہیں، وہاں علی شان سونی کے حریف مسلم لیگ نواز کے مقصود احمد خان ہیں جبکہ بھمبر سٹی سے ایک اور آزاد امید وار چوہدری انوارالحق کی پوزیشن کو بھی بہت سے لوگ بہتر قرار دے رہے ہیں۔
مہاجرین مقیم پاکستان
اس وقت پاکستان کے مختلف صوبوں میں موجود کشمیر ی پناہ گزینوں کے لیے مخصوص 12نشستوں میں سے اکثر پر حکمران جماعت مسلم لیگ نواز کی پوزیشن مستحکم ہے جبکہ چند ایک نشستوں پر دیگر پارٹیاں جیت سکتی ہیں۔ایل اے 30جموں 1 (بلوچستان۔پنجاب) کے حلقے میں ردوبدل سے صورت حال پہلے والی نہیں رہی ، اب وہاں ایم کیو ایم کی بجائے مسلم لیگ نواز کے ناصر ڈار اور پی ٹی آئی کے مقصود زمان ایک دوسرے کے سخت حریف ہیں۔ ایل اے 31جموں2 (گوجرانوالہ) سے مسلم لیگ نواز کے چوہدری اسماعیل،ایل اے 32جموں 3(سیالکوٹ) سے مسلم لیگ نواز کے محمد اسحاق ،پی ٹی آئی کے حامد رضا اور پی پی کے شوکت علی آمنے سامنے ہیں ۔ مقابلہ سخت ہے لیکن پی ٹی آئی کا امیدوار بظاہر مستحکم پوزیشن میں ہے۔ایل اے 33جموں 4(نارووال۔شکر گڑھ) سے مسلم لیگ نواز کے جاوید اختر کی پوزیشن ماضی کی طرح اچھی ہے۔
ایل اے 34جموں 5(گجرات) سے مسلم لیگ نواز کے راجہ صدیق ماضی کی طرح اب کی بار بھی مضبوط تصور کیے جا رہے ہیں۔ایل اے 36ویلی ون (کراچی۔ کوئٹہ) سے ایم کیو ایم کے عبدالرحمٰن کی کامیابی کی امیدکی جارہی ہے۔ ایل اے 37ویلی 2 (لاہور) سے پی ٹی آئی کے امیدوار غلام محی الدین دیوان مضبوط ترین شمار کیے جاتے ہیں۔ اس حلقے میں ان کی مضبوط پوزیشن کے باعث گزشتہ سالوں میں صوبائی حکومت وہاں انتخابات کرانے کے معاملے میں رُخنے ڈالتی رہی جس کے باعث یہاں انتخابات نہ ہو سکے ۔
ایل اے38ویلی3(سوہاوا۔ملتان) میں مسلم لیگ نواز کے سید شوکت شاہ کی پوزیشن کافی مضبوط ہے۔ ایل اے 39ویلی4 راولپنڈی میں پی پی کے اظہر گیلانی اور مسلم لیگ نواز کے سید اسد علی شاہ(نیلم سے مسلم لیگ نواز کے امیدوار شاہ غلام قادر کے صاحبزادے) کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے لیکن سید اسدعلی شاہ کی پوزیشن کافی مستحکم بتائی جاتی ہے۔ ایل اے40ویلی5 (راولپنڈی) میں مسلم کانفرنس اور پیپلز پارٹی کی مشترکہ امیدوار مہر النساء کے مقابلے میں مسلم لیگ نواز کے احمد رضا قادری کی پوزیشن مضبوط بتائی جا رہی ہے جبکہ ایل اے 41ویلی6 خیبر پختون خوا سے پی ٹی آئی کے ماجد خان مستحکم پوزیشن کے حامل ہیں۔ گویا مسلم لیگ نواز مہاجرین مقیم پاکستان کی مخصوص 12میں سے مجموعی طور پر 6سے 7 نشستیں حاصل کرتی دکھائی دے ہی ہے۔
قوم پرست سیاسی جماعتیں
اس الیکشن میں کشمیر کے منقسم حصوں کی وحدت کی علمبردار نیشنل عوامی پارٹی بھی ماضی کے برعکس انتخابی عمل میں شریک ہے۔ اس پارٹی کو دیگر قوم پرست حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا بھی ہے۔ خیال رہے کہ آزادکشمیر کے انتخابی عمل میں شریک ہونے کے لیے قانونی طور پر کسی بھی امیدوار کو لازماً الحاقِ پاکستان کی شق کو تسلیم کرتے ہوئے دستخط کرنا ہوتے ہیں۔ جموںوکشمیر لبریشن فرنٹ کے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی اسی شق سے متفق نہ ہونے کی وجہ سے مسترد کر دیے گئے ہیں جس کے ردعمل میں انہوں نے انتخابات کا مکمل طور پر بائیکاٹ کر دیا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ نامزدگی کے عمل کو مذکورہ شق متنازع بناتی ہے اس لیے اس کا خاتمہ کیا جانا چاہئے۔
مذکورہ بالا اعدادو شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ آزادکشمیر میں وفاق میں برسراقتدار پارٹی مسلم لیگ نوازکا سیاسی ونگ سب سے آگے ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف اور مسلم کانفرنس کا سیاسی اتحاد مجموعی طور پر دوسرے اور پیپلز پارٹی تیسرے نمبر پر ہے ۔جموںوکشمیر پیپلز پارٹی ، جمعیت علمائے اسلام کے ایک جبکہ آزاد امیدواروں میں سے بھی ایک کے کامیاب ہونے کے روشن امکانات ہیں۔ مذکورہ 41نشستوں کے علاوہ دیگر8 مخصوص نشستوں پر آزادکشمیر قانون اسمبلی کے 41منتخب ممبران کے درمیان انتخابات الیکٹورل کالج کے تحت ہوں گے۔ یہ مجموعی منظرنامہ اس وقت تک کی صورتحال کو مد نظر رکھ کر بنایا گیا ہے تاہم بعض حلقوں میں اپ سیٹ کا امکان بہرحال موجود ہے ۔
آزادکشمیر کی ماضی کی سیاست کا جائزہ لیں تو انتہائی مایوس کن صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس خطے میں تعلیم کی شرح انتہائی بلند ہونے کے باوجود عام انتخابات میں برادریوں اور علاقائی تعصبات کو ہوا دے کر ووٹ حاصل کرنا ایک مستقل حکمت عملی بن چکی ہے۔ اب کی بار بھی برادریوں کی بنیاد پر کچھ حلقوں میں شدید تصادم ہوئے ہیں۔
حویلی ایل اے 16 میں سابق وزیر چوہدری عزیز کو انتخابی مہم کے دوران مخالف برادری کے کارکنوں نے گولیاں مار کر شدید زخمی کر دیا تھا جبکہ ردعمل میں حویلی کا پورا بازار نذر آتش کر دیا گیا۔اس افسوس ناک واقعے کے کچھ دن بعد اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کے وزیر فیصل راٹھور کی گاڑی پر حملہ ہوا۔ اسی طرح حلقہ چار کھاوڑہ (مظفرآباد) میں بھی ایک شخص الیکشن کی بھینٹ چڑھا،دو دن قبل ایل اے 25حلقہ 2لچھراٹ )مظفرآباد( میں پیپلزپارٹی کے وزیر بازل علی نقوی کے ایک عزیز نے مخالف برادری کے نوجوان کو فائرنگ کر کے شدید زخمی کر دیا۔ بھمبر کے حلقوں میں بھی کافی کشیدگی پائی جاتی ہے۔ اس سارے خون خرابے اور فساد کی وجہ مختلف برادریوں کی بنیاد پر کی جانے والی مکروہ سیاست ہے۔
