معراج محمد خان کی یاد میں

اُمیدیں پگھلتی جاتی ہیں، دھوپ آنکھوں میں بھرتی جاتی ہے۔

arehman@express.com.pk

کھنکھناتے ہوئے، پیار کی سرگم برسانے والے منظر ڈوبتے جاتے ہیں۔ سارے ریشمیں خواب ڈوبتے جاتے ہیں۔ زادِ سفر ڈوبتا جاتا ہے۔ ایسے میں یہ غم سِوا ہو گیا ہے کہ اس سفر میں محروم اور مجبور لوگوں کا ہاتھ تھامنے والا روشن ستارہ، معراج محمد خان بھی اُن سے بچھڑ گیا ہے۔ کتنا پیار بھر لیا تھا اس نام نے اپنے اندر۔ سچائی کی خوشبو اور محبت کی مٹھاس نے کیسا جادو بھر دیا تھا اس کے اندر۔ اس کے شفاف ہاتھ ہر دور میں مہکتے رہے، اس لیے اسے سچے عاشقوں کی رفاقت اور محبت حاصل رہی۔

زندگی ہمیں کہاں لے آئی ہے۔ سانپوں اور کانٹوں سے بھری راہ گزاروں پر لُولے لنگڑے، فریب کار، نفرت پھیلانے والے عقیدوں اور نابینا غلیظ رسموں کے جھنڈے بلند ہو رہے ہیں۔ اُمیدیں پگھلتی جاتی ہیں، دھوپ آنکھوں میں بھرتی جاتی ہے۔ کہاں گیا وہ شورِ سلاسل؟ آسمان پر ہاتھ ڈالنے والے دیوانے کہاں ہیں؟ سرمائے کی ہیبت کو ٹھوکر میں رکھنے والے کہاں ہیں؟ کچھ دعوے دار ہیں۔ لیکن ان کے دعوے اندھیری بستیوں سے بہت دور پریس کلبوں کے سامنے مختصر رُونمائیوں اور فوٹو سیشنوں اور اعلیٰ ہوٹلوں میں یک ساں چہروں کے درمیان یک ساں تقریروں اور قراردادوں میں ڈھل کر بکھرتے جا رہے ہیں۔

یہ کوئی اتفاق نہیں، معراج محمد خاں پریس کلبوں کے سامنے ہونے والے ان محدود اجتماعات میں شرکت کرتے کم ہی نظر آئے ہوں گے۔ معراج کے باغی جذبوں اور مظلوموں کے ساتھ سفر کی انمٹ چاہت نے انھیں وسعتوں کو سمیٹنے کا درس دیا تھا۔ اسی لیے جب وہ سرگرم عمل تھے تو کراچی سے سوات تک محروم اور مجبور طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ رنگ، نسل، مذہب، صنف، زبان اور علاقائیت کی عینک اتار کر ان کے ساتھ ظالمانہ سیاسی، سماجی اور اقتصادی نظام کے خلاف نعرے لگاتے تھے، اور ہوائیں ان نعروں کے ساتھ ہمیشہ سفر میں رہتی تھیں:

ظلم کے ضابطے
جہل کے راستے

ہم نہیں مانتے!
ہم نہیں مانتے!!

یہ نعرے ہواؤں کے ساتھ سفر کرتے تھے اور زنجیروں کے شور میں ظلم اور جبر سے نفرت کرنے والے دیوانوں کی للکار درودیوار کے اندر جاگتی تھی۔ اسی لیے تمام تر سیاہیوں کے باوجود کوئی ملاّ فضل اﷲ جیسا درندہ اُس وقت اُبھر کر سامنے نہیں آیا۔ معراج محمد خاں اور ان کے ہم نواؤں، ساتھیوں، دوستوں اور جاں نثاروں کی آرزوؤں کے رنگ ذات کے خانے میں قید نہیں تھے۔ وہ دنیا سے بدصورت مناظر کو ملیا میٹ کرنے کے لیے اپنی ذاتی آسائشات کو قربان کرتے ہوئے جدوجہد کرتے تھے۔

انھیں معلوم تھا کہ اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔ وہ صبح سے رات تک اس بدقسمت ملک کی اندھیاری راہوں میں چراغ روشن کرتے جاتے تھے۔ ان کے خواب یا ان کے مطالبات بہت سادہ، بے ضرر اور خوب صورت تھے، اس کے باوجود نابینا عقیدوں اور معذور نظریوں کے نام لیوا ان کے لیے غداری کی اسناد جاری کرنے سے باز نہیں آتے تھے۔

طبقاتی تقسیم دولت کا نظام ختم ہونا چاہیے، ناداروں، مزدوروں، کسانوں کو باعزت انداز میں جینے کا حق ملنا چاہیے، تعلیم سستی اور عام ہونی چاہیے، غلامی کی تمام بد صورت تصویروں اور رنگ، نسل، مذہب، زبان اور صنف کی بنیاد پر فضیلت کا علم لہرانے والے تاریک کرداروں کا خاتمہ ہونا چاہیے جو نفرت کی فصلیں اگاتے ہیں اور غلیظ ذاتی مفادات کے جوہڑ میں غسل کرنے کے بعد درآمد شدہ خوشبوؤں کی بوچھار اپنے جسم پر کرتے ہیں۔

ان جائز اور خوب صورت مطالبات کی مخالفت میں دائیں بازو کی موقع پرست سیاسی جماعتیں نہ صرف اپنے زوربازو کی نمائش کرتی تھیں بلکہ اس مذموم عمل کو دو آتشہ کرنے کے لیے اپنے بیرونی آقاؤں سے ڈالر اور ریال بھی درآمد کرتی تھیں۔ وہ رات اور صبح کے استعاروں سے خوف کھاتی تھیں۔

جب معراج محمد خاں اپنی تقریروں کے ذریعے امید کی لو جگائے رکھنے کے لیے مصرع پڑھتے تھے، رات جتنی بھی سنگین ہو گی، صبح اتنی ہی رنگین ہو گی یا قفس ہے بس میں تمہارے، تمہارے بس میں نہیں چمن میں آتش گل کے نکھار کا موسم، تو درآمد شدہ امداد سمیٹنے والے پاکستانی مردانِ مجاہد ان علامات اور استعاروں کا مذاق اڑاتے تھے۔ کون سی صبح، کیسی رات، کیسی سرمایہ داری، کہاں کا سام راج، سب پروپیگنڈا ہے۔

مقامِ عبرت ہے، بے چاروں پر بہت بُرا وقت آ پڑا ہے۔ اب 9/11 کے بعد ان کی مضحکہ خیز اظہاری قوتوں نے سر جھکا دیا ہے۔ اب وہ بھی نقال توتوں کے مانند سام راج کی مخالفت میں اپنی ان ہی ناپسندیدہ علامات اور تراکیب کا سہارا لیتے نظر آتے ہیں۔ اب وہ اسی غدار، بے دین فیض احمد فیض کے اشعار کا حوالہ اپنی تقریروں اور تحریروں میں دیتے نظر آتے ہیں جن کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔

اب کوئی ان سے پوچھے، کون سی صبح، کون سی رات، کہاں کا سام راج تو وہ سر بغلوں میں چھپا لیتے ہیں۔ آقا کی ہم نوائی میں ویت نام کے بے دین حریت پسندوں کا خون بہانا ان کے نزدیک روا تھا۔ روشنی کے استعارے پیٹرس لوممبا کا قتل ظلم نہیں تھا، کیونکہ وہ سام راج کے تسلط سے آزادی کا خُوگر تھا۔ پھر اُن کی عبرت ناک اُڑان کا نقطۂ کمال یوں سامنے آیا کہ وہ ضیاالحق جیسے مکروہ اور عیار کردار کی گود میں بیٹھ کر رنگ برنگی چوسنیاں چوسنے لگے۔

ایک طرف سام راج کے زیر سایہ ملکی سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور ملاؤں کا گٹھ جوڑ تھا تو دوسری طرف طالع آزما، موقع پرست جرنیلوں کا جبر تھا، جس نے انجامِ کار اس ملک کو اس مقام پر لا کھڑا کیا کہ وہ اپنے گوشے گوشے میں نفرتوں اور تعصبات کی بھٹی میں سلگ رہا ہے اور حاکم طبقوں کی پُر فریب زبان سے برآمد ہونے والی لوریاں سن رہا ہے۔

