بلدیاتی انتخاباتحکومت سندھ کے مؤقف میں تضاد ہے ہائیکورٹ

حکومت سندھ نے سپریم کورٹ کوبتایا کہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کااصولی فیصلہ کرلیا

ڈپٹی اٹارنی جنرل کے مطابق سندھ اسمبلی فیصلہ کرے گی ،تفصیلی فیصلہ جاری. فوٹو: فائل

لاہور:
حکومت سندھ نے بلدیاتی انتخابات کے لیے دو عدالتوں میں دو مختلف مؤقف اپنائے ، جس کی نشاندہی لوکل گورنمنٹ سسٹم کے انتخابات سے متعلق سابق ضلع ناظم ٹنڈو الہٰیار کی آئینی درخواست پر سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ کے تفصیلی فیصلے میں کی گئی ہے۔

21صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ دورکنی بینچ کے رکن جسٹس ندیم اختر نے تحریرکیا ، بینچ کے سربراہ جسٹس فیصل عرب تھے ، فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت سندھ نے 30اپریل 2012ء کو سپریم کورٹ میں لوکل گورنمنٹ سسٹم کے متعلق سوموٹو کارروائی اورمختلف آئینی درخواستوں کے موقع پر ایک رپورٹ پیش کی تھی ، جس میںکہا گیا تھاکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں حکومت سندھ نے 18,25اور 26 ا پریل کو تین اجلاس کیے جن میں بلدیاتی انتخابات کے شیڈول سے متعلق غور وخوض کیا گیا۔

اس سے قبل حکومت سندھ سپریم کورٹ کو آگاہ کرچکی تھی کہ وہ اصولی طور پر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کافیصلہ کرچکی ہے کیونکہ یہ ایک آئینی تقاضا ہے ، اس سلسلے میں حکومت اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے لوکل گورنمنٹ سسٹم 1979ء میں مناسب ترامیم کرکے اسے قانون سازی کے لیے جلدازجلد اسمبلی میں پیش کردے گی ،بلدیاتی قوانین کے حتمی شکل اختیار کرنے پر حلقہ بندیوں کے لیے نوٹیفکیشن جاری کردیا جائے گا، یہ عمل جون ، جولائی ، اگست اورستمبر کے 4مہینوں میں مکمل ہوگاکیونکہ قانون کے مطابق حلقہ بندیوں پر عوامی اعتراضات کے لیے مناسب وقت دینا ضروری ہے۔


حکومت سندھ نے توقع ظاہر کی تھی کہ اکتوبر میں صوبائی حکومت اس قابل ہوگی کہ الیکشن کمیشن سے درخواست کرسکے کہ وہ بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کا اعلان کرے ، حکومت نے مزید یقین دھانی کرائی تھی کہ وہ دسمبر کے اختتام تک بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے اپنے تمام وسائل فراہم کرے گی ،تاہم مئی میں حکومت سندھ کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ شفیع میمن نے راحیلہ گل مگسی کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے مؤقف اختیارکیا کہ ایک طرف یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور حکومت سندھ اس وقت انتخابات نہیں کراسکتی۔

لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا مشکلات ہیں جن کی وجہ سے حکومت سندھ انتخابات نہیں کراسکتی تو انھوںنے صرف ایک جواب دیاکہ اس کافیصلہ صرف سندھ اسمبلی کرے گی اور اس کے بارے میں وہ حتمی طور پرنہیں بتاسکتے کہ اسمبلی کب تک فیصلہ کرے گی ،اس صورتحال میں عدالت عالیہ نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ اگرحکومت سندھ کا یہی مؤقف ہے تو پھر سپریم کورٹ کے روبرو تحریری طور پر یہ بیان کیوں دیا گیا تھاکہ حکومت سندھ اصولی طور پر انتخابات کرانے کے لیے تیار ہے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل اشفاق تگڑ نے بھی درخواست کی مخالفت کی اور مؤقف اختیار کیا کہ سندھ اسمبلی کی جانب سے فیصلہ کے بغیر انتخابات نہیں کرائے جاسکتے اور ابھی تک انتخابی فہرستیں مکمل نہیںہیں ، عدالت عالیہ نے فریقین کامؤقف سننے کے بعد ایک مختصر حکم کے ذریعے18مئی کو 90 یوم میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا، درخواست گزار راحیلہ مگسی نے درخواست میں مؤقف اختیارکیا تھا کہ بلدیاتی اداروں کی مدت ختم ہوجانے کے بعد الیکشن کمیشن کی ذمے داری تھی کہ وہ 2009ء میں انتخابات کراتے ۔

تاہم مقررہ وقت پر انتخابات نہ ہوسکے لیکن اس کے بعد حکومت سندھ نے 17فروری 2010 ء کو اسمبلی میں بل پیش کیا جس کے تحت تمام ضلعی حکومتیںتحلیل ہونے کے بعد منتخب نمائندوں کے بجائے سرکاری افسران کو ا یڈمنسٹریٹر مقرر کرنے کی اجازت دی گئی ، درخواست گزار کے مطابق اس کے بعد بھی متعدد ترامیم کی گئیں اور آرڈیننس جاری کیے گئے ، تاہم عوام کو نمائندے منتخب کرنے کاحق نہیں دیاجارہا جس کاحق آئین پاکستان میںدیا گیاہے ، درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ آئین پاکستان تمام قوانین پر حاوی ہے اور اگر کوئی قانون اس کے خلاف بنایاگیا تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی ،اس لیے عوام کو فوری طور پر اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق دیا جائے ۔

Recommended Stories

Load Next Story