کشمیر انتخابات کا آنکھوں دیکھا حال

ان انتخابات کی خاص بات یہ رہی کہ پاکستان کی تمام حریف جماعتوں نے آزاد کشمیر کی سیاست کو بھی پاکستانی رنگ میں رنگ دیا۔


فہیم اختر ملک July 23, 2016
پاکستان کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ تقریباً ہر انتخابات کے بعد ہم الزام دھراتے ہیں کہ دھاندلی ہوئی لیکن کبھی بھی اس دھاندلی کو روکنے کی کوشش نہیں کی گئی۔

جسم میں جس قدر اہمیت ریڑھ کی ہڈی کو حاصل ہے بالکل اتنی ہی اہمیت جمہوری نظام میں انتخابات کو حاصل ہے۔ اگر انتخابات صاف شفاف اور منصفانہ ہوں تو نہ صرف جمہوری عمل مضبوط ہوتا ہے بلکہ عوام کا اس نظام اور اُس نظام کے تحت بنی حکومت پر بھی اعتماد بڑھتا ہے اور اس اعتماد سے حکمرانوں میں اخلاقی جرات بھی پیدا ہوتی ہے۔

پاکستان کی ہمیشہ سے ہی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ ہم نے کبھی بھی پارلیمانی نظام کو مضبوط کرنے کی کوشش نہیں کی، اور تقریباً ہر انتخابات کے بعد ہم الزام دھراتے ہیں کہ دھاندلی ہوئی لیکن کبھی بھی اس دھاندلی کو روکنے کی کوشش نہیں کی گئی۔

2013ء میں ملک بھر میں ہونے والے عام انتخابات کو ہی دیکھ لیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے تو دھاندلی کا الزام لگایا لیکن جن جن جماعتوں نے حکومتیں بنائی وہ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ سندھ میں کامیابی حاصل کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے پنجاب میں دھاندلی کا الزام لگایا، تو پنجاب میں کامیابی حاصل کرنے والی ن لیگ نے خیبر پختونخواہ میں دھاندلی کا الزام لگایا، اور جس کو کہیں کامیابی نہیں ملی تو اُس نے ملک بھر میں دھاندلی کا الزام لگادیا۔ لیکن ان الزامات کے باوجود جب بھی انتخابی عمل کو درست اور دھاندلی سے پاک کرنے کی کوشش کی بات کی گئی تو یہی سیاسی جماعتیں مخالف بن جاتی ہیں۔

2014ء کے دھرنے کی وجہ سے انتخابی اصلاحات کمیٹی بنی لیکن حالت یہ ہے کہ لگ بھگ دو سال ہونے کے باوجود بھی ابھی تک اصلاحات کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ یاد رہے کہ مروجہ نظام کے تحت ہی چاروں صوبوں اور وفاق میں بلدیاتی انتخابات ہوئے جنہیں خونی انتخابات کہا گیا کیونکہ ان میں لگ بھگ 40 کے قریب لوگ اپنی جان سے گئے جبکہ متعدد افراد زخمی بھی ہوئے۔

پاکستان اور آزاد کشمیر کے انتخابی نظام ایک جیسا ہی ہے بس اس کے نام تبدیل ہیں۔ اگر پاکستانی نظام میں خرابیاں ہیں تو اسی طرح آزاد کشمیر میں بھی خرابیاں ہونگی۔ 21 جولائی کو آزاد کشمیر کے دسویں عام انتخابات کیلئے پولنگ کی کوریج میں نے بھی کی۔ ان انتخابات کی خاص بات یہ رہی کہ پاکستان کی تمام حریف سیاسی جماعتوں نے ان میں حصہ لیکر آزاد کشمیر کی سیاست کو پاکستانی رنگ میں رنگ دیا۔

آزاد کشمیر کے انتخابی تاریخ کچھ یوں ہے کہ 24 اکتوبر 1947ء کو پاکستان کے زیرِ انتظام آنے کے بعد کشمیر کے اس حصے میں طویل عرصے تک صدارتی نظام حکومت رہا اور سنہ 1975ء میں پارلیمانی نظام متعارف کروائے جانے کے بعد یہاں سیاسی جماعتوں کے لیے میدان بنا۔ ابتدائی طور پر یہاں قابلِ ذکر سیاسی جماعت کی حیثیت سے سنہ 1932ء میں قائم سب سے بڑی ریاستی جماعت مسلم کانفرنس ہی پہچان بنا سکی تاہم پھر پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی یہاں اپنی جگہ بنالی، اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کی دیگر جماعتوں نے بھی کشمیر میں جگہ بنالی۔

 