دوسری چیز جو اس الیکشن میں عمومی مشاہدے میں آئی ہے وہ سرکاری ملازمین کا الیکشن مہموں میں سرگرم شرکت کرنا ہے۔ بعض علاقوں میں تو سرکاری ملازمین کے سیاسی نمائندوں کے حق میں تصویروں کے ساتھ اشتہارات بھی شائع ہوئے ہیں جن پر کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی گئی۔سرکاری گاڑیوں کے انتخابی مہم میں استعمال کی شکایات بھی سننے کو ملتی رہی ہیں۔ وفاقی وزراء نے گزشتہ تین ماہ سے آزادکشمیر میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور وہ پورے خطے میں عام ووٹرز کو یہ باور کرانے میں مصروف رہے ہیں کہ آزادکشمیر کے عوام کی بہتری وفاق میں برسراقتدار سیاسی جماعت کے آزادکشمیر میںموجود ونگ کو ووٹ دینے ہی میں ہے۔
اسی مہم کے دوران وفاقی وزیر امور کشمیر برجیس طاہر نے ایک جلسے میں ریاست کے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کے بارے انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کرکے ریاستی سیاست میں ایک اور منفی رویے کی بنیاد ڈالی جس کے بعد ردعمل کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ دوسرے یہ کہ اس ساری انتخابی مہم میں اکثر وفاقی وزراء(خاص طور پر پرویز رشید، برجیس طاہر اور آصف کرمانی) ، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں(بلاول بھٹو زرداری اور عمران خان) نے وفاق کی جنگ آزادکشمیر میں لڑنے پر بھرپور توجہ دی لیکن بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے دِگر گوںحالات پر کوئی مؤثر بات نہیں کی۔ انہوں نے آزادکشمیر کے خطے کے حقیقی مسائل کا کوئی ٹھوس اور قابل عمل حل بھی پیش نہیں کیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں کشمیری حریت پسند برھان وانی کے جنازے میں لگ بھگ 4لاکھ افراد کی شرکت نے پوری وادی کو ایک بار پھر بیدار کر دیا لیکن برھان وانی کی شہادت پر بھارت کے خلاف مظفرآباد میں ہونے والے مظاہرے میں بمشکل 400 سو افراد شریک ہوسکے۔ اس حوالے سے کشمیری نوجوانوں کو پاکستانی ابلاغی اداروں پر بھی شدید تحفظات ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ مین سٹریم میڈیا کشمیر کے المیے کونظر انداز کر کے ان میں بددلی پیدا کر رہا ہے۔ دو دن قبل اسلام آباد میں کشمیر میں تشدد کی حالیہ لہر کے بعد ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں کشمیر کمیٹی کے چیئر مین مولانا فضل الرحمن بھی موجود تھے۔ اس کانفرنس میں ایک کشمیر ی نوجوان نے احتجاج کرتے ہوئے اپنا گریبان چاک کر دیا لیکن ٹی وی چینلز کے لیے یہ واقعہ اہم نہیں تھا۔آزادکشمیر کے نوجوان اس حوالے سے کئی طرح کے تحفظات کا شکار ہیں۔
اس وقت آزادکشمیر کے حقیقی مسائل میں متنازع ایکٹ 1974ء میں ترمیم، کشمیر کونسل سے اختیارات لے کر آزادکشمیر کی منتخب حکومت کو دینا ، نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے سلسلے میں وفاق سے معائدہ، منگلا ڈیم کی رائلٹی، خطے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی بیروزگاری کا سدباب ، ہزاروں کی تعداد میں صوابدیدی عہدوں کی بندر بانٹ،پاک چین اقتصادی راہداری اورگلگت بلتستان کے امور پر واضح اور دوٹوک موقف کافقدان، وفاقی حکومت کی جانب سے اسلام آباد سے مظفرآباد تک ریلوے ٹریک اور آزادکشمیر کو گیس کی فراہمی جیسے مسائل شامل ہیں ۔جو بھی سیاسی جماعت برسر اقتدار آئے گی اگر وہ مذکورہ بالا مسائل کے حل کی جانب توجہ دے گی تو اس خطے کی تقدیر بدل سکتی ہے ورنہ یہ انتخابات بھی ماضی کی طرح ایک بے کار کی مشق ثابت ہوں گے۔
پاکستان مسلم لیگ نوازآزادکشمیر کے صدر راجہ فاروق حیدر خان اس وقت وزارت عظمیٰ کے لیے سب سے مضبوط امیدوار تصور کیے جا رہے ہیں۔ انہیں ماضی میںاپنے مخصوص قوم پرست لہجے میں وفاق نواز سیاست کرنے کی وجہ سے آزادکشمیر کے نوجوانوں میںکافی مقبولیت حاصل رہی ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ آزادکشمیر میں مینڈٹ ملنے کے بعداس خطے کی معاشی خود انحصاری، تعمیر وترقی اور ایکٹ 1974ء میں ترامیم کے بارے میں اپنے دیرینہ موقف پر کس حد تک عمل درآمد کرتے ہیں ۔ یہ سب سے اہم سوال ہے جو آزادکشمیر کے باشعور رائے دہندگان کے ذہن میں ہے۔
آزادکشمیر انتخابات2016ء اعداد وشمار کے آئینے میں
آزادکشمیر کا کل رقبہ چار ہزار مربع میل ہے جو تین ڈویژنزمظفرآباد ،میرپوراور پونچھ ، 10 انتظامی اضلاع اور29 انتخابی حلقوں پر مشتمل ہے۔اس خطے کی کل آبادی چالیس لاکھ سے زائد ہے جبکہ قانون ساز اسمبلی میں پاکستان میں مقیم کشمیری پناہ گزینوں کی نمائندگی کیلئے 12 نشستیں مخصوص ہیں۔ آزادکشمیرکی قانون ساز اسمبلی کے 49 کے ایوان میں 8 نشتیں مخصوص ہیں جن پربراہ راست انتخاب کہ بجائے اسمبلی میں الیکٹورل کالج کی بنیاد پر انتخاب ہوتا ہے جبکہ 41 حلقوں میں براہ راست ہوتے ہیں ۔