یہ تھا وہ پس منظر جب نوجوان معراج محمد خاں، فتح یاب علی خان اور ان کے صداقت شعار ساتھیوں نے، جو نیشنل اسٹوڈینٹس فیڈریشن سے منسلک تھے، ان برائیوں کے خلاف آواز بلند کی۔ ایوب خان کی فوجی آمریت نے سر اٹھایا تو ہر طرف سکتہ طاری تھا۔ یہ معراج اور ان کے ساتھی ہی تھے جنھوں نے ماشل لاء ضوابط کو ٹھکراتے ہوئے سب سے پہلے اس آمریت کے خلاف جنگ کا آغاز کیا۔ انھوں نے واضح الفاظ میں، عالمانہ انداز میں یہ جتا دیا تھا کہ اگر ظالم حکمراں طبقوں کی رعونت اور تعصب آمیز عقیدوں کو لگام نہ دی گئی تو وہ اپنے نقطۂ کمال پر پہنچ کر پورے ملک کو جو خون کی بارش میں نہلا دیں گے اور سب پہاڑوں پر، ساری وادیوں پر، قاتلوں بھیڑیوں کا، علم دشمنوں کا قبضہ ہو گا۔

میں نے اور میرے ساتھیوں نے اس دور میں معراج محمد خان کی تقریریں سنی ہیں، جو وہ بین الکلیاتی مقابلوں میں کیا کرتے تھے۔ کوئٹہ سے آنے والا سُرخ و سفید رنگت والا ایک خوب صورت نوجوان سندھ مسلم کالج (کراچی) کا بلیزر پہن کر اسٹیج پر آتا تھا تو اس کے الفاظ طلبہ کو اپنے جادو میں جکڑ لیتے تھے، ظالموں کے خوفناک چہروں کے تصور سے ان کے لہو کی گردش تیز ہو جاتی تھی اور غریبوں، ناداروں اور مجبوروں کی تصویریں دیکھ کر ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ جاتی تھیں۔

ہاں، اس کے الفاظ میں جادو تھا لیکن وہ شعبدے باز نہیں تھا۔ وہ اور اس کے ساتھی جو مختلف مرحلوں پر قید و بند سے لے کر صوبہ بدری کی تعزیریں بھگتتے رہے، سب کے سب سچائی کے نشے سے سرشار رہتے تھے۔ طلبہ تحریک کا اتنا شان دار دور پھر نہیں آیا۔ پھر یوں ہوا کہ ضیا الحق کی گود میں بیٹھ کر رنگ رنگ کی چوسنیاں چوسنے والوں نے تعلیمی اداروں میں طلبہ کی انجمنیں قائم کرنے پر پابندی لگا دی، اور یہ فتویٰ آج تک اس ملک کی فضاؤں میں سربلند ہے کہ نوجوانوں کو اپنی لگی بندھی درسی کتابوں تک محدود رہنا چاہیے، ملک کے مسائل جاننے سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ یہ صرف ہم لٹیرے طبقوں کا حق ہے کہ وہ حالات کی رفتار اور رخ کا تعین کریں۔ بے چارے نوجوانوں کو اس ''مصیبت'' میں نہیں پڑنا چاہیے۔

تو انھوں نے حالات کی رفتار اور اس کا رخ اس طرح متعین کیا کہ پشاور سے کراچی تک نہ صرف تعلیمی اداروں میں دہشت ناک آسیبوں نے ڈیرا ڈال رکھا ہے، بلکہ ہر جانب طالبان، القاعدہ اور داعش نام کے سیاہ کار غل مچاتے پھرتے ہیں۔ مذہبی عبادت گاہوں پر کفر کی اسناد چسپاں کی جا رہی ہیں۔ بچیوں اور عورتوں کو پردے کے نام پر کفن پہنائے جا رہے ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل کو جائز اور بااعتبار بنانے کی سازش عام ہو رہی ہے۔ ہر جانب رنگ رنگ کے دہشت گرد قتل و غارت گری میں مصروف ہیں۔


غریب لوگوں کے بچے کوڑے دانوں میں رزق تلاش کرتے نظر آتے ہیں، اور امیر لوگ اپنے پسندیدہ ریستوراں میں محض شان دار ڈنر سے محظوظ ہونے کے لیے ویک اینڈ پر پیرس چلے جاتے ہیں، اور ورکنگ ڈے پر واپس آ جاتے ہیں۔ اب اس ملک کی صورت حال کا نقشہ کھینچنے کے لیے ''خوف ناک'' سے کہیں زیادہ خوف ناک لفظ تخلیق کرنا پڑے گا۔

معراج محمد خان سے ذوالفقار علی بھٹو کی کوئی رشتے داری نہیں تھی۔ معراج طلبا کی ایک مقبول ملک گیر تنظیم سے تعلق رکھتے تھے، اور ان کے لہجے کی سچائی عوام الناس کے دلوں میں آباد ہو گئی تھی۔ بھٹو نے اس طلسمی شخصیت کا تعاون حاصل کیا، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد حرف اختلاف بلند کرنے کے جرم میں معراج محمد خان کو چار سال تک جیل میں رکھا۔

اس اسیری کے دوران وہ متعدد جسمانی عوارض میں مبتلا ہوئے اور آنکھوں کی بینائی اس طرح زائل ہوئی کہ آخر تک بحال نہ ہو سکی۔ معراج کے علاوہ مبشر حسن، جے اے رحیم، خورشید حسن میر اور متعدد سچے اور اچھے ترقی پسند لوگوں کو بھی اسی انجام سے دوچار کیا گیا۔ لیکن آخر کارپیپلز پارٹی کا اقتدار قائم نہ رہا۔ بھٹو صاحب کا عدالتی قتل ہوا۔ بعد میں ان کی بدقسمت بیٹی کو شہید کیا گیا، اور پیپلز پارٹی کی قسمت کا ستارہ آصف علی زرداری کے بدعنوان دامن میں آ گرا۔

اب اس بد نصیب پارٹی کے کارکنوں کی کارکردگی کا نقطۂ کمال یہ ہے کہ وہ آئے دن مختلف سال گرہوں پر کیک کاٹنے یا ایام وفات پر قرآن خوانی کرتے نظر آتے ہیں۔ معراج محمد خان نے بڑے دکھ اٹھائے تھے، لیکن جب فوجی آمر ضیا الحق نے بھٹو صاحب کے خلاف گھیرا تنگ کیا، اور بعد میں اسٹیبلشمنٹ نے بے نظیر بھٹو پر عقوبتوں کے دروازے کھولے، تو معراج محمد خان اور ان کے ساتھیوں نے ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف شد و مد سے آواز بلند کی۔

اسی طرح عمران خان بھی معراج محمد خان کے رشتے دار نہیں تھے۔ عمران خان نے اپنے پہلے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے معراج محمد خان کا انتخاب اس لیے کیا تھا کہ معراج کی دلیری اور سچائی کا چرچا عام تھا، وہ ان کی پارٹی کو اٹھا سکتے تھے۔ لیکن معراج محمد خان اور ان کے قریبی ساتھی اظہر جمیل نے بھانپ لیا کہ یہاں بھی سیاہی کُھل کھیِل رہی ہے (جیسے بعد میں ایک اور محترم اور دیانت دار شخصیت وجیہہ الدین احمد پر انکشاف ہوا) اور وہ تحریک انصاف کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ ان کا تجزیہ درست ثابت ہوا۔ عمران خان طالبانی نظریات کے سایۂ شفقت میں پلنا چاہتے تھے، یہ ثابت ہو گیا۔

معراج محمد خان نے پیپلز پارٹی سے استعفیٰ دینے کے بعد قومی محاذ آزادی کی بنیاد ڈالی، جس کی بہت جلد ملک بھر میں شاخیں پھیل گئیں۔ بائیں بازو کے نوجوانوں میں یہ پارٹی خاص طور پر بہت مقبول تھی، اور بے وسیلہ ہونے کے باوجود جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور حکمراں طبقات کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی، کیونکہ اس کا منشور دو ٹوک انداز میں نادار طبقوں کی حکمرانی پر اصرار کرتا تھا۔

