مدار اپنی مثال آپ
’مدار‘ ہمارےایک ایسےفنکارکا قصہ روز و شب ہےجواپنی ذہنی اورتخلیقی آزادی کے لیے تمام دنیاوی آسائشیں قربان کر سکتا تھا
KARACHI:
پاکستان وجود میں آیا تو ابتدا سے ان لوگوں کو بالادستی حاصل ہوئی جو اسے ایک قدامت پسند سماج میں تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ اس ملک کے قیام سے بہت سی آرزوئیں وابستہ کرنے والوں کو شروع میں ہی جھٹکا لگا۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ جس ملک کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں وہاں ایک ایسا سماج وجود میں آئے گا جہاں رقص، موسیقی، مصوری اور مجسمہ سازی کو بہ نظر تحقیر دیکھا جائے گا اور فنون لطیفہ کے ان شعبوں کو غیر اسلامی ٹھہرا کر، ان کی راہ میں روڑے اٹکائے جائیں گے۔
اس رویے کی پہلی قتیل محترمہ عطیہ فیضی اور ان کے شوہر فیضی راحمین تھے۔ اس وقت کے ہندوستان میں فنون لطیفہ سے وابستہ یہ جوڑا بانیٔ پاکستان کی فرمائش پر پاکستان آیا تھا تا کہ نوزائیدہ ملک میں مصوری، موسیقی اور مجسمہ سازی کو پروان چڑھا سکے لیکن ان دونوں کے ساتھ جو ہوا وہ ہماری تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔
ایسی صورت حال میں کون تھا جو اپنے مصوروں یا مجسمہ سازوں کے بارے میں کچھ لکھتا۔ ایک ایسے دور میں جب مشہور زمانہ ڈچ مصور وان گوگ کی زندگی اردو میں 'روپ سروپ' کے نام سے آئی اور اسے پڑھا تو اندازہ ہوا کہ اپنا ہی کان کاٹ لینے والے اس مصور کی زندگی کتنی پیچیدہ اور تہلکہ خیز تھی۔ آج 130 برس بعد اس کا کٹا ہوا کان مغرب کے ثقافتی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ کئی مصوروں کی زندگیوں کو مغرب میں ناول کے رنگ میں لکھا گیا ہے لیکن ہمارے یہاں یہ روایت نہیں ملتی۔
شفیع عقیل کو فن مصوری سے بے حد لگاؤ تھا، اسی لیے وہ جس اخبار سے وابستہ تھے، اس میں پاکستان کے اہم مصوروں کے بارے میں لکھتے رہے تا کہ کسی نہ کسی حد تک لوگ اپنے مصوروں اور مجسمہ سازوں کے نام اور کام سے آگاہ ہو سکیں۔ بعد کے دنوں میں یہی کوشش شین فرخ کی بھی رہی۔ وہ 'اخبار خواتین' سے وابستہ تھیں اور اس کے صفحوں پر مصوری کی نمائشوں کے بارے میں مسلسل لکھتی رہیں۔ پچھلے برس ان کا ایک سوانحی ناول 'مدار' سامنے آیا جو ہمارے صف اول کے مصور علی امام کے بارے میں ہے۔
مختلف موضوعات پر شین فرخ کی کئی کتابیں اس سے پہلے بھی شائع ہو چکی ہیں لیکن 'مدار' کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ علی امام کی زندگی کو انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور وہ جو چھپے ہوئے گوشے تھے انھیں دریافت کرنے کے لیے انھوں نے علی امام سے طویل باتیں کیں۔ کسی بھی ایسے ماحول میں جہاں ادیبوں، مصوروں اور فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں سے وابستہ افراد کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہوں، جہاں ان کے روزگار کا کوئی بندوبست نہ ہو وہاں مشہور مصور ماتیس کا یہ جملہ کتنی معنویت رکھتا ہے کہ 'تخلیقی کام جرأت و حوصلے پر منحصر ہے'۔
