گرمی ملتان کی عالم گیر شناخت کا حوالہ

ملتان کی گرمی کو ہندو اساطیر کے حوالے سے دیکھیں تو شہر کے نام سے ہی سورج کی شعاعیں نکلنا شروع ہو جاتی ہیں

ملتان کی گرمی کو ہندو اساطیر کے حوالے سے دیکھیں تو شہر کے نام سے ہی سورج کی شعاعیں نکلنا شروع ہو جاتی ہیں فوٹو :شاہد سعید مرزا

دنیا کے قدیم ترین شہروں میں شامل خطہ ملتان کی شہرت کے یوں تو بہت سے حوالے ہیں' لیکن اہم ترین حوالوں میں اس شہر کی قدامت' دنیا کے عظیم حملہ آوروں کی یہاں آمد' ہندو مت کا قدیم ترین مرکز اور شہر اولیاء ہونے کے علاوہ ملتان کی دنیا بھر میں شہرت کا ایک حوالہ یہاں کی گرمی بھی ہے۔ گرد' گرما' گدا و گورستان کا حامل یہ خطہ اپنے سخت ترین موسموں کے حوالے سے بھی ایک عالم گیر شناخت رکھتا ہے۔

اگر ملتان کی گرمی کو یہاں کی ہندو اساطیر' ثقافتی و تاریخی روایات اور بیرونی ممالک سے آنے والے سیاحوں کی آراء کی روشنی میں دیکھا جائے تو ایک دلچسپ صورتحال سامنے آتی ہے۔ ملتان کی گرمی کو ہندو اساطیر کے حوالے سے دیکھیں تو شہر کے نام سے ہی سورج کی شعاعیں نکلنا شروع ہوجاتی ہیں۔ ''مولا استھان'' ملتان شہر کا وہ قدیم نام ہے جس کا حوالہ تمام مورخین نے دیا ہے' سنسکرت میں ''مولا'' کے معنی اصل کے ہیں جبکہ ''استھان'' جگہ کو کہتے ہیں، سنسکرت میں ہی مولا کا ایک متبادل لفظ وردھنا ہے جو سورج کا ایک نام ہے۔

مرزا ابن حنیف اپنی کتاب ''سات دریاؤں کی سرزمین'' میں لکھتے ہیں ''ہندوؤں کی مذہبی روایات کے مطابق کیشپ رشی نے ملتان کو آباد کیا تھا اور یہاں آفتاب پرستی کی بنیاد رکھی' کیشپ رشی ویدی دور کا ایک مہارشی تھا' مہا بھارت اور بعد کے ہندو نوشتوں کے مطابق کیشپ نے ادیتی سے شادی کی اور اس کے ہاں چھ شمسی دیوتا پیدا ہوئے' بعد کے زمانوں میں ان شمسی دیوتاؤں کی تعداد 12 ہوگئی اور یہ سال کے بارہ مہینوں میں سے ہر مہینے کے سورج کی نمائندگی کرتے تھے' پرانوں کی رُو سے سورج دیوتا کے مختلف ناموں میں سے ایک نام ''ادیتیا'' بھی تھا' جو دیگر بارہ دیوتاؤں کا سربراہ تھا' انہی بارہ شمسی دیوتاؤں میں ایک کا نام ''مترا'' تھا جس کے نام پر ملتان میں ایک عظیم الشان مندر بھی موجود تھا''۔

ملتان کے ہندو اساطیری دور سے تعلق رکھنے والی یہ روایات ملتان میں آفتاب پرستی اور گرمی کے پس منظر کو سامنے لاتی ہیں، ملتان کی ہندو تاریخ میں یہاں کی گرمی کو آفتاب پرستی کی روایت کے پس منظر میں بھی دیکھا جاتا رہا۔ شہر کے اساطیری حوالوں میں یہ بات بھی آتی ہے کہ ملتان سورج کا آبائی شہر ہے' یوں بھی معلوم کائنات میں سورج ہی ایسے نمایاں اور کرشماتی وجود کا درجہ رکھتا ہے جو انسان کی زندگی اور اس سے جڑی تمام حاجات کو پورا کرتا ہے' دنیا کے وہ تمام قدیم مذاہب جن میں بت پرستی رائج تھی' ان میں سورج کو بڑا تقدس حاصل تھا' وہ اسے زمین کو روشنی' حرارت دینے والا بلکہ تخلیق کائنات کو بھی اس سے منسوب کرتے تھے۔



