اکیسویں صدی اور دہشتگردی کی آگ
اس وقت پوری دنیا دہشتگردی اور بدامنی کی آگ میں سلگ رہی ہے
اس وقت پوری دنیا دہشتگردی اور بدامنی کی آگ میں سلگ رہی ہے، جنوبی ایشیا میں پاکستان اور افغانستان سب سے زیادہ اس آگ کی لپیٹ میں ہیں، مشرق وسطیٰ میں یہ آگ نشاۃ ثانیہ کی عظیم دانش اور اقدار کو بھسم کررہی ہے، یورپ کا وجود بھی اس آگ سے جھلس رہا ہے، جس کی تازہ ترین مثال فرانس کے جنوبی شہر نیس میں فرانس کے قومی دن کے موقع پر جشن منانے والوں پر قیامت کا ٹوٹنا ہے، جہاں ٹرک ڈرائیور نے ہجوم پر ٹرک چڑھایا، ٹرک سے اتر کر فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں 84 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے، جس شخص نے یہ واردات کی وہ فرانسیسی شہری ہے، اس کا نسلی تعلق تیونس سے ہے۔ یہ شخص کون تھا؟ اس کے مقاصد کیا تھے؟ اس کا ماسٹر مائنڈ کون ہے؟ اس کے بارے میں تحقیقات کے بعد ہی حتمی طور پر کچھ کہا جاسکتا ہے۔
دنیا یہ توقع کررہی تھی کہ 21 ویں صدی تسخیر کائنات کی صدی ہوگی، انسانی ترقی عروج پر ہوگی اور کرۂ ارض کے باسیوں کو پرامن ماحول کی نشاط حاصل ہوگی۔ اکیسویں صدی لاکھوں برس کی انسانی ریاضت، علم، تحقیق، ہنرمندی، کاریگری (ٹیکنالوجی) اور مہارت کے کمال کی صدی ہے۔
اس صدی کو تو انسانی تاریخ کی سب سے زیادہ سکون بخش، فرحت ناک اور جاں فزا صدی ہونا چاہیے تھا، مگر افسوس ایسا نہ ہوسکا بلکہ اکیسویں صدی کا یہ دور اپنے مزاج میں انتہائی وحشیانہ ثابت ہورہا ہے۔ اس حقیقت کا ثبوت وہ نسلی، لسانی، سیاسی اور مذہبی تعصبات ہیں جو مشرق و مغرب کے اعصاب پر بری طرح طاری ہیں۔ مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا، یورپ، افریقہ، امریکا کے بعض خطوں کو بدامنی اور عدم استحکام کی آگ نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ شام، یمن، یوکرائن اور کشمیر سمیت دنیا کے کئی فلیش پوائنٹس بنے ہوئے ہیں، جن کی وجہ سے دنیا سرد یا گرم جنگ کی طرف جاسکتی ہے۔
دوسری جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد دنیا کے کئی ملک آزاد ہوئے تھے، دنیا اشتراکی اور سرمایہ دارانہ بلاک میں تقسیم ہوئی، دونوں بلاکس تقریباً چار دہائیوں تک سرد جنگ میں الجھے رہے، سرد جنگ ختم ہوئی تو دنیا یک قطبی ہوگئی، یک قطبی دنیا میں صورتحال سرد جنگ سے زیادہ خوفناک ہوگئی ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے اپنا نیا عالمی ضابطہ (نیو ورلڈ آرڈر) لاگو کرنے کے لیے دنیا کو بدامنی، انتشار، خونریزی، خانہ جنگی اور مصنوعی جنگوں میں الجھا رکھا ہے۔ اس عرصے میں وہ حالات پیدا ہوئے، جس نے دنیا کو تیسری جنگ عظیم کے خطرات سے دوچار کردیا ہے۔