شین فرخ نے ملک کے نامور مصور علی امام کی زندگی کو جس طرح قلم بند کیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے ابتدائی دور کے مصوروں کے لیے زندگی کس قدر کٹھن اور خطرات سے پُر تھی۔ علی امام پر کفر کا فتویٰ لگتا ہے۔ ان کے بچوں کی تعلیم خطرے میں پڑ جاتی ہے، ان کی جان کسی وقت بھی لی جا سکتی ہے، یہاں تک کہ وہ اور ان کی شریک حیات شہناز نہ چاہتے ہوئے بھی اس بات پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اپنے بچوں کو ملک سے باہر بھیج دیں۔
وہ آرٹس کونسل کراچی کے پرنسپل ہیں، اپنے طالب علموں کے لیے مرشد کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن سرکار جانتی ہے کہ باحوصلہ لوگوں کو کس طرح توڑا جا سکتا ہے۔ علی امام کی چند ہفتوں پہلے شادی ہوئی ہے، ایسے میں روزگار کی کسی بھی شخص کے لیے کتنی اہمیت ہو سکتی ہے، ہم سب جانتے ہیں۔
ایک صبح علی امام اپنے آفس میں داخل ہوتے ہیں تو ایک لفافہ ان کا منتظر ہے۔ اس میں ایک خط ہے جس میں انھیں بتایا گیا ہے کہ '' وہ بہت مغرب زدہ ہیں، نئی نسل کو گمراہ کر رہے ہیں، ضرورت سے زیادہ آزاد خیال ہیں، مشرقی اقدار سے ناواقف ہیں اور ہماری ثقافتی روایات کو برباد کر رہے ہیں۔ اگر آپ اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہیں تو بورڈ کی میٹنگ طلب کی جا سکتی ہے''۔
علی امام سکون سے یہ خط پڑھتے ہیں اور پھر پرنسپل کے عہدے سے استعفیٰ دے دیتے ہیں۔ لیکن انھیں روزگار کے لیے کچھ تو کرنا ہے۔ وہ کرائے کے مکان میں ایک گیلری قائم کر لیتے ہیں، عقبی حصے میں وہ ان کی بیوی شہناز اور دو بچے رہتے ہیں۔ یہ گیلری مصوروں اور مجسمہ سازوں کے لیے اپنی بانھیں کھولے ان کی منتظر ہے اور پھر یہ شہر کے متعدد فنکاروں کا ٹھکانہ بن جاتی ہے۔ یہیں ملک کے نامور مجسمہ ساز اور سنگ تراش شاہد سجاد کا بھی آنا جانا ہے۔ وہ دل برداشتہ ہو کر کہتے ہیں ''ہم جس ماحول اور جن حالات میں رہ رہے ہیں، وہ چاہے ہماری کُل زندگی ہو، ہمارے خواب ہوں یا ہماری توانائیاں، وہ سب سلب ہو کر رہ گئی ہیں، ساکت ہو چکی ہیں''۔
پاکستان پر مختلف آمریتوں میں جو کچھ گزری، اس نے عام لوگوں پر اور فنکاروں پر کیا اثرات مرتب کیے، شین نے انھیں سلیقے سے اپنے بیانیے میں پرو لیا ہے۔ لکھتی ہیں: ''یہ لوگ جو اس چھت کے نیچے جمع ہیں ان کے چہروں پر بے یقینی لکھی ہے۔ ارے بابا، کچھ تو کہو۔ یہ کچھ کہتے ہی نہیں۔ جب بھٹو کو پھانسی ہوئی تھی۔ یہ لوگ غمزدہ تھے۔ دکھی تھے لیکن گزشتہ 8-7 برسوں میں یہ اپنا رد عمل ظاہر کرنے کا ڈھنگ بھول گئے۔ وہ بے حس اور خالی خالی نظر آتے ہیں۔
عینی (ناول کا ایک بنیادی کردار) آج بھی، گزشتہ کئی برسوں کی طرح شاہراہ فیصل سے گزری تھی۔ اپنے دوستوں سے ملاقات اور نیوائیر ایوو منانے کے لیے۔ گزشتہ برسوں میں شہر کی اس بڑی سڑک کے کنارے انسانی کھوپڑیاں سجی ہوتی تھیں جن کی پاسبانی چند باریش حضرات کرتے تھے۔ یہ وارننگ ہوتی کہ خبردار کوئی خوشی نہ منانا، خبردار موسیقی کی دھن پر جھومنے نہ لگنا۔ ان تمام برسوں کے دوران کہیں سے کوئی سریلی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ صرف ہدایات ملتی تھیں۔ چادر اور چار دیواری کی حرمت بچاؤ۔ وی سی آر پر پابندی لگا دی گئی تھی کہ لوگ اس پر فحش فلمیں دیکھتے ہیں۔ جو اخلاق پر برا اثر ڈالتی ہیں۔ ''
