تریاق کا خوف
سپریم کورٹ پہلے یہ قرار دے چکی ہے کہ رینجرز کو سرحدوں پر ہونا چاہئے، کراچی کا مسئلہ پولیس کے ذریعے حل کرنا چاہئے۔
عراق سے تریاق آ جائے تو مریض کے صحت یاب ہونے میں کوئی شبہ ہی نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ عراق سے تریاق لائے گا کون اور کب تک مریض کے پاس پہنچے گا؟
سپریم کورٹ نے کراچی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے جو احکامات دیے ہیں' وہ بادی النظر میں عدل و انصاف کے عین مطابق اور مرض کی علامات کا صفایا کرنے کے لیے کافی ہیں لیکن ان احکامات پر عمل کون اور کیسے کرے گا اور خاص طور پر جب مرض ایسا '' کرانک'' CHRONIC اور اتنا پیچیدہ ہو کہ تجویز کردہ دوائیں اس کے لیے بے اثر ہو سکتی ہوں، ایسی صورت میں تریاق مریض کی حالت پر کیا اثر ڈالے گا۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ تمام انتخابی حلقہ بندیاں اس انداز سے کی جائیں کہ کسی حلقے پر کسی خاص جماعت کی اجارہ داری نہ رہے۔ اس حکم پر عملدرآمد کے لیے پہلے اجارہ داری کا تعین کرنا پڑے گا۔ اجارہ داری ایسی شے ہے کہ اسے گواہوں کی مدد سے ثابت نہیں کیا جا سکتا' نہ ہی یہ انگلی رکھ کر دکھائی جا سکتی ہے۔
ایک ہی کام ہو سکتا ہے کہ غیر جانبدار فورس کی مدد سے علاقوں کا ازسر نو تفصیلی جائزہ لیا جائے اور یہ معلوم کیا جائے کہ کس گھر میں کتنے ووٹ ہیں اور ان کا اندراج اسی علاقے میں ہے۔ ظاہر ہے کہ ڈیڑھ دو کروڑ کی آبادی کے شہر میں یہ عمل ایک یا دو مہینے میں تو پورا ہونا ممکن نہیں ہے، اچھا خاصا وقت تو سراغ لگانے ہی میں لگ جائے گا اور پھر کافی وقت درستگی میں، اس میںکوئی شک نہیں کہ کراچی میں حلقہ بندیوں میں وسیع پیمانے پر ''کاری گری'' کی گئی ہے اور سینکڑوں یا ہزاروں نہیں ' لاکھوں ووٹوں کا غلط اندراج کیا گیا ہے۔ اس عمل سے وہ پارٹیاں براہ راست متاثر ہوں گی جنہوں نے یہ کام کیا یا جن کے ایما پر ہوا، ان کی طرف سے ہر طرح کی مزاحمت بھی ہو گی۔ مزاحمت سے مراد صرف ہاتھا پائی نہیں' عدالتی چارہ جوئی بھی ہے۔
اجارہ داری کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ شفافیت کے سارے تقاضے پورے کر لیے جائیں تب بھی بعض علاقوں میں ایسی اجارہ داری بہرحال رہے گی جسے آپ غیر قانونی نہیں قرار دے سکتے۔ مثال کے طور پر کچھ حلقے ایسے ہیں جہاں متحدہ قومی موومنٹ کو اکثریت کی حمایت حاصل ہے، وہاں ساری فہرستیں درست ہوں تب بھی اجارہ داری متحدہ کی ہی رہے گی۔ اسی طرح بعض پشتون اکثریت کے حلقے ہیں، وہاں اے این پی کی اجارہ داری ہے۔ لیاری اور ملیر کے علاقوں میں پیپلز پارٹی کی اجارہ داری ہے، ان اجارہ داریوں کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے۔
عدالت کا دوسرا حکم رینجرز کو تھانے بنانے اور پولیس کے اختیار دینے کا ہے۔ سپریم کورٹ پہلے یہ قرار دے چکی ہے کہ رینجرز کو سرحدوں پر ہونا چاہئے، کراچی کا مسئلہ پولیس کے ذریعے حل کرنا چاہئے۔ یہ حکم پہلے والے حکم کے مطابق نہیں ہے۔ بہرحال شہریوں کی ایک بڑی تعداد اس فیصلے کا خیر مقدم کرے گی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا رینجرز کا ادارہ بھی خیر مقدم کرے گا؟ رینجرز محض امن و امان کے لیے ہنگامی نوعیت کے اقدامات کرے مثلاً کسی علاقے کا محاصرہ کر کے آپریشن یا ہنگامے کے وقت ایکشن کر کے فسادیوں کو بھگانا اور پکڑنا۔ پولیس کے اختیارات ملنے کا مطلب یہ ہو گا کہ ان کی ذمہ داری بڑھ جائے گی اور وہ شہری نظم و نسق میں ملوث ہو جائیں گے۔ جس سے یہ خدشہ پیدا ہو گا کہ ان کے ساتھ بھی وہی کچھ تو نہیں ہو گا جو پولیس کے ساتھ ہوا۔ یہ رپورٹیں چھپ چکی ہیں کہ ماضی کے مختلف ادوار میںکراچی میں آپریشن کرنے والے تمام پولیس افسر سوائے ایک کے' چن چن کر قتل کیے جا چکے ہیں اور سرکار نے ان کے پسماندگان کی خبر تک نہیں لی ۔
