بچوں کے طریقۂ تعلیم پر خصوصی توجہ ناگزیر ہے
والدین کو اسکولوں اور اساتذہ پر کلی انحصار نہیں کرنا چاہئے
ہمارے ہاں نئی ہوا دیکھ کر اسی کے رخ پر چل پڑنے کا رجحان عام ہے۔ تعلیم کے حوالے سے بھی ہمارا رویہ یہی رہا ہے۔ 90ء کی دہائی کے بعد ہر کوئی یہ کہتا تھا کہ ''بھائی اب تو کمپیوٹر کا دور ہے۔ اب تو بچوں کو کمپیوٹر پڑھانا چاہئے''۔
اس طرح کے مکالموں کے نتیجے میں بے شمار والدین نے اپنے بچے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی آئی ٹی کی تعلیم کے لیے بھیج دیے ۔اس کے بعد انجینئرنگ کی اہمیت کاہوّا لوگوں پر سوار ہوا تو انہوں نے اس شعبے کے لیے بھی اپنے بچوں پروہی تجربہ دہرایا اورآج کل ایم بی اے اور سی اے کی ڈگریوں کے حصول کے لیے اسی قسم کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔
یہ پس منظر بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نئی چیزوں کو ضرور اختیار کرنا چاہئے لیکن ایسی پرانی چیزیں جن کی افادیت برقرار ہو ، انہیں یک دم نظر انداز نہیں کر دینا چاہئے۔دوسرے یہ کہ کسی پر کوئی بوجھ ڈالنے سے قبل یہ پتہ کر لینا چاہئے کہ اس میں یہ بوجھ اٹھانے کی سکت بھی ہے یا نہیں۔
ہمارے مشاہدے میں آیا ہے کہ اب اکثر پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے بھاری فیسوں کے عوض بچوں کو اسکولوں میں اچھی سہولیات تو دے دی ہیں لیکن وہاں ان کی شخصی مہارتوں پر خاطرخواہ کام نہیں کیا جا رہا ہے۔یہ اسکول بچوں کے والدین سے نئی یونیفارم اور درجنوں کاپیاں فراہم کرنے کا مطالبہ تو کرتے ہیں لیکن خود بچوں کوکتابیں رٹوانے کے علاوہ کم ہی کچھ کرتے ہیں۔
پرانے سرکاری اسکولوں میں طلبہ کے لیے سہولیات تو زیادہ نہیں تھیں لیکن ان کی ذاتی مہارتوں پر خوب کام ہوتا تھا۔ ہم تختی لکھنے ہی کی روایت کو دیکھ لیں۔ اُس زمانے کے عینی شاہد بتاتے ہیں کہ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ پرائمری کلاسوں میں طلبہ کو خوش نویس بنانے کے لیے بہت محنت کرتے تھے اور باقاعدگی سے تختی لکھواتے تھے۔اس مسلسل مشق کے نتیجے میں وہ بچے ساری زندگی اپنے خوش نویس ہونے کی وجہ سے فائدے میں رہتے تھے۔
اب کاپیوں کا دور ہے ،بہت سے اسکولوں میں ایسی کاپیاں بچوں کو دی جاتی ہیں جن کے صفحات کے اوپر اردو یا انگریزی کی ایک سطر لکھی ہوتی ہے جبکہ بقیہ زیریں سطور میں رہنمانکتے لگے ہوتے ہیں۔ بچے ڈرائنگ پنسل سے اس پر لکھتے ہیں۔ یہ مشق سالوں چلتی رہتی ہے لیکن آج کے میٹرک کے بچے کا خط دیکھ کر عموماًمایوسی ہی ہوتی ہے۔ کاپیوںکا استعمال درست ہے مگر ابتدائی کلاسوں میں اگر کچھ عرصے کے لیے بچوں کو تختی لکھوائی جائے تو ان کا خط کافی حد تک بہتر ہو سکتا ہے۔پرائیوٹ و سرکاری اسکولوں کو اس پہلو پر توجہ دینی چاہئے۔
دوسرے اب بچوں کے تعلیمی اداروں میں ٹیبلٹس کا استعمال بھی آہستہ آہستہ فروغ پا رہا ہے۔ بہت سے مالی طور پر آسودہ حال والدین اپنے بچوں کو یہ ٹیبلٹس خرید کر دے رہے ہیں۔ اس کا یہ فائدہ تو ہے کہ بچے عمر کی ابتداء ہی سے اس قسم کی ڈیوائسسز کے استعمال سے واقف ہو جاتے ہیں لیکن اس کے سائیڈ ایفکٹس پر کم ہی کسی کی نگاہ جاتی ہے۔
چھوٹے بچوں کو اپنی جسمانی نشوونما کے لیے قدرتی ماحول میں کھیل کود کی ضرورت ہوتی ہے لیکن پڑھائی کے مقاصد کے لیے خریدی گئی ان ٹیبلٹس میں موجود گیمز اب بچوں کو اپنا رسیا بنا چکی ہیں ۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بچے جسمانی وزرش کے کھیلوں کی بجائے لیپ ٹاپ یا ٹیبلٹس پر گیمز کھیلنے کو زیادہ پسند کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کی نظر کمزور ہوجاتی ہے اور موٹاپے کی بیماری بھی انہیں لاحق ہو جاتی ہے۔اس کے علاوہ بچوں کی یاداشت پر انتہائی منفی اثر پڑتا ہے۔
ایک اور چیز یہ کہ شہروں کی گلیوں اور محلوں میں کثرت سے کھل جانے والے پرائیویٹ اسکولوں میں مدرسین کی بھرتی کے لیے کوئی خاص طریقہ کار نہیں ہے۔بدقسمتی سے ایسے خواتین وحضرات بھی بچوں کو پڑھا رہے ہیں جن کے پاس تازہ ڈگریاں تو ہیں لیکن تدریسی تجربہ بالکل بھی نہیں ہے۔ ایسے اساتذہ ان بچوں پر تدریسی تجربات کرتے ہیں جس کا بچوں کی تعلیمی نشوونما پر بہت منفی اثر پڑتا ہے۔
یہ ناتجربہ کار اساتذہ بچوں کو مشقی سوالات کے جوابات رٹوانے اورامتحانی سوالات کے جوابات تیار کروانے تک محدود رہتے ہیں حالانکہ نصاب تعلیم کا خاص مقصد یہ ہوتا ہے کہ بچوں کی ان کی عمر کی مناسبت سے ذہنی تربیت کی جائے اوران کے شعور کو بلند کیا جائے۔اسباق میں جن اشیاء، افراد یا جگہوں کا ذکر ہو انہیں زبانی یاد کروانے سے زیادہ ان سے متعلق بچوں کے تصورات(concepts) واضح کیے جائیں۔پھر ممکنہ حد تک عملی تجربات ، چارٹس اور تصاویر کے ذریعے چیزوں کو سمجھنے میں بچوں کو سہولت فراہم کی جائے۔
یہ جدید دور ہے اور یہاں ٹیکنالوجی کی ترقی کے اعتبار سے ہر دن ایک نیا دن ہوتا ہے۔ اس صورت حال میںہمیں آنکھیں بند کر کے اس بڑی مارکیٹ کا صارف نہیں بن جانا چاہئے بلکہ چیزوں کو اختیار کرنے سے پہلے ان کے منفی اور مثبت پہلوؤں پر بھی نگاہ ڈال لینی چاہئے۔
چھوٹے بچوں کی تعلیم کے حوالے سے ہمیں چند چیزیں ذہن میں رکھنی چاہییں:۱۔ان کا زیادہ وقت الیکٹرانک ڈیوائسز(کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ وغیرہ) میں نہ گزرے بلکہ انہیں کتاب کی مطالعے کی جانب راغب کیا جائے۔ ۲۔بچوں کی جسمانی نشوونما بھی ان کی ذہنی نشوونما کی طرح اہم ہے اس لیے انہیں جسمانی ورزش کے کھیلوں میں شریک کرنا چاہئے۔۳۔ بچوں کو خوش نویس بنانے کے لیے انہیں شروع کی کلاسوں میں(خاص طور پر اردوزبان کے لیے) تختی لکھنے کی جانب مائل کرنا چاہئے ۔اس مسلسل مشق کے نتیجے میں حاصل ہونے والی تحریر کی نفاست ان کی شخصیت کا عمر بھر مثبت تعارف کراتی رہے گی۔ ۴۔ بچوں سے ان کے اسباق سے متعلق پوچھ تاچھ کرتے رہنا چاہئے ۔ جہاں ان کے تصورات واضح نہ ہوں ، ان کی مدد کرنی چاہئے۔اس حوالے سے والدین کو اسکولوں اور اساتذہ پر کلی انحصار نہیں کرنا چاہئے۔ ۵۔ ٹی وی اور کارٹون دیکھنے کا وقت متعین کرنا چاہئے اور بچوں کو نظام الاوقات کے تحت اپنے کام نمٹانے کی عادت ڈالنی چاہئے ۔اس طرح ان کی شخصیت منظم ہوجائے گی۔اس کے علاوہ دوسروں کی دیکھا دیکھی انہیں کسی ایسے شعبے کی تعلیم حاصل کرنے پر مجبور نہیں کرنا چاہئے جس کے لیے ان میں دلچسپی نہیں پائی جاتی۔ یہ وہ بنیادی امور ہیں جن کو ملحوظ خاطر رکھ کر بچوں کی بہتر اسکولنگ اور ان کی شعور کی اچھی تربیت کی جاسکتی ہے۔