علی امام نے ایک سرسبزو شاداب جنگل کے درمیان آنکھ کھولی، باپ فاریسٹ افسر، ڈار کی ڈار اڑتے ہوئے پرندے، آزاد ہوائیں۔ کوبرا سانپ، شیر اور انسان ایک ہی مٹی پر چلتے ہوئے۔ علی امام باپ کی خواہش پر سائنس پڑھنے کے لیے راضی نہیں تھے، انھیں لکیریں، رنگ اور آسمان کی وسعت اپنی طرف بلاتی تھی۔ وہ گھر سے بمبئی کے لیے نکلے اور کٹھن وقت گزار کر، انگلستان چلے گئے۔ وہ رہ نوردِ شوق تھے اور ان کا یہ شوق انھیں کہاں کہاں نہیں لے گیا۔
آخر کار وہ لوٹے اور لاہور اور کراچی میں مصوری کا پودا لگا کر اسے سینچنے لگے۔ انھوں نے محبتیں کیں، بے وفائیاں کیں، شادی کی، بچوں کے باپ بنے لیکن ہر مرحلے پر انھیں سیاست دوراں کا سامنا کرنا پڑا۔ نوجوانی میں وہ کمیونسٹ پارٹی کے ممبر تھے، جیل کاٹی اور یہ جانا کہ زنداں کی سلاخیں آزاد ہندوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔
'مدار' ہمارے ایک ایسے فنکار کا قصہ روز و شب ہے جو اپنی ذہنی اور تخلیقی آزادی کے لیے تمام دنیاوی آسائشیں قربان کر سکتا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ اسے اپنے تمام دوستوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے، شاید یہی خواہش تھی جس نے اسے، انڈس گیلری کی بنیاد رکھنے پر اکسایا۔ زیادہ سے زیادہ مصوروں کی بنائی ہوئی تصویریں ایک جگہ نظر آئیں۔ مل بیٹھنے کا، مکالمے کا سامان ہو اور دائیں بازو کی سیاست جس طرح آزاد سوچ پر پہرا بٹھا رہی تھی، اس کا کوئی توڑ کیا جا سکے۔
علی امام کی زندگی کو لفظوں کا لباس پہناتے ہوئے شین نے وہ معاملات بھی اٹھائے ہیں جو مغربی مصوری کی دنیا میں اپنا ایک الگ مقام رکھتے تھے۔ انھوں نے ڈاڈا ازم کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ دراصل جنگ کے خلاف احتجاج تھا۔ ڈاڈا ازم سے وابستہ ہونے والے مصوروں اور ادیبوں نے جرمن نسل پرستی اور جنگ زدگی کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ علی امام بھی یہی موقف رکھتے تھے۔ وہ پاکستان آتے ہیں تو 1965ء کی پاک انڈیا جنگ ختم ہو چکی ہے۔ لوگوں کو تاسف ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے کہ یہ جنگ دونوں طرف کے لوگوں کے لیے محض گھاٹے کا سودا تھی۔
'مدار' کے بارے میں سلیمہ ہاشمی نے یہ کہہ کر دریا کو ایک کوزے میں بند کر دیا ہے کہ: ''یہ تصنیف جس آرٹسٹ کی زندگی کی دستاویز ہے وہ یقینی طور پر مرکزی نقطہ ہے۔ لیکن وہ وسیع کینوس پر ایک موٹف کی مانند ہے۔ ان کے امیج کو موزیک کی مانند وضع کیا گیا ہے۔ ایک کشادہ تصویر میں سرتاسر رنگ و نقش کے دریا بہتے ہیں اور ہر موج اپنے جلو میں منطقی اور تاریخی مفہوم سمیٹے ہوئے ہے۔''