ملتان میں ہندو تاریخ کے مطابق پرہلاد بھگت کے دور سے بھی پہلے سورج دیوتا کی پوجا ہونے لگی تھی، پرہلاد بھگت چونکہ وشنو دیوتا کا ماننے والا تھا اس لئے اس نے ملتان کے تخت پر بیٹھتے ہی یہاں وشنو پوجا کا آغاز کیا۔ پرہلاد بھگت کے بعد اس کے پوتے سے سنبھا نے ملتان کا تخت چھین لیا لیکن اسے برص کا مرض لاحق ہو گیا، اسے مشورہ دیا گیا کہ وہ سورج دیوتا کی پرستش کرے۔ چنانچہ سنبھا نے درختوں کے جھنڈ میں بیٹھ کر سورج دیوتا کی پوجا کی تو اسے برص سے نجات مل گئی' اس نے شکرانے کے طور پر آدیتیا کا مندر بنوایا، اس میں سورج دیوتا کی طلائی مورتی رکھی گئی اور سورج دیوتا کی پوجا کو ایک بار پھر ملتان میں رائج کیا۔

قدیم عہد میں دیکھا جائے تو ملتان کا موسم یہاں دریاؤں کی موجودگی کی وجہ سے خاصا اعتدال میں تھا' رگ وید کی جلد چہارم کے مطابق ''عہد قدیم میں سات دریا جہلم' چناب' راوی، بیاس' ستلج اور سرسوتی ملتان کو نقطہ اتصال بنا کر پنجہ کی شکل میں بہتے تھے'' لیکن بعد کے ادوار میں یہ تمام دریا ملتان سے دور چلے گئے اور ملتان شہر کے گرد ایک بے آب و گیاہ ریگستان ابھر آیا' یہی وہ دور تھا کہ جب ملتان میں دریا اور پانی کی پوجا کا آغاز ہوا' ملتان اور گردونواح میں وسیع پیمانے پر پانی کی پوجا رائج ہونے کے پس منظر میں بھی یہاں کی گرمی ہی دکھائی دیتی ہے۔

پانی کی پوجا کی نمایاں اقدار میں پانی سے بھرے ہوئے گڑھے کے سامنے یا نہروں کے کنارے دیئے جلانا' چاند کی دوسری اور چودھویں تاریخ کو برت رکھنا اور ہر ہفتے دریا میں غسل کرنا شامل ہیں۔ یہاں یہ امر نہایت دلچسپ ہے کہ ملتان میں پانی کی پوجا نے سورج کی پوجا پر فوقیت حاصل کر لی تھی جس کے لئے ملتان بہت مشہور ہوا کرتا تھا' تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پانی کی پوجا کے مرکزی دن اتوار (ادیتیاوار) کے روز دھاونی (غسل) کے تہواروں کا ہونا پوجا کی دونوں صورتوں کے درمیان ایک تاریخی تعلق کی نشاندہی کرتا ہے۔ ملتان کی گرمی کو جغرافیائی اور سائنسی پہلو سے دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ملتان شہر سطح سمندر سے 402 فٹ بلند ہے۔

ملتان چونکہ ریگستانوں کے کنارے آباد ہے اس لیے بحیرہ عرب سے اٹھنے والی بارش کی ہواؤں کو روکنے کیلئے یہاں کوئی پہاڑ نہیں' دوسری طرف خلیج بنگال سے چلنے والی ہواؤں کو یہاں تک پہنچنے کے لئے طویل سفر کرنا پڑتا ہے جس سے بارش کا سارا زور راستے میں ہی ختم ہو جاتا ہے اور یہ علاقہ بارش کی کمی کا شکار رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کا موسم گرم اور خشک رہتا ہے' اس خطے میں بارشوں کا نہ ہونا بھی گرمی کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ ریگستان کی جانب سے چلنے والی ہوائیں اپنے ہمراہ کثرت سے گرد و غبار لاتی ہیں' اس طرح ملتان میں گرد اور گرما قطعی طبعی ہیں۔

علم جغرافیہ کے ماہرین گرد اور گرما میں علت و معلول کا تعلق بتاتے ہیں یعنی گرمی اور تپش کی صورت میں ہوا کے دباؤ میں کمی بیشی رونما ہوتی ہے جس سے خاکی ذرات آندھی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ سر الیگزنڈر کنگھم کی کتاب ''ہندوستان کا قدیم جغرافیہ'' میں لکھا ہے کہ ''ملتان کے لوگ عام طور پر صحت مند ہوتے ہیں صرف بارشوں کے دنوں میں بیمار ہو جاتے ہیں اور بارشیں ملتان میں کبھی نہیں ہوتیں''۔

دنیا کے مختلف خطوں سے آنے والے سیاحوں نے بھی یہاں کی گرمی کا تذکرہ اپنے سفر ناموں میں کیا ہے۔ البیرونی جو گیارہویں صدی میں ملتان آیا اپنے سفرنامے میں لکھتا ہے کہ ''ملتان کے لوگ مجھے بتایا کرتے تھے کہ یہاں بارش کا موسم نہیں ہوتا'' ایک انگریز آفیسر جان ڈنلپ نے ملتان کے اندرون شہر کے بارے میں لکھا ہے کہ ''تین میل سے زیادہ رقبہ پر محیط یہ شہر' شہر پناہ کے اندر واقع ہے جو چالیس سے پچاس فٹ تک بلند ہے۔

اندرون شہر مکانات پختہ اینٹوں سے تیار کئے گئے ہیں، بعض مکانات کی بلندی چھ سے سات منزلہ ہے۔ یہ باہمی طور پر بالکل قریب قریب گلیوں میں واقع ہیں اور ان کی یہ ترتیب روشنی اور حرارت دونوں کو یکساں طور پر ان تک آنے سے روکتی ہے۔ یہ اہتمام بنیادی طور پر اس لئے کیا گیا ہے کہ ملتان کو گرمیوں میں ہندوستان کا گرم ترین مقام ہونے کی شہرت حاصل ہے''۔ برطانوی سیاح جی ٹی وگنے جو 1836ء میں ملتان میں مقیم رہا، اس نے 1840 میں لندن سے شائع ہونے والے اپنے سفرنامے میں لکھا ہے کہ ''ملتان ایک گرد آلود اور افلاس زدہ شہر ہے' گلیاں تنگ اور مکانات کچی اینٹوں کے بنے ہوئے ہیں۔ ملتان شہر کے گرد بہت سے نالے کھدے ہیں جن کی گہرائی زیادہ نہیں تمام نالے ایک دوسرے سے ایک بڑے کٹاؤ یا سوراخ کے ذریعے پیوستہ ہیں۔ گرمیوں کے دنوں میں یہ نالے دریائے چناب کے پانی سے بھر دیئے جاتے ہیں''۔

1867ء میں شائع ہونے والی تاج الدین مفتی کی کتاب ''تاریخ پنجاب'' کے مطابق ''ملتان میں خشک سالی بہت رہتی ہے، خطہ ریگستان' پیداوار نیست' بہ نسبت خطہء پنجاب ملتان میں باران کم، تمام سال میں اگر ایک آدھ مرتبہ بھی بارش ہو جائے تو لوگ اسے غنیمت سمجھتے ہیں اور مانند آب حیات سرمایہء حیات جانتے ہیں۔ زمینداران کا گزارا بالعموم بتوکل آب آسمان ہے، انار بہت عمدہ اور افراط سے ہوتا ہے''۔

