ہیپاٹائٹس فری پاکستان بنانے کیلئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے
شعبہ صحت کے ماہرین کی ہیپاٹائٹس کے عالمی دن کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو
ہیپاٹائٹس ایک خطرناک بیماری ہے جو اندر ہی اندر انسانی جگر کو خراب کردیتی ہے جس کی وجہ سے پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں اور نئی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ ہیپاٹائٹس کی کئی اقسام ہیں جن میں زیادہ تر اے، بی، سی اور ای پائی جاتی ہیں۔
ہیپاٹائٹس اے ، ای اور بی، سی کا آپس میں براہ راست تعلق نہیں ہے۔وائرس اے اور ای آلودہ پانی اور غذا جبکہ بی اور سی خون کے ذریعے کسی دوسرے انسان میں منتقل ہوتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس بی اور سی کا تناسب پاکستان میں دس فیصد ہے جو خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ دنیا ہیپاٹائٹس کے خاتمے کے لیے 2030ء کا ٹارگٹ بنا چکی ہے۔ ہم اس حوالے سے کہاں کھڑے ہیں اور یہاں کیا اقدامات کیے جارہے ہیں ا س طرح کے بیشتر سوالات کے جوبات جاننے کے لیے ''ہیپاٹائٹس کے عالمی دن'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں شعبہ صحت کے ماہرین نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
خواجہ سلمان رفیق
( مشیر برائے صحت وزیراعلیٰ پنجاب )
ہیپاٹائٹس کے عالمی دن کے موقع پر ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ اس مرض کے خاتمے کے لیے اصلاحات کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات کریں۔ ہیپاٹائٹس ''اے'' اور ''ای''، زیادہ خطرناک نہیں ہیں۔ یہ پانی سے پیدا ہوتے ہیں۔ صاف پانی پاکستان کا بہت اہم مسئلہ ہے، خاص طور پر ان دور دراز علاقوں میں جہاں پانی کی بہتر سہولیات موجود نہیں ہیں۔ اس حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب نے صاف پانی کمپنی بنائی ہے جس کے لیے پاکستان اور صوبہ پنجاب کی تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ 40 سے 50 ارب روپے سالانہ مختص کیا گیا ہے اور یہ منصوبہ جنوبی پنجاب سے شروع کیا جارہا ہے جسے بعدازاں پورے پنجاب میں پھیلایا جائے گا۔ آبادی کا بڑھتا ہوا دباؤ اور ہیپاٹائٹس میں اضافہ ایک خطرناک عفریت کی مانند ہے، ہیپاٹائٹس ایک ان دیکھا قاتل ہے جس کی وجہ سے روزانہ بے شمار جانیں ضائع ہوتی ہیں۔
ہیپاٹائٹس بی اور سی خطرناک ہیں، ''بی '' کی ویکسین موجود ہے جبکہ ''سی'' کی ویکسین نہیں ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا تو ریاست کا یہ بنیادی فرض ہے کہ جو بھی ویکسین موجود ہو اس تک پہنچائی جائے تاکہ بچے کو تمام ممکنہ بیماریوں سے بچایا جاسکے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس ایک بڑا چیلنج ہے جبکہ نوزائیدہ بچوں کو ہیپاٹائٹس ''بی'' کی ویکسین فراہم کرنے کی شرح بھی بہت کم ہے۔ حکومت پنجاب نے چند سال پہلے اس کا ادراک کیا ہے۔ ہم ہر سال ویکسی نیٹرز کی تعداد بھی بڑھا رہے ہیں اور اب نومولود بچوں میں ہیپاٹائٹس ''بی'' کی ویکسین کی کوریج کافی حد تک بہتر ہے اور اس طرح ہم اپنی آنے والی نسل کو اس موزی مرض سے بچا سکتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس ''سی'' خطرناک ہے۔
اس سے بچاؤ کے لیے احتیاط اور علاج دونوں ضروری ہیں۔ اس کے پھیلنے کی مختلف وجوہات میں دندان ساز کی غفلت، عطائی ڈاکٹرز، بیمار خون کا ٹرانسفر و دیگر شامل ہیں۔ محکمہ صحت پنجاب نے علاج کے حوالے سے ''سوالڈیز'' اپنے سالانہ پروگرام میں شامل کی ہے جو بہتر اور سستی دواہے ۔ اس سے پہلے ٹیکے استعمال ہوتے تھے جن کی افادیت 30 فیصد اور قیمت زیادہ تھی جبکہ سوالڈیز کی افادیت 70فیصد اور قیمت بھی کم ہے۔ ہم نے اس حوالے سے محنت کی ، نئی کمپنی کو رجسٹرڈ کروایااور اب 32ہزار روپے ماہانہ کی دوا15سو روپے ماہانہ میں دستیاب ہے۔ یہ دوا اب ہسپتالوں میں پہنچا دی گئی ہے اور لاکھوں لوگوں کو ہمارے پروگرام کے مطابق ملتی رہے گی۔ ہیپاٹائٹس کی دوا ہمارے سالانہ پروگرام کے پی سی ون میں شامل ہے اور اگلے پی سی ون میں بھی اسے شامل کیا جائے گا۔ ــ"Safe Blood" پاکستان کا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
1999ء میں پنجاب میں ایک بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی بنی تھی، حیرت ہے کہ 15سال میں اس کے صرف دو اجلاس ہوئے۔ ڈیڑھ برس قبل یہ اتھارٹی ہمارے پاس آئی، ہم نے اس پر کام شروع کیا ، سٹینڈرڈز بنائے، بلڈ بینک کی رجسٹریشن شروع کی اور اوائل میں ان بلڈ بینکوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا جو غیر معیاری تھے۔ جب ہم نے فیلڈ میں کام شروع کیا تو ہمیں ڈی سی اوز نے بتایا کہ قانون میں اتنے سقم موجود ہیںکہ ہم ان لوگوں پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے۔ اس لیے ہم نے اس پر تین، چار ماہ محنت کی، مسودہ تیار کیا اور بالآخر متعلقہ ڈیپارٹمنس سے منظور ہونے کے بعد اسمبلی میں پیش کردیا گیاہے۔ اس مہینے ہیلتھ کمیٹی اس پر بحث کرے گی اور اگست میں یہ قانون کا حصہ بن جائے گا۔اس قانون میں غیر معیاری اور غیر قانونی بلڈ بینک اور تھیلی سیمیا سینٹرز کو سربمہر کرنے، سزا اور جرمانے شامل ہیں۔ پاکستان کڈنی لیور انسٹیٹیوٹ حکومت کا بہت بڑا اقدام ہے اور ہم نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر یہ کام شروع کیا ہے۔ ہم نے اپنے ڈویلپمنٹ بجٹ میں سے 16ارب روپے آئندہ دوسالوں میں اس انسٹیٹیوٹ پر خرچ کرنے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں لیور ٹرانسپلانٹ نہ ہونے کے برابر ہے، نئے سینٹرز کے قیام کے ساتھ ساتھ ہم پرانے انسٹیٹیوٹ کی حالت بھی بہتر کررہے ہیں۔ ہمارا ٹارگٹ ہے کہ رواں سال دسمبر میں پاکستان کڈنی لیور انسٹیٹیوٹ پہلا ٹرانسپلانٹ کرے ، پہلے مرحلے میں یہ 3سو بیڈز پر مشتمل ہوگا بعدازاں اسے وسیع کیا جائے گا۔ یہ عالمی معیارکا ہسپتال ہوگا لیکن مریضوں کو مفت علاج فراہم کیا جائے گا اور اس پر 6سے 8ارب روپے سالانہ خرچ ہوں گے ۔ عالمی ماہرین کے ساتھ مل کر ہم سٹرٹیجی بنارہے ہیں کہ ہیپاٹائٹس ''بی'' اور ''سی'' کو کس طرح کم کیا جائے۔ اس حوالے سے ریجنل فلٹر کلینکس بنائے جائیں گے تاکہ شروع میں ہی اس کی تشخیص ہوسکے۔ اس کے علاوہ لوگوں میں شعور پیدا کرنے کے لیے نصاب میں بھی اس حوالے سے مضمون شامل کیا جائے گا۔
ہم ڈینگی کی کابینہ کمیٹی کی طرز پر ہیپاٹائٹس کے حوالے سے کام کررہے ہیں ، ایسا سسٹم بنایا جارہا ہے جس کے تحت تمام اضلاع سے ڈیٹا اکٹھا کیا جائے گا اور پھر مختلف مراحل میں ہیپاٹائٹس ''بی'' اور ''سی'' کا پورے پنجاب سے خاتمہ کیا جائے گا۔ میرے نزدیک ہیپاٹائٹس سے نمٹنے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم بائیومیڈیکل پر کام کررہے ہیں، ہسپتالوں کو ''ری میپ'' کیا جائے گا تو بیماریوں میں خاصی کمی آئے گی۔ اس حوالے سے روڈ میپ تیار کیا جائے گا اور پانچ سالہ پلاننگ بھی کی جائے گی۔ہیلتھ کیئر کمیشن نے عطائیت کے خلاف کافی کام کیا ہے، ہزاروں ہسپتال اور کلینک رجسٹر ڈہوچکے ہیں اور ابھی اس پر مزید کام جاری ہے۔ ہیپاٹائٹس کے حوالے سے ہم جو فورم بنارہے ہیں ۔
اس کے نام پر غور کیا جارہا ہے، اس میں عالمی ادارہ صحت سمیت دنیا کے ماہرین موجود ہیں ۔ یہ ون ونڈو کام ہوگا ، آئندہ ماہ وزیراعلیٰ پنجاب کو یہ منصوبہ پیش کیا جائے گا اور منظوری کے بعد اس پر کام شروع کردیا جائے گا۔ہم ہیپاٹائٹس کے حوالے سے ماہرین کے ساتھ ملکر ٹارگٹ بنا رہے ہیں جسے میڈیا سے بھی شیئر کیا جائے گا۔ ہیپاٹائٹس کے حوالے سے جو سٹرٹیجی بنائی جائے گی اس میں ہم مشروط چیزوں پر فوری عملدرآمد مشکل ہے لیکن سکول میں داخلے کے وقت ٹیسٹ کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ ہم ہسپتالوں میں ''ون ٹائم گرانٹ'' دے رہے ہیں، جس کے بعد ایم ایس کے پاس پورے سال کے فنڈز موجود ہوں گے اور وہ ہسپتال کی حالت کے بارے میں جوابدہ ہوں گے۔
ڈاکٹر غیاث النبی طیب
(ماہرامراض جگر و ممبر ٹیکنیکل ایڈوائرزی کمیٹی برائے ہیپاٹائٹس حکومت پاکستان)
28جولائی کو ہیپاٹائٹس ڈے منانے کا مقصد لوگوں کو اس مرض کے بارے میں آگاہی دینا ہے۔ ہیپاٹائٹس ایک بڑی ٹرم ہے اور اس کا مطلب جگر کی سوزش ہے۔ جگر کی سوزش کی وجہ ادویات، موٹاپا ، شوگر اور ہیپاٹائٹس کے جراثیم بھی ہوسکتے ہے۔ پاکستان میں جراثیم وائرس ہی ہوتے ہیں جو پانچ یا چھ اقسام کے ہیں۔ان میں سے بعض گندے پانی اور گندی خوراک سے پھیلتے ہیں جن میں ''اے'' اور ''ای'' شامل ہیں جبکہ ''بی'' اور ''سی'' خون اور خون آلودہ چیزوں سے پھیلتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس ''اے'' اور ''ای'' معیادی یرقان ہوتے ہیں، یہ دو سے تین ہفتوں کی معیاد پوری ہونے کے بعدخودبخود ٹھیک ہوجاتے ہیں ۔ ہیپاٹائٹس ''اے'' اور ''ای'' میں 100میں سے ایک مریض کی موت واقع ہوتی ہے۔