شین فرخ کارِ فرہاد کی قائل ہیں لیکن وہ اپنے تیشے کا استعمال فرہاد کی طرح نہیں کرتیں، وہ 'مدار' ایسا ناول لکھتی ہیں جو اردو میں اپنی مثال آپ ہے۔
پاکستان وجود میں آیا تو ابتدا سے ان لوگوں کو بالادستی حاصل ہوئی جو اسے ایک قدامت پسند سماج میں تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ اس ملک کے قیام سے بہت سی آرزوئیں وابستہ کرنے والوں کو شروع میں ہی جھٹکا لگا۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ جس ملک کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں وہاں ایک ایسا سماج وجود میں آئے گا جہاں رقص، موسیقی، مصوری اور مجسمہ سازی کو بہ نظر تحقیر دیکھا جائے گا اور فنون لطیفہ کے ان شعبوں کو غیر اسلامی ٹھہرا کر، ان کی راہ میں روڑے اٹکائے جائیں گے۔
اس رویے کی پہلی قتیل محترمہ عطیہ فیضی اور ان کے شوہر فیضی راحمین تھے۔ اس وقت کے ہندوستان میں فنون لطیفہ سے وابستہ یہ جوڑا بانیٔ پاکستان کی فرمائش پر پاکستان آیا تھا تا کہ نوزائیدہ ملک میں مصوری، موسیقی اور مجسمہ سازی کو پروان چڑھا سکے لیکن ان دونوں کے ساتھ جو ہوا وہ ہماری تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔
ایسی صورت حال میں کون تھا جو اپنے مصوروں یا مجسمہ سازوں کے بارے میں کچھ لکھتا۔ ایک ایسے دور میں جب مشہور زمانہ ڈچ مصور وان گوگ کی زندگی اردو میں 'روپ سروپ' کے نام سے آئی اور اسے پڑھا تو اندازہ ہوا کہ اپنا ہی کان کاٹ لینے والے اس مصور کی زندگی کتنی پیچیدہ اور تہلکہ خیز تھی۔ آج 130 برس بعد اس کا کٹا ہوا کان مغرب کے ثقافتی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ کئی مصوروں کی زندگیوں کو مغرب میں ناول کے رنگ میں لکھا گیا ہے لیکن ہمارے یہاں یہ روایت نہیں ملتی۔
شفیع عقیل کو فن مصوری سے بے حد لگاؤ تھا، اسی لیے وہ جس اخبار سے وابستہ تھے، اس میں پاکستان کے اہم مصوروں کے بارے میں لکھتے رہے تا کہ کسی نہ کسی حد تک لوگ اپنے مصوروں اور مجسمہ سازوں کے نام اور کام سے آگاہ ہو سکیں۔ بعد کے دنوں میں یہی کوشش شین فرخ کی بھی رہی۔ وہ 'اخبار خواتین' سے وابستہ تھیں اور اس کے صفحوں پر مصوری کی نمائشوں کے بارے میں مسلسل لکھتی رہیں۔ پچھلے برس ان کا ایک سوانحی ناول 'مدار' سامنے آیا جو ہمارے صف اول کے مصور علی امام کے بارے میں ہے۔
مختلف موضوعات پر شین فرخ کی کئی کتابیں اس سے پہلے بھی شائع ہو چکی ہیں لیکن 'مدار' کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ علی امام کی زندگی کو انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور وہ جو چھپے ہوئے گوشے تھے انھیں دریافت کرنے کے لیے انھوں نے علی امام سے طویل باتیں کیں۔ کسی بھی ایسے ماحول میں جہاں ادیبوں، مصوروں اور فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں سے وابستہ افراد کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہوں، جہاں ان کے روزگار کا کوئی بندوبست نہ ہو وہاں مشہور مصور ماتیس کا یہ جملہ کتنی معنویت رکھتا ہے کہ 'تخلیقی کام جرأت و حوصلے پر منحصر ہے'۔
