ایدھی ایک عظیم انسان

عبدالستار ایدھی بھی ایسی ہی ایک عظیم شخصیت تھے، جو اب ہم میں نہیں رہے۔


[email protected]

ISLAMABAD: لوگ بڑے پیدا نہیں ہوتے بلکہ اپنی محنت، جدوجہد اور بے پناہ ایثار و قربانی دینے کے بعد آخرکار دنیا سے اپنی شخصیت کا لوہا منوالیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرتی ہے اور آنے والی نسلیں ان کے کارناموں پر فخر کرتی ہیں اور یہی تاریخ ساز اور عہد ساز شخصیات قرار پاتی ہیں۔

اصول ہے کہ انسان کو اس کی کوششوں کے مطابق ملتا ہے، کچھ حاصل کرنے کے لیے کچھ کھونا بھی پڑتا ہے، اپنی صحت، آرام و سکون تک داؤ پر لگانا پڑتا ہے، ہمت بلند ہو اور یقین کامل بھی کہ جس مقصد کو لے کر اٹھے ہیں وہ ہر لحاظ سے درست ہے تو معمولی سامان سے بڑے بڑے معرکے سر کیے جاسکتے اور مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ تاہم دنیا میں ایسے آدمی بہت کم ہوتے ہیں جن کے سامنے کوئی بلند مقصد ہو اور وہ اس کی خاطر اپنی جان کی بازی لگا دینے میں بھی تامل نہ کریں، ایسے ہی آدمیوں سے قوموں کی زندگی کے چراغ روشن رہتے ہیں اور ایسے ہی آدمیوں سے ملکوں کی تاریخیں بنتی ہیں۔ ایسے انسانوں کی زندگی خدمت سے عبارت ہوتی ہے، وہ شہرت کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کے لیے کام کرتے اور اپنی توانائیاں وقف کرتے ہیں۔

عبدالستار ایدھی بھی ایسی ہی ایک عظیم شخصیت تھے، جو اب ہم میں نہیں رہے۔ ان کی تمام زندگی، عرصہ حیات خدمت سے عبارت ہے اور انسانیت کی خدمت کا یہ عہد حیات 65 برس پر محیط ہے۔ انسانیت سے محبت و خدمت کے اسی روشن باب نے یورپیوں کو بھی اس قدر متاثر کیا کہ وہ بھی ایدھی کو ''مہربان فرشتہ''، ''فادر ٹریسا'' اور پاکستان کے سب سے زیادہ لائق محبت ''لیجنڈ'' کہنے پر مجبور ہوگئے۔ بلاشبہ ایدھی صاحب دکھی انسانیت، بیواؤں، یتیموں، گھر بدر والدین، نفسیاتی مریضوں، لاوارث لاشوں کے غسل، کفن، تدفین، بے گھروں، غریبوں، لاوارث بچوں غرض ہر قسم کی سسکتی و بلکتی انسانیت کے لیے رحمت کا فرشتہ تھے۔ ایدھی فاؤنڈیشن آج بین الاقوامی فلاحی تنظیم بن چکی ہے۔

اس کی خدمات کا دائرہ ملکی ہی نہیں بین الاقوامی سطح تک پھیلا ہوا ہے اور یہ خدمت انسانیت کی بنیاد پر ہے اور ہر رنگ، نسل، زبان، مذہب و مسلک کی قید سے قطعی آزاد ہے۔ ایدھی صاحب نے اپنی زندگی میں انسانیت کی بے لوث خدمت کی اور کسی بھی تنگ نظر کو کبھی اپنے مشن کے آڑے آنے نہ دیا۔ ایدھی کے نام کے ساتھ اکثر مولانا بھی لگایا جاتا ہے۔ مولانا تو آپ کو دنیا بھر میں اور بالخصوص ہمارے ملک میں بے شمار مل جائیںگے جو فخر سے خود کو مولانا کہتے اور کہلاتے ہیں، تاہم مولانا عبدالستار ایدھی ایسے تمام مولاناؤں سے خاصے مختلف تھے، وہ حقیقی معنوں میں مولانا اور درویش صفت ولی تھے، وہ اس روشن حقیقت سے بخوبی واقف تھے کہ اسلام کا اصل مقصد امن و آشتی کے ساتھ ساتھ درحقیقت انسانیت کی خدمت ہے۔

لہٰذا خدمت انسانیت کے اسی عظیم تناظر میں مولانا ایدھی اکثر یہ کہتے بھی سنے گئے کہ ''میرا مذہب تو انسانیت ہے'' (گویا اسلام کی حقیقی بنیاد انسانیت) جس کے لیے انھوں نے مثالی طور پر اپنی تمام تر زندگی وقف کردی۔ خوشی کی بات ہے کہ ہمارا معاشرہ ایدھی صاحب کے بعد بھی انسانیت دوست عناصر و احباب سے مزین ہے، خود فیصل ایدھی کی تربیت مولانا ایدھی کی جس آغوش رحمت میں ہوئی ہے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ مولانا ایدھی کے مشن کو بلقیس ایدھی کے ہمراہ پہلے کی طرح جاری و ساری رکھیں گے اور اسے مزید بہتر بنائیں گے اور ترقی دیں گے۔ اسی طرح چھیپا ویلفیئر، سیلانی ویلفیئر، عالمگیر ویلفیئر، المصطفیٰ ویلفیئر، سہارا ویلفیئر اور دیگر رفاعی اور فلاحی ایسے ادارے آج بھی موجود ہیں جو ایدھی کے نقش قدم پر گامزن ہیں۔ یہ چراغ روشن رہنے چاہئیں کہ معاشرے میں اندھیرا بہت ہے۔