اس وقت پاکستان کا اصل مسئلہ ہیپاٹائٹس ''بی'' اور ''سی''ہے۔ پاکستان کی کل آبادی کا 6فیصد ہیپاٹائٹس ''سی'' جبکہ 2.8فیصد آبادی ہیپاٹائٹس ''بی'' میں مبتلا ہے۔ یہ بیماری 25سے 50 برس کی عمر کے لوگوں میں 18 فیصد ہے جو خوفنا ک بات ہے۔ ہمارے معاشرے میں احتیاط نہیں برتی جاتی، گھر میں ایک ہی ریزر سے سب شیو کرتے ہیں، ایک ہی مسواک، تولیہ، برش وغیرہ سب استعمال کر لیتے ہیں، اس طرح کی بے احتیاطی کی وجہ سے گھروں میں 100 میں سے 6 لوگوں میں ہیپاٹائٹس ٹرانسفر ہوجاتا ہے۔ ماں سے بچے کوٹرانسفر کی شرح بھی 100میں سے 6 ہے۔ یہ آگاہی دینا بہت اہم ہے اور یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ سب مل جل کر جل کام کریں گے تو مجھے یقین ہے کہ ہم ہیپاٹائٹس کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
ہیپاٹائٹس ''بی'' اور ''سی'' ایک چھپی ہوئی بیماری ہے، اس کا پتہ اکثر اوقات پیچیدگیاں سامنے آنے کے بعد ہی اس کا پتہ چلتا ہے یا اس وقت چلتا ہے جب ٹیسٹ کروایا جائے۔ یہ خاموش بیماری آہستہ آہستہ جگر کو دیمک کی طرح چاٹتی ہے۔ اس کی پیچیدگیوں میں جگر کا مسئلہ، پیٹ میں پانی، خون کی الٹی، دماغ ماؤف ہونے کی کیفیت اور جگر کا کینسر شامل ہیں۔ گزشتہ دس، بارہ سال سے جگر کے مرض میں اضافہ ہوا ہے اور وارڈز میں 70 فیصد مریض جگر کے مرض میں مبتلا ہیں۔ گزشتہ تین سے چار سالوں میں جگر کے کینسر کے مریضوں میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسی کوئی تبدیلی آئی ہے جس سے یہ مرض پیچیدہ ہوتا جارہا ہے لہٰذا اب اسے قابو کرنے کے لیے ہم نے سٹرٹیجی بنانی ہے۔
اس حوالے سے کسی بھی سٹرٹیجی کے دو زاویے ہیں، ایک تو یہ ہے کہ تمام بیمار لوگوں کا علاج کردیا جائے، نہ کوئی بیمار ہوگا اور نہ یہ مرض پھیلے گا۔ دوسرا یہ ہے کہ تندرست لوگوں کی ویکسی نیشن کردی جائے۔ ہیپاٹائٹس ''بی'' کی موثر ویکسین موجود ہے، 100میں سے 95 مریض بچ جاتے ہیں جبکہ صرف 5لوگوں پہ یہ موثر ثابت نہیں ہوتی۔ پیدائش کے موقع پر اگر ہیپاٹائٹس ''بی'' کی ویکسین لگوا لی جائے تو انتہائی موثر ثابت ہوتی ہے۔ اس کے لیے تین ٹیکے لگائے جاتے ہیں، پیدائش کے وقت پہلا، ایک ماہ بعد دوسرا جبکہ چھ مہینے بعد تیسرا ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔عالمی ادارہ صحت نے 2030ء تک ہیپاٹائٹس ''سی'' کے خاتمے کا جو ٹارگٹ دیا ہے، اس پر کافی ممالک سے کامیابی کی کہانیاں آنا شروع ہوگئی ہیں۔
ہم ڈینگی کوشکست دے چکے ہیں جبکہ پولیو کو شکست دینے میں کافی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں لہٰذا ہم ہیپاٹائٹس پر بھی قابو پالیں گے۔اس کے لیے ہمیں لوگوںکو آگاہی دینی ہے، انہیں احتیاطی تدابیر بتانی ہیں۔ ہر سال 2لاکھ 20ہزار نئے لوگ ہیپاٹائٹس ''سی'' کا شکار ہورہے ہیں۔ حکومت کو ایسی سکیم دینی چاہیے جس میں مریضوں کو ہیپاٹائٹس کی ادویات کے لیے آسان اقساط پر 12ہزار روپے قرض دیا جائے ۔ ٹیکوں کا دور اب ختم ہوچکا، ان کا استعمال اب نہ کیا جائے۔ جنہیں ٹیکے لگ چکے ہیں مگر کامیابی نہیں ملی اور جگر سکڑگیا ہے، ایسے مریضوں میں ان ادویات کی کامیابی کی شرح 70فیصد ہے۔جنہیں پیچیدگیوں کا عمل شروع نہیں ہوا ان میں ہیپاٹائٹس کی نئی ادویات کی کامیابی کی شرح 100فیصد ہے۔
ایک دوا جو بھارت سے سمگل کی جارہی ہے، اس کے لیے 8 سے 10کمپنیوں نے درخواست دی ہوئی ہے لہٰذا اس حوالے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو جلد از جلد تمام تقاضے پورے کرکے ان کی رجسٹریشن کرنی چاہیے۔ اس وقت کئی ادویات پائپ لائن میں ہیں جن کی افادیت 99فیصد ہے لہٰذا اس طرف توجہ دی جائے۔ آج کے دور میں جگر ٹرانسپلانٹ بہت اہم چیز ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں لیور ٹرانسپلانٹ کے سینٹرز بہت کم ہیں۔ ہمیں اس وقت اس طرح کے سینٹرز بنانے کی ضرورت ہے مگر آنے والے وقت میں شاید اتنی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ اس کی جگہ سٹیم سیل تھراپی ہوگی اور یہ صرف جگر کیلئے نہیں بلکہ دل و دیگر بیماریوں کے لیے بھی ہوگی۔
فی الحال اس کی کامیابی کی شرح 45 فیصد ہے مگرآنے والے وقت میں سٹیم سیل تھراپی لیور ٹرانسپلانٹ کا متبادل ہوگی۔ آج جب ہم لیور ٹرانسپلانٹ سینٹرز بنا رہے ہیں اس میں ہمیں دیگر علاج کے طریقوں کے ساتھ ساتھ سٹیم سیل تھراپی کی گنجائش رکھنا ہوگی۔ ہیلتھ کیئر کمیشن ایکٹ کی پالیسیاں عالمی معیار کے مطابق ہیں۔ اگر انفیکشن کنٹرول کی پالیسی کو چھوٹے اور بڑے ہسپتالوں میں لاگو کردیا جائے تو نئے قوانین کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اسی طرح 2001ء کے بلڈ ٹرانسفیوژن ایکٹ پر صحیح معنوں میں عملدرآمد ہو، چھوٹے شہروں، قصبوں، دیہاتوں میں انتقال خون درست طریقے سے کیا جائے تو بیماریوں پر قابو پانا ممکن ہے۔ اس کے علاوہ ہسپتالوں میں ڈاکٹرکی تعداد کے لحاظ سے مریض ہونے چاہئیں، ہسپتالوں پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے لیکن ہمارے ہاں ایک بیڈ پر دو دو مریض ہوتے ہیں۔ معاملات کی بہتری کے لیے وزیر صحت اور سیکرٹری صحت ٹیکنیکل ہونا چاہیے کیونکہ اگر انہیں ان چیزوں کا ادراک نہیں ہوگا تو حالات بہتر نہیں ہوں گے۔ اس کے علاوہ لانگ ٹرم پالیسی ہونی چاہیے اور اگر آئندہ آنے والی حکومت ا س پالیسی کو تبدیل کرنا چاہتی ہے تو اس پر بحث کی جائے۔
ڈاکٹر اسد علی چودھری
(ماہر امراض جگر و کلینیکل ڈائریکٹر گوجرانوالہ لیور فاؤنڈیشن)
ہیپاٹائٹس ''سی'' پاکستان میں بہت زیادہ ہے لیکن اس وقت وہ تمام موثر ادویات ہیں جو اس بیماری کے علاج کے لیے بہت ضروری ہیں۔ ہیپاٹائٹس کے حوالے سے گولیاں موجود ہیں اور ان کے منفی اثرات بھی بہت کم ہیں۔ اس سب کے باوجود یہ بیماری اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک لوگوں میں اس حوالے سے شعور پیدا نہ کیا جائے۔ ڈاکٹر کے پاس جانا، ادویات کھانا، علاج کروانا درست ہے لیکن اس مرض سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر بہت ضروری ہیں۔ ہیپاٹائٹس ''بی اور سی'' خون سے پھیلتا ہے اور یہ بیماری دائمی شکل اختیار کرسکتی ہے۔
''اے''اور ''ای'' وائرس گندا پانی پینے یا آلودہ اشیاء کھانے سے پھیلتے ہیں۔یہ وائرس شدید حملہ کرتے ہیں، یرقان ہوتا ہے لیکن 90 فیصد مریض خودبخود ٹھیک ہوجاتے ہیں لیکن ''بی'' اور ''سی'' ایسی بیماریاں ہیں جو سنگین ہیںاور جگر سکڑنے کا باعث بنتی ہیں۔ اگر جگر سکڑ جائے تو مہلک پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں، ایسی صورتحال میں سوائے لیور ٹرانسپلانٹ کے اور کوئی حل نہیں ہوتا۔ اس سے بچنے کیلئے بروقت علاج بہت ضروری ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ پھیلتا کیسے ہے، ہر وہ چیز جہاں خون سے خون کا واسطہ ہوتا ہے وہاں اس کے پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
ایسی جگہیں جہاں صحت یا صحت سے متعلق کاروبار ہوتا ہے ان کے لیے گائیڈ لائن بنانے کی ضرورت ہے۔ تمام ہیلتھ کیئر پروائڈرز کی چیکنگ ہونی چاہیے، کسی صورت بھی سرنج دوبار ہ استعمال نہیں ہونی چاہیے۔جب خون لگایا جائے تو اس کی سکریننگ انتہائی ضروری ہے۔ جب ڈینٹسٹ کے پاس جاتے ہیں تو یہ یقینی ہونا چاہیے آلات ستعمال شدہ نہ ہوں۔ سرجری کے دوران سٹریلائزیشن اور ڈسپوزبل آلات استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔یہ تمام وائرس پھیلانے کی فیکٹریاں ہیں لہٰذا ان پر جنگی بنیادوں پر کام ہونا چاہیے ۔ عطائی ڈاکٹرز اور وہ تمام لوگ جو سڑک، فٹ پاتھ پر علاج کررہے ہیں ان کے خلاف ایکشن کی ضرورت ہے۔ نائی کے پاس اپنی کٹ لیکر جائیں اور اس بات کا خیال بھی رکھیں کہ پانی استعمال شدہ نہ ہو۔
اس کے علاوہ کان اور ناک چھیدوانا بھی ہیپاٹائٹس کا سبب بن سکتا ہے۔ ہمیں ان تمام چیزوں کو دیکھنا ہے لیکن یہ اس وقت ہی ممکن ہوگا جب عوام کو اس حوالے سے آگاہی ہوگی۔پاکستان میڈیکل ریسرچ کونسل کی 2010ء کی رپورٹ کے مطابق گوجرانوالہ میں ہیپاٹائٹس ''سی'' 6.3فیصد تھا ، 2008ء کی مردم شماری کے مطابق گوجرنوالہ کی کل آبادی 38لاکھ 7ہزار تھی، اس حوالے سے دیکھیں تو 2لاکھ 43ہزار ہیپاٹائٹس کے مریض صرف گوجرانوالہ میں ہیں۔ سیالکوٹ میں ہیپاٹائٹس 8فیصد، حافظ آباد میں 13 فیصد جبکہ شیخوپورہ میں 9 فیصدہے۔ پاکستان میں ہیپاٹائٹس ''سی'' 5فیصد جبکہ ''بی'' 2.9 فیصد ہے۔ پنجاب میں 6 فیصد ہیپاٹائٹس ''سی'' ہے ، جنوبی پنجاب میں ہیپاٹائٹس ''بی'' 2.8 فیصد جبکہ شمالی پنجاب میں 1.7 فیصد ہے۔ اگر ہرسال اڑھائی لاکھ لوگ ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہوں اور ایک لاکھ سے زائد مریضوں کا علاج کرلیا جائے تو تب بھی ہم اس مرض کا خاتمہ نہیں کرسکتے ۔