شین فرخ نے ملک کے نامور مصور علی امام کی زندگی کو جس طرح قلم بند کیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے ابتدائی دور کے مصوروں کے لیے زندگی کس قدر کٹھن اور خطرات سے پُر تھی۔ علی امام پر کفر کا فتویٰ لگتا ہے۔ ان کے بچوں کی تعلیم خطرے میں پڑ جاتی ہے، ان کی جان کسی وقت بھی لی جا سکتی ہے، یہاں تک کہ وہ اور ان کی شریک حیات شہناز نہ چاہتے ہوئے بھی اس بات پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اپنے بچوں کو ملک سے باہر بھیج دیں۔
وہ آرٹس کونسل کراچی کے پرنسپل ہیں، اپنے طالب علموں کے لیے مرشد کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن سرکار جانتی ہے کہ باحوصلہ لوگوں کو کس طرح توڑا جا سکتا ہے۔ علی امام کی چند ہفتوں پہلے شادی ہوئی ہے، ایسے میں روزگار کی کسی بھی شخص کے لیے کتنی اہمیت ہو سکتی ہے، ہم سب جانتے ہیں۔
ایک صبح علی امام اپنے آفس میں داخل ہوتے ہیں تو ایک لفافہ ان کا منتظر ہے۔ اس میں ایک خط ہے جس میں انھیں بتایا گیا ہے کہ '' وہ بہت مغرب زدہ ہیں، نئی نسل کو گمراہ کر رہے ہیں، ضرورت سے زیادہ آزاد خیال ہیں، مشرقی اقدار سے ناواقف ہیں اور ہماری ثقافتی روایات کو برباد کر رہے ہیں۔ اگر آپ اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہیں تو بورڈ کی میٹنگ طلب کی جا سکتی ہے''۔
علی امام سکون سے یہ خط پڑھتے ہیں اور پھر پرنسپل کے عہدے سے استعفیٰ دے دیتے ہیں۔ لیکن انھیں روزگار کے لیے کچھ تو کرنا ہے۔ وہ کرائے کے مکان میں ایک گیلری قائم کر لیتے ہیں، عقبی حصے میں وہ ان کی بیوی شہناز اور دو بچے رہتے ہیں۔ یہ گیلری مصوروں اور مجسمہ سازوں کے لیے اپنی بانھیں کھولے ان کی منتظر ہے اور پھر یہ شہر کے متعدد فنکاروں کا ٹھکانہ بن جاتی ہے۔ یہیں ملک کے نامور مجسمہ ساز اور سنگ تراش شاہد سجاد کا بھی آنا جانا ہے۔ وہ دل برداشتہ ہو کر کہتے ہیں ''ہم جس ماحول اور جن حالات میں رہ رہے ہیں، وہ چاہے ہماری کُل زندگی ہو، ہمارے خواب ہوں یا ہماری توانائیاں، وہ سب سلب ہو کر رہ گئی ہیں، ساکت ہو چکی ہیں''۔
پاکستان پر مختلف آمریتوں میں جو کچھ گزری، اس نے عام لوگوں پر اور فنکاروں پر کیا اثرات مرتب کیے، شین نے انھیں سلیقے سے اپنے بیانیے میں پرو لیا ہے۔ لکھتی ہیں: ''یہ لوگ جو اس چھت کے نیچے جمع ہیں ان کے چہروں پر بے یقینی لکھی ہے۔ ارے بابا، کچھ تو کہو۔ یہ کچھ کہتے ہی نہیں۔ جب بھٹو کو پھانسی ہوئی تھی۔ یہ لوگ غمزدہ تھے۔ دکھی تھے لیکن گزشتہ 8-7 برسوں میں یہ اپنا رد عمل ظاہر کرنے کا ڈھنگ بھول گئے۔ وہ بے حس اور خالی خالی نظر آتے ہیں۔
عینی (ناول کا ایک بنیادی کردار) آج بھی، گزشتہ کئی برسوں کی طرح شاہراہ فیصل سے گزری تھی۔ اپنے دوستوں سے ملاقات اور نیوائیر ایوو منانے کے لیے۔ گزشتہ برسوں میں شہر کی اس بڑی سڑک کے کنارے انسانی کھوپڑیاں سجی ہوتی تھیں جن کی پاسبانی چند باریش حضرات کرتے تھے۔ یہ وارننگ ہوتی کہ خبردار کوئی خوشی نہ منانا، خبردار موسیقی کی دھن پر جھومنے نہ لگنا۔ ان تمام برسوں کے دوران کہیں سے کوئی سریلی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ صرف ہدایات ملتی تھیں۔ چادر اور چار دیواری کی حرمت بچاؤ۔ وی سی آر پر پابندی لگا دی گئی تھی کہ لوگ اس پر فحش فلمیں دیکھتے ہیں۔ جو اخلاق پر برا اثر ڈالتی ہیں۔ ''
