کشکول کب پھینکیں گے

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ، ترقی پذیر ممالک کو امداد فراہم کرتے ہیں،


فرح ناز July 23, 2016
[email protected]

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ، ترقی پذیر ممالک کو امداد فراہم کرتے ہیں، ان میں مالی امدادی قرضے سرفہرست ہوتے ہیں تاکہ ان ترقی پذیر ممالک میں عوام کی زندگی کا معیار بہتر سے بہتر ہو، تعلیم و صحت کا معیار بہترین ہو، کوئی ملک کسی دوسرے ملک پر حد سے زیادہ مہربان ہو تو یقینا اس کے مفادات بھی حد سے زیادہ ہوں گے۔

برطانیہ میں حال ہی میں ریفرنڈم ہوا اور عوام سے پوچھا گیا ہے برطانیہ یورپی یونین سے علیحدہ ہو یا ان کا حصہ رہے۔ عوام کی اکثریت نے علیحدگی کے حق میں فیصلہ دیا، اس فیصلے سے پاؤنڈ کی قیمت کو دھچکا لگا، پہلے ہی روز پاکستانی روپے کے مقابلے میں پاؤنڈ کی قدر میں 6 روپے کی کمی دیکھنے میں آئی۔ دوسرے دن دنیا کی اسٹاک مارکیٹیں کریش کر گئیں ۔ یہ انٹرلنک معاملات تمام دنیا میں ایک دوسرے ممالک پراثرانداز ہوتے ہیں، اگر ان ممالک کی معیشت بہترین فام میں ہوتی ہے تو یقینا نتیجہ دوسرے ممالک کے حق میں بھی بہترین ہوتا ہے۔

برطانیہ سے پاکستان کے تعلقات اچھے ہیں اور پھرامریکا پاکستان کے تعلقات بھی 70 برسوں پر محیط ہیں، مگر بدقسمتی سے امریکا اور پاکستان کے تعلقات بداعتمادی کا شکار رہے ہیں، مگر سلسلہ ٹوٹتا اور جڑتا رہا ہے۔ اس لیے کہ دونوں ممالک کا ایک دوسرے سے تعلق برقرار رکھنا اپنے اپنے مفادات کا تحفظ ہے۔ امریکا جنوبی ایشیا خطے میں پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر اسے شیشے میں اتارے رہنا چاہتا ہے اور پاکستان کی مجبوری یہ ہے کہ اسے بھاری امداد کے لیے امریکی خواہشات پر بھاری دل کے ساتھ ہاں کہنی پڑتی ہے۔

امریکا پہلا ملک تھا جس نے آزاد پاکستان کو قبول کیا، امریکی صدر ٹرومین نے آزاد ملک کے قیام پر قائداعظم کو تہنیتی کا پیغام بھی بھیجا۔ آج تک امریکا منتظر ہے کہ پاکستان انسانی فلاح و بہبود کے لیے اپنا موثر تعمیراتی کردار ادا کرے، مگر دل ہے کہ مانتا نہیں بے حساب بیرونی امداد اللہ جانے کن سرنگوں میں دفن ہو رہی ہے کہ عوام کی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے ،اب تو پورا معاشرہ افراتفری کا شکار نظر آتا ہے۔ غربت و افلاس کی وجہ سے خودکشیاں عام ہوتی جا رہی ہیں، والدین اپنی اولاد کو غربت کے ڈر سے مارنے پر مجبور نظر آتے ہیں، تھر سندھ کا وہ علاقہ جہاں سالہا سال سے بڑے اور بچے شدید غربت و افلاس کا شکار ہیں اور تڑپ تڑپ کر جان دے دیتے ہیں۔ حکومت بے تحاشا رقم پروٹوکول کی مد میں خرچ کرتی ہے مگر اس کو مرتے لوگ نظر نہیں آتے ۔ افسوس صد افسوس کہ صرف چند سو افراد کیسے کیسے کرتب دکھا کر اتنا کچھ ہڑپ کر جاتے ہیں عوام کی فلاح وبہبود اپنی جگہ یہاں توعوام کو دووقت کی روٹی نصیب نہیں ۔

نہ جانے یہ کون سا اسکرپٹ ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ ڈرامائی سچویشن پیدا کی جاتی ہے۔ کس طرح لٹیروں کو ہیرو بنایا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر سیاستدان کسی فلم کے کردار سے شدید متاثر ہے۔ اور وہ اس کردار میں مزید ایکسل کرکے کردار کو لاثانی بنانے پر تلا ہوا ہے۔ مگر جناب اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے، ظلم کا معاشرہ کبھی زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتا، انسانی دماغ اور انسانی چالیں کتنی ہی شاطرانہ کیوں نہ ہوں، کتنی ہی دیرپا کیوں نہ ہوں، بدقسمتی سے ہر چیز فانی ہے، ختم ہونے والی ہے۔ اور جب یہ شیطانی دماغ اور شیطانی چالیں ختم ہونے پر آتی ہیں تو شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ ایسے لوگ کہیں امان نہیں پاتے بلکہ باعث عبرت بن کر رہ جاتے ہیں۔

