بڑھتے اسلام فوبیا کو بڑھاتے مسلمان

کھڑکیوں کے پٹ(ونڈو شٹرز)کھول دیے گئے تھے اور نئی نویلی صبح کی چمکتی دمکتی دھوپ نے جہاز کےکیبن میں یکدم اجالا سا بھردیا

moazzamhai@hotmail.com

BANNU:
کھڑکیوں کے پٹ (ونڈو شٹرز) کھول دیے گئے تھے اور نئی نویلی صبح کی چمکتی دمکتی دھوپ نے جہاز کے کیبن میں یکدم اجالا سا بھر دیا۔ جہاز نے Decent شروع کردیا تھا، چنانچہ مسافروں کی طرح سیٹ بیلٹ سائن بھی بیدار ہوچکے تھے۔ رات بھر کی جاگی ایئرہوسٹسز جہاز کا ایک آخری جائزہ لے رہی تھیں کہ سب سیٹ بیلٹ باندھے بیٹھے ہیں کہ نہیں۔ میں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو ایک منظر دیکھ کر دنگ رہ گیا۔

عین جہاز کے بلندی سے اترتے وقت جب بین الاقوامی ہوا بازی کے حفاظتی ضابطوں کے مطابق مسافروں کو اپنی اپنی سیٹوں پر سیٹ بیلٹ باندھ کر بیٹھنا چاہیے شلوار قمیص میں ملبوس ایک بھاری بھرکم باریش شخص اپنی AISLE کی سیٹ چھوڑے کھڑے ہوکر نماز ادا کر رہا تھا۔ یہ منظر میں نے چند سال پہلے کیتھے پیسفک کی کراچی سے بینکاک جانے والی پرواز پر دیکھا تھا اور اس منظر کی یاد حال ہی میں شایع ہونے والی ایک خبر نے دلادی۔

خبر کے مطابق ابوظہبی سے منیلا جانے والی سات گھنٹے کی ایک ایئرویز کی پرواز کے دوران سوئے ہوئے مسافر اس وقت ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے جب جہاز کے دروازے کے ساتھ کھڑے ہوکر ایک شخص نے اچانک اپنے پھیپھڑوں کی پوری طاقت کے ساتھ کانوں پہ ہاتھ دھر کے اذان دینی شروع کردی۔ خبر میں دیے گئے غیر مسلم مسافروں کے مسلمانوں کے بارے میں تاثرات پڑھ کر مجھے بینکاک والی پرواز کی ایئرہوسٹسز کے چہروں پہ پھیلی حیرانگی، بے چارگی اور ناپسندیدگی یاد آگئی جو ایک بالغ شخص کو اپنی، دوسرے مسافروں اور جہاز کی سلامتی کی پرواہ کیے بغیر ہزاروں فٹ کی بلندی پہ اپنی من مانی کرتے دیکھ کر پیدا ہوئی تھی۔

ان دونوں خبروں میں دو باتیں نوٹ کرنے والی ہیں۔ صبح کی دھوپ میں فجر کا وقت کب کا جاچکا تھا اور بینکاک والی فلائٹ پہ موجود شخص محض آدھے گھنٹے میں زمین پہ نماز ادا کرسکتا تھا یا جہاز میں اپنی سیٹ پہ بیٹھے بیٹھے اشاروں کے ذریعے بھی نماز ادا کرلیتا، جب کہ منیلا جانے والی پرواز میں نشستوں پہ لگے اسکرینز پہ ہمہ وقت مکہ مکرمہ کی سمت اور نماز کے اوقات ڈسپلے ہوتے ہیں چنانچہ جہاز کے ایئر پریشرڈ بند کیبن میں کسی کو بھی اذان دینے کی ضرورت نہیں۔ ان دونوں آدمیوں کی خوش نصیبی کہ ایشیائی پروازوں پہ تھے، کہیں یورپ امریکا میں ہوتے تو پولیس کے ہتھے چڑھ جاتے۔

ایک شخص اس سال کے شروع میں برطانیہ کے لوٹن ایئرپورٹ پر ایک جہاز سے اس وقت پکڑا گیا جب اس کے برابر بیٹھے مسافر نے اس کے موبائل فون پر کسی ''عبادت'' کے ٹیکسٹ پیغام کو دیکھ کر جہاز کے عملے کو فوراً رپورٹ کی کہ ایک ''مسلمان'' شخص جہاز کی سیکیورٹی کے لیے خطرہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 40 سالہ نائیجیرین نژاد برطانوی شہری لاؤ لواوپ بی یی دراصل عیسائی ہے جو صرف مسلمان دکھائی دینے پہ مشتبہ قرار پایا اور یہ کوئی اکیلا دکیلا واقعہ نہیں بلکہ ایک تیزی سے بنتا معمول سا ہے، مثلاً آپ بے چارے کوزن سیمپسن کو ہی لیں، امریکی ریاست اوریگن کے رہنے والے اس بدھ بھکشو کی اس سال 9 مارچ کو مسلمان ہونے کے شبے میں خوب ہی پٹائی کی گئی۔ ''مسلمانوں کو گالیاں دیتے ہوئے حملہ آور نے میرا سر گاڑی پہ دے مارا''۔ سیمپسن نے پولیس کو بتایا۔