اس طرح کے مکالموں کے نتیجے میں بے شمار والدین نے اپنے بچے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی آئی ٹی کی تعلیم کے لیے بھیج دیے ۔اس کے بعد انجینئرنگ کی اہمیت کاہوّا لوگوں پر سوار ہوا تو انہوں نے اس شعبے کے لیے بھی اپنے بچوں پروہی تجربہ دہرایا اورآج کل ایم بی اے اور سی اے کی ڈگریوں کے حصول کے لیے اسی قسم کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔
یہ پس منظر بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نئی چیزوں کو ضرور اختیار کرنا چاہئے لیکن ایسی پرانی چیزیں جن کی افادیت برقرار ہو ، انہیں یک دم نظر انداز نہیں کر دینا چاہئے۔دوسرے یہ کہ کسی پر کوئی بوجھ ڈالنے سے قبل یہ پتہ کر لینا چاہئے کہ اس میں یہ بوجھ اٹھانے کی سکت بھی ہے یا نہیں۔
ہمارے مشاہدے میں آیا ہے کہ اب اکثر پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے بھاری فیسوں کے عوض بچوں کو اسکولوں میں اچھی سہولیات تو دے دی ہیں لیکن وہاں ان کی شخصی مہارتوں پر خاطرخواہ کام نہیں کیا جا رہا ہے۔یہ اسکول بچوں کے والدین سے نئی یونیفارم اور درجنوں کاپیاں فراہم کرنے کا مطالبہ تو کرتے ہیں لیکن خود بچوں کوکتابیں رٹوانے کے علاوہ کم ہی کچھ کرتے ہیں۔
پرانے سرکاری اسکولوں میں طلبہ کے لیے سہولیات تو زیادہ نہیں تھیں لیکن ان کی ذاتی مہارتوں پر خوب کام ہوتا تھا۔ ہم تختی لکھنے ہی کی روایت کو دیکھ لیں۔ اُس زمانے کے عینی شاہد بتاتے ہیں کہ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ پرائمری کلاسوں میں طلبہ کو خوش نویس بنانے کے لیے بہت محنت کرتے تھے اور باقاعدگی سے تختی لکھواتے تھے۔اس مسلسل مشق کے نتیجے میں وہ بچے ساری زندگی اپنے خوش نویس ہونے کی وجہ سے فائدے میں رہتے تھے۔
اب کاپیوں کا دور ہے ،بہت سے اسکولوں میں ایسی کاپیاں بچوں کو دی جاتی ہیں جن کے صفحات کے اوپر اردو یا انگریزی کی ایک سطر لکھی ہوتی ہے جبکہ بقیہ زیریں سطور میں رہنمانکتے لگے ہوتے ہیں۔ بچے ڈرائنگ پنسل سے اس پر لکھتے ہیں۔ یہ مشق سالوں چلتی رہتی ہے لیکن آج کے میٹرک کے بچے کا خط دیکھ کر عموماًمایوسی ہی ہوتی ہے۔ کاپیوںکا استعمال درست ہے مگر ابتدائی کلاسوں میں اگر کچھ عرصے کے لیے بچوں کو تختی لکھوائی جائے تو ان کا خط کافی حد تک بہتر ہو سکتا ہے۔پرائیوٹ و سرکاری اسکولوں کو اس پہلو پر توجہ دینی چاہئے۔
دوسرے اب بچوں کے تعلیمی اداروں میں ٹیبلٹس کا استعمال بھی آہستہ آہستہ فروغ پا رہا ہے۔ بہت سے مالی طور پر آسودہ حال والدین اپنے بچوں کو یہ ٹیبلٹس خرید کر دے رہے ہیں۔ اس کا یہ فائدہ تو ہے کہ بچے عمر کی ابتداء ہی سے اس قسم کی ڈیوائسسز کے استعمال سے واقف ہو جاتے ہیں لیکن اس کے سائیڈ ایفکٹس پر کم ہی کسی کی نگاہ جاتی ہے۔