علی امام نے ایک سرسبزو شاداب جنگل کے درمیان آنکھ کھولی، باپ فاریسٹ افسر، ڈار کی ڈار اڑتے ہوئے پرندے، آزاد ہوائیں۔ کوبرا سانپ، شیر اور انسان ایک ہی مٹی پر چلتے ہوئے۔ علی امام باپ کی خواہش پر سائنس پڑھنے کے لیے راضی نہیں تھے، انھیں لکیریں، رنگ اور آسمان کی وسعت اپنی طرف بلاتی تھی۔ وہ گھر سے بمبئی کے لیے نکلے اور کٹھن وقت گزار کر، انگلستان چلے گئے۔ وہ رہ نوردِ شوق تھے اور ان کا یہ شوق انھیں کہاں کہاں نہیں لے گیا۔
آخر کار وہ لوٹے اور لاہور اور کراچی میں مصوری کا پودا لگا کر اسے سینچنے لگے۔ انھوں نے محبتیں کیں، بے وفائیاں کیں، شادی کی، بچوں کے باپ بنے لیکن ہر مرحلے پر انھیں سیاست دوراں کا سامنا کرنا پڑا۔ نوجوانی میں وہ کمیونسٹ پارٹی کے ممبر تھے، جیل کاٹی اور یہ جانا کہ زنداں کی سلاخیں آزاد ہندوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔
'مدار' ہمارے ایک ایسے فنکار کا قصہ روز و شب ہے جو اپنی ذہنی اور تخلیقی آزادی کے لیے تمام دنیاوی آسائشیں قربان کر سکتا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ اسے اپنے تمام دوستوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے، شاید یہی خواہش تھی جس نے اسے، انڈس گیلری کی بنیاد رکھنے پر اکسایا۔ زیادہ سے زیادہ مصوروں کی بنائی ہوئی تصویریں ایک جگہ نظر آئیں۔ مل بیٹھنے کا، مکالمے کا سامان ہو اور دائیں بازو کی سیاست جس طرح آزاد سوچ پر پہرا بٹھا رہی تھی، اس کا کوئی توڑ کیا جا سکے۔
علی امام کی زندگی کو لفظوں کا لباس پہناتے ہوئے شین نے وہ معاملات بھی اٹھائے ہیں جو مغربی مصوری کی دنیا میں اپنا ایک الگ مقام رکھتے تھے۔ انھوں نے ڈاڈا ازم کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ دراصل جنگ کے خلاف احتجاج تھا۔ ڈاڈا ازم سے وابستہ ہونے والے مصوروں اور ادیبوں نے جرمن نسل پرستی اور جنگ زدگی کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ علی امام بھی یہی موقف رکھتے تھے۔ وہ پاکستان آتے ہیں تو 1965ء کی پاک انڈیا جنگ ختم ہو چکی ہے۔ لوگوں کو تاسف ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے کہ یہ جنگ دونوں طرف کے لوگوں کے لیے محض گھاٹے کا سودا تھی۔
'مدار' کے بارے میں سلیمہ ہاشمی نے یہ کہہ کر دریا کو ایک کوزے میں بند کر دیا ہے کہ: ''یہ تصنیف جس آرٹسٹ کی زندگی کی دستاویز ہے وہ یقینی طور پر مرکزی نقطہ ہے۔ لیکن وہ وسیع کینوس پر ایک موٹف کی مانند ہے۔ ان کے امیج کو موزیک کی مانند وضع کیا گیا ہے۔ ایک کشادہ تصویر میں سرتاسر رنگ و نقش کے دریا بہتے ہیں اور ہر موج اپنے جلو میں منطقی اور تاریخی مفہوم سمیٹے ہوئے ہے۔''
شین فرخ کارِ فرہاد کی قائل ہیں لیکن وہ اپنے تیشے کا استعمال فرہاد کی طرح نہیں کرتیں، وہ 'مدار' ایسا ناول لکھتی ہیں جو اردو میں اپنی مثال آپ ہے۔