پولیس والے تو اوپر کی کمائی کر کے اپنے بچوں کے لیے کچھ نہ کچھ چھوڑ جاتے ہیں ' رینجرز کے پاس اوپر کی کمائی کے نہ تو مواقع ہیں نہ سلیقہ' کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عراق سے تریاق لانے کی شرط اس لیے لگائی گئی ہے کہ اس میں لمبا وقت لگے گا اور یہی لمبا وقت اس نگران حکومت کو چاہئے جس کے پاس' سنا ہے کہ بہت سی فہرستیں جمع ہیں۔ عراق سے تریاق جب آ چکے تو الیکشن ہوں گے۔ خیال تو یہی ہے لیکن فہرستوں والے قصے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ انتخابات نہیں ہوں گے' دور تریاقی ہی خاصا وقت نکال لے گا' بہرحال اگر انتخابات ہو گئے تو کراچی کے انتخابی نتائج میں کافی بڑی تبدیلی نظر آ سکتی ہے۔ سندھ کے کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اب جو الیکشن ہوں گے، ان کے بعد سندھ میں جیتنے والوں کو حکومت بنانے کے لیے بہت زیادہ مشکل سودے بازی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی ہی الیکشن جیتے گی، ممکن ہے قوم پرستوں کے اتحاد کی وجہ سے اُسے کچھ سیٹوں پر بہت مصیبت پیش آئے۔
لیکن کوئی سرپرائز بھی اس کی اکثریت کو ختم نہیں کر سکتا۔ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے لیے اگلی بار حکومت سازی اتنی مشکل ہو گی نہ اس کے بعد کاروبار حکومت چلانا اتنا مشکل ہو گا، جتنا کہ اب ہے۔ اگرچہ یہ اندازہ صحیح نہیں ہے تب بھی ایسا لکھ دینے میں کوئی ہرج نہیں، اس لیے کہ اس اندازے کے غلط یا صحیح ہونے پر کوئی تبصرہ اِسی وقت ہو سکے گا جب الیکشن ہوں گے۔ فی الحال تو تریاق دُور سے آتا ہوا نظرآ رہا ہے۔ خدا کرے یہ نظر کا دھوکہ ہو۔ ورنہ یہ مرض ختم نہ ہوا تو مریض کا خاتمہ یقینی ہے۔
سپریم کورٹ نے کراچی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے جو احکامات دیے ہیں' وہ بادی النظر میں عدل و انصاف کے عین مطابق اور مرض کی علامات کا صفایا کرنے کے لیے کافی ہیں لیکن ان احکامات پر عمل کون اور کیسے کرے گا اور خاص طور پر جب مرض ایسا '' کرانک'' CHRONIC اور اتنا پیچیدہ ہو کہ تجویز کردہ دوائیں اس کے لیے بے اثر ہو سکتی ہوں، ایسی صورت میں تریاق مریض کی حالت پر کیا اثر ڈالے گا۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ تمام انتخابی حلقہ بندیاں اس انداز سے کی جائیں کہ کسی حلقے پر کسی خاص جماعت کی اجارہ داری نہ رہے۔ اس حکم پر عملدرآمد کے لیے پہلے اجارہ داری کا تعین کرنا پڑے گا۔ اجارہ داری ایسی شے ہے کہ اسے گواہوں کی مدد سے ثابت نہیں کیا جا سکتا' نہ ہی یہ انگلی رکھ کر دکھائی جا سکتی ہے۔
ایک ہی کام ہو سکتا ہے کہ غیر جانبدار فورس کی مدد سے علاقوں کا ازسر نو تفصیلی جائزہ لیا جائے اور یہ معلوم کیا جائے کہ کس گھر میں کتنے ووٹ ہیں اور ان کا اندراج اسی علاقے میں ہے۔ ظاہر ہے کہ ڈیڑھ دو کروڑ کی آبادی کے شہر میں یہ عمل ایک یا دو مہینے میں تو پورا ہونا ممکن نہیں ہے، اچھا خاصا وقت تو سراغ لگانے ہی میں لگ جائے گا اور پھر کافی وقت درستگی میں، اس میںکوئی شک نہیں کہ کراچی میں حلقہ بندیوں میں وسیع پیمانے پر ''کاری گری'' کی گئی ہے اور سینکڑوں یا ہزاروں نہیں ' لاکھوں ووٹوں کا غلط اندراج کیا گیا ہے۔ اس عمل سے وہ پارٹیاں براہ راست متاثر ہوں گی جنہوں نے یہ کام کیا یا جن کے ایما پر ہوا، ان کی طرف سے ہر طرح کی مزاحمت بھی ہو گی۔ مزاحمت سے مراد صرف ہاتھا پائی نہیں' عدالتی چارہ جوئی بھی ہے۔
