نوعمری میں منشیات کا بڑھتا ہوا رجحان
یہ کاروبار انسانیت کو تباہی کے دھانے کی جانب دھکیل رہا ہے
آج کل نوجوانوں میں منشیات کا استعمال بڑھ رہا ہے اور افسوسناک بات یہ ہے کہ اس لت میں مبتلا ہونے والے افراد میں نوجوانوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔
نوجوانوں میں فروغ پانے والی منشیات میں تمباکو،شیشہ اورنسوار وغیرہ شامل ہیں۔ اس رجحان سے جہاں نوجوانوں کی صحت پر انتہائی مہک اثرات پڑھ رہے ہیں وہیں نئی ان کی پڑھنے لکھنے اور کام کرنے کی صلاحیت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ تعلیمی درسگاہوں میں منشیات کے استعمال کے باعث عموماً دیکھا گیا ہے کہ طلبہ کی ذہنی صلاحتیں بالخصوص یادداشت بہت زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔
دوسری جانب خواتین بھی اس صحت دشمن عادت سے محفوظ نہیں ہیں ۔مشاہدے میں آیا ہے کہ عموماً مالی طور پر آسودہ گھرانوں کی نوجوان لڑکیاں اس لت میں مبتلا ہیں اور دن بدن اس منفی رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے بچے کو بھیک مانگتے ہیں یا انہیں والدین کی جانب سے توجہ نہیں ملتی وہ بھی غلط صحبت سے اثر لے کر سگریٹ نوشی شروع کر دیتے ہیں ۔اس طرح ناپختہ عمر ہی سے ان کی صحت گرنے لگتی ہے۔
شیشہ، تمباکو اور دیگر منشیات پر مشتمل مصنوعات بنانے والی کمپنیاں لاکھوں ڈالر ایسے پرکشش اشتہارات پر خرچ کرتی ہیں جن میں نشے کو ایک فیشن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ یہ کمپنیاں نوجوان صارفین کو خاص طور پر ہدف بناتی ہیں۔اگر کوئی نوجوان برے دوستوں کی صحبت سے بچ جائے تو اس کے سامنے ان پرکشش مگر مہلک نتائج کے حامل اشتہارات کا جال ہوتا ہے جس سے بچنا مشکل ہوتا ہے۔
دوسرے یہ کہ فلموں کے مناظر میں منشیات کو اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ جیسے یہ کوئی لازمی اسٹیٹس سمبل ہوں۔ گو کہ بعض ممالک میں ایسے مناظر کے ساتھ انتباہی پیغام بھی چلایا جاتا ہے لیکن متحرک تصویر اور پٹی کی صورت چلنے والے انتباہی پیغام میں زیادہ مؤثر وہ منظر ہی ہوتا ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کسی بھی صورت اپنی منشیات کی صنعت کو زوال پذیر نہیں دیکھنا چاہتا ۔ اس بے رحم مارکیٹ کواس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ان کا یہ کاروبار انسانیت کو تباہی کے دھانے کی جانب دھکیل رہا ہے۔
ہم ایک دن میں پوری دنیا میں قائم منشیات کی مارکیٹ کو ختم تو نہیں کر سکتے لیکن منشیات کی عادت پڑنے کے اسباب کا تجزیہ کر کے نوجوانوں کو اس کے مہلک اثرات سے آگاہ ضرور کر سکتے ہیں۔نشے کی ابتداء کس طرح ہوتی ہے ؟اس کا سب سے بڑاسبب یہ ہے کہ ساتھیوں کا دباؤ،بالغ نظر آنے کی خواہش،یا پھر خاندان میں کوئی نشہ آور ہو اور آپ اسے آزما کر دیکھنا چاہتے ہوں کہ اس (سگریٹ نوشی )سے کیا ہوتا ہے اور یہ کیسالگتا ہے۔بہت سے لوگ نوعمری میں نشہ شروع کردیتے ہیں انہیں یہ توقع نہیں ہوتی کہ وہ اس کے عادی ہو جائیں گے۔اس کو شروع کرنا تو بہت آسان ہے پر چھوڑنا انتہائی مشکل ہے۔
پہلی بار شیشہ پینے اور سگریٹ نوشی وغیرہ کرنے والوں کو متلی محسوس ہوتی ہے اور اکثر اوقات گلے اور پھیپھڑوں میں دردو جلن محسوس ہوتا ہے۔ شیشہ، منشیات،تمباکو نوشی ،شراب نوشی وغیرہ یہ سب چیزیں انسان کیلئے جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔ یہ سب چیزیں پھیپھڑوں کی مستقل بیماری اور دل کے امراض کا بھی سبب بنتی ہیں۔ اس عادت کی وجہ سے ہزاروں روپے بھی خرچ ہوجاتے ہیں۔شیشے کے مشترک استعمال سے اضافی خطرات بھی پیش آتے ہیں مثلاً ٹی بی اور ہیپاٹائٹس کی منتقلی وغیرہ۔شیشے کے دھویں میں زہریلے مادے اور کاربن مونوآکسائیڈ جیسی بھاری دھاتیں شامل ہوتی ہیں جو پھیپھڑوں کے لیے تباہ کن سمجھی جاتی ہیں۔
کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ منشیات کے استعمال سے ذہنی تناو کو کم کیا جا سکتا ہے لیکن یہ خیال غلط ہے ۔ منشیات کے استعمال سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ اس سے دیگر کئی نئے مسائل اور پیدا ہو جاتے ہیںجیسے کہ جلد کی خرابی، سانس کی بیماریاں، کپڑوں اور بالوں میں بدبو،کھیلنے کی صلاحیت میں کمی اور زخمی ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے ۔منشیات کا استعمال جوڑوں کو آپس میں باندھنے والے ریشوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔شراب نوشی سے جسم کی اعضاء کی ہم آہنگی ختم ہونے لگتی ہے ،اندازہ کرنے کی صلاحیت میں کمی آجاتی ہے ،جسم میں سستی آجاتی ہے،نگاہ اور یاداشت میں کمی آجاتی ہے اور کچھ نہ یاد رہنے جیسے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔
منشیات کے استعمال کی بڑھتی ہوئی اس وبا کے آگے بند باندھنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے گھروں سے کام شروع کیا جائے۔ والدین کو خود منشیات کے استعمال سے گریز کرنا چاہئے تاکہ بچے اس مہلک قسم کی عادت میں مبتلا نہ ہوں۔ دوسرے یہ کہ تعلیمی اداروں اور دفتروں میں منشیات کے منفی پہلوؤں سے متعلق آگاہی کا انتظام کیا جائے۔
اخبارات اور دیگر ابلاغی ذرائع کو اس حوالے سے انسانیت دوستی اور ماحول دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے منشیات کی حوصلہ شکنی پر مبنی تحریریں اور ڈاکیومنٹریز چلانی چاہئیں۔ والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کے سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور اگر اچانک ان کی صحت میں منفی تبدیلی یا تعلیمی کارکردگی میں کمی محسوس کریں تو فوراً اس کی وجہ جان کر مسئلہ کو شروع ہی میںحل کر دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کے سنجیدہ طبقات اور حکومت کو چاہیئے کہ منشیات کے استعمال کے رجحانات کو کنٹرول کرنے کے لیے انسانی ہمدردری کی بنیاد پر اپنا کردار ادا کریں۔
نوجوانوں میں فروغ پانے والی منشیات میں تمباکو،شیشہ اورنسوار وغیرہ شامل ہیں۔ اس رجحان سے جہاں نوجوانوں کی صحت پر انتہائی مہک اثرات پڑھ رہے ہیں وہیں نئی ان کی پڑھنے لکھنے اور کام کرنے کی صلاحیت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ تعلیمی درسگاہوں میں منشیات کے استعمال کے باعث عموماً دیکھا گیا ہے کہ طلبہ کی ذہنی صلاحتیں بالخصوص یادداشت بہت زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔
دوسری جانب خواتین بھی اس صحت دشمن عادت سے محفوظ نہیں ہیں ۔مشاہدے میں آیا ہے کہ عموماً مالی طور پر آسودہ گھرانوں کی نوجوان لڑکیاں اس لت میں مبتلا ہیں اور دن بدن اس منفی رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے بچے کو بھیک مانگتے ہیں یا انہیں والدین کی جانب سے توجہ نہیں ملتی وہ بھی غلط صحبت سے اثر لے کر سگریٹ نوشی شروع کر دیتے ہیں ۔اس طرح ناپختہ عمر ہی سے ان کی صحت گرنے لگتی ہے۔
شیشہ، تمباکو اور دیگر منشیات پر مشتمل مصنوعات بنانے والی کمپنیاں لاکھوں ڈالر ایسے پرکشش اشتہارات پر خرچ کرتی ہیں جن میں نشے کو ایک فیشن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ یہ کمپنیاں نوجوان صارفین کو خاص طور پر ہدف بناتی ہیں۔اگر کوئی نوجوان برے دوستوں کی صحبت سے بچ جائے تو اس کے سامنے ان پرکشش مگر مہلک نتائج کے حامل اشتہارات کا جال ہوتا ہے جس سے بچنا مشکل ہوتا ہے۔
