اِسلام کی عالم گیر دعوت

اِنسان کو اَپنے رَب اور خالق کی عبادت کرنے اور اس کے اَحکامات کے مطابق اَپنی زِندگی گزارے کیلئے پیدا کیا گیا۔


اِنسان کو اَپنے رَب اور خالق کی عبادت کرنے اور اس کے اَحکامات کے مطابق اَپنی زِندگی گزارے کیلئے پیدا کیا گیا۔ فوٹو: فائل

PESHAWAR: یہ دُنیا دارُ العمل ہے۔ اِس میں اِنسان کو اِسی لیے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ اَپنے رَب اور خالق کی عبادت کرے اور اس کی مرضی اور اَحکامات کے مطابق اَپنی زِندگی گزارے۔

چناں چہ اﷲ تعالیٰ نے بندوں کو عبادات کا طریقہ سکھانے اور اُن کو فلاح و بہبود کا رَاستہ بتانے کے لیے اَنبیائے کرام علیہم السلام کا سلسلہ جارِی فرمایا اور اُن پر کتابیں اور صحیفے نازِل فرمائے اور اُن کو حکم دِیا کہ وہ اﷲ کے بندوں کو اس کی ہدایت کی طرف دعوت دیں۔ اَنبیائے کرام علیہم السلام نے اَپنے زمانوں میں اَپنی اُمّت کو دعوت دِی اور اَپنے قول و عمل سے اُن کو اَپنے رَب کی عبادت کرنے کا طریقہ سکھایا، اُنہیں کام یابی کے اُصول بتائے، خود بندوں کے ایک دُوسرے پر جو حقوق ہیں اُن کی تعلیم دِی اور اُن کے ذریعے اُن کے آپس کے جھگڑوں میں فیصلہ فرمایا۔

اِرشادِ بارِی تعالی ہے ''سب لوگ اِبتدا میں ایک ہی دِین پر تھے (پھر اُن میں باہم اِختلاف پیدا ہوا) تو اﷲ تعالیٰ نے نبیوں کو بھیجا، خوش خبری سنانے والے اور ڈرانے والے اور ان کے ساتھ سچی کتاب بھی نازل فرمائی تاکہ لوگوں کے مابین ان باتوں میں فیصلہ کریں جن میں وہ اختلاف کریں۔'' (البقرۃ: 213)

اور چوں کہ ہر پیغمبر کی بعثت کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اﷲ کے حکم سے اس کی اِطاعت کی جائے، اس لیے ہر پیغمبر نے اپنی دعوت میں اپنی اُمّت کو یہ جملہ فرمایا ''پس تم اﷲ سے ڈرتے رہو اور میری اِطاعت اختیار کرو۔'' (الشعراء:163)

ہر پیغمبر نے اپنی اُمت کو توحید کی دعوت دی اور ان کا تعلق خالق حقیقی سے جوڑا، انہیں نیک اعمال اور نیک اخلاق کی تعلیم دی اور معاشرے کی اِصلاح کی طرف پوری توجہ دی، ان میں نیکیوں کو پھیلایا اور ان کے اچھے نتائج کی خوش خبری دی اور انہیں برے اعمال سے روکا اور ان کے برے نتائج سے آگاہ کیا۔

قرآنِ کریم اور احادیث نبویؐ سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ سابقہ انبیائے کرام علیہم السلام کی دعوت اپنی اپنی قوم، قبیلے اور شہر تک محدود تھی، چناں حضرت ہود علیہ السلام کے بارے میں فرمایا '' اور ہم نے قومِ عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا۔'' (الاعراف:65)

حضرت صالح علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ''اور ہم نے قومِ ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا۔'' (الاعراف:72)

حضرت شعیب علیہ السلام کے بارے میں فرمایا '' اور ہم نے اہل مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا۔'' (الاعراف:85)



اسی طرح حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کو بنی اسرائیل کی طرف مبعوث کیا گیا اور انہوں نے اپنی قوم کو آسمانی ہدایت کی طرف دعوت دی۔