اگرچہ قومی محاذ آزادی ایک طویل عرصے تک اپنا جادو جگاتی رہی لیکن انجام کار اس کی زندگی کا باب ختم ہوا۔ بائیں بازو کے لوگوں میں سب سے سحر انگیز شخصیت معراج محمد خان کی تھی۔ لیکن بائیں بازو والوں نے درجنوں چھوٹی چھوٹی پارٹیاں بنا رکھی تھیں۔ جو باہم دست و گریباں رہیں، اور ان کا حلقۂ اثر پھیل نہ سکا۔ معراج محمد خان نے بہت کوشش کی کہ وہ متحد ہو جائیں، لیکن کوئی اپنی مملکت محروسہ سے دست بردار ہونے کو تیار نہ تھا۔

اگر دیدۂ بینا ہوتا تو وہ معراج محمد خان کے گرد ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوتے، اور بائیں بازو کی ایک حقیقی مضبوط پارٹی کا قیام عمل میں آتا۔ وہ اس طرف مائل نہیں ہوئے۔ نتیجہ وہی نکلا، جس کا میں نے اس مضمون کے آغاز میں ذکر کیا ہے۔ بائیں بازو کے بکھرے ہوئے لوگ مختلف غیر سرکاری تنظیمیں بنا کر پریس کلبوں کے سامنے فوٹو سیشنز کرتے ہیں۔ یک ساں گنے چنے چہروں کے درمیان یک ساں نعرے بلند کرتے ہیں، ایک دوسرے کو شاباشی دیتے ہیں، اور خوشی خوشی رخصت ہو جاتے ہیں۔

معراج کا باغیانہ مزاج اس قسم کی فضول رونمائیوں سے مطابقت نہ رکھتا تھا، اس لیے وہ اس قسم کے اجتماعات میں نظر نہیں آتے تھے۔ بعد میں جسمانی عوارض نے بے حد مضمحل کر ڈالا، لیکن جب سانس لینے کو فرصت ملتی تھی اور ان کے دوست، اظہر جمیل اور ان کے ساتھی خاص موضوعات پر جلسوں کا اہتمام کرتے تھے تو معراج بڑے ذوق و شوق سے ان میں شرکت کرتے تھے۔ بولتے چلے جاتے تھے، سانس پھول جاتا تھا۔

خیر خواہ دوست ڈر جاتے تھے، لیکن معراج اپنی نوجوانی کا دور تازہ کرنے کے در پے رہتے تھے، البتہ آخر آخر ان کے لہجے میں بلا کی نرمی اور شیرینی سمٹ آئی تھی، ایسا لگتا تھا، جیسے شہد کا پیالہ پی کر آئے ہیں۔ موقع پرست، تنگ نظر میڈیا نے انھیں بزرگ سیاست داں کے نام سے مشہور کر دیا، جیسے وہ اب عجائب گھر کی زینت بن گئے ہوں۔

نئے لوگوں کو تو یہ علم ہی نہیں کہ جسے وہ عجائب گھر کے طاق میں بٹھانا چاہتے ہیں اس کی آواز اس ملک کی مجبور و محروم گلیوں میں کبھی اس طرح گونجا کرتی تھی کہ ظالم حکمراں طبقات کی نیندیں حرام ہو جاتی تھیں۔ پھر شور بدتمیزی بلند کرنے والے اس میڈیا نے اس جگمگاتے دل والے ''بزرگ سیاست داں'' کے انتقال کی خبر کو کس قدر انڈر ریٹ کیا، وہ آپ ہم سب دیکھ چکے ہیں۔

معراج سے میری محبت کے بہت سارے حوالے ہیں، طالب علمی کے زمانے سے لے کر اب دم آخر تک جھلملاتی یادیں میرے لیے قابل فخر ہیں۔ یہ احساس میری زندگی کا ایک قیمتی ورثہ ہے کہ معراج اور ان کے بڑے بھائی منہاج برنا مجھے بہت عزیز رکھتے تھے۔ معراج عمر میں مجھ سے چار سال بڑے تھے لیکن مجھے ''احفاظ بھائی'' کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔

میں ہنستا تھا تو کہتے تھے، میرے بڑے بھائی منہاج برنا آپ سے محبت کرتے تھے، اس لیے میں آپ کو اس ڈھب سے سے پکارتا ہوں۔ جب کوئی آپ کے دل میں آباد ہو جاتا ہے تو اس کے رخصت ہونے پر بہت ساری منتشر یادیں امڈ امڈ کرآپ کے ذہن پر یلغار کرتی ہیں۔ اس وقت میں بھی اس کیفیت سے دو چار ہوں۔ بہت سے واقعات ہیں، لیکن جس انداز میں یہ مضمون خود بہ خود بنتا چلا گیا، اس میں ان کا طویل تذکرہ اس اخباری کالم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

ظاہر ہے، معراج محمد خان کے ہم ساز، دم ساز ساتھیوں کی تعداد ہزاروں میں ہو گی، اس لیے فرداً فرداً ان کا تذکرہ بھی ممکن نہیں۔ معراج محمد خان خوش قسمت تھے کہ انھیں مجبور اور مظلوم لوگوں سے محبت کرنے والے ہزاروں ساتھیوں، دوستوں اور کارکنوں کی محبت حاصل تھی۔

22 جولائی کو معراج کے گھر اور پھر قبرستان میں ان کے ان ہی چاہنے والوں کا ہجوم تھا۔ ظلم و جبر کے ہر کاروں سے اپنے اپنے وقت میں لڑنے والے یہ سارے ساتھی افسردہ تھے۔ وہ ایک عزیز متاع سے بچھڑ گئے تھے۔ پرانی یادوں کے تذکرے تھے۔ برسراقتدار طبقات سے معرکہ آرائیوں کے قصے تھے۔ سب ایک دوسرے کو سنا کر سرشار ہو رہے تھے۔ لیکن یاد کی آگ میں ایک جلتی بجھتی تھکن بھی جھلک رہی تھی۔ بیشتر پرانے ساتھی یوں بھی مختلف جسمانی عوارض سے مضمحل ہو چکے ہیں۔

کتنی دوڑتی بھاگتی ساعتیں ساتھ گزاری تھیں۔ کیا راستہ تھک گیا، راہرو تھک گیا۔ وہ پڑاؤ کہاں ہے جہاں صبح کی تازگی کے خواب چُھپے ہیں۔ کیا روشنی بُجھ گئی ہے، دل کے تاروں میں خوشبو کی لَے بجھ گئی ہے۔ کیا اس کہانی، اس رزمیے کے کردار سب کھو گئے ہیں، جو انصاف کی سربلندی کے قصیدے اس زُبوں حال ملک کی سڑکوں پر گاتے تھے، رقص کرتے تھے، کٹتے تھے، گرتے تھے، پھر اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔

گویا، یہ صرف معراج کی موت کا نوحہ نہیں ہے، ان کی نسل کے بکھرے ہوئے سب ساتھیوں کا نوحہ ہے۔ ہاں، کردار تو کھو جائیں گے۔ ان کی یادیں رہ جائیں گی، ان کے خواب زندہ رہیں گے۔ سفر کی رفتار سست سہی، لیکن اور آئیں گے عشاق کے قافلے۔ نئی مشعلیں نئے ہاتھوں میں جگمگائیں گی۔ انسان کا یہ سفر تھمنے کا نہیں۔ کروڑوں لوگوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے والا، ان کے درمیان اونچ نیچ کی دیواریں تعمیر کرنے والا غلیظ سیاسی، سماجی اور اقتصادی نظام قائم نہیں رہے گا۔ اس کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔ شرفِ آدمیت ہمیشہ رُسوا اور مجبور نہیں رہے گا۔ یہ فیصلہ آسمان پر لکھا ہوا ہے۔

ہمارا محبوب ساتھی معراج محمد خان بھی ہمیں یہی فیصلہ سناتا رہا ہے۔ معراج کے الفاظ سرخرُو ہوں گے۔ ظلم کے اندھیروں میں امن و انصاف کی تمنا بجھنے والی نہیں ہے، وہ زندہ رہے گی، البتہ جب معراج کی یاد آئے گی، تو آنکھیں کچھ بھیگ بھیگ جائیں گی۔

ایسی محبت سب کو نصیب نہیں ہوتی!!
Load Next Story