چھوٹے بچوں کو اپنی جسمانی نشوونما کے لیے قدرتی ماحول میں کھیل کود کی ضرورت ہوتی ہے لیکن پڑھائی کے مقاصد کے لیے خریدی گئی ان ٹیبلٹس میں موجود گیمز اب بچوں کو اپنا رسیا بنا چکی ہیں ۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بچے جسمانی وزرش کے کھیلوں کی بجائے لیپ ٹاپ یا ٹیبلٹس پر گیمز کھیلنے کو زیادہ پسند کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کی نظر کمزور ہوجاتی ہے اور موٹاپے کی بیماری بھی انہیں لاحق ہو جاتی ہے۔اس کے علاوہ بچوں کی یاداشت پر انتہائی منفی اثر پڑتا ہے۔
ایک اور چیز یہ کہ شہروں کی گلیوں اور محلوں میں کثرت سے کھل جانے والے پرائیویٹ اسکولوں میں مدرسین کی بھرتی کے لیے کوئی خاص طریقہ کار نہیں ہے۔بدقسمتی سے ایسے خواتین وحضرات بھی بچوں کو پڑھا رہے ہیں جن کے پاس تازہ ڈگریاں تو ہیں لیکن تدریسی تجربہ بالکل بھی نہیں ہے۔ ایسے اساتذہ ان بچوں پر تدریسی تجربات کرتے ہیں جس کا بچوں کی تعلیمی نشوونما پر بہت منفی اثر پڑتا ہے۔
یہ ناتجربہ کار اساتذہ بچوں کو مشقی سوالات کے جوابات رٹوانے اورامتحانی سوالات کے جوابات تیار کروانے تک محدود رہتے ہیں حالانکہ نصاب تعلیم کا خاص مقصد یہ ہوتا ہے کہ بچوں کی ان کی عمر کی مناسبت سے ذہنی تربیت کی جائے اوران کے شعور کو بلند کیا جائے۔اسباق میں جن اشیاء، افراد یا جگہوں کا ذکر ہو انہیں زبانی یاد کروانے سے زیادہ ان سے متعلق بچوں کے تصورات(concepts) واضح کیے جائیں۔پھر ممکنہ حد تک عملی تجربات ، چارٹس اور تصاویر کے ذریعے چیزوں کو سمجھنے میں بچوں کو سہولت فراہم کی جائے۔
یہ جدید دور ہے اور یہاں ٹیکنالوجی کی ترقی کے اعتبار سے ہر دن ایک نیا دن ہوتا ہے۔ اس صورت حال میںہمیں آنکھیں بند کر کے اس بڑی مارکیٹ کا صارف نہیں بن جانا چاہئے بلکہ چیزوں کو اختیار کرنے سے پہلے ان کے منفی اور مثبت پہلوؤں پر بھی نگاہ ڈال لینی چاہئے۔
چھوٹے بچوں کی تعلیم کے حوالے سے ہمیں چند چیزیں ذہن میں رکھنی چاہییں:۱۔ان کا زیادہ وقت الیکٹرانک ڈیوائسز(کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ وغیرہ) میں نہ گزرے بلکہ انہیں کتاب کی مطالعے کی جانب راغب کیا جائے۔ ۲۔بچوں کی جسمانی نشوونما بھی ان کی ذہنی نشوونما کی طرح اہم ہے اس لیے انہیں جسمانی ورزش کے کھیلوں میں شریک کرنا چاہئے۔۳۔ بچوں کو خوش نویس بنانے کے لیے انہیں شروع کی کلاسوں میں(خاص طور پر اردوزبان کے لیے) تختی لکھنے کی جانب مائل کرنا چاہئے ۔اس مسلسل مشق کے نتیجے میں حاصل ہونے والی تحریر کی نفاست ان کی شخصیت کا عمر بھر مثبت تعارف کراتی رہے گی۔ ۴۔ بچوں سے ان کے اسباق سے متعلق پوچھ تاچھ کرتے رہنا چاہئے ۔ جہاں ان کے تصورات واضح نہ ہوں ، ان کی مدد کرنی چاہئے۔اس حوالے سے والدین کو اسکولوں اور اساتذہ پر کلی انحصار نہیں کرنا چاہئے۔ ۵۔ ٹی وی اور کارٹون دیکھنے کا وقت متعین کرنا چاہئے اور بچوں کو نظام الاوقات کے تحت اپنے کام نمٹانے کی عادت ڈالنی چاہئے ۔اس طرح ان کی شخصیت منظم ہوجائے گی۔اس کے علاوہ دوسروں کی دیکھا دیکھی انہیں کسی ایسے شعبے کی تعلیم حاصل کرنے پر مجبور نہیں کرنا چاہئے جس کے لیے ان میں دلچسپی نہیں پائی جاتی۔ یہ وہ بنیادی امور ہیں جن کو ملحوظ خاطر رکھ کر بچوں کی بہتر اسکولنگ اور ان کی شعور کی اچھی تربیت کی جاسکتی ہے۔