ایک دور تھا کہ ملتان شہر چار اطراف سے باغوں سے گھرا ہوا تھا، مغلیہ دور حکومت اور اس کے بعد کے ادوار میں بھی ملتان شہر میں کثرت سے باغات لگوائے گئے۔ ملتان کے ان مشہور باغوں میں سے باغ لانگے خان اور عام خاص باغ اب بھی موجود ہیں لیکن شہر کے وہ باغات جو ناپید ہو گئے آج بھی ان کے نام شہر کی زندگی اور تاریخ میں موجود ہیں۔ ان میں باغ عابد خان' حضوری باغ' شیش محل باغ' باغ بیگی' باغ دیوان والا' باغ قصائی والا' باغ زمان قریشی والا' باغ غوث محمد والا اور جیسمل والا باغ شامل تھے۔ ملتان ایک دور میں ثمردار درختوں کی وجہ سے بھی مشہور تھا، شروع میں یہاں آم' انار اور کھجور کی پیداوار ہوتی تھی۔

ملتان کا انار بہت مشہور تھا۔ ہر سال لاکھوں روپے کا انار صرف ہندوستان کے مختلف شہروں میں جاتا تھا اور ملتان ہی پورے براعظم پاک و ہند میں انار کی ضرورت پوری کرتا تھا۔ ملتان کی گرمی ایک طرح سے اس خطے کی بقاء کی علامت بھی ہے، گرمی نہ ہو تو یہاں کے کاشتکار پریشان ہو جاتے ہیں کہ ہماری فصلیں کیسے پکیں گی۔ گرمی کے موسم میں یہاں کی اہم ترین فصلیں تیار ہوتی ہیں جن میں گندم' جو' خربوزہ' تربوز' کھیرے' بینگن' توری' تمباکو' کریلا' کدو' کھجور' پوست اور بھنگ شامل ہیں۔ ماضی میں باغات اور اشجار کی بہتات کی وجہ سے ملتان کا موسم خاصا معتدل ہوتا تھا۔ اورنگزیب عالم گیر ملتان سے اتنا مانوس تھا کہ اپنی شہزادگی اور بعدازاں بادشاہی کے زمانہ میں بھی جب کبھی اسے سستانے یا آرام کرنے کا موقع ملتا تو سیدھا ملتان آتا' ملتان شہر کے باغات زیادہ سکھ دور حکومت میں اُجڑے، اس کے بعد شہر میں کسی بھی حکمران کے دور میں شجرکاری پر توجہ نہیں دی گئی۔



یہی وجہ ہے کہ ملتان دیگر شہروں کی نسبت زیادہ گرم ہے حالانکہ پاکستان میں سب سے زیادہ گرم شہر سبی اور جیکب آباد ہیں ان کے مقابلہ میں ملتان نسبتاً کم گرم ہے لیکن گرمی کے حوالے سے برصغیر بھر میں صرف ملتان ہی معروف ہے۔ دیکھا جائے تو ملتان کی گرمی ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکی ہے کیونکہ کرہ ارض کے جس مقام پر ملتان واقع ہے وہاں سورج کچھ زیادہ ہی آنکھیں دکھاتا ہے۔ سورج جسے غالب نے ''نگار آتش'' کہا تھا کی شوخ نگاہی کا گلہ ملتان کا اصل مکینوں سے زیادہ باہر سے آنے والے کرتے ہیں، ملتان میں سال کے آٹھ مہینے گرمی پڑتی ہے، مارچ سے لے کر اکتوبر تک سڑکوں پر ہو کا عالم ہوتا ہے' سنسان سڑکیں دیکھ کر دور سے ایسا لگتا ہے کہ تنور کی اوپر کی ہوا کی طرح ہر منظر ہل رہا ہو' بقول امیر انیس:

خس خانہ مثرہ سے نکلتی نہیں نظر

ملتان میں ماہ اپریل سے گرمی کا آغاز ہوتا ہے' اپریل اور مئی میں صبح وشام خوشگوار ہوتے ہیں' دوپہر کو باہر نکلنے کو بالکل جی نہیں چاہتا' سڑکیں دہکتی ہوئی بھٹی کی طرح دکھائی دیتی ہیں۔ درجہ حرارت اپریل تا ستمبر کم از کم 28 اور زیادہ سے زیادہ 49 سینٹی گریڈ تک رہتا ہے' جبھی تو کسی فارسی شاعر نے کہا تھا:

تو کہ ملتاں ساختی


دوزخ چہ را پرداختی؟

ملتان شہر میں اس شدید ترین موسم کو برداشت کرنے کی شہریوں کی اپنی قدیم ثقافت ہے جو صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔ ملتان کے قدیم شہر میں جو فصیل کے اندر واقع ہے میں تنگ وتاریک اور دو دو تین تین منزلہ مکانات بنائے جاتے تھے لیکن ان تعمیرات میں ہوا کے گزر کا خیال ضروری رکھا جاتا تھا۔ گرمی کی وجہ سے ہی ملتان میں قدیم عہد میں باریک سوتی کپڑا بنانے کا آغاز ہوا۔ پرانے زمانے میں یہاں مردوں کا لباس قمیض اور تہبند جبکہ خواتین چولی اور گھاگھرا پہنا کرتی تھیں۔ گرمی کے موسم کا سب سے بڑا تہوار ''ساونی'' ہوتا تھا، ساونی کے لئے نالہ علی محمد جو شہر کے وسط میں بہتا تھا اور منابھگت گھاٹ بہترین مقامات تھے۔

لوگ گرمیوں میں اس نہر کے کنارے بیٹھے رہتے تھے، عورتیں اس کے کنارے کپڑے دھوتیں' لوگ چھٹی کے دن یہاں ''ساونی'' مناتے جو ایک طرح کی پکنک ہوتی تھی۔ شدید گرمی کی وجہ سے ہی اس خطے میں بھنگ اور سردائی پینے کا رواج پڑا' اس کے علاوہ فالودہ' رس ملائی' ربڑی' ٹھنڈی کھیر بھی گرمیوں کی مرغوب غذائیں ہیں، ملتان کا روایتی کھانا دال مونگ بھی گرمیوں کے موسم میں ہی زیادہ فروخت ہوتا ہے۔ ملتان شہر میں چونکہ دن کے اوقات میں بہت زیادہ گرمی پڑتی ہے، اس لئے شادی بیاہ اور تقاریب کا اہتمام بھی رات گئے کیا جاتا ہے۔

عزیز و اقارب اور دوستوں سے ملاقاتیں بھی مغرب کے بعد ہی شروع ہوتی ہیں گپ لگانے والے رات کا کھانا کھا کر باہر نکلتے ہیں' شہر کے تمام دروازوں کے باہر رات کو چائے کے ہوٹلوں پر محفلیں لگتی ہیں۔ ملتان شہر میں بارشوں کے بجائے آندھیاں بڑے تسلسل سے آتی ہیں، کالی آندھی جو کوہ سلیمان کی طرف سے آتی ہے' گردوغبار کا طوفان لے کر آتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ملتان میں آندھی کا کوئی وقت نہیں' بیٹھے بٹھائے گھر ریگستان بن جاتا ہے۔ ملتان کے ایک انگریز ڈپٹی کمشنر نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا ''ملتان میں بس ایک ہی آندھی چلتی ہے جو اپریل کے اوائل سے اکتوبر تک رہتی ہے''۔

قدیم ملتانی کہاوتوں میں موسموں کا ذکر بھی کیا گیا ہے، جیسے آندھی کے حوالے سے یہ کہاوت:

آئی ملتان دی واری...... ہامہینہ بن گئی اندھاری

(ملتان کی باری آئی تو بارش آندھی میں تبدیل ہو گئی)

دیوان آتمانند شرر نے قیام پاکستان سے پہلے ''ملتانی ضرب الامثال'' کا ایک مختصر مجموعہ ترتیب دیا تھا۔ اس میں شامل ایک کہاوت میں موسموں کے حوالے سے اس علاقہ کی لوک دانش دکھائی دیتی ہے:

چیت وساکھ گُھمے
جیٹھ ہاڑ سُمے
ساون بھادوں دھانوے
اَسوں کتیں تھولا کھاوے
طبیباں پاس مول نہ جاوے

ترجمہ (چیت وساکھ یعنی 10 مارچ سے 15 مئی تک جو موسم ہوتا ہے وہ ایسا خوشگوار ہوتا ہے کہ انسان سیروسیاحت کرے۔ جیٹھ ہاڑ یعنی 15 مئی سے 15 جولائی تک صحت کو برقرار رکھنے کیلئے دوپہر کی نیند لازمی ہے۔ اسی طرح ساون بھادوں یعنی 15 جولائی سے 15 ستمبر تک موسم میں کم کھانا ازحد مفید ہے جو ان باتوں پر عمل کرتا ہے اسے کسی حکیم کے پاس جانے کی ضرورت ہی نہیں رہتی)۔

حضرت شاہ شمسؒ کی روایت
ملتان کے معروف صوفی حضرت شاہ شمس سبزواریؒ کے حوالے سے بہت سی کرامات زبان زدعام ہیں لیکن ان سے وابستہ ایک روایت ایسی ہے جو ملتان کی گرمی سے متعلق ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت شاہ شمسؒ کی ملتان آمد کے بعد انہوں نے کہیں سے گوشت کا ایک ٹکڑا یا مچھلی حاصل کی جب کسی نے بھی انہیں گوشت بھون کر نہ دیا تو انہوں نے گوشت ایک نیزے پر چڑھا کر سورج کی جانب اوپر کیا' نتیجتاً سورج اتنا نیچے آ گیا کہ مچھلی بھونی گئی۔ اس واقعہ کے حوالہ سے آج بھی یہاں کے باسی ملتان کی ضرب المثل گرمی کی وجہ اس واقعہ کو قرار دیتے ہیں۔

آہ یخ بخارا... اس گرمی میں تجھے کہاں سے لاؤں
حضرت جلال الدین بخاریؒ جو حضرت سید علی کے صاحبزادے تھے' کی بخارا میں حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ سے ملاقات ہوئی تو وہ ان کی روحانی صلاحیتوں سے بہت متاثر ہوئے، آخر انہیں شیخ الاسلام کی محبت ملتان کھینچ لائی، ایک دن ملتان کی گرمی سے گھبرا کر کہنے لگے:

آہ یخ بخارا! درچنیں حرارت ترا کجا یابم

(آہ' بخارا کی ٹھنڈک' تجھے اس گرمی میں کہاں سے لاؤں)

حضرت شیخ الاسلامؒ کو حضرت جلال الدین بخاریؒ کی کیفیت کا علم ہوا تو آپ نے دست دعا بلند کیا دفعتاً آسمان پر ایک چھوٹا سا ابر کا ٹکڑا نمودار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے خانقاہ پر پھیل گیا، تیز بارش کے ساتھ اولے بھی پڑنے لگے۔ سید جلالؒ بڑے خوش ہوئے اور ژالہ اُٹھا کر کھانے لگے، اسی دوران شیخ الاسلام باہر تشریف لائے اور سید جلالؒ سے مسکرا کر فرمایا ''دریں حال ژالہ ملتان خوب است یا یخ بخارا''

(ملتان کا ژالہ اچھا ہے یا یخ بخارا)

سید جلال الدین بخاریؒ نے جواب دیا ''ژالہ ملتان از یخ بخارا ہزار درجہ بہتر واولیٰ است

(اس حالت میں ملتان کے اولے یخ بخارا سے ہزار درجہ بہتر اور افضل ہیں)۔
Load Next Story