ان تمام انبیائے کرام علیہم السلام کے آخر میں اﷲ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وَسلم کو ایک عالم گیر دعوت دے کر بھیجا۔ جو کسی خاص قوم یا ملک کے لیے نہ تھی، بل کہ اَقوامِ عالم اور قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے تھی۔ اس عالم گیر دعوت کو قرآنِ کریم نے مختلف انداز میں پیش فرمایا۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وَسلم کی رسالت کی عمومیت کو اس طرح بیان فرمایا ''آپ کہہ دیجیے اے لوگو! میں رسول ہوں اﷲ کا تم سب کی طرف، جس کی حکومت ہے آسمانوں اور زمین میں، کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں اس کے سوا، وہی زندہ کرتا ہے وہی مارتا ہے، سو ایمان لاؤ اﷲ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اُمی پر جو کہ یقین رکھتا ہے اﷲ پر اور اس کے سب کلاموں پر اور اس کی پیروی کرو تاکہ تم راہ پاؤ۔'' (الاعراف:158)

سورۃ بقرۃ میں تمام اِنسانوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ''اے لوگو! بندگی کرو اپنے رب کی جس نے تم کو پیدا کیا اور ان کو جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔'' (البقرۃ:21)

اسی طرح قرآنِ کریم نے اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کو اس عالم گیر دعوت کی طرف بلاتے ہوئے فرمایا ''اے اہل کتاب! اِیمان لاؤ اُس کتاب پر جو ہم نے نازِل کی (یعنی قرآنِ کریم) تصدیق کرتی ہے اس کتاب کی جو تمہارے پاس ہے۔'' (النساء)

اسی طرح قرآنِ کریم میں بیسیوں آیات ایسی ہیں جن میں اسلام کی عالم گیر دعوت کو بیان کیا گیا ہے اور یہ بھی اعلان کیا گیا ہے کہ اب قیامت تک تمام انسانوں کے لیے یہی راہِ نجات ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے '' اور جو کوئی اسلام کے سوا کسی اور دین کو چاہے گا سو وہ اس سے ہرگز قبول نہ ہوگا اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا۔''

(آلِ عمران:85)

چوں کہ اسلام ایک عالم گیر دعوت ہے اس لیے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وَسلم نے اسے عربوں تک محدود نہیں رکھا بل کہ اپنے زمانے کے ملوکِ عالم کو اس کی دعوت دی اور فارس، روم، مصر وغیرہ کے بادشاہوں کے پاس اپنے نمائندے بھیجے اور ان کو اسلام کی طرف دعوت دی۔

چوں کہ خاتم الانبیاء صلی اﷲ علیہ وَسلم کے بعد کوئی نبی آنے وَالا نہ تھا، اس لیے اس عالم گیر دعوت کا فریضہ آپ صلی اﷲ علیہ وَسلم کی اُمّت پر ڈالا گیا۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے '' تم سب اُمّتوں سے بہتر ہو جو بھیجی گئی عالم میں، حکم کرتے ہو اَچھے کاموں کا اور منع کرتے ہو برے کاموں سے اور اِیمان لاتے ہو اﷲ پر۔'' (آلِ عمران:110)

لہٰذا یہ اُمّت کسی خاص قوم و نسب یا مخصوص ملک و اقلیم میں محصور نہیں بل کہ اس کا دائرۂ عمل سارے عالم کے لیے اور انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے گویا اس کا وجود ہی اس لیے ہے کہ دوسروں کی خیر خواہی کرے اور جہاں تک ممکن ہو انہیں جنت کے دروازوں پر لاکھڑا کرے۔

آج قرآنِ کریم کی یہ آیات اُمّت محمدی ﷺ سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ وہ اپنے اس فریضہ کو بجا لائیں اور دین اسلام پر خود عمل کریں اور اس کی دعوت کو اقوامِ عالم تک پہنچائیں اور انہیں کفر و ضلالت کے اندھیروں سے نکال کر اسلام کی روشنی اور اُجالے میں لائیں۔ وگرنہ قیامت کے دن پوری اُمّت کو اس کوتاہی کا جواب دینا ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں اور پوری اُمّت کو اسلام کی دعوت کے فرض کو بجالانے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں