’’غلیظ‘‘ لیکن مفید بیکٹیریا آنتوں کے انفیکشن کا علاج بن سکتا ہے

آنتوں کی انفیکشن ’’کلوسٹرڈیم ڈیفیسائل‘‘ کو مفید بیکٹیریا کی ایک کاک ٹیل کے ذریعے بھگایا جا سکتا ہے۔


Muhammad Akhtar December 02, 2012
فوٹو: فائل

ایک اسٹڈی میں پتہ چلا ہے کہ آنتوں کی انفیکشن ''کلوسٹرڈیم ڈیفیسائل'' کو مفید بیکٹیریا کی ایک کاک ٹیل کے ذریعے بھگایا جا سکتا ہے۔ چوہوں پر کیے جانے والے تجربات کے مطابق سی ڈیفیسائلClostridium difficile) (بیکٹیریا آنتوں پر غلبہ حاصل کرتے ہیں اور اینٹی بائیوٹک کے ذریعے ان کاعلاج مہلک اور مشکل ہوسکتا ہے۔یوکے کے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے دکھایا کہ کس طرح چھ بیکٹیریا کے مجموعے کے ذریعے اس انفیکشن کو دور کیا گیا۔اسٹڈی کے مطابق اس مجموعے کی تیاری کے لیے بیکٹیریا چوہوں کے فضلے سے حاصل کیے گئے۔

یاد رہے کہ کلوسٹرڈیم ڈیفیسائل بیکٹیریا بہت سے لوگوں کی آنتوں میں پایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ سیکڑوں دیگر جاندار بھی ہوتے ہیں اور یہ تمام جاندار جگہ اور خوراک کے لیے ایک دوسرے سے لڑتے ہیں اور بہت سی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔ تاہم اینٹی بائیوٹک کا ایک طاقتور کورس آنتو ں کی اس بیماری کا باعث بننے والے جانداروں کی لڑائی کو ختم کرسکتا ہے۔ اس کے بعد ان کی تعداد تیزی سے بڑھتی ہے اور کلوسٹرڈیم ڈیفیسائل آنتوں پر غلبہ حاصل کرلیتا ہے اور کئی زہریلے مادہ پیدا ہونے لگتے ہیں جس سے ہیضہ جنم لیتا ہے جو کہ مہلک ہو سکتا ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ بیماری کا مرکزی علاج یعنی انٹی بائیوٹک ادویات بھی بیماری کا حصہ ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ بیماری کا علاج مشکل ہو سکتا ہے اور یہ بار بار مریض کو لاحق ہوسکتی ہے۔ اسٹڈی کے مطابق بہت کم مریض فضلے سے تیار کردہ دوا کے ذریعے آنتوں میں موجود بیکٹیریا میں توازن لانے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اس کے لیے مواد عطیہ دہندہ سے لیا جاتا ہے جسے پانی کے ساتھ فلٹر کرکے ایک ٹیوب کے ذریعے معدے میں پہنچایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ علاج 90 فیصد کیسوں میں کامیاب ثابت ہوتا ہے۔ تاہم اس علاج سے گھن کھانے والے بھی موجود ہیں حتیٰ کہ اس طریقے سے علاج کرنے والے یوکے کے واحد ڈاکٹر ایلسڈیر میکوناچی کا کہنا ہے کہ یہ بیماری کا آخری حل ہے اور یقینا بہت غلیظ معلوم ہوتا ہے۔

سینگر انسٹی ٹیوٹ کیمرج میں کی جانے والی تازہ ترین اسٹڈی میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ فضلے میں وہ کون سا بیکٹیریا ہے جس کو انفیکشن کے خاتمے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ماہرین نے چوہوں کے فضلے سے لیبارٹری میں یہ بیکٹیریا حاصل کیے اور ان کے مختلف مجموعوں کو بیمار چوہوں پر استعمال کیا جس کے بعد پتہ چلا کہ چھ بیکٹیریا کا مجموعہ یہ کام کر سکتا ہے۔

اس کے بعد یہ مجموعہ 20بیمار چوہوں کو منہ کے ذریعے دیاگیا تاکہ ان کی بیماری کا علاج کیا جا سکے۔ اسٹڈی کے مطابق اس بیکٹیریا کو فضلے کا نیا نمونہ لیے بغیر لیبارٹریز میں ہی تیار کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ طریقہ انسانوں پر بھی کارگر ہو سکتا ہے، یعنی انسانی فضلے کے ذریعے ان بیکٹیریا کو تیار کر کے انسانوں پر آزمایا جا سکتا ہے، اس حوالے سے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس طریقہ کار کے ذریعے چوہو ں کی آنتوں میں موجود بیکٹیریا کو صحت مند حالت میں لانے میں کامیابی حاصل کی گئی ہے۔

تحقیق میں شریک ڈاکٹر ٹریور لالی نے اس سلسلے میں کہا کہ اس دوا کے ذریعے آنتوں میں موجود بیکٹیریا کی مختلف نسلوں میں توازن لایا جا سکتا ہے اور کسی ایک قسم کو غالب ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اینٹی بائیوٹک اگرچہ ایک انقلابی ایجاد ہے لیکن اس کے ضرورت سے زیادہ استعمال کی وجہ سے بیکٹیریا کی زیادہ مزاحم نسلیں جنم لے رہی ہیں اور ''کلوسٹرڈیم ڈیفیسائل'' ان میں سے ایک ہے۔ اس بیکٹریا سے نمٹنا بہت مشکل ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ چوہوں کی آنتوں اور انسانوں کی آنتوں میں پائے جانے والے بیکٹیریا میں فرق ہے چنانچہ ایسے ہی کسی طریقہ کار کو انسانوں میں کامیاب بنانے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ انسانی آنتوں کے عوارض پر بھی قابو پایا جا سکے۔ امپیریل کالج لندن کے پروفیسر آف مائیکرو بائیولوجی نیل فیئر فیدر کا کہنا ہے کہ فضلے کے ذریعے بیکٹیریا کی تیاری میں جو مسئلہ درپیش ہے وہ یہ ہے کہ اس سے خطرناک انفیکشن بھی منتقل ہوسکتی ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر صرف بیکٹیریا کو الگ کرکے استعمال کیا جائے تو یہ مستقبل میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ظاہر ہے کہ اگر اس طریقہ کار کے لیے انسانی فضلے کو براہ راست استعمال نہ کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے بلکہ لیبارٹری میں اس کے بیکٹیریا تیار کرنا زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس میں غلاظت کا احساس کم ہو جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ یہ بات تو سمجھ آتی ہے کہ کوئی مریض ایسی گولی کھائے جس میں آنتوں میں پائے جانے والے مفید بیکٹیریا کے ساتھ دیگر بیکٹیریا شامل ہوں جو کہ آنتوں کے اندر موجود خطرناک جراثیم کو ختم کریں اور ان کی تعداد میں توازن لائیں۔ انھوں نے کہاکہ دیگر کئی امراض جو کہ آنتوں میں موجود بیکٹیریا کی تعداد میں عدم توازن کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں جیسے آنتوں میں سوزش کی بیماری وغیرہ، ان کے علاج کے لیے یہ بیکٹیریوتھیریپی خاصی مفید ثابت ہوسکتی ہے۔

برٹش سوسائٹی آف گیسٹروانٹرولوجی کے ڈاکٹر اینٹن عمانویل کا کہنا ہے کہ یہ ایک دلچسپ تحقیق ہے کیونکہ ہم سب کو پتہ ہے کہ فضلے میں کروڑوں بیکٹیریا پائے جاتے ہیں جن میں سے کچھ فائدے مند اور کچھ نقصان دہ ہوتے ہیں۔ اب اگر تحقیق کے ذریعے یہ پتہ چلایا جائے کہ ان میں سے مفید کون سے ہیں اورپھر ان کو بیکٹیریو تھیریپی کے طورپر استعمال کیاجائے تو اس سے اچھی بات اور کیاہوسکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں