عزت کے نام پر قتل
سوشل میڈیا کے ذریعے شہرت حاصل کرنے والی قندیل بلوچ کو اس کے بھائی نے گلا گھونٹ کر قتل کر دیا۔
سوشل میڈیا کے ذریعے شہرت حاصل کرنے والی قندیل بلوچ کو اس کے بھائی نے گلا گھونٹ کر قتل کر دیا۔ قندیل کے بھائی کا کہنا ہے کہ اس نے غیرت کی بناء پر قتل کیا۔ اب مولانا عبدالقوی کو شامل تفتیش کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والی قندیل بلوچ کی شوبز کی عمر بہت زیادہ نہیں تھی۔ اس نے گلوکار ی کی کوشش کی اور پھر عمران خان سے شادی کی خواہش کا اظہارکیا۔ اصل شہرت سوشل میڈیا پر ان کی متنازعہ تصاویر اور ویڈیوز کی بناء پر ہوئی۔ بعض حلقوں نے قندیل کی ان سرگرمیوں کو غیر سماجی اور اشتعال انگیز قرار دیا۔ تمام اخلاقی حدودکو پارکر لیا تھا، الیکٹرونک میڈیا کی ریٹنگ کا معاملہ بھی ابھر کر سامنے آیا۔
دیہی سندھ، جنوبی پنجاب اور بلوچستان میں عزت کے نام پر قتل عام سی بات ہے۔ عزت کے نام پر اپنی ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کا قتل کیا جاتا ہے، پھرقصاص و دیت کے قانون کے تحت گھر کا سربراہ قاتل کو معاف کر دیتا ہے اور ملزمان ایک ڈیڑھ سال جیل میں گزارنے کے بعد رہا ہو جاتے ہیں۔ جب گھر کے افراد اپنے عزیزکو معاف کر دیتے ہیں تو پھر کہیں اور اس معاملے کا خیال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کاروکاری کے موضوع پر تحقیق کرنے والی سعدیہ بلوچ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ان علاقوں میں جب فصل لگتی ہے تو دوسری طرف عورتوں کے سر کٹتے ہیں۔
وہ لکھتی ہیں کہ جب فصل تیار ہوتی ہے تو مردوں کے پاس پیسے آتے ہیں، ان پیسوں سے وہ دشمنوں کو ٹھکانے لگاتے ہیں، نئی شادیاں کرتے ہیں اور زیادہ رقم ہونے کی صورت میں نئے کپڑے اور موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں خرید لی جاتی ہیں۔ اپنے دشمنوں کو قتل کرنے کے لیے اپنی عورتوں کو بھی قتل کر دیتے ہیں، یوں عزت کی بنیاد پر قتل مرد کا وقار بن جاتا ہے۔ عام طور پر ایسے مقدمات جرگے میں جاتے ہیں۔ جرگے میں مختلف قبائل کے عمائدین بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ عمومی طور پر وہ افراد جو اپنے قبیلے کے سردار اور عمائدین کی زیادہ خدمت کرتے ہیں فیصلے ان کے حق میں ہوتے ہیں۔ جرگوں میں عورتوں کی کوئی نمایندگی نہیں ہوتی، یوں جرگوں کے فیصلے کے تحت قتل ہونے والی عورتوں کی باقاعدہ تدفین بھی نہیں ہوتی۔
سندھ میں کاری ہونے والی خواتین کی علیحدہ فہرستیں ہیں۔ 2008ء سے 2014ء تک 3000 عورتیں عزت کے نام پر قتل کی گئیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ اگر کاری قرار دی جانے والی عورت کسی وجہ سے زندہ بچ جائے تو اس کو سردار کی حویلی میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں اس کی حیثیت باندی کی سی ہوتی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکن اختر بلوچ کی عرضداشت پر سندھ ہائی کورٹ نے صوبے میں جرگوں کے انعقاد پر پابندی لگا دی تھی مگر بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں ایسی کوئی قانونی پابندی نہیں ہے۔ سندھ میں اعلیٰ عدالت کے احکامات کے باوجود جرگے منعقد ہوتے ہیں۔
وزراء، اراکینِ اسمبلی، سیاست دان اور پولیس افسران جرگوں میں شرکت کرتے ہیں اور اس کے فیصلوں پر عملدرآمد کراتے ہیں۔ مغلوں کے دور میں اور پھر دیہی ریاستوں میں عزت کے نام پر قتل کرنے والا مرد باعزت سمجھا جاتا تھا۔ انگریز حکومت نے عزت کے نام پر قتل کو قتل عمد قرار دیا تھا، یوں انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 302 کا اطلاق ہوتا تھا مگر پاکستان بننے کے بعد اشتعال میں آ کر قتل کو قتل عمد کی تعریف سے علیحدہ کر دیا گیا۔ قصاص اور دیت آرڈیننس کے نفاذ سے پہلے صرف ریاست کو سزا کی معافی کا اختیار تھا۔
سزائے موت پانے والے قیدی جیل کے سپرنٹنڈنٹ کی مدد سے معافی کی عرضداشت تیار کر کے صوبے کے گورنر کے توسط سے صدرِ پاکستان کو بھیجتے تھے۔ صدرِ پاکستان وزارتِ داخلہ اور وزارتِ قانون کی طرف سے سمری کے مطالعے کے بعد حتمی فیصلہ کرتے تھے، مگر قصاص اور دیت آرڈیننس کے نفاذ کے بعد ملزمان کو مقتولین کے ورثاء سے راضی نامے کا اختیار مل گیا، یوں عزت کے نام پر قتل کرنے والوں کو باعزت رہا ہونے کا راستہ مل گیا۔ کرمنل لاء ترمیم بل 2004ء کے تحت عزت کے نام پر قتل کو پرائیوٹ قتل قرار دیا گیا، اس طرح عزت کے نام پر قتل کرنا اور باعزت زندگی گزارنا آسان ہو گیا۔
عزت کے نام پر قتل کے مسئلے پر نیشنل عوامی پارٹی کی ساکھ متاثر ہو چکی ہے۔ 90ء کی دھائی میں پشاور کے خاندان کی ایک لڑکی نے پسند کی شادی کے حق کو استعمال کرتے ہوئے لاہور میں ایک ہوسٹل میں پناہ لی تھی۔ اس کی والدہ جو ڈاکٹر تھی نے ایک نوجوان کے ساتھ ہاسٹل میں اپنی بیٹی سے ملاقات کی۔ ماں کے اشارے پر اس نوجوان نے، جو اجرتی قاتل تھا، لڑکی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ پولیس کانسٹیبل کی فائرنگ سے اجرتی قاتل بھی ہلاک ہو گیا تھا۔ حکومت نے اس لڑکی کی ماں کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا تھا۔ جب سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے اراکین اقبال حیدر اور بیرسٹر اعتزاز احسن نے عزت کے نام پر قتل کی مذمت کی قرارداد پیش کی تو صرف ایم کیو ایم کے حامی معروف شاعر و ادیب جمیل الدین عالی نے قرارداد کی حمایت کی تھی۔
مسلم لیگ اور مذہبی جماعتوں کے علاوہ نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما ممتاز شاعر اجمل خٹک اور ان کے ساتھیوں نے بھی اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ عزت کے نام پر عورتوں کے قتل کی شرح بڑھنے کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں نے کوشش کی کہ اس قانون میں ترمیم کی جائے، ایوانِ بالا یعنی سینیٹ نے اس قانون میں ترمیم کا قانون منظور کیا تھا مگر قومی اسمبلی میں واضح اکثریت نہ ہونے کی بناء پر ترمیمی بل قانون نہیں بن سکا تھا۔
قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور نیشنل پارٹی نے اس قانون کی مکمل حمایت کی تھی مگر مذہبی جماعتیں اس کے حق میں نہیں تھیں، یہی وجہ تھی کہ مسلم لیگ ن نے مذہبی جماعتوں کے دباؤ کی وجہ سے اس قانون کو قومی اسمبلی سے منظور نہیں کرایا۔ وزیراعظم نواز شریف نے آسکر ایوارڈ یافتہ شرمین چنائے کے اعزاز میں وزیر اعظم ہاؤس میں دیے گئے استقبالیہ میں یہ اعلان کیا تھا کہ وہ اس قانون کو قومی اسمبلی سے منظور کرائیں گے۔ اس بل کے ساتھ ہی خواتین پر مجرمانہ حملوں میں ڈی این اے ٹیسٹ کو بطور شہادت تسلیم کرنے کا بل بھی قومی اسمبلی میں التواء کا شکار ہے۔
میاں نواز شریف کو پنجاب میں خواتین کے تحفظ کے بل کی طرح جرات مندانہ فیصلہ کرنا چاہیے۔ مسلم لیگ ن کے علاوہ تحریکِ انصاف کو بھی اس سلسلے میں واضح مؤقف اختیار کرنا چاہیے اور عزت کے نام پر قتل کرنے والوں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ قندیل قتل کیس میں عوامی دباؤ پر اب ریاست مدعی بن گئی ہے، اس بناء پرکسی فرد کو قاتل کو معافی کا اختیار نہیں رہا مگر ہر مقدمے میں ایسا نہیں ہوتا۔ قندیل بلوچ کے کردار پر جتنی بھی تنقید کی جائے مگر قندیل سمیت کسی انسان کے قتل کا کسی فرد کو حق نہیں ہے۔ قاتل کو خواہ وہ مقتول کا قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہو اس کے جرم کی قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