میرا خود بھی ذاتی طور پر اکثر و بیشتر ان ویلفیئر اداروں سے واسطہ پڑا اور رابطہ رہا ہے، یقین جانیے دل کو بڑا اطمینان ہے کہ ان فلاحی اداروں کی بدولت ہمارے معاشرے کی سانسیں رواں دواں ہیں۔ دکھی انسانیت کی ڈوبتی نبض پر ان کا ایسا ہمدردانہ ہاتھ ہے کہ عزت نفس بھی مجروح نہیں ہوتی اور دل بے قرار کو قرار بھی آجاتا ہے اور یہ خدمت بلاتفریق سب کے لیے ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم مردہ پرست ہیں، عظیم انسانوں کی عظمت کا اعتراف کرنے کے لیے اس کی موت کا انتظار کرتے ہیں، یہ سلسلہ اب ہمیں موقوف کرنا ہوگا، حقیقی اعتراف یہ ہے کہ اس انسان کی زندگی ہی میں اس کو اس کے شایان شان عزت دی جائے اور اعتراف عظمت ریکارڈ کرایا جائے، ان کا حقیقی معنوں میں خدمات کے اعتراف میں شکر گزار ہوا جائے، لیکن ایسی مثالیں ہمارے ہاں مفقود ہیں۔

12 فروری 2005 جب میرے والد گرامی پروفیسر عبدالطاہر خان سنگھانوی (معروف ماہر تعلیم، مذہبی اسکالر، کالم نویس) کا جگر کے عارضے میں مبتلا ہونے کے بعد جب انتقال ہوا تو مجھے یاد ہے کہ تن تنہا جب میں نے والد گرامی کی نصیحت و وصیت کے مطابق انھیں غسل کے لیے ایدھی ہوم لے جانے کے لیے عزم باندھا تو ایدھی ایمبولینس ہی نے میری مدد کی۔ میں تھا، والدصاحب کی ڈیڈ باڈی تھی اور ایدھی کی ایمبولینس کے ہمراہ ایک عدد ڈرائیور، غسل و کفن کی تمام سہولیات بخوبی احسن طریقے سے ایدھی ہوم ہی سے میسر آئیں، غسل کے بعد آب زم زم بھی یہیں میسر آیا، جس کا والد مرحوم پر چھڑکاؤ اپنے ہاتھوں سے میں نے کیا۔ پھر غسل و کفن کے بعد لاش سرد خانے میں رکھوادی۔

اس موقع پر مجھے پہلی بار ایدھی ہوم کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، جس طرح ایدھی صاحب اپنی ذات میں ایک انجمن تھے اسی طرح ان کا ادارہ بھی میں نے مختلف شعبوں میں جن کا تعلق انسانیت کی خدمت سے تھا ایک انجمن پایا۔ اس کے بعد اکثر میں نے صدقات و عطیات اور امداد کے لیے دیگر فلاحی اداروں کی نسبت ایدھی ہوم کو سرفہرست رکھا کہ میرے والد مرحوم کی آخری آرام گاہ کے سفر آخرت کی آخری تیاری کا اطمینان بخش اور خوبصورت آغاز بھی یہیں سے ہوا تھا۔

بلاشبہ ایدھی کسی تعریف و تعارف کے محتاج نہیں تھے، وہ درحقیقت ایک عظیم انسان تھے، انھیں حکومت کی جانب سے پورے قومی اعزاز کے ساتھ ان کی وصیت کے مطابق منتخب شدہ قبر میں دفن کیا گیا، قومی سوگ کا اعلان ہوا، بھرپور خراج عقیدت پیش کیا گیا،19 توپوں کی سلامی دی گئی اور ایک عظیم قومی ہیرو کی صورت میں ان کا جسد خاکی آخری آرام گاہ تک پورے اعزاز و احترام کے ساتھ پہنچایا گیا۔ جاتے جاتے ایدھی اپنے تمام جسمانی اعضا تک انسانیت کے نام وقف کرگئے، تاہم ان میں کارآمد صرف ان کی آنکھیں تھیں جو دو مختلف مریضوں کو عطیہ کردی گئیں اور آج ایدھی کے جانے کے بعد بھی اس دکھ بھری دنیا کو اپنی پوری دردمندی کے ساتھ دیکھ رہی ہیں۔ ایدھی صاحب! بے شک آپ نے زمین پر ہی نہیں افلاک پر بھی فتح پالی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں