’’عراق پر حملہ بڑی غلطی تھی‘‘ سرچلکوٹ رپورٹ نے ٹونی بلیئر کا پول کھول دیا

بلیئر کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی؟ امریکا میں بھی ایسا کوئی کمیشن بنے گا؟

بلیئر کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی؟ امریکا میں بھی ایسا کوئی کمیشن بنے گا؟ ۔ فوٹو : فائل

زندگی میں ایسے بہت سے موقع آتے ہیں جب انسان اپنی حیثیت اور اقتدار کی طاقت کو دیکھ کر بلا سوچے سمجھے وہ فیصلے کرجاتا ہے جن کا خمیازہ ہزاروں لاکھوں لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ گوکہ بعد میں ایسے لوگوں میں سے کچھ کو اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے اور وہ سب کے سامنے اُس کا اعتراف بھی کرلیتے ہیں، لیکن کچھ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اپنے کیے پر قائم رہتے ہیں اور اُسے ہی صحیح گردانتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کے ساتھ ہوا ہے۔

عراق کی جنگ میں امریکا کا ساتھ دینے پر برطانیہ پر ویسے بھی شروع سے تنقید ہورہی ہے، خاص طور پر برطانوی عوام اس فیصلے انتہائی غلط کہتے آئے ہیں اور اب اس حوالے سے قائم کمیشن کی رپورٹ نے تو ٹونی بلیئر اور اُن کے رفقا کی غلط پالیسیوں کا بھانڈا ہی پھوڑدیا ہے۔ سر جان چلکوٹ Sir John Chilcotکی سربراہی میں قائم کمیشن نے جسے ''چلکوٹ کمیشن '' بھی کہا جاتا ہے، واضح کردیا ہے کہ عراق کی جنگ میں برطانیہ کی مداخلت کا کوئی جواز نہیں تھا اور عراق پر حملے کے لیے امریکا اور برطانیہ نے جو جواز پیش کیے تھے وہ غلط تھے۔ واضح رہے کہ یہ چلکوٹ کمیشن15 جون 2009 کو اُس وقت کے برطانوی وزیراعظم گورڈن براؤن نے قائم کیا تھا جس نے اپنی رپورٹ رواں ماہ 6 جولائی کو جاری کی۔

اس رپورٹ کے پہلے 2014 میں منظرعام پر لانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، لیکن کچھ قانونی رکاوٹوں اور امریکا سے تعلقات میں خرابی کے خطرے کے پیش نظر اس میں تاخیر ہوتی رہی۔ برطانوی دفترخارجہ نے عدالت میں ایک اپیل کی جس کے تحت عراق پر حملے سے ایک روز قبل ٹونی بلیئر اور اُس وقت کے امریکی صدر جارج بش کے درمیان ہونے والی گفتگو کے مندرجات رپورٹ میں شامل نہ کرنے کا حکم دے دیا گیا تھا، کیوںکہ برطانوی حکومت کے مطابق بلیئر اور بش کی گفتگو کے مندرجات سامنے آنے سے دونوں ممالک کے تعلقات خطرے میں پڑسکتے تھے۔

24 لاکھ سے زاید الفاظ پر مشتمل چلکوٹ رپورٹ کے اہم نکات درج ذیل ہیں ، انہی نکات نے ٹونی بلیئر کے عجلت میں کیے گئے فیصلوں، ہر بات میں واشنگٹن کی ہاں میں ہاں ملانے کی عادت اور غیرضروری ایڈونچر میں اپنے فوجیوں کو جھونکنے کی خواہش کو واضح کردیا۔ رپورٹ میں ٹونی بلیئر کی غلط فیصلہ سازی، منصوبہ بندی اور دوراندیشی کے فقدان اور جنگ کے اثرات سے نمٹنے میں ناکامی پر شدید تنقید کی گئی ہے۔