دنیا سرد جنگ کے زمانے سے زیادہ غیر محفوظ ہوگئی ہے اور اب عالمی جنگ کے امکانات پر کھل کر بات کی جارہی ہے۔ بعض تھنک ٹینکس کے نزدیک دنیا جس عذاب میں پھنس گئی ہے، اس عذاب سے دنیا کو نکالنے کے لیے تیسری جنگ عظیم ضروری ہوگئی ہے۔ جنگیں اگرچہ کسی مسئلے کا حل نہیں ہیں لیکن آج دنیا میں جنگ عظیم دوئم سے پہلے والے حالات سے بھی زیادہ بدتر حالات موجود ہیں اور جو ہونی ہوتی ہے اسے تاریخ میں ٹالا نہیں جاسکتا۔ پہلی عالمی جنگ میں ہزارہا فوجی گاجر مولی کی طرح کاٹے گئے، دوسری عالمی جنگ میں ان گنت افراد میدانوں، صحراؤں، سمندروں اور شہروں میں موت کے گھاٹ اترے۔ اگر عالمی جنگ کی شناخت یہی ہے کہ لوگ کیڑے مکوڑوں کی طرح مریں تو صاف ظاہر ہے کہ تیسری عالمی جنگ نہ صرف جاری ہے بلکہ زور شور سے جاری ہے، ملک ملکوں سے لڑ رہے ہیں، بالادستی کی لڑائی ہورہی ہے، امریکا اور اس کے حواریوں نے اپنی غلط پالیسیوں کے سبب پوری دنیا پر یک طرفہ جنگ مسلط کررکھی ہے۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ نیو ورلڈ آرڈر اسکرپٹ کے مطابق داعش، طالبان، بوکوحرام اور القاعدہ جیسی انتہاپسند تنظیمیں قائم کی گئیں اور امریکا نے ان تنظیموں کو استعمال کیا۔فرانس میں دہشتگردی کا پہلا واقعہ نہیں، اس سے قبل بھی فرانس کے شہر پیرس میں دہشتگردی ہوئی، جب کہ بیلجیئم کا شہر برسلز اور امریکی ریاست فلوریڈا کا شہر آرلینڈو بھی دہشتگردی کا شکار ہوئے۔ درحقیقت یورپ میں دہشتگردی کی وارداتوں اور موجوودہ شورش کا آغاز شام سے ہوا، اس کے پیچھے ترکی اور کچھ عرب و مغربی ممالک کی بشارالاسد سے چھٹکارا حاصل کرنے کی خواہش کارفرما تھی۔ بشارالاسد کی مخالفت کرنے والے گروہوں کو تقویت دے کر انھوں نے جلتی پر تیل گرانا شروع کردیا، یہاں تک کہ شام خانہ جنگی کی نذر ہوگیا، جس کے بعد حکومتی عملداری میں پیدا ہونے والے خلا میں سیاہ لبادوں کا مہیب سایہ گہرا ہونے لگا اور ایک ایسے خون آشام عفریت نے سر اٹھایا جو دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) کہلاتا ہے۔
دہشتگردی سے جنم لینے والے حالات کا گہری نظر سے تجزیہ کیا جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ حالیہ حملوں کے ڈانڈے عراق، شام اور یمن سے جاکر ملتے ہیں۔ اس وقت عراق، شام اور یمن میں خانہ جنگی کی کیفیت ہے اور یہی ممالک داعش کا مضبوط گڑھ بھی ہیں، جو ایک رقبے پر قابض ہے۔ یورپ اور امریکا میں ہونے والی دہشتگردی کی وارداتوں کے پیچھے ان ممالک کی اپنی سامراجی پالیسیوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ عالمی امن کے نام نہاد ٹھیکیداروں نے پہلے تو القاعدہ کو ختم کرنے کا دعویٰ کیا، پھر طالبان کو کمزور کرنے کی بات کی، اب ایک نئی تنظیم داعش کے نام سے سامنے آئی ہے، امریکی حکام دنیا کو یہ باور کرارہے ہیں کہ داعش کو ختم کرنے میں مزید 20 سال لگیں گے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ 20 سال اس عذاب میں گزارنے ہوں گے اور لاکھوں لوگوں کے مزید جنازے اٹھانے ہوں گے۔ اس کے بعد پھر کوئی اور تنظیم پیدا ہوجائے گی۔ دنیا میں ترقی، امن اور خوشحالی کا خواب کبھی پورا نہیں ہوسکے گا۔