اس کیلئے اب ہم نے اپنا زیادہ فوکس پرہیز اور احتیاط پر رکھنا ہوگا۔ ہماری تنظیم اپنی مدد آپ کے تحت جگر دوست مہم کا آغاز کررہی ہے اور لوگوں کو گھر گھر جاکر جگر کی حفاظت اور اس سے منسلک بیماریوں کے بارے میں آگاہی دی جائیگی۔ ہمیں شہر کی تاجر برادری کا تعاون حاصل ہے، امید ہے بہت جلد حکومت کی مدد بھی حاصل ہوجائے گی۔ ہمیں ابھی وسائل کی کوئی کمی نہیں مگر ہم چھوٹی سطح تک تو انفرادی طور پر کام کر سکتے ہیں مگر بڑے پیمانے پر حکومت اور اداروں کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
حکومت پر اس حوالے سے بہت بھاری ذمہ داری ہے کہ لوگوں میں شعور و آگاہی پیدا کرے۔ میرے نزدیک صرف علاج ، بھرپور آگاہی کے بغیر موثر ثابت نہیں ہوسکتا۔حکومت کو تمام متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر ایک پالیسی وضع کرنی چاہیے تاکہ ایک پلیٹ فارم پر یک زبان ہوکر کام کیا جائے۔ ہم نے اپنے طور پر پنجاب میں ہیپاٹائٹس کے حوالے سے کام کرنے والی این جی اوز کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ ایک سٹرٹیجی بنائی جاسکے۔حکومت اور این جی اوز مل کر ایک سٹرٹیجی بنالیں تو ہم آنے والی نسلوں کیلئے ہیپاٹائٹس فری پاکستان بنا سکتے ہیں۔
ہیپاٹائٹس اے ، ای اور بی، سی کا آپس میں براہ راست تعلق نہیں ہے۔وائرس اے اور ای آلودہ پانی اور غذا جبکہ بی اور سی خون کے ذریعے کسی دوسرے انسان میں منتقل ہوتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس بی اور سی کا تناسب پاکستان میں دس فیصد ہے جو خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ دنیا ہیپاٹائٹس کے خاتمے کے لیے 2030ء کا ٹارگٹ بنا چکی ہے۔ ہم اس حوالے سے کہاں کھڑے ہیں اور یہاں کیا اقدامات کیے جارہے ہیں ا س طرح کے بیشتر سوالات کے جوبات جاننے کے لیے ''ہیپاٹائٹس کے عالمی دن'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں شعبہ صحت کے ماہرین نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
خواجہ سلمان رفیق
( مشیر برائے صحت وزیراعلیٰ پنجاب )
ہیپاٹائٹس کے عالمی دن کے موقع پر ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ اس مرض کے خاتمے کے لیے اصلاحات کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات کریں۔ ہیپاٹائٹس ''اے'' اور ''ای''، زیادہ خطرناک نہیں ہیں۔ یہ پانی سے پیدا ہوتے ہیں۔ صاف پانی پاکستان کا بہت اہم مسئلہ ہے، خاص طور پر ان دور دراز علاقوں میں جہاں پانی کی بہتر سہولیات موجود نہیں ہیں۔ اس حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب نے صاف پانی کمپنی بنائی ہے جس کے لیے پاکستان اور صوبہ پنجاب کی تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ 40 سے 50 ارب روپے سالانہ مختص کیا گیا ہے اور یہ منصوبہ جنوبی پنجاب سے شروع کیا جارہا ہے جسے بعدازاں پورے پنجاب میں پھیلایا جائے گا۔ آبادی کا بڑھتا ہوا دباؤ اور ہیپاٹائٹس میں اضافہ ایک خطرناک عفریت کی مانند ہے، ہیپاٹائٹس ایک ان دیکھا قاتل ہے جس کی وجہ سے روزانہ بے شمار جانیں ضائع ہوتی ہیں۔
ہیپاٹائٹس بی اور سی خطرناک ہیں، ''بی '' کی ویکسین موجود ہے جبکہ ''سی'' کی ویکسین نہیں ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا تو ریاست کا یہ بنیادی فرض ہے کہ جو بھی ویکسین موجود ہو اس تک پہنچائی جائے تاکہ بچے کو تمام ممکنہ بیماریوں سے بچایا جاسکے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس ایک بڑا چیلنج ہے جبکہ نوزائیدہ بچوں کو ہیپاٹائٹس ''بی'' کی ویکسین فراہم کرنے کی شرح بھی بہت کم ہے۔ حکومت پنجاب نے چند سال پہلے اس کا ادراک کیا ہے۔ ہم ہر سال ویکسی نیٹرز کی تعداد بھی بڑھا رہے ہیں اور اب نومولود بچوں میں ہیپاٹائٹس ''بی'' کی ویکسین کی کوریج کافی حد تک بہتر ہے اور اس طرح ہم اپنی آنے والی نسل کو اس موزی مرض سے بچا سکتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس ''سی'' خطرناک ہے۔
اس سے بچاؤ کے لیے احتیاط اور علاج دونوں ضروری ہیں۔ اس کے پھیلنے کی مختلف وجوہات میں دندان ساز کی غفلت، عطائی ڈاکٹرز، بیمار خون کا ٹرانسفر و دیگر شامل ہیں۔ محکمہ صحت پنجاب نے علاج کے حوالے سے ''سوالڈیز'' اپنے سالانہ پروگرام میں شامل کی ہے جو بہتر اور سستی دواہے ۔ اس سے پہلے ٹیکے استعمال ہوتے تھے جن کی افادیت 30 فیصد اور قیمت زیادہ تھی جبکہ سوالڈیز کی افادیت 70فیصد اور قیمت بھی کم ہے۔ ہم نے اس حوالے سے محنت کی ، نئی کمپنی کو رجسٹرڈ کروایااور اب 32ہزار روپے ماہانہ کی دوا15سو روپے ماہانہ میں دستیاب ہے۔ یہ دوا اب ہسپتالوں میں پہنچا دی گئی ہے اور لاکھوں لوگوں کو ہمارے پروگرام کے مطابق ملتی رہے گی۔ ہیپاٹائٹس کی دوا ہمارے سالانہ پروگرام کے پی سی ون میں شامل ہے اور اگلے پی سی ون میں بھی اسے شامل کیا جائے گا۔ ــ"Safe Blood" پاکستان کا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