چلکوٹ رپورٹ کے اہم نکات :
٭ جس وقت عراق پر چڑھائی کا فیصلہ کیا گیا اُس وقت صدام حسین سے فوری طور پر کوئی بڑا خطرہ نہیں تھا۔
٭عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی بھی ایک بہانہ تھی۔
٭ ٹونی بلیئر نے عراق جنگ میں کودنے کے لیے بہت عجلت کا مظاہرہ کیا۔
٭ عراق کا مسئلہ مذاکرات سے حل کیا جاسکتا تھا، لیکن امریکا اور برطانیہ نے جنگ و جدل کا راستہ اختیار کیا۔
٭برطانیہ جو مقاصد لے کر عراق کی جنگ میں گیا تھا وہ حاصل نہیں کیے جاسکے۔
٭ فوجی کارروائی آخری آپشن نہیں تھا، برطانیہ نے جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ تخفیف اسلحہ کے آپشن کو استعمال کرنے سے قبل ہی کرلیا تھا۔
٭ جنگ کے فیصلے نے اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے کی ساکھ اور اتھارٹی کو بھی نقصان پہنچایا۔
٭ جنگ کے دوران وزارت دفاع کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی۔ فوجیوں کے بچانے اور ان کی امداد کے لیے لاجسٹک سہولتوں کا فقدان رہا تو کہیں انٹیلی جنس کی ناکامی نے برطانوی فوجیوں کو وہ نقصان پہنچایا جو صحیح حکمت عملی سے نہ ہوتا۔
٭مختلف عراقی صوبوں میں عجلت میں فوجی آپریشن کیے گئے ، منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے برطانوی فوجیوں کو کافی نقصان اٹھا پڑا۔
٭ امریکا کا ساتھ دینے کے لیے لارڈ گولڈ اسمتھ نے جو قانونی بنیاد پیش کی وہ بھی اتنی ٹھیک نہیں تھی کہ اُس پر فوری عمل کیا جاتا۔
٭ بلیئر حکومت نے جنگ کے بعد بحالی کے کاموں کے حوالے سے بھی کوئی پالیسی نہیں بنائی تھی ، ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ بغیر سوچے سمجھے کیا گیا، وہ تعمیر نو کے لیے اپنی ذمے داریاں ادا کرنے میں بھی ناکام رہی۔

سرجان چلکوٹ نے اپنی رپورٹ میں برطانوی حکومت کو تجویز دی ہے کہ مستقبل میں جنگِ عراق کی غلطیاں دہرانے سے اجتناب کرے۔ ہر اہم معاملے میں مشاورت اور صلاح مشورہ ضروری ہوتا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جنگِ عراق میں ایسا نہیں ہوا۔

رپورٹ میں برطانوی خفیہ ایجنسیوں پر بھی شدید تنقید کی گئی ہے کہ انھوں نے حکومت وقت کو صحیح معلومات نہیں دیں۔ وہ اس پر مصر رہیں کہ عراق میں مہلک ہتھیار ہیں اور صدام نے کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار حاصل کرلیے ہیں جب کہ عراق جنگ کے بعد وہاں سے ایسے کوئی ہتھیار نہیں ملے۔ برطانیہ عراق کی جنگ میں شامل ہوکر بین الاقوامی قوانین کو توڑنے کا مجرم ہوا ہے۔

ادھر ٹونی بلیئر نے چلکوٹ رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو آج دنیا کی حالت بہت خراب ہوتی۔ ٹونی بلیئر نے اپنے اس ''جنگی جرم'' کے بہت سے جواز پیش کیے ہیں۔ وہ اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ ہم نے جو فیصلہ کیا وہ بالکل صحیح تھا۔ دوسری طرف سابق نائب برطانوی وزیراعظم جان پریسکوٹ نے چلکوٹ رپورٹ کی تائید کرتے ہوئے غلطی کا اعتراف کیا ہے اور ٹونی بلیئر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ جان پریسکوٹ کا کہنا تھا کہ بلیئر اراکین ِ کابینہ کو جنگِ عراق کے قانونی یا غیرقانونی ہونے پر بحث سے منع کرتے تھے۔

اب ہمیں زندگی بھر اس غلط فیصلے کے تحت وقت گزارنا ہوگا۔ جان پریسکوٹ کا کہنا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان کی اس بات سے متفق ہیں کہ جنگ غیرقانونی تھی۔ ٹونی بلیئرکا جارج بش کو یہ پیغام کہ ''چاہے کچھ بھی ہوجائے ہم آپ کے ساتھ ہیں''، انتہائی تباہ کن تھا، جس نے پوری دنیا پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے۔ جنگ کے جائز ہونے کے حوالے سے میرے خیالات بدل گئے ہیں ، مجھے اپنی غلطی کا احساس ہورہا ہے کہ ہم نے جو کچھ کیا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔

سرچلکوٹ کمیشن نے تو اپنی رپورٹ انتہائی غیرجانب داری کے ساتھ حقائق کو مدنظر رکھ کر جاری کردی، انھوں نے زمینی حقائق اور اس وقت کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے، لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کو اب بھی اس جنگ پر کوئی پشیمانی نہیں۔ وہ اب بھی اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ میں نے جو کیا ٹھیک کیا۔ درجنوں برطانوی فوجی اس جنگ میں مارے گئے، معیشت کو شدید دھچکا لگا ، سیکڑوں فوجی زخمی بھی ہوئے، اس کے باوجود ایک سربراہ مملکت کا حقیقت سے انکار، حقیقتوں سے چشم پوشی اور اپنے غلط فیصلوں کو صحیح گرداننے کی روش برطانوی نظام حکومت پر سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ پریسکوٹ کے مطابق برطانوی عوام کی اکثریت چاہتی ہے کہ ٹونی بلیئر عراق کی جنگ میں مرنے والے 150 سے زاید برطانوی فوجیوں اور ڈیڑھ لاکھ سے زاید عراقی شہریوں کی ہلاکت کے خلاف فوج داری مقدمے کا سامنا کریں، کیوںکہ یہ جو نقصان ہوا، وہ ٹونی بلیئر کے غلط فیصلوں کی وجہ سے ہی ہوا۔


یہ سوال بھی غور طلب ہے کہ چلکوٹ کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد وزیراعظم تھریسامے کی حکومت کیا سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے خلاف کوئی کارروائی کرے گی۔ کیا عراق کی جنگ میں مارے جانے والے برطانوی فوجیوں کے لواحقین بلیئر کو ایسے ہی چھوڑدیں گے؟ اور اس سے بھی بڑھ کر اہم سوال یہ کہ کیا امریکا میں بھی کوئی ایسا کمیشن قائم ہوگا جو دنیا بھر میں امریکی مداخلتوں کا پردہ فاش کرے گا؟ عراق کے بعد افغانستان، شام، یمن اور دیگر ممالک میں امریکا اپنی من مانیاں کرتا آرہا ہے، کیاامریکا میں ایسا کوئی نہیں جو ان پالیسیوں کی حقیقت سامنے لائے اور دنیا کو بتائے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا، وائٹ ہاؤس کی عالمی پالیسیاں دنیا کو متحد کررہی ہیں یا انتشار کو بڑھا رہی ہیں؟ اس کا جواب بہت جلد سامنے آجائے گا۔

نئی برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے اور انھیں درپیش چیلینج
وہ یورپی یونین سے علیحدگی کے عوامی فیصلے سے پیدا شدہ مسائل کا حل نکال سکیں گی؟
یورپی یونین سے علیحدگی کے ریفرنڈم میں جب برطانوی عوام نے اکثریتی فیصلہ دیا کہ ہمیں یورپی یونین سے نکل جانا چاہیے اور ایک آزاد ملک کی حیثیت سے رہنا چاہیے تو ڈیوڈ کیمرون نے عوام کی آواز کو اہمیت دی اور زبردست اخلاقی ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزارت عظمیٰ جیسا منصب چھوڑدیا۔ کیمرون کا کہنا تھا کہ میں یورپی یونین کے ساتھ چلنے کے حق میں تھا، میں نے عوام تک اپنے خیالات پہنچائے اور اُن سے اپیل کی کہ وہ یورپی یونین کے حق میں فیصلہ دیں، لیکن جب عوام نے اس کے برعکس رائے دی ہے تو میرا خیال ہے کہ میں عوام کا اعتماد کھوچکا ہوں، اس لیے اب مجھے وزیراعظم نہیں رہنا چاہیے۔

یہ ایک بڑا فیصلہ تھا جس کی تمام حلقوں نے پذیرائی کی اور کیمرون کی اخلاقی جرأت کو سراہا، ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ لوگ اقتدار اصولوں پر چھوڑدیں۔ اب کیمرون کی جگہ تھریسا مے نے وزیراعظم برطانیہ کا عہدہ سنبھالا ہے، شاہی خاندان سے توثیق کے بعد تھریسا مے نے اپنی ذمے داریاں بھی سنبھال لی ہیں۔ وہ برطانیہ کی تاریخ میں دوسری خاتون وزیراعظم ہیں لیکن انھوں نے ایسے وقت میں یہ منصب سنبھالا ہے جب اُن کے ملک کو مختلف چیلینجوں کا سامنا ہے۔
یکم اکتوبر 1956کو جنم لینے والی تھریسامے نے 1997میں پہلی بار میڈن ہیڈ کے حلقے سے الیکشن لڑا اور رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئیں۔ 2002 میں وہ کنزرویٹیو پارٹی کی پہلی خاتون چیئرپرسن منتخب کی گئیں۔ انھوں نے 2010 میں وزیرداخلہ کا منصب سنبھالا اور وہ3 مرتبہ پاکستان کا دورہ کرچکی ہیں۔ اپنے دوروں کے دوران انھوں نے بارہا دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ اور قربانیوں کو سراہا ہے۔