خوفناک تنازعات دنیا کو کس طرف لے جارہے ہیں؟ ایک صدی قبل دنیا اسی طرح کے تنازعات میں الجھی ہوئی تھی۔ ان تنازعات کے نتیجے میں پہلی اور دوسری عالمی جنگیں ہوئیں۔ دوسری جنگ عظیم جرمنی، اٹلی اور جاپان کی فسطائی پالیسیوں کی وجہ سے تاریخ میں اٹل ہوگئی تھی۔ دوسری جنگ عظیم فاشزم کے خلاف تھی، آج دنیا بدترین فاشزم کا شکار ہے، امریکا اور اس کے حواریوں کی پالیسیاں جرمنی، اٹلی اور جاپان کے فاشسٹوں سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ دوسری جنگ عظیم سے فاشسٹ حکومتوں کا خاتمہ ہوا، دنیا میں آزادی کی تحریکیں چلیں۔
انسانوں نے معاشی ترقی کی، سرد جنگ کا آغاز ہوا، اور دنیا محفوظ ہوگئی۔ آج کے فاشسٹوں نے دنیا کو مجبور کردیا ہے کہ وہ یکطرفہ مسلط کی گئی جنگ، خونریزی اور بدامنی سے نجات حاصل کرنے کے لیے کوئی جرأت مندانہ فیصلے کرے۔ اگر ترقی یافتہ دنیا امن چاہتی ہے تو اسے دنیا کو انصاف دینا ہوگا۔ دہشتگردی ساری انسانیت کے لیے شدید خطرہ بن چکی ہے۔ اسے کسی نسلی اور مذہبی تناظر میں ہرگز نہ دیکھا جائے، آج دنیا میں ہر جگہ یہ احساس اجاگر ہورہا ہے کہ اگر دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے تو پھر تمام ممالک کو اتفاق رائے سے ہم قدم ہوکر آگے بڑھنا ہوگا۔
دنیا کو دہشتگردی کے اصل اسباب کا سراغ لگانا ہوگا۔ پھر ہرطرح کی دہشتگردی کو نیست و نابود کرنا ہوگا۔ عالمی قوتوں کو اپنے مقاصد و مفادات کی خاطر انتہاپسند تنظیموں کی سرپرستی کا کلچر ختم کرنا ہوگا۔ اس کلچر کو مکمل طور پر خیرباد کہنا ہوگا کہ کبھی ایک انتہاپسند تنظیم کو آگے بڑھایا جائے اور دوسری کو پیچھے ہٹایا جائے، کبھی ایک تنظیم کے سر پر دست شفقت رکھا جائے اور کبھی دوسری کے سر پر۔ پہلے دہشتگردی کی کارروائیوں کے لیے القاعدہ کا نام لیا جاتا تھا اب داعش دہشت و بربریت کی تصویر بن کر ابھری ہے۔ عالمی و علاقائی طاقتوں نے پہلے اپنے مقاصد کی خاطر داعش کو استعمال کیا مگر جب داعش آپے سے باہر ہوتی ہوئی نظر آئی تو پھر ان قوتوں کو تشویش ہوئی۔
دہشتگردی کی لہر یورپ کے آقاؤں سے تقاضا کرتی ہے کہ بلاوجہ دیگر ممالک کے معاملات میں دخل اندازی یورپ کے امن کو متاثر کررہی ہے اور اگر آج یورپی یونین نے مشرق وسطیٰ میں دخل اندازی بند نہ کی تو دہشتگردی کا سلسلہ یہیں نہیں تھمے گا، بلکہ بات دور تک جائے گی اور ہم یورپ کے امن کو تار تار ہوتا دیکھ کر صرف مذمت ہی کررہے ہوں گے۔ آج یورپ کا تشخص خطرے میں نظر آرہا ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہاں کے ممالک کی امریکا و اسرائیل نواز پالیسیاں ہیں۔ اگر یہی پالیسیاں جاری رہیں تو پھر یورپ کی صورتحال بھی مشرق وسطیٰ سے کچھ مختلف نہیں ہوگی۔ امریکا و یورپ کی خوفناک پالیسیوں کا خمیازہ معصوم شہری بھگت رہے ہیں، جب آپ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ مل کر دیگر ممالک میں اپنی فورسز بھیجیں گے اور نہتے شہریوں پر کارپٹ بمباری کریں گے تو نتائج یہی ہوں گے، جو آج یورپ میں ہورہا ہے۔
دنیا یہ توقع کررہی تھی کہ 21 ویں صدی تسخیر کائنات کی صدی ہوگی، انسانی ترقی عروج پر ہوگی اور کرۂ ارض کے باسیوں کو پرامن ماحول کی نشاط حاصل ہوگی۔ اکیسویں صدی لاکھوں برس کی انسانی ریاضت، علم، تحقیق، ہنرمندی، کاریگری (ٹیکنالوجی) اور مہارت کے کمال کی صدی ہے۔
اس صدی کو تو انسانی تاریخ کی سب سے زیادہ سکون بخش، فرحت ناک اور جاں فزا صدی ہونا چاہیے تھا، مگر افسوس ایسا نہ ہوسکا بلکہ اکیسویں صدی کا یہ دور اپنے مزاج میں انتہائی وحشیانہ ثابت ہورہا ہے۔ اس حقیقت کا ثبوت وہ نسلی، لسانی، سیاسی اور مذہبی تعصبات ہیں جو مشرق و مغرب کے اعصاب پر بری طرح طاری ہیں۔ مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا، یورپ، افریقہ، امریکا کے بعض خطوں کو بدامنی اور عدم استحکام کی آگ نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ شام، یمن، یوکرائن اور کشمیر سمیت دنیا کے کئی فلیش پوائنٹس بنے ہوئے ہیں، جن کی وجہ سے دنیا سرد یا گرم جنگ کی طرف جاسکتی ہے۔
دوسری جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد دنیا کے کئی ملک آزاد ہوئے تھے، دنیا اشتراکی اور سرمایہ دارانہ بلاک میں تقسیم ہوئی، دونوں بلاکس تقریباً چار دہائیوں تک سرد جنگ میں الجھے رہے، سرد جنگ ختم ہوئی تو دنیا یک قطبی ہوگئی، یک قطبی دنیا میں صورتحال سرد جنگ سے زیادہ خوفناک ہوگئی ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے اپنا نیا عالمی ضابطہ (نیو ورلڈ آرڈر) لاگو کرنے کے لیے دنیا کو بدامنی، انتشار، خونریزی، خانہ جنگی اور مصنوعی جنگوں میں الجھا رکھا ہے۔ اس عرصے میں وہ حالات پیدا ہوئے، جس نے دنیا کو تیسری جنگ عظیم کے خطرات سے دوچار کردیا ہے۔
دنیا سرد جنگ کے زمانے سے زیادہ غیر محفوظ ہوگئی ہے اور اب عالمی جنگ کے امکانات پر کھل کر بات کی جارہی ہے۔ بعض تھنک ٹینکس کے نزدیک دنیا جس عذاب میں پھنس گئی ہے، اس عذاب سے دنیا کو نکالنے کے لیے تیسری جنگ عظیم ضروری ہوگئی ہے۔ جنگیں اگرچہ کسی مسئلے کا حل نہیں ہیں لیکن آج دنیا میں جنگ عظیم دوئم سے پہلے والے حالات سے بھی زیادہ بدتر حالات موجود ہیں اور جو ہونی ہوتی ہے اسے تاریخ میں ٹالا نہیں جاسکتا۔ پہلی عالمی جنگ میں ہزارہا فوجی گاجر مولی کی طرح کاٹے گئے، دوسری عالمی جنگ میں ان گنت افراد میدانوں، صحراؤں، سمندروں اور شہروں میں موت کے گھاٹ اترے۔ اگر عالمی جنگ کی شناخت یہی ہے کہ لوگ کیڑے مکوڑوں کی طرح مریں تو صاف ظاہر ہے کہ تیسری عالمی جنگ نہ صرف جاری ہے بلکہ زور شور سے جاری ہے، ملک ملکوں سے لڑ رہے ہیں، بالادستی کی لڑائی ہورہی ہے، امریکا اور اس کے حواریوں نے اپنی غلط پالیسیوں کے سبب پوری دنیا پر یک طرفہ جنگ مسلط کررکھی ہے۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ نیو ورلڈ آرڈر اسکرپٹ کے مطابق داعش، طالبان، بوکوحرام اور القاعدہ جیسی انتہاپسند تنظیمیں قائم کی گئیں اور امریکا نے ان تنظیموں کو استعمال کیا۔فرانس میں دہشتگردی کا پہلا واقعہ نہیں، اس سے قبل بھی فرانس کے شہر پیرس میں دہشتگردی ہوئی، جب کہ بیلجیئم کا شہر برسلز اور امریکی ریاست فلوریڈا کا شہر آرلینڈو بھی دہشتگردی کا شکار ہوئے۔ درحقیقت یورپ میں دہشتگردی کی وارداتوں اور موجوودہ شورش کا آغاز شام سے ہوا، اس کے پیچھے ترکی اور کچھ عرب و مغربی ممالک کی بشارالاسد سے چھٹکارا حاصل کرنے کی خواہش کارفرما تھی۔ بشارالاسد کی مخالفت کرنے والے گروہوں کو تقویت دے کر انھوں نے جلتی پر تیل گرانا شروع کردیا، یہاں تک کہ شام خانہ جنگی کی نذر ہوگیا، جس کے بعد حکومتی عملداری میں پیدا ہونے والے خلا میں سیاہ لبادوں کا مہیب سایہ گہرا ہونے لگا اور ایک ایسے خون آشام عفریت نے سر اٹھایا جو دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) کہلاتا ہے۔
دہشتگردی سے جنم لینے والے حالات کا گہری نظر سے تجزیہ کیا جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ حالیہ حملوں کے ڈانڈے عراق، شام اور یمن سے جاکر ملتے ہیں۔ اس وقت عراق، شام اور یمن میں خانہ جنگی کی کیفیت ہے اور یہی ممالک داعش کا مضبوط گڑھ بھی ہیں، جو ایک رقبے پر قابض ہے۔ یورپ اور امریکا میں ہونے والی دہشتگردی کی وارداتوں کے پیچھے ان ممالک کی اپنی سامراجی پالیسیوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ عالمی امن کے نام نہاد ٹھیکیداروں نے پہلے تو القاعدہ کو ختم کرنے کا دعویٰ کیا، پھر طالبان کو کمزور کرنے کی بات کی، اب ایک نئی تنظیم داعش کے نام سے سامنے آئی ہے، امریکی حکام دنیا کو یہ باور کرارہے ہیں کہ داعش کو ختم کرنے میں مزید 20 سال لگیں گے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ 20 سال اس عذاب میں گزارنے ہوں گے اور لاکھوں لوگوں کے مزید جنازے اٹھانے ہوں گے۔ اس کے بعد پھر کوئی اور تنظیم پیدا ہوجائے گی۔ دنیا میں ترقی، امن اور خوشحالی کا خواب کبھی پورا نہیں ہوسکے گا۔