1999ء میں پنجاب میں ایک بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی بنی تھی، حیرت ہے کہ 15سال میں اس کے صرف دو اجلاس ہوئے۔ ڈیڑھ برس قبل یہ اتھارٹی ہمارے پاس آئی، ہم نے اس پر کام شروع کیا ، سٹینڈرڈز بنائے، بلڈ بینک کی رجسٹریشن شروع کی اور اوائل میں ان بلڈ بینکوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا جو غیر معیاری تھے۔ جب ہم نے فیلڈ میں کام شروع کیا تو ہمیں ڈی سی اوز نے بتایا کہ قانون میں اتنے سقم موجود ہیںکہ ہم ان لوگوں پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے۔ اس لیے ہم نے اس پر تین، چار ماہ محنت کی، مسودہ تیار کیا اور بالآخر متعلقہ ڈیپارٹمنس سے منظور ہونے کے بعد اسمبلی میں پیش کردیا گیاہے۔ اس مہینے ہیلتھ کمیٹی اس پر بحث کرے گی اور اگست میں یہ قانون کا حصہ بن جائے گا۔اس قانون میں غیر معیاری اور غیر قانونی بلڈ بینک اور تھیلی سیمیا سینٹرز کو سربمہر کرنے، سزا اور جرمانے شامل ہیں۔ پاکستان کڈنی لیور انسٹیٹیوٹ حکومت کا بہت بڑا اقدام ہے اور ہم نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر یہ کام شروع کیا ہے۔ ہم نے اپنے ڈویلپمنٹ بجٹ میں سے 16ارب روپے آئندہ دوسالوں میں اس انسٹیٹیوٹ پر خرچ کرنے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں لیور ٹرانسپلانٹ نہ ہونے کے برابر ہے، نئے سینٹرز کے قیام کے ساتھ ساتھ ہم پرانے انسٹیٹیوٹ کی حالت بھی بہتر کررہے ہیں۔ ہمارا ٹارگٹ ہے کہ رواں سال دسمبر میں پاکستان کڈنی لیور انسٹیٹیوٹ پہلا ٹرانسپلانٹ کرے ، پہلے مرحلے میں یہ 3سو بیڈز پر مشتمل ہوگا بعدازاں اسے وسیع کیا جائے گا۔ یہ عالمی معیارکا ہسپتال ہوگا لیکن مریضوں کو مفت علاج فراہم کیا جائے گا اور اس پر 6سے 8ارب روپے سالانہ خرچ ہوں گے ۔ عالمی ماہرین کے ساتھ مل کر ہم سٹرٹیجی بنارہے ہیں کہ ہیپاٹائٹس ''بی'' اور ''سی'' کو کس طرح کم کیا جائے۔ اس حوالے سے ریجنل فلٹر کلینکس بنائے جائیں گے تاکہ شروع میں ہی اس کی تشخیص ہوسکے۔ اس کے علاوہ لوگوں میں شعور پیدا کرنے کے لیے نصاب میں بھی اس حوالے سے مضمون شامل کیا جائے گا۔
ہم ڈینگی کی کابینہ کمیٹی کی طرز پر ہیپاٹائٹس کے حوالے سے کام کررہے ہیں ، ایسا سسٹم بنایا جارہا ہے جس کے تحت تمام اضلاع سے ڈیٹا اکٹھا کیا جائے گا اور پھر مختلف مراحل میں ہیپاٹائٹس ''بی'' اور ''سی'' کا پورے پنجاب سے خاتمہ کیا جائے گا۔ میرے نزدیک ہیپاٹائٹس سے نمٹنے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم بائیومیڈیکل پر کام کررہے ہیں، ہسپتالوں کو ''ری میپ'' کیا جائے گا تو بیماریوں میں خاصی کمی آئے گی۔ اس حوالے سے روڈ میپ تیار کیا جائے گا اور پانچ سالہ پلاننگ بھی کی جائے گی۔ہیلتھ کیئر کمیشن نے عطائیت کے خلاف کافی کام کیا ہے، ہزاروں ہسپتال اور کلینک رجسٹر ڈہوچکے ہیں اور ابھی اس پر مزید کام جاری ہے۔ ہیپاٹائٹس کے حوالے سے ہم جو فورم بنارہے ہیں ۔
اس کے نام پر غور کیا جارہا ہے، اس میں عالمی ادارہ صحت سمیت دنیا کے ماہرین موجود ہیں ۔ یہ ون ونڈو کام ہوگا ، آئندہ ماہ وزیراعلیٰ پنجاب کو یہ منصوبہ پیش کیا جائے گا اور منظوری کے بعد اس پر کام شروع کردیا جائے گا۔ہم ہیپاٹائٹس کے حوالے سے ماہرین کے ساتھ ملکر ٹارگٹ بنا رہے ہیں جسے میڈیا سے بھی شیئر کیا جائے گا۔ ہیپاٹائٹس کے حوالے سے جو سٹرٹیجی بنائی جائے گی اس میں ہم مشروط چیزوں پر فوری عملدرآمد مشکل ہے لیکن سکول میں داخلے کے وقت ٹیسٹ کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ ہم ہسپتالوں میں ''ون ٹائم گرانٹ'' دے رہے ہیں، جس کے بعد ایم ایس کے پاس پورے سال کے فنڈز موجود ہوں گے اور وہ ہسپتال کی حالت کے بارے میں جوابدہ ہوں گے۔
ڈاکٹر غیاث النبی طیب
(ماہرامراض جگر و ممبر ٹیکنیکل ایڈوائرزی کمیٹی برائے ہیپاٹائٹس حکومت پاکستان)