پاکستان کے حوالے سے بہت سے سیاسی معاملات، عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی کردار اور دیگر معاملات پر بھی تھریسامے کو دھیان دینا ہوگا۔ پاکستانی سیاست دانوں کا دوسرا گھر لندن ہی ہے، تقریباً تمام بڑی پارٹیوں کی قیادت کے گھر لندن میں ہیں، لوگوں کا آنا جانا بھی لگا رہتا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے حوالے سے ان کے فیصلوں پر ہر ایک کی نظر ہوگی۔

بین الاقوامی سیاسی و سماجی صورتحال کے حوالے سے تو بہت سے اہم فیصلے ان کے منتظر ہیں ہی لیکن اندرونی طور پر بھی برطانیہ کے یورپی یونین سے الگ ہونے کے ریفرنڈم کے بعد تھریسامے کو کئی مشکل اقدام کرنا ہوں گے۔ 59 سالہ تھریسامے نے یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا، اب بطور سربراہ مملکت وہ اپنے ووٹ اور عوام کی اکثریتی رائے کو تضاد کو کس طرح دُور کرتی ہیں ؟، اس کا فیصلہ آئندہ وقت میں ہوجائے گا جو اُن کی دور اندیشی، سیاسی سمجھ بوجھ کا بھی بڑا امتحان ثابت ہوگا۔

عالمی میڈیا کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ نئی برطانوی وزیراعظم اپنی کابینہ میں زیادہ خواتین کو رکھنے کے حق میں ہیں، جب قارئین یہ مضمون پڑھ رہے ہوں گے تو تھریسامے کی کابینہ میں یقینی طور پر کئی خواتین بطور وزیر ذمے داریاں سنبھال چکی ہوں گی، تاہم اس سے زیادہ بڑے معاملات برطانوی وزیر اعظم کے سامنے موجود ہیں۔

وزارت داخلہ اور اب وزارت عظمیٰ جیسے منصب سنبھالنے سے قبل بھی تھریسامے مختلف عہدوں اور ذمے داریوں پر فرائض انجام دیتی رہی ہیں، اُن کی پارٹی نے انھیں بطور وزیراعظم نام زد ہی اسی لیے کیا ہے کیوںکہ وہ ایک باصلاحیت، سمجھ بوجھ رکھنے والی خاتون ہیں اور عالمی حالات و واقعات کے حوالے سے کافی باخبر بھی رہتی ہیں۔

مبصرین اور ناقدین کے مطابق تھریسامے نے یورپی یونین میں رہنے یا نہ رہنے کے حوالے سے ملک بھر میں جاری بحث کے دوران خود کو زیادہ سامنے نہ لانے کا فیصلہ کیا اور کسی بھی موقع پر وہ کھل کر اس موضوع پر بات کرتی نظر نہیں آئیں۔ اُن کے اس محتاط رویے کو ناقدین ایک حکمت عملی سمجھتے ہیں کہ تھریسامے خود کو بظاہر غیرجانب دار رکھ کر پارٹی قیادت کے امیدوار کے لیے اپنی نام زدگی کو حقیقت کا روپ دھارتا دیکھنا چاہتی تھیں اور پھر ہوا بھی ایسا ہی ۔

بریگزٹ کے حوالے سے لوگوں کا کہنا ہے کہ ابھی اس معاملے کے بہت سے پہلو پوشیدہ ہیں، ابھی بہت سے سوالات کا جواب چاہیے اور دیکھنا یہ ہے کہ برطانوی حکومت اس معاملے کو کس طرح لے کر چلتی ہے۔ ایسے میں وزیراعظم تھریسامے کیا سوچ رہی ہیں اور کیا کرنا چاہتی ہیں، اس پر پوری دنیا اور بالخصوص برطانوی عوام کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ سب انتظار میں ہیں کہ تھریسامے کب یورپی یونین کے حوالے سے اپنا حتمی فیصلہ سناتی ہیں، اگر وہ یورپی یونین سے الگ ہونے کا عوامی مطالبہ مان لیتی ہیں تو معاملات کو کیسے چلایا جائے گا اور اگر انھوں نے یورپی یونین میں رہنے کو ہی ترجیح دینی ہے تو اس کے لیے بھی ایک طریقہ کار وضع کرنا ہوگا کیونکہ عوام نے تو ریفرنڈم میں اپنا فیصلہ سنادیا ہے۔

اس کے علاوہ یورپی یونین سے الگ ہونے کے فیصلے کے بعد برطانوی معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات کا توڑ بھی تھریسامے ہی کو کرنا ہوگا تاکہ عوام کو کسی قسم کی پریشانی خاص طور پر اضافی ٹیکسوں کا سامنا نہ کرسکے۔ ریفرنڈم کا نتیجہ سامنے آتے ہی دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹوں میں مندی کا رجحان دیکھا گیا تھا، برطانوی معیشت کو اس صورت حال میں جھٹکا لگا ہے اور ماہرین اقتصادیات کے مطابق اگر برطانیہ یورپی یونین سے نکل جانے پر مصر رہا تو معاشی صورت حال کافی سنگین ہوسکتی ہے، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے حکومت بہت سوچ سمجھ کر فیصلے کرے۔ بریگزٹ کے علاوہ تعلیم، صحت، دفاع، امور خارجہ جیسے اہم معاملات پر بھی وہ فیصلے کرنے کی ضرورت ہوگی جن کو عوامی پذیرائی ملے۔

وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد تھریسامے نے اپنی پہلی تقریر میں عوام سے وعدہ کیا ہے کہ وہ برطانیہ میں ناانصافی کا خاتمہ کریں گی اور تمام برطانوی شہریوں کے لیے یکساں سلوک کیا جائے گا تاکہ تمام اہم فیصلوں کے ثمرات چند لوگوں تک پہنچنے کے بجائے سارے عوام تک ایک ساتھ پہنچیں۔ ہمارے لیے تمام برطانوی ایک جیسے ہیں، ہم نیں چاہتے کہ کسی بھی فیصلے یا پالیسی کی وجہ سے لوگ ہم پر تنقید کریں ۔ دیکھتے ہیں کہ تھریسامے اپنی ان یقین دہانیوں اور وعدوں کی پاس داری میں کتنا خلوص دکھاتی ہیں۔

اگر ذاتی زندگی کی بات کی جائے تو تھریسامے کے شوہر فلپ مے ایک بینکر ہیں۔ اُن کی کوئی اولاد نہیں، جس پر انھوں نے کئی بار دکھ کا بھی اظہار کیا ہے۔ وہ شوگر (ذیابطیس) کی مریضہ ہیں اور روزانہ کی بنیادوں پر انسولین انجکشن کے ذریعے اپنی شوگر کا علاج کرارہی ہیں۔

خارجہ امور پر تھریسا مے کو امریکا کے ساتھ برطانوی پالیسیوں پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے، کیوںکہ ہر اہم موقع پر امریکا کا ساتھ دینے کی وجہ سے برطانوی عوام اپنی حکومتوں سے کافی ناخوش رہے ہیں۔ اس کے علاوہ برطانیہ کے روس اور چین سے تعلقات کی سطح بھی کوئی مثالی نہیں، تھریسامے کو اس حوالے سے بھی کچھ اقدامات کرنے ہوں گے، دونوں ملک (چین اور روس) عالمی سیاسی منظرنامے کے انتہائی اہم کردار بن گئے ہیں، اب یہ برطانوی وزیراعظم پر ہے کہ وہ اُن سے تعلقات اپنی حیثیت میں استوار کرتی ہیں یا امریکا کے کہنے پر قدم اٹھاتی ہیں۔ ناقدین اور مبصرین کا کہنا ہے کہ اب برطانیہ کو بہت سے اہم فیصلے خود کرنے ہوں گے، جن میں برطانیہ کا اپنا مفاد ہو اور کوئی ایسا فیصلہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے جس کے ردعمل میں دنیا بھر میں موجود برطانوی عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔
Load Next Story