2016ء کے عام انتخابات کیلئے تیار کی گئی ووٹر لسٹوں کے مطابق اس مرتبہ 26 لاکھ 74 ہزار5 سو 86 رائے دہندگان اپنے ووٹ کا حق استعمال کر رہے ہیں، جن میں 14 لاکھ 83 ہزار 7 سو 47 مرد اور 11 لاکھ 90 ہزار8 سو 39 خواتین ووٹرز شامل ہیں۔ضلعی اعتبار سے ووٹرز کی تقسیم کچھ اس طرح ہے ۔ ضلع میرپور میں قانون ساز اسمبلی کی چار نشستوں کیلئے ووٹروں کی تعداد 2 لاکھ 33 ہزار5 سو 18 ہے۔ضلع بھمبر میں تین نشستوں کیلئے ووٹروں کی تعداد 2 لاکھ 43 ہزار1 سو 65 ہے جبکہ ضلع کوٹلی میں پانچ نشستوں کیلئے 4 لاکھ 42 ہزار 8 سو 39 افراد کے ووٹ رجسٹرڈ ہیں۔
ضلع باغ میں تین نشستوں کیلئے 2 لاکھ 32 ہزار 5 سو 72لوگ اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے جبکہ ضلع حویلی میں ایک نشست کے لئے ووٹروں کی تعداد 80 ہزار 6 سو 37 ہے ۔ضلع پونچھ میں چار نشستوں کیلئے3 لاکھ 10 ہزار 9 سو 68 جبکہ ضلع سدہنوتی میں دو نشستوں کیلئے1 لاکھ 66 ہزار 1 سو 34 ہے۔اسی طرح ضلع نیلم میں ایک نشست کیلئے 96 ہزار 5 سو 84 جبکہ ضلع مظفرآباد اورہٹیاں بالا میں چھ نشستوں 4 لاکھ 29 ہزار 2 سو 76 ووٹرز ممبران قانون ساز اسمبلی کاانتخاب کریں گے۔
خیال رہے کہ ضلع ہٹیاں بالا حلقہ بندی کی سہولت کیلئے ضلع مظفرآباد کے ساتھ رکھاگیا ہے۔پاکستان میں مقیم کشمیری پناہ گزینوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس کے مطابق جموں و دیگر میں چھ نشستوں کیلئے ووٹروں کی تعداد4 لاکھ 10 ہزار 7 سو 79 ہے جبکہ کشمیر ویلی میں6نشستوں کیلئے 28 ہزار 1 سو 5 ووٹرز اپنا ووٹ پول کرسکیں گے۔
آزادکشمیر کے 10 اضلاع اور پاکستان میں مقیم کشمیریوں کی قانون ساز اسمبلی کی 41 نشستوں پر انتخابات کیلئے 5 ہزار 4 سو 27 پولنگ اسٹیشنز میں 8 ہزار 6 پولنگ بوتھ قائم کئے گئے ،جن میں سے 4 ہزار4 سو16 پولنگ اسٹیشنز اور6 ہزار 2 سو 69 پولنگ بوتھ آزادکشمیرمیں جبکہ 9 سو 66 پولنگ اسٹیشنز اور 1 ہزار 7 سو 37 پولنگ بوتھ پاکستان میں مقیم کشمیریوں کی 12 نشستوں کیلئے ہیں۔
مجموعی طور پر 26 سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کو ملاکر 423 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے جن میں 325 امیدوار آزادکشمیر اور 98 پاکستان میں مقیم کشمیریوں میں سے ہیں۔ نمایاں سیاسی جماعتوں میں پاکستان پیپلز پارٹی آزادکشمیرنے تمام نشستوں پر یعنی 41 امیدوار میدان میں اتارے ، پاکستان مسلم لیگ نواز نے 38، پاکستان تحریک انصاف نے 32، مسلم کانفرنس نے 23، سنی اتحاد کونسل نے 12 ، متحدہ قومی موومنٹ نے 6 ، جماعت اسلامی آزادکشمیر نے9، جمعیت علماء اسلام نے 8 ، جموں وکشمیر پیپلز پارٹی نے 6 امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔
یادرہے کہ اس مرتبہ قوم پرست تنظمیوں نے بھی اپنے امیدوار کھڑے کررکھے ہیں جو عموماً بائیکاٹ کئے رکھتی تھی۔ان کامطالبہ ہے کہ قانون میں موجود الحاق پاکستان کی شق حذف کی جائے۔یاد رہے کہ درجنوں امیدواران ایک دوسرے کے حق میں دستبردار ہو چکے اور تحریک انصاف اور مسلم کانفرنس کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ سمیت مسلم لیگ نواز ، جموں وکشمیر پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی سمیت دیگر مذہبی پارٹیوں کے درمیان بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بنیاد پر اتحاد موجود ہے۔
آزادکشمیر کی روایتی سیاست کی تاریخ کا طائرانہ جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اس خطے میں خواندگی کی شرح پاکستان کے تمام صوبوں کی نسبت کہیں زیادہ ہونے کے باوجود انتخابات میں سیاست دان برادری اور علاقائی تعصبات کو اپنی انتخابی مہم کے ایک مؤثر کارڈ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی مدنظر رہنی چاہئے کہ عام طور پر وفاق(اسلام آباد) میں جوبھی سیاسی جماعت برسراقتدار ہوتی ہے ،آزادکشمیر میں اسی جماعت کاسیاسی ونگ انتخابی معرکے کا فاتح تصور کیا جاتا ہے ۔ یہ عمومی تأثر اس لیے قائم ہوا کہ سوائے چند ایک کے آزادکشمیر کے جملہ انتظامی اختیارات وفاق (جس میں وزارت امور کشمیر اور آزادکشمیر کونسل شامل ہیں) کے پاس ہیں ۔
ترقیاتی اور غیر ترقیاتی فنڈر کا اجراء بھی وفاق کے ان مذکورہ اداروں سے ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ریاست کا عام ووٹر ہوا کا رُخ دیکھ کر اپنا فیصلہ کرتا ہے۔ حالیہ انتخابات ایک ایسے وقت میں منعقد کیے جارہے ہیں ،جب خونی لکیر کے اُس پار بھارتی مقبوضہ وادی میں ریاستی تشدد کی شدید لہر جاری ہے۔اس صورت حال میں اِ س پار ہونے والے انتخابات کی شفافیت کی اہمیت بڑھ جانے کی ایک وجہ اس کے مقبوضہ حصے میںمثبت پیغام پہنچانا بھی ہے ۔