میرے نزدیک کشمیر کے حالیہ انتخابات کئی اعتبار سے منفرد اور غیر متوقع رہے۔ فوج کی نگرانی میں امن عامہ کی کوشش کامیاب رہی۔ کشمیر میں روایتی سیاست میں کوئی تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی۔ ان انتخابات میں کئی اعتبار سے پاکستانی سیاست کا عکس دکھائی دیا لیکن نتائج آزاد کشمیر کی ماضی کی روایات کے عین مطابق رہے کیونکہ جو بھی سیاسی جماعت تخت اسلام آباد پر قابض ہوتی ہے وہی جماعت ریاستی الیکشن جیت جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دسویں عام انتخابات میں بھی اسلام آباد میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن نے 41 نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں 31 میں کامیابی حاصل کرلی، یعنی حکومت اب ن لیگ کی ہی ہوگی۔ 2013ء کے بعد سے پاکستان میں تین اہم انتخابات ہوئے۔ یعنی پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات، پھر گلگت بلتستان کے انتخابات اور اب کشمیر کے انتخابات اور کمال بات یہ ہے کہ تینوں میں ہی مسلم لیگ ن نے دو تہائی اکثریت حاصل کی ہے۔

دسویں عام انتخابات کے شور شرابے میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اپنے مرکزی سرکردہ رہنمائوں کو بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ پاکستان تحریک انصاف نے بھی اپنے مرکزی رہنمائوں کے ذریعے انتخابات کی گہما گہمی میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کی لیکن پہلی بار ان انتخابات میں حصہ لینے والی جماعت کو بُری طرح شکست ہوئی۔ ان عام انتخابات میں پاکستان کی تمام سرکردہ جماعتوں کے علاوہ 19 جماعتوں کے 423 امیدواروں (جن میں آزاد امیدوار بھی شامل ہیں) نے بھی حصہ لے لیا، جس میں 65 فیصد لوگوں نے اپنی حق رائے دہی کا بھرپور استعمال کیا۔

الیکشن کمیشن کے غیر حتمی نتائج کے مطابق مسلم لیگ ن کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی 41 نشستوں میں سے 31 نشستیں پر کامیابی حاصل ہوگئی ہے۔ 91ء کے بعد ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی جماعت نے کشمیر میں اتنی بڑی تعداد میں نشستیں حاصل کی ہیں۔ اب تک کے غیر حتمی نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی اور مسلم کانفرنس نے تین تین نشستوں پر اور پاکستان تحریک انصاف صرف دو نشستوں پر ہی کامیابی حاصل کر پائی جبکہ جموں و کشمیر پیپلزپارٹی اور آزاد امیدوار ایک، ایک نشست حاصل کر پائے۔

انتخابات کے لیے کل 5427 پولنگ مراکز جبکہ 8046 پولنگ بوتھ قائم کیے گئے تھے۔ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی آزاد کشمیر نے پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) سے اتحاد کیا ہوا تھا جبکہ مسلم کانفرنس کا اتحاد پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ تھا۔ لیکن میرے مطابق جماعت اسلامی صرف اپنی کنفیوژ پالیسیوں کیوجہ ان انتخابات میں ایک بھی نشست حاصل نہیں کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ میں نے متعدد ووٹرز سے بات کی جو جماعت اسلامی کے سابق کارکن تھے اور اب ان سے متنفر تھے۔ ان سب کا یہی کہنا تھا جماعت اسلامی ایک طرف تو پاکستان میں پی ٹی آئی کی حامی ہے اور ن لیگ کے خلاف تحریک بھی چلا رہی ہے لیکن آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی اتحادی ہے، معلوم نہیں جماعت اسلامی ایک موقف اختیار کیوں نہیں کررہی؟

انتخابات کے بعد ایک اچھی روایت دیکھنے کو ملی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بالغ سیاست دان کے طور پر مسلم لیگ ن کو الیکشن جیتنے پر مبارکباد دی ہے۔ اس کے برخلاف پیپلزپارٹی نے روایتی انداز کو برقرار رکھتے ہوئے ان انتخابات کے نتائج کو ماننے سے انکار کردیا اور الزام لگایا ہے کہ مسلم لیگ ن نے یہ نتائج بھاری رقوم اور دھاندلی کے ذریعے حاصل کیے ہیں۔ پاکستانی سیاست کی طرح نتائج تسلیم نہ کرنے کی روایت کشمیر کی سیاست میں بھی پرانی ہے۔

ان انتخابات میں بڑے بڑے برج الٹ گئے۔ آزادکشمیر میں تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بیرسٹر سلطان کی شکست کی صورت کشمیر کے لوگوں نے عمران خان کو واضح پیغام بھی دے دیا ہے کہ اچھی شہرت نہ رکھنے والے افراد کو پارٹی ٹکٹ دینے کا انجام کیا ہوسکتا ہے۔ آزاد کشمیر کی اسمبلی 49 اراکین پر مشتمل ہوتی ہے۔ ان نشستوں کی تقسیم کچھ یوں ہے کہ پہلی 29 نشستوں پر آزاد کشمیر کے 26 لاکھ 74 ہزار 584 ووٹرز اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں۔ جبکہ 12 نشستوں پر پاکستان میں موجود 4 لاکھ 38 ہزار 884 کشمیری مہاجرین حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں۔ 8 نمائندے مخصوص نشستوں سے آتے ہیں جن میں 5 خواتین، ایک عالم دین، ایک اوورسیز پاکستانی اور ایک ٹیکنوکریٹ کی نشست ہوتی ہے۔ وزیراعظم اس پارٹی یا اتحاد کا بنے گا جس کے پاس سادہ اکثریت یعنی کم از کم 25 سیٹیں ہوں گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامعتعارفکےساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں