ردی کا ٹکڑا
ثالثی کی بین الاقوامی عدالت نے جنوبی بحیرہ چین پر چینی دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے فلپائن کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے
ثالثی کی بین الاقوامی عدالت نے جنوبی بحیرہ چین پر چینی دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے فلپائن کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔ نیدرلینڈز کے شہر ''دی ہیگ'' میں قائم ثالثی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اس امر کے کوئی شواہد نہیں ملے کہ چین نے تاریخی اعتبار سے جنوبی بحیرہ چین پر سمندر اور اس کے وسائل پر اپنا کنٹرول رکھا ہو۔ ہیگ کی ثالثی عدالت میں یہ مقدمہ فلپائن نے دائر کیا تھا کہ خطے میں چینی سرگرمیاں بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہیں۔
بین الاقوامی ثالثی کی اس عدالت کے فیصلے کو چین نے ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ثالثی عدالت کے اس فیصلے کی اہمیت کو ردی کاغذ کے ایک ٹکڑے سے کچھ نہیں سمجھتا۔ بین الاقوامی ثالثی عدالت کا یہ فیصلہ ہو سکتا ہے منصفانہ ہو لیکن عدالت کے پاس اپنے فیصلے کو نافذ کرنے کا کوئی اختیار ہے، نہ وسائل ہیں، لہٰذا ثالثی عدالت کا یہ فیصلہ لٹکا رہے گا اور جنوبی بحیرہ چین پر چین کا کنٹرول برقرار رہے گا۔
لیکن اس فیصلے اور اس فیصلے کے خلاف چین کے ردعمل کی وجہ سے اس خطے میں کشیدگی بڑھے گی، کیوں کہ امریکا نے چین کے ردعمل کے خلاف اپنے طیارہ بردار جہاز اور جنگی طیارے بھیج دیے ہیں اور چین نے بھی اس خطے میں اپنی فوجی طاقت کو بڑھانے اور مستحکم کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ چینی بحریہ نے ابھی کچھ دن پہلے یہاں جنگی مشقیں کی ہیں۔ چین میں متعین پاکستانی سفیر مسعود خالد نے کہا ہے کہ پاکستان اس مسئلے پر چینی موقف کی حمایت کرتا ہے۔
دنیا میں امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے دنیا کے ملکوں نے اقوام متحدہ سمیت کئی ادارے بنا رکھے ہیں لیکن چونکہ ان اداروں کے پاس اپنے فیصلے نافذ کرنے کی طاقت ہے نہ وسائل، اس لیے ان اداروں کی حیثیت مردہ گھوڑوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ اقوام متحدہ نے عشروں پہلے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے یہ قرارداد منظور کی تھی کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کشمیر میں رائے شماری کی جائے، لیکن اقوام متحدہ کے پاس چونکہ اپنے فیصلے پر عمل درآمد کے اختیارات اور طاقت نہیں ہے لہٰذا بھارت کشمیر پر اقوام متحدہ کے فیصلے کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ یہی صورت حال فلسطین کی ہے، اقوام متحدہ کے کسی فیصلے کو اسرائیل ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اس پس منظر میں چین کا یہ کہنا کہ ہیگ کی ثالثی عدالت کے فیصلے کی حیثیت ردی کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں درست تو ہے۔ لیکن محض فیصلے کو ردی کا ٹکڑا کہنا درست نہیں بلکہ دنیا میں موجود امن و امان کے تمام اداروں کی حیثیت ردی کے ٹکڑوں سے زیادہ نہیں۔
آج دنیا جنگوں، نفرتوں، ناانصافیوں کی آگ میں اسی لیے جل رہی ہے کہ بین الاقوامی ادارے محض ڈمی بنے ہوئے ہیں اور طاقت کا قانون جو جنگل کا قانون کہلاتا ہے ساری دنیا میں رائج ہے۔ ہو سکتا ہے بحیرہ جنوبی چین پر چین کا دعویٰ درست ہو، لیکن اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں امن و امان فراہم کرنے والے اداروں کے پاس اپنے فیصلے نافذ کرنے کی طاقت نہیں، اس کے علاوہ دوسری شرمناک حقیقت یہ ہے کہ ان بین الاقوامی اداروں پر امریکا کی گرفت اس قدر مضبوط ہے کہ وہ نہ کوئی منصفانہ فیصلے کر سکتے ہیں، نہ انھیں امریکا کی مرضی کے بغیر نافذ کر سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ دنیا بھر کے ممالک کے تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرانے کا زور دار ادارہ ہے لیکن دنیا بھر کے عوام اقوام متحدہ کو امریکا کا حامی ادارہ سمجھتے ہیں، جب بین الاقوامی اداروں کا عوام میں یہ امیج ہو تو ان کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے۔