آزادکشمیر میں آج ہونے والے عام انتخابات میں مجموعی طور پر41نشستوں پر براہ راست انتخاب کے لیے 26سیاسی جماعتیں میدان میں ہیں تاہم ریاست کے عوام مسلم لیگ نواز،پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی اور قدیم ریاستی سیاسی جماعت مسلم کانفرنس کو ہی نمایاں حریف پارٹیوں کے طور پر دیکھ رہے ہیں ۔اس الیکشن میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے مختلف انتخابی حلقوں کی مخصوص صورت کے پیش نظر دیگر جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور اتحاد کیے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کا اتحاد جماعت اسلامی آزادکشمیر اور جموں کشمیر پیپلز پارٹی سے ہوا ہے ،مسلم کانفرنس نے کئی حلقوں میں تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کیا ہے جبکہ حال ہی میں اپنے اقتدار کی آئینی مدت پوری کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی اس دنگل میں چند حلقوں کے علاوہ تنہا کھڑی ہے ۔مذکورہ تمام سیاسی جماعتوں میں مسلم کانفرنس واحد سیاسی جماعت ہے جس کے تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کو کافی تنقید کا سامنا ہے کیونکہ مسلم کانفرنس ماضی میں اپنے ریاستی تشخص کی پر زور وکالت کے ساتھ ساتھ دیگر جماعتوں کو غیر ریاستی قرار دیتی رہی ہے ۔مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عتیق احمدخان کے غیر ریاستی جماعتوں کے ونگز کے خلاف درجنوں بیانات قومی و ریاستی اخبارات کی زینت بھی بنتے رہے ہیں۔ بہت سے لوگ اس تضاد کو بنیاد بنا کر اس سیاسی جماعت پر تنقید کررہے ہیں ۔ یہی حال جماعت اسلامی آزادکشمیر کا ہے ۔
پاکستان میں جماعت اسلامی پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت کے خلاف بھرپور انداز میں 'کرپشن فری مہم' چلا رہی ہے لیکن آزاد کشمیر میں اسی جماعت کی شاخ مسلم لیگ نواز کی سرگرم حلیف کے طور پر سرگرم ہے ۔خلاصہ یہ کہ آزادکشمیر کے حالیہ انتخابات میں ہر بڑی سیاسی جماعت نے اپنی سیاسی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لئے کئی نوع کے سیاسی اتحاد سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر رکھی ہیں۔
سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور کی بات کریں توکاغذی سطح پر زمین وآسمان کے قلابے ملائے گئے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کے وفاقی وزراء نے الیکشن مہم کے دوران عوام کے ساتھ جو وعدے کیے ہیں زمینی حقائق کے مطابق ان کا اگلی حکومت کی آئینی مدت میںپورا ہونا محض ایک خواب ہی لگتا ہے جبکہ تحریک انصاف ''کشمیر کے فیصلے کشمیر میں'' کے عنوان سے انتخابی اکھاڑے میں اتری ہے لیکن متنازع ایکٹ 1974ء اور کشمیر کونسل کی موجودگی میں مستقبل قریب میں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ مسلم کانفرنس انتخابی اتحاد کی بیساکھی سے کسی نہ کسی صورت میں اپنی ایوان میں موجودگی کو یقینی بنانا چاہتی ہے جبکہ جماعت اسلامی نے ایک مخصوص نشست پر نگاہ مرکوز رکھی ہوئی ہے۔
اس ساری صور ت حال سے یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیںکہ آزادکشمیرمیں اس وقت نظریے کی سیاست بہت پسندیدہ اور نتیجہ خیز تصور نہیں کی جارہی بلکہ سیاست دان روایتی برادری وعلاقائی دائروں ہی میں متحرک نظر آ رہے ہیں۔اس پس منظر کے بعد اختصار کے ساتھ مختلف اہم سیاسی جماعتوں کی اب تک کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں۔اس جائزے میں ہمارے پیش نظر وہ نشستیں ہیں جن پر اب تک کی صورت حال کے مطابق مختلف امیدواروں کی کامیابی کی امکانات نسبتاً زیادہ ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (نواز)
آزادکشمیر کے ان انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے مجموعی طور پر 38امیدوار اس وقت میدان میں ہیں۔ اس جماعت کو وفاق میں اپنی حکومت ہونے کی بنا پر نفسیاتی برتری تو حاصل ہی ہے مگر انتخابات کے ممکنہ نتائج کے اعتبار سے بھی اس جماعت کے رہنما کافی پرامید دکھائی دے رہے ہیں۔مسلم لیگ نواز کا دعویٰ ہے کہ وہ کم از کم 22سے 24نشستوں پر آسانی سے جیت جائے گی مگر اب تک کی صورت حال کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ نواز مجموعی طور پر 10 سے 12 نشستوں پر مستحکم ہے جبکہ 18 سے 20دیگر نشستوں پر اسے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔
مستحکم نشستوں میں حلقہ ایل اے4 میرپور4(کھڑی شریف)سے تحریک انصاف کے چوہدری ارشد حسین کے مدمقابل مسلم لیگ نواز کے چوہدری رخسار،ایل اے 7بھمبر3 (بھمبر شہر)سے آزادامیدوار چوہدری انوار الحق کے مدمقابل چوہدری طارق فاروق،سخت مقابلہ ،ایل اے 10 کوٹلی 3(سہنسہ)سے پیپلز پارٹی کے چوہدری محمد اقبال کے مدمقابل مسلم لیگ نواز کے راجہ محمد نصیر،ایل اے15 باغ3سے پی پی پی کے ضیاء القمر کے مد مقابل مسلم لیگ نواز کے میر علی اکبر،ایل اے 16 (حویلی) میں پیپلز پارٹی کے طارق سعید کے مدمقابل مسلم لیگ نواز کے چوہدری عزیز،ایل اے 18 پونچھ 2کے پی پی کے امیدوار سردار غلام صادق کے مدمقابل مسلم لیگ نواز کے سردار خان بہادر(خیال رہے کہ پیپلز پارٹی کے غلام صادق کو تین دن قبل دو عہدوں سے کئی ماہ تک مسلسل تنخواہ وصول کتنے کے جرم نے آزادکشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے نااہل قرار دیا تھا لیکن الیکشن سے ایک دن قبل سپریم کورٹ آف آزادکشمیر کے جسٹس اعظم خان اور جسٹس سعید اکرم پر مشتمل بینچ نے غلام صادق کو ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو معطل کر کے انتخابات کے لیے اہل قرار دے دیا تھا ۔