ایسے واقعات دنیا بالخصوص مغرب میں مسلمانوں کے لیے پھیلتی ناپسندیدگی کی نشاندہی کرتے ہیں، تاہم ایسے حالات میں بھی مغرب میں بہت سے حکمران اور عام لوگ مسلمانوں سے اچھا سلوک کرتے نظر آتے ہیں، مثلاً جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے نہ صرف جرمنی بلکہ یورپی یونین کے بھی بہت سے سیاسی، عوامی اور میڈیا حلقوں کی کڑی مخالفت کے باوجود لاکھوں مسلمان پناہ گزینوں خصوصاً شامی پناہ گزینوں کو جرمنی میں تمام تر سہولتوں کے ساتھ پناہ دی۔ ان مسلمان پناہ گزینوں خصوصاً نوجوانوں نے پھر یہ کیا کہ وہ سیکڑوں کی تعداد میں 31 دسمبر 2015 کی رات کو جرمنی کے مختلف شہروں خصوصاً کولون کے مرکزی مقامات پر روایتی طور پر نئے سال کے آغاز کی خوشیاں منانے والوں پہ پل پڑے اور اس رات ایک دو نہیں، ایک دو سو نہیں بلکہ تقریباً 2000 خواتین پہ جنسی حملے کیے گئے۔

جرمنی، یورپی یونین اور امریکا تک میں انجیلا مرکل کی مسلمان پناہ گزینوں کو جرمنی میں پناہ دینے کے فیصلے پہ شدید ترین تنقید کی گئی۔ دوسری طرف اس سال کے شروع میں برطانیہ کی پہلی مسلم لارڈ میئر خاتون پاکستانی نژاد نوید اکرام کو پولیس نے مالی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کے سلسلے میں گرفتار کرلیا۔ اس سے پہلے بریڈ فورڈ کی لارڈ میئر ان خاتون کو ان کی پارٹی نے مالی معاملات میں الزامات پہ معطل کردیا تھا۔ اس طرح کے واقعات بہت سے مسلمان ممالک جیسے کہ پاکستان میں عام معمولات کا حصہ ہیں، جہاں ایک طرف عام نوجوان سیاسی جلسوں میں آئی خواتین پر اور دوسری طرف وی آئی پی حکمراں طبقے قومی خزانے پہ مال غنیمت کی طرح ٹوٹے پڑتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ کیا کبھی آپ نے جمعے کے کسی وعظ میں خواتین کے احترام کی تلقین سنی؟ بلکہ صرف مساجد ہی کیا ہمارے تو اسکول، کالج، یونیورسٹیوں میں ایسی باتیں سننے میں نہیں آتیں۔

سب چھوڑیں ہمارے کتنے گھروں میں مائیں اپنے بیٹوں کو بچپن سے عورتوں کی عزت اور احترام کی تربیت دیتی ہیں؟ کتنے ماں باپ اپنے بچوں کو ایمانداری، سچائی، صفائی، نیکی، ہمدردی، حرام حلال کی تمیز سکھاتے ہیں؟ قطار بنانا، اپنی باری کا انتظار کرنا، اپنی غلطی ماننا، شکریہ ادا کرنا سکھاتے ہیں؟ جی نہیں، اگر تمام نہیں تو اکثر مسلمان ماں باپ اگر تمام نہیں تو اکثر مسلمان معاشروں میں اپنے بچوں کو ایسا کچھ نہیں سکھاتے۔

چنانچہ کچھ عجب نہیں کہ دنیا بھر میں قحبہ گیری کے لیے مشہور بینکاک شہر میں تو خواتین بالشت بھر نیکروں اور ذرا ذرا سے ٹی شرٹس میں دن رات ادھر ادھر گھومتی پھرتی ہیں اور کوئی ان پہ آواز تک نہیں کستا، ادھر قاہرہ ہو یا دبئی یا لاہور کراچی باحجاب، عبایا پوش، برقعے میں ملبوس خواتین بھی آتے جاتے مردوں کی دست درازی سے نہیں بچ پاتیں۔ ادھر امریکا کی سابق خاتون اول، سابق وزیر خارجہ اور موجودہ فرنٹ رنر صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن کچھ سرکاری ای میلز پرائیویٹ Server سے بھیجنے پر تحقیقات پہ تحقیقات کا سامنا کرتی ہیں ادھر اربوں کھربوں لوٹنے والے NRO انجوائے کرتے ہیں، ان کے فرنٹ مینوں تک کو توپوں، ٹینکوں سے لیس سیکیورٹی ایجنسیز ہاتھ تک نہیں لگاسکتی۔

یہ مسلمان معاشروں میں پھیلی سرتاپا کرپشن، بے حسی، ظلم اور ناانصافی ہے جس نے اجتماعی مسلمان کردار کو مسخ کردیا ہے، چنانچہ جب مسلمان اپنے ان معاشروں سے نکل کر دنیا کے مہذب، انسانی معاشروں میں پہنچتے ہیں تو وہ سماجی اخلاقیات اور شہری آداب کی اپنی تقریباً وبائی قلت سے منفی طور پر نمایاں ہوکر اسلام فوبیا میں نمایاں اضافہ کرتے ہیں۔ 9/11 کے برسوں کے برعکس اب زیادہ تر دنیا سمجھتی اور تسلیم کرتی ہے کہ بحیثیت برادریوں کے مسلمانوں کا دہشت گردی سے تعلق نہیں مگر یہ دنیا یہ نہیں سمجھ پاتی کہ بحیثیت برادریوں کے مسلمانوں کا عام سماجی اخلاقیات اور شہری آداب سے تعلق کیوں نہیں؟
Load Next Story