صرف بین الاقوامی سطح پر ہی انصاف فراہم کرنے والوں کا حال یہ نہیں ہے، بلکہ قومی اور ملکی سطح پر بھی انصاف فراہم کرنے والے اداروں کو اس طرح بے توقیر کر کے رکھ دیا گیا ہے کہ وہ فیصلے کرنے کے علاوہ ان پر عملدرامد کے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔ پاکستان میں انصاف فراہم کرنے والے اداروں کی حیثیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈیری فارم جیسی معمولی تنظیمیں اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کو ہوا میں اڑا دیتی ہیں اور دودھ دہی وغیرہ اپنی مرضی کی قیمتوں پر فروخت کرتی ہیں۔ یہ صورت حال اس لیے پیدا ہوئی ہے کہ انصاف فراہم کرنے والے اداروں کے پاس قوت نافذہ نہیں ہے۔
فلپائن امریکا کی کوئی ریاست نہیں بلکہ وہ ایک آزاد ملک ہے لیکن ثالثی ادارے کے فیصلے کے خلاف چین کے ردعمل کے پیش نظر امریکا نے خطے میں نہ صرف اپنے طیارہ بردار جہاز بھیج دیے ہیں بلکہ فضائی طاقت بھی اس خطے میں لگا رہا ہے اور یہ کام امریکا نے انصاف دوستی کے حوالے سے نہیں کیا بلکہ چین دشمنی کے حوالے سے کیا ہے۔
امریکا کے منصوبہ ساز ادارے مستقبل میں چین کو امریکا کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں اور اسی پس منظر میں امریکی حکمرانوں نے بھارت کو اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر بنا لیا ہے۔ یہ خارجہ پالیسی اور مفاداتی سیاست دنیا کو جنگوں کی طرف تو لے جا سکتی ہے لیکن دنیا کو امن و آشتی کا گہوارہ نہیں بنا سکتی۔ اگر امریکا جنوبی بحیرہ چین میں اپنی جنگی طاقت بھیجنے کے بجائے عالمی اداروں کو طاقتور اور مکمل غیر جانبدار بنانے کی کوشش کرتا تو بلاشبہ دنیا جنگوں، نفرتوں، علاقائی تنازعات سے پاک ہوتی۔
بین الاقوامی ثالثی کی اس عدالت کے فیصلے کو چین نے ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ثالثی عدالت کے اس فیصلے کی اہمیت کو ردی کاغذ کے ایک ٹکڑے سے کچھ نہیں سمجھتا۔ بین الاقوامی ثالثی عدالت کا یہ فیصلہ ہو سکتا ہے منصفانہ ہو لیکن عدالت کے پاس اپنے فیصلے کو نافذ کرنے کا کوئی اختیار ہے، نہ وسائل ہیں، لہٰذا ثالثی عدالت کا یہ فیصلہ لٹکا رہے گا اور جنوبی بحیرہ چین پر چین کا کنٹرول برقرار رہے گا۔
لیکن اس فیصلے اور اس فیصلے کے خلاف چین کے ردعمل کی وجہ سے اس خطے میں کشیدگی بڑھے گی، کیوں کہ امریکا نے چین کے ردعمل کے خلاف اپنے طیارہ بردار جہاز اور جنگی طیارے بھیج دیے ہیں اور چین نے بھی اس خطے میں اپنی فوجی طاقت کو بڑھانے اور مستحکم کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ چینی بحریہ نے ابھی کچھ دن پہلے یہاں جنگی مشقیں کی ہیں۔ چین میں متعین پاکستانی سفیر مسعود خالد نے کہا ہے کہ پاکستان اس مسئلے پر چینی موقف کی حمایت کرتا ہے۔