دوسرے یہ کہ فلموں کے مناظر میں منشیات کو اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ جیسے یہ کوئی لازمی اسٹیٹس سمبل ہوں۔ گو کہ بعض ممالک میں ایسے مناظر کے ساتھ انتباہی پیغام بھی چلایا جاتا ہے لیکن متحرک تصویر اور پٹی کی صورت چلنے والے انتباہی پیغام میں زیادہ مؤثر وہ منظر ہی ہوتا ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کسی بھی صورت اپنی منشیات کی صنعت کو زوال پذیر نہیں دیکھنا چاہتا ۔ اس بے رحم مارکیٹ کواس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ان کا یہ کاروبار انسانیت کو تباہی کے دھانے کی جانب دھکیل رہا ہے۔
ہم ایک دن میں پوری دنیا میں قائم منشیات کی مارکیٹ کو ختم تو نہیں کر سکتے لیکن منشیات کی عادت پڑنے کے اسباب کا تجزیہ کر کے نوجوانوں کو اس کے مہلک اثرات سے آگاہ ضرور کر سکتے ہیں۔نشے کی ابتداء کس طرح ہوتی ہے ؟اس کا سب سے بڑاسبب یہ ہے کہ ساتھیوں کا دباؤ،بالغ نظر آنے کی خواہش،یا پھر خاندان میں کوئی نشہ آور ہو اور آپ اسے آزما کر دیکھنا چاہتے ہوں کہ اس (سگریٹ نوشی )سے کیا ہوتا ہے اور یہ کیسالگتا ہے۔بہت سے لوگ نوعمری میں نشہ شروع کردیتے ہیں انہیں یہ توقع نہیں ہوتی کہ وہ اس کے عادی ہو جائیں گے۔اس کو شروع کرنا تو بہت آسان ہے پر چھوڑنا انتہائی مشکل ہے۔
پہلی بار شیشہ پینے اور سگریٹ نوشی وغیرہ کرنے والوں کو متلی محسوس ہوتی ہے اور اکثر اوقات گلے اور پھیپھڑوں میں دردو جلن محسوس ہوتا ہے۔ شیشہ، منشیات،تمباکو نوشی ،شراب نوشی وغیرہ یہ سب چیزیں انسان کیلئے جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔ یہ سب چیزیں پھیپھڑوں کی مستقل بیماری اور دل کے امراض کا بھی سبب بنتی ہیں۔ اس عادت کی وجہ سے ہزاروں روپے بھی خرچ ہوجاتے ہیں۔شیشے کے مشترک استعمال سے اضافی خطرات بھی پیش آتے ہیں مثلاً ٹی بی اور ہیپاٹائٹس کی منتقلی وغیرہ۔شیشے کے دھویں میں زہریلے مادے اور کاربن مونوآکسائیڈ جیسی بھاری دھاتیں شامل ہوتی ہیں جو پھیپھڑوں کے لیے تباہ کن سمجھی جاتی ہیں۔
کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ منشیات کے استعمال سے ذہنی تناو کو کم کیا جا سکتا ہے لیکن یہ خیال غلط ہے ۔ منشیات کے استعمال سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ اس سے دیگر کئی نئے مسائل اور پیدا ہو جاتے ہیںجیسے کہ جلد کی خرابی، سانس کی بیماریاں، کپڑوں اور بالوں میں بدبو،کھیلنے کی صلاحیت میں کمی اور زخمی ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے ۔منشیات کا استعمال جوڑوں کو آپس میں باندھنے والے ریشوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔شراب نوشی سے جسم کی اعضاء کی ہم آہنگی ختم ہونے لگتی ہے ،اندازہ کرنے کی صلاحیت میں کمی آجاتی ہے ،جسم میں سستی آجاتی ہے،نگاہ اور یاداشت میں کمی آجاتی ہے اور کچھ نہ یاد رہنے جیسے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔
منشیات کے استعمال کی بڑھتی ہوئی اس وبا کے آگے بند باندھنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے گھروں سے کام شروع کیا جائے۔ والدین کو خود منشیات کے استعمال سے گریز کرنا چاہئے تاکہ بچے اس مہلک قسم کی عادت میں مبتلا نہ ہوں۔ دوسرے یہ کہ تعلیمی اداروں اور دفتروں میں منشیات کے منفی پہلوؤں سے متعلق آگاہی کا انتظام کیا جائے۔
اخبارات اور دیگر ابلاغی ذرائع کو اس حوالے سے انسانیت دوستی اور ماحول دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے منشیات کی حوصلہ شکنی پر مبنی تحریریں اور ڈاکیومنٹریز چلانی چاہئیں۔ والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کے سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور اگر اچانک ان کی صحت میں منفی تبدیلی یا تعلیمی کارکردگی میں کمی محسوس کریں تو فوراً اس کی وجہ جان کر مسئلہ کو شروع ہی میںحل کر دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کے سنجیدہ طبقات اور حکومت کو چاہیئے کہ منشیات کے استعمال کے رجحانات کو کنٹرول کرنے کے لیے انسانی ہمدردری کی بنیاد پر اپنا کردار ادا کریں۔