تاہم اب ان کی پوزیشن پہلے والی نہیں ہے)، ایل اے22سدھنوتی سے پی پی کے فہیم اختر ربانی کے مقابلے میں مسلم لیگ نواز کے طاہر فاروق ، ایل اے 27مظفرآباد 4 (کھاوڑہ)سے پیپلز پارٹی کے چوہدری لطیف اکبر کے مقابلے میں مسلم لیگ نواز کے راجہ عبدالقیوم خان،ایل اے 24مظفرآباد 1(کوٹلہ) سے پی پی کے جاوید ایوب کے مقابل مسلم لیگ نواز کی نورین عارف ، ایل اے 28مظفرآباد 5 (چکار)سے پی پی کے اشفاق ظفر کے مقابلے میں مسلم لیگ نواز کے صدر راجہ فاروق حید ر اور ایل اے 23نیلم 1میں پی پی پی کے میاں عبدالوحید کے مقابلے میں مسلم لیگ نواز کے شاہ غلام قادر کی پوزیشن مضبوط دکھائی دیتی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف
پاکستان تحریک انصاف مسلم کانفرنس سے اتحاد کے بعد کافی پر اعتماد دکھائی دیتی ہے ۔ اب تک کی صورت حال میںیہ جماعت کم از کم چار نشستوں پر کافی مضبوط پوزیشن میں ہے۔ تحریک انصاف کی ایل اے 3 میرپور 3 (میرپور شہر)میں مسلم لیگ نوازکے مدمقابل پی ٹی آئی کے سربراہ بیرسٹر سلطان محمود کی نشست کے علاوہ ایل اے12 کوٹلی5(کھوئی رٹہ) میں مسلم لیگ نواز کے راجہ نثار احمد کے مدمقابل پی ٹی آئی کے نئیر رفیق، ایل اے14 باغ 2 میں مسلم لیگ کے مشتاق منہاس اور پی پی کے قمر زمان کے مدمقابل پی ٹی آئی کے راجہ خورشید اور ایل اے 27مظفرآباد 3سے مسلم لیگ نون کے افتخار گیلانی کے مقابل پی ٹی آئی کے خواجہ فاروق مستحکم دکھائی دیتے ہیں تاہم دو دن قبل ہونے والی پیش رفت کے باعث اس سیٹ پر کسی بھی اپ سیٹ کی توقع کی جاسکتی ہے۔
آل جموں وکشمیرمسلم کانفرنس
اس جماعت نے کئی نشستوں پر تحریک انصاف کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور سیاسی اتحاد کیا ہے تاہم اس کی مستحکم نشستوں کی تعداد بھی 4 ہی ہے۔ مسلم کانفرنس کی ایل اے 8کوٹلی 1(کوٹلی شہر) سے مسلم لیگ کے امیدوار ملک یوسف کے مقابلے میں مسلم کانفرنس کے ملک نواز ،ایل اے 13باغ 1میں جماعت اسلامی کے میجر لطیف خلیق کے مقابلے میں مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عتیق احمدخان،ایل اے 17پونچھ 1میں مسلم لیگ نواز کے چوہدری یاسین گلشن کے مقابلے میں مسلم کانفرنس کے سردار قیوم نیازی جبکہ ایل اے 20پونچھ 4 میںجموں کشمیر پیپلز پارٹی کے سردار محمود اقبال کے مقابلے میں مسلم کانفرنس کے سردار صغیر احمد کی پوزیشن کافی بہتر دکھائی دے رہی ہے۔ ان نشستوں کے علاوہ مسلم کانفرنس کے اکثر امیدوار ووٹ بینک متاثر کرکے دیگر پارٹیوں کی جیت کی شرح کو متاثر کر سکتے ہیں لیکن ان کا جیتتا بظاہرمشکل دکھائی دے رہا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی
اس جماعت کو پانچ سال مسلسل اقتدار میں رہنے کی وجہ سے کارکردگی کے حوالے سے کافی تنقید کا سامنا ہے تاہم آزادکشمیر میں کم از کم 6 نشستیں ایسی ہیں جن پر پیپلز پارٹی کی صورت حال کافی بہتر ہے ۔ان کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ ایل اے 1 میرپور 1 میں مسلم لیگ نواز کے چوہدری مسعود خالد کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے افسر شاہد،ایل اے 2 میرپور2(چکسواری) سے مسلم لیگ کے امیدوار محمد نذیر کے مقابلے میںچوہدری عبدالمجید(جو حال ہی میںبطور وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری کر چکے ہیں۔
(،حلقہ ایل اے5بھمبر1 (برنالہ)میں مسلم کانفرنس کے شفیق جرال کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے امیدوار پرویز اشرف (اس سیٹ پر تازہ ترین اطلاعات کے مطابق صورت بدل بھی سکتی ہے)،ایل اے 9 کوٹلی2 (نکیال)میں مسلم لیگ نواز کے فاروق سکندر کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے جاوید اقبال بڈھانوی ،ایل اے 11 کوٹلی4 (چڑھوئی) میں مسلم لیگ نواز کے راجہ محمد اقبال خان کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے چوہدری یاسین (اس سیٹ پر بھی سخت مقابلے کی توقع ہے) ، ایل اے 29مظفرآباد6 (لیپہ ویلی)میں مسلم کانفرنس کے دیوان علی چغتائی کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے چوہدری رشید کی پوزیشن کافی مستحکم دکھائی دے رہی ہے۔ تاہم ضلع نیلم میں پیپلز پارٹی کو اپنا ووٹ بینک تقسیم ہو جانے کی وجہ سے مسلم لیگ نواز کے ساتھ سخت مقابلے کا سامنا ہے۔
جموں کشمیر پیپلز پارٹی
اس پارٹی کے سربراہ آزادکشمیر کے پہلے صدر سردار ابراہیم خان کے بیٹے سردارخالد ابراہیم خان ہیں۔ مسلم لیگ نواز کے وفاقی وزراء اور مقامی مسلم لیگی رہنماؤں کی مسلسل کوششوں سے جموں کشمیر پیپلز پارٹی کے صدر اور امیدوار سردار خالد ابراہیم کے ساتھ مسلم لیگ نواز کا انتخابی اتحاد ہوا ہے اور جیت کی صورت میں سردار خالد ابراہیم کو اہم ریاستی عہدہ دینے کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں ۔ اس پارٹی کے ایل اے19پونچھ 3 میں پیپلز پارٹی کے سردار یعقوب کی بیٹی اور سابق وزیر فرزانہ یعقوب،جماعت اسلامی کے اعجاز افضل کے مقابلے میں سردار خالد ابراہیم مستحکم نظر آرہے ہیں اور حلقے میں انہیں مسلم لیگ نواز کے ووٹروں کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔
جمعیت علمائے اسلام آزاد جموں وکشمیر
جمعیت علمائے اسلام بھی اس الیکشن میں ایک نشست پر مستحکم پوزیشن میں ہے ۔ ایل اے 21 سدھنوتی پونچھ 5میں مسلم لیگ نوازکے ڈاکٹر نجیب نقی کے مقابلے میں جمعیت علماء اسلام جموں وکشمیر کے مولاناسعید یوسف خان مسلم کانفرنس کی بھرپور حمایت کے باعث بظاہر برتر نظر آرہے ہیں۔ اس پارٹی کو راہ حق پارٹی کی حمایت بھی حاصل ہے۔
جماعت اسلامی آزادکشمیر
جماعت اسلامی آزادکشمیر نے اس الیکشن میں دلچسپ قسم کے سیاسی اتحاد کیے ہیں۔ خیبر پختون خوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حلیف جماعت کے آزادکشمیر کے ونگ نے مسلم لیگ نواز کے ساتھ اتحاد کیا ہے اور اس کے کارکن مسلم لیگ نواز کے امیدواروں کی بھرپور مہم چلا رہے ہیں۔ جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے امیر عبدالرشید ترابی کو مسلم لیگ آزادکشمیر کی قیادت کی جانب سے اسمبلی کی ایک مخصوص نشست ملنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔
آزادامیدوار
اس وقت اگر مستحکم صورت حال کی بات کی جائے تو پورے آزادکشمیر میں صرف ایک امیدوار ایل اے 6بھمبر2(سماہنی)سے آزاد امیدوار چوہدری علی شان سونی کافی مضبوط بتائے جارہے ہیں، وہاں علی شان سونی کے حریف مسلم لیگ نواز کے مقصود احمد خان ہیں جبکہ بھمبر سٹی سے ایک اور آزاد امید وار چوہدری انوارالحق کی پوزیشن کو بھی بہت سے لوگ بہتر قرار دے رہے ہیں۔
مہاجرین مقیم پاکستان
اس وقت پاکستان کے مختلف صوبوں میں موجود کشمیر ی پناہ گزینوں کے لیے مخصوص 12نشستوں میں سے اکثر پر حکمران جماعت مسلم لیگ نواز کی پوزیشن مستحکم ہے جبکہ چند ایک نشستوں پر دیگر پارٹیاں جیت سکتی ہیں۔ایل اے 30جموں 1 (بلوچستان۔پنجاب) کے حلقے میں ردوبدل سے صورت حال پہلے والی نہیں رہی ، اب وہاں ایم کیو ایم کی بجائے مسلم لیگ نواز کے ناصر ڈار اور پی ٹی آئی کے مقصود زمان ایک دوسرے کے سخت حریف ہیں۔ ایل اے 31جموں2 (گوجرانوالہ) سے مسلم لیگ نواز کے چوہدری اسماعیل،ایل اے 32جموں 3(سیالکوٹ) سے مسلم لیگ نواز کے محمد اسحاق ،پی ٹی آئی کے حامد رضا اور پی پی کے شوکت علی آمنے سامنے ہیں ۔ مقابلہ سخت ہے لیکن پی ٹی آئی کا امیدوار بظاہر مستحکم پوزیشن میں ہے۔ایل اے 33جموں 4(نارووال۔شکر گڑھ) سے مسلم لیگ نواز کے جاوید اختر کی پوزیشن ماضی کی طرح اچھی ہے۔
ایل اے 34جموں 5(گجرات) سے مسلم لیگ نواز کے راجہ صدیق ماضی کی طرح اب کی بار بھی مضبوط تصور کیے جا رہے ہیں۔ایل اے 36ویلی ون (کراچی۔ کوئٹہ) سے ایم کیو ایم کے عبدالرحمٰن کی کامیابی کی امیدکی جارہی ہے۔ ایل اے 37ویلی 2 (لاہور) سے پی ٹی آئی کے امیدوار غلام محی الدین دیوان مضبوط ترین شمار کیے جاتے ہیں۔ اس حلقے میں ان کی مضبوط پوزیشن کے باعث گزشتہ سالوں میں صوبائی حکومت وہاں انتخابات کرانے کے معاملے میں رُخنے ڈالتی رہی جس کے باعث یہاں انتخابات نہ ہو سکے ۔
ایل اے38ویلی3(سوہاوا۔ملتان) میں مسلم لیگ نواز کے سید شوکت شاہ کی پوزیشن کافی مضبوط ہے۔ ایل اے 39ویلی4 راولپنڈی میں پی پی کے اظہر گیلانی اور مسلم لیگ نواز کے سید اسد علی شاہ(نیلم سے مسلم لیگ نواز کے امیدوار شاہ غلام قادر کے صاحبزادے) کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے لیکن سید اسدعلی شاہ کی پوزیشن کافی مستحکم بتائی جاتی ہے۔ ایل اے40ویلی5 (راولپنڈی) میں مسلم کانفرنس اور پیپلز پارٹی کی مشترکہ امیدوار مہر النساء کے مقابلے میں مسلم لیگ نواز کے احمد رضا قادری کی پوزیشن مضبوط بتائی جا رہی ہے جبکہ ایل اے 41ویلی6 خیبر پختون خوا سے پی ٹی آئی کے ماجد خان مستحکم پوزیشن کے حامل ہیں۔ گویا مسلم لیگ نواز مہاجرین مقیم پاکستان کی مخصوص 12میں سے مجموعی طور پر 6سے 7 نشستیں حاصل کرتی دکھائی دے ہی ہے۔
قوم پرست سیاسی جماعتیں
اس الیکشن میں کشمیر کے منقسم حصوں کی وحدت کی علمبردار نیشنل عوامی پارٹی بھی ماضی کے برعکس انتخابی عمل میں شریک ہے۔ اس پارٹی کو دیگر قوم پرست حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا بھی ہے۔ خیال رہے کہ آزادکشمیر کے انتخابی عمل میں شریک ہونے کے لیے قانونی طور پر کسی بھی امیدوار کو لازماً الحاقِ پاکستان کی شق کو تسلیم کرتے ہوئے دستخط کرنا ہوتے ہیں۔ جموںوکشمیر لبریشن فرنٹ کے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی اسی شق سے متفق نہ ہونے کی وجہ سے مسترد کر دیے گئے ہیں جس کے ردعمل میں انہوں نے انتخابات کا مکمل طور پر بائیکاٹ کر دیا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ نامزدگی کے عمل کو مذکورہ شق متنازع بناتی ہے اس لیے اس کا خاتمہ کیا جانا چاہئے۔
مذکورہ بالا اعدادو شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ آزادکشمیر میں وفاق میں برسراقتدار پارٹی مسلم لیگ نوازکا سیاسی ونگ سب سے آگے ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف اور مسلم کانفرنس کا سیاسی اتحاد مجموعی طور پر دوسرے اور پیپلز پارٹی تیسرے نمبر پر ہے ۔جموںوکشمیر پیپلز پارٹی ، جمعیت علمائے اسلام کے ایک جبکہ آزاد امیدواروں میں سے بھی ایک کے کامیاب ہونے کے روشن امکانات ہیں۔ مذکورہ 41نشستوں کے علاوہ دیگر8 مخصوص نشستوں پر آزادکشمیر قانون اسمبلی کے 41منتخب ممبران کے درمیان انتخابات الیکٹورل کالج کے تحت ہوں گے۔ یہ مجموعی منظرنامہ اس وقت تک کی صورتحال کو مد نظر رکھ کر بنایا گیا ہے تاہم بعض حلقوں میں اپ سیٹ کا امکان بہرحال موجود ہے ۔
آزادکشمیر کی ماضی کی سیاست کا جائزہ لیں تو انتہائی مایوس کن صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس خطے میں تعلیم کی شرح انتہائی بلند ہونے کے باوجود عام انتخابات میں برادریوں اور علاقائی تعصبات کو ہوا دے کر ووٹ حاصل کرنا ایک مستقل حکمت عملی بن چکی ہے۔ اب کی بار بھی برادریوں کی بنیاد پر کچھ حلقوں میں شدید تصادم ہوئے ہیں۔
حویلی ایل اے 16 میں سابق وزیر چوہدری عزیز کو انتخابی مہم کے دوران مخالف برادری کے کارکنوں نے گولیاں مار کر شدید زخمی کر دیا تھا جبکہ ردعمل میں حویلی کا پورا بازار نذر آتش کر دیا گیا۔اس افسوس ناک واقعے کے کچھ دن بعد اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کے وزیر فیصل راٹھور کی گاڑی پر حملہ ہوا۔ اسی طرح حلقہ چار کھاوڑہ (مظفرآباد) میں بھی ایک شخص الیکشن کی بھینٹ چڑھا،دو دن قبل ایل اے 25حلقہ 2لچھراٹ )مظفرآباد( میں پیپلزپارٹی کے وزیر بازل علی نقوی کے ایک عزیز نے مخالف برادری کے نوجوان کو فائرنگ کر کے شدید زخمی کر دیا۔ بھمبر کے حلقوں میں بھی کافی کشیدگی پائی جاتی ہے۔ اس سارے خون خرابے اور فساد کی وجہ مختلف برادریوں کی بنیاد پر کی جانے والی مکروہ سیاست ہے۔
دوسری چیز جو اس الیکشن میں عمومی مشاہدے میں آئی ہے وہ سرکاری ملازمین کا الیکشن مہموں میں سرگرم شرکت کرنا ہے۔ بعض علاقوں میں تو سرکاری ملازمین کے سیاسی نمائندوں کے حق میں تصویروں کے ساتھ اشتہارات بھی شائع ہوئے ہیں جن پر کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی گئی۔سرکاری گاڑیوں کے انتخابی مہم میں استعمال کی شکایات بھی سننے کو ملتی رہی ہیں۔ وفاقی وزراء نے گزشتہ تین ماہ سے آزادکشمیر میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور وہ پورے خطے میں عام ووٹرز کو یہ باور کرانے میں مصروف رہے ہیں کہ آزادکشمیر کے عوام کی بہتری وفاق میں برسراقتدار سیاسی جماعت کے آزادکشمیر میںموجود ونگ کو ووٹ دینے ہی میں ہے۔
اسی مہم کے دوران وفاقی وزیر امور کشمیر برجیس طاہر نے ایک جلسے میں ریاست کے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کے بارے انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کرکے ریاستی سیاست میں ایک اور منفی رویے کی بنیاد ڈالی جس کے بعد ردعمل کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ دوسرے یہ کہ اس ساری انتخابی مہم میں اکثر وفاقی وزراء(خاص طور پر پرویز رشید، برجیس طاہر اور آصف کرمانی) ، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں(بلاول بھٹو زرداری اور عمران خان) نے وفاق کی جنگ آزادکشمیر میں لڑنے پر بھرپور توجہ دی لیکن بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے دِگر گوںحالات پر کوئی مؤثر بات نہیں کی۔ انہوں نے آزادکشمیر کے خطے کے حقیقی مسائل کا کوئی ٹھوس اور قابل عمل حل بھی پیش نہیں کیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں کشمیری حریت پسند برھان وانی کے جنازے میں لگ بھگ 4لاکھ افراد کی شرکت نے پوری وادی کو ایک بار پھر بیدار کر دیا لیکن برھان وانی کی شہادت پر بھارت کے خلاف مظفرآباد میں ہونے والے مظاہرے میں بمشکل 400 سو افراد شریک ہوسکے۔ اس حوالے سے کشمیری نوجوانوں کو پاکستانی ابلاغی اداروں پر بھی شدید تحفظات ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ مین سٹریم میڈیا کشمیر کے المیے کونظر انداز کر کے ان میں بددلی پیدا کر رہا ہے۔ دو دن قبل اسلام آباد میں کشمیر میں تشدد کی حالیہ لہر کے بعد ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں کشمیر کمیٹی کے چیئر مین مولانا فضل الرحمن بھی موجود تھے۔ اس کانفرنس میں ایک کشمیر ی نوجوان نے احتجاج کرتے ہوئے اپنا گریبان چاک کر دیا لیکن ٹی وی چینلز کے لیے یہ واقعہ اہم نہیں تھا۔آزادکشمیر کے نوجوان اس حوالے سے کئی طرح کے تحفظات کا شکار ہیں۔
اس وقت آزادکشمیر کے حقیقی مسائل میں متنازع ایکٹ 1974ء میں ترمیم، کشمیر کونسل سے اختیارات لے کر آزادکشمیر کی منتخب حکومت کو دینا ، نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے سلسلے میں وفاق سے معائدہ، منگلا ڈیم کی رائلٹی، خطے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی بیروزگاری کا سدباب ، ہزاروں کی تعداد میں صوابدیدی عہدوں کی بندر بانٹ،پاک چین اقتصادی راہداری اورگلگت بلتستان کے امور پر واضح اور دوٹوک موقف کافقدان، وفاقی حکومت کی جانب سے اسلام آباد سے مظفرآباد تک ریلوے ٹریک اور آزادکشمیر کو گیس کی فراہمی جیسے مسائل شامل ہیں ۔جو بھی سیاسی جماعت برسر اقتدار آئے گی اگر وہ مذکورہ بالا مسائل کے حل کی جانب توجہ دے گی تو اس خطے کی تقدیر بدل سکتی ہے ورنہ یہ انتخابات بھی ماضی کی طرح ایک بے کار کی مشق ثابت ہوں گے۔