اجارہ داری کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ شفافیت کے سارے تقاضے پورے کر لیے جائیں تب بھی بعض علاقوں میں ایسی اجارہ داری بہرحال رہے گی جسے آپ غیر قانونی نہیں قرار دے سکتے۔ مثال کے طور پر کچھ حلقے ایسے ہیں جہاں متحدہ قومی موومنٹ کو اکثریت کی حمایت حاصل ہے، وہاں ساری فہرستیں درست ہوں تب بھی اجارہ داری متحدہ کی ہی رہے گی۔ اسی طرح بعض پشتون اکثریت کے حلقے ہیں، وہاں اے این پی کی اجارہ داری ہے۔ لیاری اور ملیر کے علاقوں میں پیپلز پارٹی کی اجارہ داری ہے، ان اجارہ داریوں کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے۔
عدالت کا دوسرا حکم رینجرز کو تھانے بنانے اور پولیس کے اختیار دینے کا ہے۔ سپریم کورٹ پہلے یہ قرار دے چکی ہے کہ رینجرز کو سرحدوں پر ہونا چاہئے، کراچی کا مسئلہ پولیس کے ذریعے حل کرنا چاہئے۔ یہ حکم پہلے والے حکم کے مطابق نہیں ہے۔ بہرحال شہریوں کی ایک بڑی تعداد اس فیصلے کا خیر مقدم کرے گی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا رینجرز کا ادارہ بھی خیر مقدم کرے گا؟ رینجرز محض امن و امان کے لیے ہنگامی نوعیت کے اقدامات کرے مثلاً کسی علاقے کا محاصرہ کر کے آپریشن یا ہنگامے کے وقت ایکشن کر کے فسادیوں کو بھگانا اور پکڑنا۔ پولیس کے اختیارات ملنے کا مطلب یہ ہو گا کہ ان کی ذمہ داری بڑھ جائے گی اور وہ شہری نظم و نسق میں ملوث ہو جائیں گے۔ جس سے یہ خدشہ پیدا ہو گا کہ ان کے ساتھ بھی وہی کچھ تو نہیں ہو گا جو پولیس کے ساتھ ہوا۔ یہ رپورٹیں چھپ چکی ہیں کہ ماضی کے مختلف ادوار میںکراچی میں آپریشن کرنے والے تمام پولیس افسر سوائے ایک کے' چن چن کر قتل کیے جا چکے ہیں اور سرکار نے ان کے پسماندگان کی خبر تک نہیں لی ۔
پولیس والے تو اوپر کی کمائی کر کے اپنے بچوں کے لیے کچھ نہ کچھ چھوڑ جاتے ہیں ' رینجرز کے پاس اوپر کی کمائی کے نہ تو مواقع ہیں نہ سلیقہ' کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عراق سے تریاق لانے کی شرط اس لیے لگائی گئی ہے کہ اس میں لمبا وقت لگے گا اور یہی لمبا وقت اس نگران حکومت کو چاہئے جس کے پاس' سنا ہے کہ بہت سی فہرستیں جمع ہیں۔ عراق سے تریاق جب آ چکے تو الیکشن ہوں گے۔ خیال تو یہی ہے لیکن فہرستوں والے قصے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ انتخابات نہیں ہوں گے' دور تریاقی ہی خاصا وقت نکال لے گا' بہرحال اگر انتخابات ہو گئے تو کراچی کے انتخابی نتائج میں کافی بڑی تبدیلی نظر آ سکتی ہے۔ سندھ کے کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اب جو الیکشن ہوں گے، ان کے بعد سندھ میں جیتنے والوں کو حکومت بنانے کے لیے بہت زیادہ مشکل سودے بازی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی ہی الیکشن جیتے گی، ممکن ہے قوم پرستوں کے اتحاد کی وجہ سے اُسے کچھ سیٹوں پر بہت مصیبت پیش آئے۔
لیکن کوئی سرپرائز بھی اس کی اکثریت کو ختم نہیں کر سکتا۔ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے لیے اگلی بار حکومت سازی اتنی مشکل ہو گی نہ اس کے بعد کاروبار حکومت چلانا اتنا مشکل ہو گا، جتنا کہ اب ہے۔ اگرچہ یہ اندازہ صحیح نہیں ہے تب بھی ایسا لکھ دینے میں کوئی ہرج نہیں، اس لیے کہ اس اندازے کے غلط یا صحیح ہونے پر کوئی تبصرہ اِسی وقت ہو سکے گا جب الیکشن ہوں گے۔ فی الحال تو تریاق دُور سے آتا ہوا نظرآ رہا ہے۔ خدا کرے یہ نظر کا دھوکہ ہو۔ ورنہ یہ مرض ختم نہ ہوا تو مریض کا خاتمہ یقینی ہے۔