خوفناک تنازعات دنیا کو کس طرف لے جارہے ہیں؟ ایک صدی قبل دنیا اسی طرح کے تنازعات میں الجھی ہوئی تھی۔ ان تنازعات کے نتیجے میں پہلی اور دوسری عالمی جنگیں ہوئیں۔ دوسری جنگ عظیم جرمنی، اٹلی اور جاپان کی فسطائی پالیسیوں کی وجہ سے تاریخ میں اٹل ہوگئی تھی۔ دوسری جنگ عظیم فاشزم کے خلاف تھی، آج دنیا بدترین فاشزم کا شکار ہے، امریکا اور اس کے حواریوں کی پالیسیاں جرمنی، اٹلی اور جاپان کے فاشسٹوں سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ دوسری جنگ عظیم سے فاشسٹ حکومتوں کا خاتمہ ہوا، دنیا میں آزادی کی تحریکیں چلیں۔
انسانوں نے معاشی ترقی کی، سرد جنگ کا آغاز ہوا، اور دنیا محفوظ ہوگئی۔ آج کے فاشسٹوں نے دنیا کو مجبور کردیا ہے کہ وہ یکطرفہ مسلط کی گئی جنگ، خونریزی اور بدامنی سے نجات حاصل کرنے کے لیے کوئی جرأت مندانہ فیصلے کرے۔ اگر ترقی یافتہ دنیا امن چاہتی ہے تو اسے دنیا کو انصاف دینا ہوگا۔ دہشتگردی ساری انسانیت کے لیے شدید خطرہ بن چکی ہے۔ اسے کسی نسلی اور مذہبی تناظر میں ہرگز نہ دیکھا جائے، آج دنیا میں ہر جگہ یہ احساس اجاگر ہورہا ہے کہ اگر دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے تو پھر تمام ممالک کو اتفاق رائے سے ہم قدم ہوکر آگے بڑھنا ہوگا۔
دنیا کو دہشتگردی کے اصل اسباب کا سراغ لگانا ہوگا۔ پھر ہرطرح کی دہشتگردی کو نیست و نابود کرنا ہوگا۔ عالمی قوتوں کو اپنے مقاصد و مفادات کی خاطر انتہاپسند تنظیموں کی سرپرستی کا کلچر ختم کرنا ہوگا۔ اس کلچر کو مکمل طور پر خیرباد کہنا ہوگا کہ کبھی ایک انتہاپسند تنظیم کو آگے بڑھایا جائے اور دوسری کو پیچھے ہٹایا جائے، کبھی ایک تنظیم کے سر پر دست شفقت رکھا جائے اور کبھی دوسری کے سر پر۔ پہلے دہشتگردی کی کارروائیوں کے لیے القاعدہ کا نام لیا جاتا تھا اب داعش دہشت و بربریت کی تصویر بن کر ابھری ہے۔ عالمی و علاقائی طاقتوں نے پہلے اپنے مقاصد کی خاطر داعش کو استعمال کیا مگر جب داعش آپے سے باہر ہوتی ہوئی نظر آئی تو پھر ان قوتوں کو تشویش ہوئی۔
دہشتگردی کی لہر یورپ کے آقاؤں سے تقاضا کرتی ہے کہ بلاوجہ دیگر ممالک کے معاملات میں دخل اندازی یورپ کے امن کو متاثر کررہی ہے اور اگر آج یورپی یونین نے مشرق وسطیٰ میں دخل اندازی بند نہ کی تو دہشتگردی کا سلسلہ یہیں نہیں تھمے گا، بلکہ بات دور تک جائے گی اور ہم یورپ کے امن کو تار تار ہوتا دیکھ کر صرف مذمت ہی کررہے ہوں گے۔ آج یورپ کا تشخص خطرے میں نظر آرہا ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہاں کے ممالک کی امریکا و اسرائیل نواز پالیسیاں ہیں۔ اگر یہی پالیسیاں جاری رہیں تو پھر یورپ کی صورتحال بھی مشرق وسطیٰ سے کچھ مختلف نہیں ہوگی۔ امریکا و یورپ کی خوفناک پالیسیوں کا خمیازہ معصوم شہری بھگت رہے ہیں، جب آپ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ مل کر دیگر ممالک میں اپنی فورسز بھیجیں گے اور نہتے شہریوں پر کارپٹ بمباری کریں گے تو نتائج یہی ہوں گے، جو آج یورپ میں ہورہا ہے۔