پاکستان مسلم لیگ نوازآزادکشمیر کے صدر راجہ فاروق حیدر خان اس وقت وزارت عظمیٰ کے لیے سب سے مضبوط امیدوار تصور کیے جا رہے ہیں۔ انہیں ماضی میںاپنے مخصوص قوم پرست لہجے میں وفاق نواز سیاست کرنے کی وجہ سے آزادکشمیر کے نوجوانوں میںکافی مقبولیت حاصل رہی ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ آزادکشمیر میں مینڈٹ ملنے کے بعداس خطے کی معاشی خود انحصاری، تعمیر وترقی اور ایکٹ 1974ء میں ترامیم کے بارے میں اپنے دیرینہ موقف پر کس حد تک عمل درآمد کرتے ہیں ۔ یہ سب سے اہم سوال ہے جو آزادکشمیر کے باشعور رائے دہندگان کے ذہن میں ہے۔
آزادکشمیر انتخابات2016ء اعداد وشمار کے آئینے میں
آزادکشمیر کا کل رقبہ چار ہزار مربع میل ہے جو تین ڈویژنزمظفرآباد ،میرپوراور پونچھ ، 10 انتظامی اضلاع اور29 انتخابی حلقوں پر مشتمل ہے۔اس خطے کی کل آبادی چالیس لاکھ سے زائد ہے جبکہ قانون ساز اسمبلی میں پاکستان میں مقیم کشمیری پناہ گزینوں کی نمائندگی کیلئے 12 نشستیں مخصوص ہیں۔ آزادکشمیرکی قانون ساز اسمبلی کے 49 کے ایوان میں 8 نشتیں مخصوص ہیں جن پربراہ راست انتخاب کہ بجائے اسمبلی میں الیکٹورل کالج کی بنیاد پر انتخاب ہوتا ہے جبکہ 41 حلقوں میں براہ راست ہوتے ہیں ۔
2016ء کے عام انتخابات کیلئے تیار کی گئی ووٹر لسٹوں کے مطابق اس مرتبہ 26 لاکھ 74 ہزار5 سو 86 رائے دہندگان اپنے ووٹ کا حق استعمال کر رہے ہیں، جن میں 14 لاکھ 83 ہزار 7 سو 47 مرد اور 11 لاکھ 90 ہزار8 سو 39 خواتین ووٹرز شامل ہیں۔ضلعی اعتبار سے ووٹرز کی تقسیم کچھ اس طرح ہے ۔ ضلع میرپور میں قانون ساز اسمبلی کی چار نشستوں کیلئے ووٹروں کی تعداد 2 لاکھ 33 ہزار5 سو 18 ہے۔ضلع بھمبر میں تین نشستوں کیلئے ووٹروں کی تعداد 2 لاکھ 43 ہزار1 سو 65 ہے جبکہ ضلع کوٹلی میں پانچ نشستوں کیلئے 4 لاکھ 42 ہزار 8 سو 39 افراد کے ووٹ رجسٹرڈ ہیں۔
ضلع باغ میں تین نشستوں کیلئے 2 لاکھ 32 ہزار 5 سو 72لوگ اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے جبکہ ضلع حویلی میں ایک نشست کے لئے ووٹروں کی تعداد 80 ہزار 6 سو 37 ہے ۔ضلع پونچھ میں چار نشستوں کیلئے3 لاکھ 10 ہزار 9 سو 68 جبکہ ضلع سدہنوتی میں دو نشستوں کیلئے1 لاکھ 66 ہزار 1 سو 34 ہے۔اسی طرح ضلع نیلم میں ایک نشست کیلئے 96 ہزار 5 سو 84 جبکہ ضلع مظفرآباد اورہٹیاں بالا میں چھ نشستوں 4 لاکھ 29 ہزار 2 سو 76 ووٹرز ممبران قانون ساز اسمبلی کاانتخاب کریں گے۔
خیال رہے کہ ضلع ہٹیاں بالا حلقہ بندی کی سہولت کیلئے ضلع مظفرآباد کے ساتھ رکھاگیا ہے۔پاکستان میں مقیم کشمیری پناہ گزینوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس کے مطابق جموں و دیگر میں چھ نشستوں کیلئے ووٹروں کی تعداد4 لاکھ 10 ہزار 7 سو 79 ہے جبکہ کشمیر ویلی میں6نشستوں کیلئے 28 ہزار 1 سو 5 ووٹرز اپنا ووٹ پول کرسکیں گے۔
آزادکشمیر کے 10 اضلاع اور پاکستان میں مقیم کشمیریوں کی قانون ساز اسمبلی کی 41 نشستوں پر انتخابات کیلئے 5 ہزار 4 سو 27 پولنگ اسٹیشنز میں 8 ہزار 6 پولنگ بوتھ قائم کئے گئے ،جن میں سے 4 ہزار4 سو16 پولنگ اسٹیشنز اور6 ہزار 2 سو 69 پولنگ بوتھ آزادکشمیرمیں جبکہ 9 سو 66 پولنگ اسٹیشنز اور 1 ہزار 7 سو 37 پولنگ بوتھ پاکستان میں مقیم کشمیریوں کی 12 نشستوں کیلئے ہیں۔
مجموعی طور پر 26 سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کو ملاکر 423 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے جن میں 325 امیدوار آزادکشمیر اور 98 پاکستان میں مقیم کشمیریوں میں سے ہیں۔ نمایاں سیاسی جماعتوں میں پاکستان پیپلز پارٹی آزادکشمیرنے تمام نشستوں پر یعنی 41 امیدوار میدان میں اتارے ، پاکستان مسلم لیگ نواز نے 38، پاکستان تحریک انصاف نے 32، مسلم کانفرنس نے 23، سنی اتحاد کونسل نے 12 ، متحدہ قومی موومنٹ نے 6 ، جماعت اسلامی آزادکشمیر نے9، جمعیت علماء اسلام نے 8 ، جموں وکشمیر پیپلز پارٹی نے 6 امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔
یادرہے کہ اس مرتبہ قوم پرست تنظمیوں نے بھی اپنے امیدوار کھڑے کررکھے ہیں جو عموماً بائیکاٹ کئے رکھتی تھی۔ان کامطالبہ ہے کہ قانون میں موجود الحاق پاکستان کی شق حذف کی جائے۔یاد رہے کہ درجنوں امیدواران ایک دوسرے کے حق میں دستبردار ہو چکے اور تحریک انصاف اور مسلم کانفرنس کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ سمیت مسلم لیگ نواز ، جموں وکشمیر پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی سمیت دیگر مذہبی پارٹیوں کے درمیان بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بنیاد پر اتحاد موجود ہے۔