کروڑوں، کھربوں کی امداد کارپوریٹ کلچر کی نظر ہو رہی ہے۔ چند ہزار افراد بادشاہوں کی زندگی گزارنے پر مصر ہیں۔ اداروں کو پیرکی جوتی بناکر اپنی من مانیاں کی جا رہی ہیں، مایوسی اور بے بسی آخرکب تک سانسیں لے گی؟

امریکا اور دوسرے ممالک جو ہمیں امداد دے رہے ہیں، اس کے باوجود ہم کمزور سے کمزور تر، بدحال، ہر طرف قتل و غارت گری ، مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں اس وقت بیرونی اور اندرونی دونوں محاذوں پر جنگ کی صورتحال کا سامنا ہے لیکن ہمیں اس کے لیے سب سے پہلے اندر کے دشمن کی نشاندہی کرنا ہوگی۔ امریکا اور برطانیہ اور دوسرے ممالک جو ہمیں فنڈز دیتے ہیں اور ہماری اندرونی پالیسیوں پر بھی نظرانداز ہوتے ہیں بارہا ہمیں تنبیہہ کرتے رہتے ہیں کہ ہم سنبھل جائیں ابھی بھی وقت ہے مگر بدمستی ایسی ہے کہ جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔2001 میں جب امریکا نے افغانستان پر ظلم وستم کا سلسلہ شروع کیا اور قبضے کی جنگ شروع کی اس وقت بھی پاکستان نے امریکا کا ساتھ دیا۔

حالانکہ مفادات افغانستان سے بھی پاکستان کے بہت تھے اور ہیں۔ حج پالیسیوں کے فقدان نے پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا اور میرے خیال میں شخصی پالیسیاں اور اس شخصیت کے ساتھ پالیسیوں کا رائج ہونا بھی پاکستان میں خرابی کا باعث بنا۔ ملکی مفادات بہت ہی لانگ ٹرم پر بنائے جاتے ہیں کئی سالوں کی پلاننگ کئی آگے آنے والے سالوں کے لیے ہوتی ہے اور سب سے اہم انسانی جان اور ملکی ترقی و کامیابی، ملکی وقار، معیشت کی مضبوطی، امن و امان و سلامتی۔

مگر تخت جس کے حصے میں آیا اس نے اپنے آپ کو بقراط یا چنگیز خان سمجھا وہی کیا، ان لوگوں نے ملک کا کچھ سوچا نہ سوچا مگر اپنی آنے والے نسلوں کے لیے محفوظ کرلیا۔ اتنا بڑا اللہ اعزاز دے پورا ملک آپ کے ہاتھوں میں دے تو یہ کیا بدقسمتی نہیں کہ آپ لاکھوں لوگوں کے بھلا کرسکنے کی صلاحیت اور موقع کو ضایع کردیں اور اپنا نام ان جاں نثاروں سے نکال کر غداروں میں شامل کروالیں جن کو تاریخ برے برے القابات سے یاد کرے اور جن کی اولاد کو اس کے باوجود کہ وہ سونے کے برتنوں میں کھائیں اور سونے کے چمچ استعمال کریں مگر برے برے القابات سے پکارا جائے۔

مغربی ممالک کتنے ہی برے ہمارے لیے کیوں نہ ہوں مگر کم ازکم اپنے عوام کے لیے تو وہ بہترین ہیں، ڈیوڈ کیمرون کی تازہ مثال ہمارے سامنے ہے۔ ابھی دبئی جیسے امیر ملک کے بادشاہ کی ویڈیو وائرل ہوئی جو اپنے بیٹے کے ساتھ لندن میں ٹیوب میں سفر کر رہے ہیں اس کے باوجود ہم بھکاری، بھیک منگے، جلاوطنی میں ان ملکوں سے مدد لینے والے خود کو پتا نہیں کون سے زمانے کے بادشاہ سلامت سمجھتے ہیں کہ اللہ کی پناہ!

ایسی طرم خانی کرتے ہیں پھر اسی ملک کی زمین کے لیے ترستے ہیں آخر کون سمجھائے گا، کہنے کو مسلمان، حرم شریف اور روضہ مبارک کی عزت و احترام میں پاگل ہم لوگ کب اس دین کو سمجھیں گے جس کو پانے کے بعد پانچ وقت سجدوں میں بھی اللہ سے ہمکلام ہوتے ہیں، پھیلے ہوئے ہاتھ کب دینے والے بنیں گے؟ کشکول کب پھینکیں گے کب محنت کی عظمت کو سمجھیں گے کب تک ان مغربی ممالک کے مفادات کو پروان چڑھاتے رہیں گے۔ میری زمین میرے لوگ میرا ایمان، اور ہم سب کے لیے مساوات اور عدل ہی ہماری تقدیر بدل سکتا ہے۔ کھاتے رہیے کروڑوں اربوں ڈالرز، بناتے رہیے امپائرز، کھڑے کرتے رہیے بڑے بڑے بزنس، پھر تاریخ کو تو بدل نہیں سکوگے نسل در نسل جو بو گے وہی کاٹو گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