دنیا میں امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے دنیا کے ملکوں نے اقوام متحدہ سمیت کئی ادارے بنا رکھے ہیں لیکن چونکہ ان اداروں کے پاس اپنے فیصلے نافذ کرنے کی طاقت ہے نہ وسائل، اس لیے ان اداروں کی حیثیت مردہ گھوڑوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ اقوام متحدہ نے عشروں پہلے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے یہ قرارداد منظور کی تھی کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کشمیر میں رائے شماری کی جائے، لیکن اقوام متحدہ کے پاس چونکہ اپنے فیصلے پر عمل درآمد کے اختیارات اور طاقت نہیں ہے لہٰذا بھارت کشمیر پر اقوام متحدہ کے فیصلے کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ یہی صورت حال فلسطین کی ہے، اقوام متحدہ کے کسی فیصلے کو اسرائیل ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اس پس منظر میں چین کا یہ کہنا کہ ہیگ کی ثالثی عدالت کے فیصلے کی حیثیت ردی کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں درست تو ہے۔ لیکن محض فیصلے کو ردی کا ٹکڑا کہنا درست نہیں بلکہ دنیا میں موجود امن و امان کے تمام اداروں کی حیثیت ردی کے ٹکڑوں سے زیادہ نہیں۔
آج دنیا جنگوں، نفرتوں، ناانصافیوں کی آگ میں اسی لیے جل رہی ہے کہ بین الاقوامی ادارے محض ڈمی بنے ہوئے ہیں اور طاقت کا قانون جو جنگل کا قانون کہلاتا ہے ساری دنیا میں رائج ہے۔ ہو سکتا ہے بحیرہ جنوبی چین پر چین کا دعویٰ درست ہو، لیکن اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں امن و امان فراہم کرنے والے اداروں کے پاس اپنے فیصلے نافذ کرنے کی طاقت نہیں، اس کے علاوہ دوسری شرمناک حقیقت یہ ہے کہ ان بین الاقوامی اداروں پر امریکا کی گرفت اس قدر مضبوط ہے کہ وہ نہ کوئی منصفانہ فیصلے کر سکتے ہیں، نہ انھیں امریکا کی مرضی کے بغیر نافذ کر سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ دنیا بھر کے ممالک کے تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرانے کا زور دار ادارہ ہے لیکن دنیا بھر کے عوام اقوام متحدہ کو امریکا کا حامی ادارہ سمجھتے ہیں، جب بین الاقوامی اداروں کا عوام میں یہ امیج ہو تو ان کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے۔
صرف بین الاقوامی سطح پر ہی انصاف فراہم کرنے والوں کا حال یہ نہیں ہے، بلکہ قومی اور ملکی سطح پر بھی انصاف فراہم کرنے والے اداروں کو اس طرح بے توقیر کر کے رکھ دیا گیا ہے کہ وہ فیصلے کرنے کے علاوہ ان پر عملدرامد کے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔ پاکستان میں انصاف فراہم کرنے والے اداروں کی حیثیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈیری فارم جیسی معمولی تنظیمیں اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کو ہوا میں اڑا دیتی ہیں اور دودھ دہی وغیرہ اپنی مرضی کی قیمتوں پر فروخت کرتی ہیں۔ یہ صورت حال اس لیے پیدا ہوئی ہے کہ انصاف فراہم کرنے والے اداروں کے پاس قوت نافذہ نہیں ہے۔
فلپائن امریکا کی کوئی ریاست نہیں بلکہ وہ ایک آزاد ملک ہے لیکن ثالثی ادارے کے فیصلے کے خلاف چین کے ردعمل کے پیش نظر امریکا نے خطے میں نہ صرف اپنے طیارہ بردار جہاز بھیج دیے ہیں بلکہ فضائی طاقت بھی اس خطے میں لگا رہا ہے اور یہ کام امریکا نے انصاف دوستی کے حوالے سے نہیں کیا بلکہ چین دشمنی کے حوالے سے کیا ہے۔
امریکا کے منصوبہ ساز ادارے مستقبل میں چین کو امریکا کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں اور اسی پس منظر میں امریکی حکمرانوں نے بھارت کو اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر بنا لیا ہے۔ یہ خارجہ پالیسی اور مفاداتی سیاست دنیا کو جنگوں کی طرف تو لے جا سکتی ہے لیکن دنیا کو امن و آشتی کا گہوارہ نہیں بنا سکتی۔ اگر امریکا جنوبی بحیرہ چین میں اپنی جنگی طاقت بھیجنے کے بجائے عالمی اداروں کو طاقتور اور مکمل غیر جانبدار بنانے کی کوشش کرتا تو بلاشبہ دنیا جنگوں، نفرتوں، علاقائی تنازعات سے پاک ہوتی۔