28جولائی کو ہیپاٹائٹس ڈے منانے کا مقصد لوگوں کو اس مرض کے بارے میں آگاہی دینا ہے۔ ہیپاٹائٹس ایک بڑی ٹرم ہے اور اس کا مطلب جگر کی سوزش ہے۔ جگر کی سوزش کی وجہ ادویات، موٹاپا ، شوگر اور ہیپاٹائٹس کے جراثیم بھی ہوسکتے ہے۔ پاکستان میں جراثیم وائرس ہی ہوتے ہیں جو پانچ یا چھ اقسام کے ہیں۔ان میں سے بعض گندے پانی اور گندی خوراک سے پھیلتے ہیں جن میں ''اے'' اور ''ای'' شامل ہیں جبکہ ''بی'' اور ''سی'' خون اور خون آلودہ چیزوں سے پھیلتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس ''اے'' اور ''ای'' معیادی یرقان ہوتے ہیں، یہ دو سے تین ہفتوں کی معیاد پوری ہونے کے بعدخودبخود ٹھیک ہوجاتے ہیں ۔ ہیپاٹائٹس ''اے'' اور ''ای'' میں 100میں سے ایک مریض کی موت واقع ہوتی ہے۔
اس وقت پاکستان کا اصل مسئلہ ہیپاٹائٹس ''بی'' اور ''سی''ہے۔ پاکستان کی کل آبادی کا 6فیصد ہیپاٹائٹس ''سی'' جبکہ 2.8فیصد آبادی ہیپاٹائٹس ''بی'' میں مبتلا ہے۔ یہ بیماری 25سے 50 برس کی عمر کے لوگوں میں 18 فیصد ہے جو خوفنا ک بات ہے۔ ہمارے معاشرے میں احتیاط نہیں برتی جاتی، گھر میں ایک ہی ریزر سے سب شیو کرتے ہیں، ایک ہی مسواک، تولیہ، برش وغیرہ سب استعمال کر لیتے ہیں، اس طرح کی بے احتیاطی کی وجہ سے گھروں میں 100 میں سے 6 لوگوں میں ہیپاٹائٹس ٹرانسفر ہوجاتا ہے۔ ماں سے بچے کوٹرانسفر کی شرح بھی 100میں سے 6 ہے۔ یہ آگاہی دینا بہت اہم ہے اور یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ سب مل جل کر جل کام کریں گے تو مجھے یقین ہے کہ ہم ہیپاٹائٹس کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
ہیپاٹائٹس ''بی'' اور ''سی'' ایک چھپی ہوئی بیماری ہے، اس کا پتہ اکثر اوقات پیچیدگیاں سامنے آنے کے بعد ہی اس کا پتہ چلتا ہے یا اس وقت چلتا ہے جب ٹیسٹ کروایا جائے۔ یہ خاموش بیماری آہستہ آہستہ جگر کو دیمک کی طرح چاٹتی ہے۔ اس کی پیچیدگیوں میں جگر کا مسئلہ، پیٹ میں پانی، خون کی الٹی، دماغ ماؤف ہونے کی کیفیت اور جگر کا کینسر شامل ہیں۔ گزشتہ دس، بارہ سال سے جگر کے مرض میں اضافہ ہوا ہے اور وارڈز میں 70 فیصد مریض جگر کے مرض میں مبتلا ہیں۔ گزشتہ تین سے چار سالوں میں جگر کے کینسر کے مریضوں میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسی کوئی تبدیلی آئی ہے جس سے یہ مرض پیچیدہ ہوتا جارہا ہے لہٰذا اب اسے قابو کرنے کے لیے ہم نے سٹرٹیجی بنانی ہے۔
اس حوالے سے کسی بھی سٹرٹیجی کے دو زاویے ہیں، ایک تو یہ ہے کہ تمام بیمار لوگوں کا علاج کردیا جائے، نہ کوئی بیمار ہوگا اور نہ یہ مرض پھیلے گا۔ دوسرا یہ ہے کہ تندرست لوگوں کی ویکسی نیشن کردی جائے۔ ہیپاٹائٹس ''بی'' کی موثر ویکسین موجود ہے، 100میں سے 95 مریض بچ جاتے ہیں جبکہ صرف 5لوگوں پہ یہ موثر ثابت نہیں ہوتی۔ پیدائش کے موقع پر اگر ہیپاٹائٹس ''بی'' کی ویکسین لگوا لی جائے تو انتہائی موثر ثابت ہوتی ہے۔ اس کے لیے تین ٹیکے لگائے جاتے ہیں، پیدائش کے وقت پہلا، ایک ماہ بعد دوسرا جبکہ چھ مہینے بعد تیسرا ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔عالمی ادارہ صحت نے 2030ء تک ہیپاٹائٹس ''سی'' کے خاتمے کا جو ٹارگٹ دیا ہے، اس پر کافی ممالک سے کامیابی کی کہانیاں آنا شروع ہوگئی ہیں۔
ہم ڈینگی کوشکست دے چکے ہیں جبکہ پولیو کو شکست دینے میں کافی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں لہٰذا ہم ہیپاٹائٹس پر بھی قابو پالیں گے۔اس کے لیے ہمیں لوگوںکو آگاہی دینی ہے، انہیں احتیاطی تدابیر بتانی ہیں۔ ہر سال 2لاکھ 20ہزار نئے لوگ ہیپاٹائٹس ''سی'' کا شکار ہورہے ہیں۔ حکومت کو ایسی سکیم دینی چاہیے جس میں مریضوں کو ہیپاٹائٹس کی ادویات کے لیے آسان اقساط پر 12ہزار روپے قرض دیا جائے ۔ ٹیکوں کا دور اب ختم ہوچکا، ان کا استعمال اب نہ کیا جائے۔ جنہیں ٹیکے لگ چکے ہیں مگر کامیابی نہیں ملی اور جگر سکڑگیا ہے، ایسے مریضوں میں ان ادویات کی کامیابی کی شرح 70فیصد ہے۔جنہیں پیچیدگیوں کا عمل شروع نہیں ہوا ان میں ہیپاٹائٹس کی نئی ادویات کی کامیابی کی شرح 100فیصد ہے۔
ایک دوا جو بھارت سے سمگل کی جارہی ہے، اس کے لیے 8 سے 10کمپنیوں نے درخواست دی ہوئی ہے لہٰذا اس حوالے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو جلد از جلد تمام تقاضے پورے کرکے ان کی رجسٹریشن کرنی چاہیے۔ اس وقت کئی ادویات پائپ لائن میں ہیں جن کی افادیت 99فیصد ہے لہٰذا اس طرف توجہ دی جائے۔ آج کے دور میں جگر ٹرانسپلانٹ بہت اہم چیز ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں لیور ٹرانسپلانٹ کے سینٹرز بہت کم ہیں۔ ہمیں اس وقت اس طرح کے سینٹرز بنانے کی ضرورت ہے مگر آنے والے وقت میں شاید اتنی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ اس کی جگہ سٹیم سیل تھراپی ہوگی اور یہ صرف جگر کیلئے نہیں بلکہ دل و دیگر بیماریوں کے لیے بھی ہوگی۔
فی الحال اس کی کامیابی کی شرح 45 فیصد ہے مگرآنے والے وقت میں سٹیم سیل تھراپی لیور ٹرانسپلانٹ کا متبادل ہوگی۔ آج جب ہم لیور ٹرانسپلانٹ سینٹرز بنا رہے ہیں اس میں ہمیں دیگر علاج کے طریقوں کے ساتھ ساتھ سٹیم سیل تھراپی کی گنجائش رکھنا ہوگی۔ ہیلتھ کیئر کمیشن ایکٹ کی پالیسیاں عالمی معیار کے مطابق ہیں۔ اگر انفیکشن کنٹرول کی پالیسی کو چھوٹے اور بڑے ہسپتالوں میں لاگو کردیا جائے تو نئے قوانین کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اسی طرح 2001ء کے بلڈ ٹرانسفیوژن ایکٹ پر صحیح معنوں میں عملدرآمد ہو، چھوٹے شہروں، قصبوں، دیہاتوں میں انتقال خون درست طریقے سے کیا جائے تو بیماریوں پر قابو پانا ممکن ہے۔ اس کے علاوہ ہسپتالوں میں ڈاکٹرکی تعداد کے لحاظ سے مریض ہونے چاہئیں، ہسپتالوں پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے لیکن ہمارے ہاں ایک بیڈ پر دو دو مریض ہوتے ہیں۔ معاملات کی بہتری کے لیے وزیر صحت اور سیکرٹری صحت ٹیکنیکل ہونا چاہیے کیونکہ اگر انہیں ان چیزوں کا ادراک نہیں ہوگا تو حالات بہتر نہیں ہوں گے۔ اس کے علاوہ لانگ ٹرم پالیسی ہونی چاہیے اور اگر آئندہ آنے والی حکومت ا س پالیسی کو تبدیل کرنا چاہتی ہے تو اس پر بحث کی جائے۔
ڈاکٹر اسد علی چودھری
(ماہر امراض جگر و کلینیکل ڈائریکٹر گوجرانوالہ لیور فاؤنڈیشن)
ہیپاٹائٹس ''سی'' پاکستان میں بہت زیادہ ہے لیکن اس وقت وہ تمام موثر ادویات ہیں جو اس بیماری کے علاج کے لیے بہت ضروری ہیں۔ ہیپاٹائٹس کے حوالے سے گولیاں موجود ہیں اور ان کے منفی اثرات بھی بہت کم ہیں۔ اس سب کے باوجود یہ بیماری اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک لوگوں میں اس حوالے سے شعور پیدا نہ کیا جائے۔ ڈاکٹر کے پاس جانا، ادویات کھانا، علاج کروانا درست ہے لیکن اس مرض سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر بہت ضروری ہیں۔ ہیپاٹائٹس ''بی اور سی'' خون سے پھیلتا ہے اور یہ بیماری دائمی شکل اختیار کرسکتی ہے۔
''اے''اور ''ای'' وائرس گندا پانی پینے یا آلودہ اشیاء کھانے سے پھیلتے ہیں۔یہ وائرس شدید حملہ کرتے ہیں، یرقان ہوتا ہے لیکن 90 فیصد مریض خودبخود ٹھیک ہوجاتے ہیں لیکن ''بی'' اور ''سی'' ایسی بیماریاں ہیں جو سنگین ہیںاور جگر سکڑنے کا باعث بنتی ہیں۔ اگر جگر سکڑ جائے تو مہلک پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں، ایسی صورتحال میں سوائے لیور ٹرانسپلانٹ کے اور کوئی حل نہیں ہوتا۔ اس سے بچنے کیلئے بروقت علاج بہت ضروری ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ پھیلتا کیسے ہے، ہر وہ چیز جہاں خون سے خون کا واسطہ ہوتا ہے وہاں اس کے پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
ایسی جگہیں جہاں صحت یا صحت سے متعلق کاروبار ہوتا ہے ان کے لیے گائیڈ لائن بنانے کی ضرورت ہے۔ تمام ہیلتھ کیئر پروائڈرز کی چیکنگ ہونی چاہیے، کسی صورت بھی سرنج دوبار ہ استعمال نہیں ہونی چاہیے۔جب خون لگایا جائے تو اس کی سکریننگ انتہائی ضروری ہے۔ جب ڈینٹسٹ کے پاس جاتے ہیں تو یہ یقینی ہونا چاہیے آلات ستعمال شدہ نہ ہوں۔ سرجری کے دوران سٹریلائزیشن اور ڈسپوزبل آلات استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔یہ تمام وائرس پھیلانے کی فیکٹریاں ہیں لہٰذا ان پر جنگی بنیادوں پر کام ہونا چاہیے ۔ عطائی ڈاکٹرز اور وہ تمام لوگ جو سڑک، فٹ پاتھ پر علاج کررہے ہیں ان کے خلاف ایکشن کی ضرورت ہے۔ نائی کے پاس اپنی کٹ لیکر جائیں اور اس بات کا خیال بھی رکھیں کہ پانی استعمال شدہ نہ ہو۔
اس کے علاوہ کان اور ناک چھیدوانا بھی ہیپاٹائٹس کا سبب بن سکتا ہے۔ ہمیں ان تمام چیزوں کو دیکھنا ہے لیکن یہ اس وقت ہی ممکن ہوگا جب عوام کو اس حوالے سے آگاہی ہوگی۔پاکستان میڈیکل ریسرچ کونسل کی 2010ء کی رپورٹ کے مطابق گوجرانوالہ میں ہیپاٹائٹس ''سی'' 6.3فیصد تھا ، 2008ء کی مردم شماری کے مطابق گوجرنوالہ کی کل آبادی 38لاکھ 7ہزار تھی، اس حوالے سے دیکھیں تو 2لاکھ 43ہزار ہیپاٹائٹس کے مریض صرف گوجرانوالہ میں ہیں۔ سیالکوٹ میں ہیپاٹائٹس 8فیصد، حافظ آباد میں 13 فیصد جبکہ شیخوپورہ میں 9 فیصدہے۔ پاکستان میں ہیپاٹائٹس ''سی'' 5فیصد جبکہ ''بی'' 2.9 فیصد ہے۔ پنجاب میں 6 فیصد ہیپاٹائٹس ''سی'' ہے ، جنوبی پنجاب میں ہیپاٹائٹس ''بی'' 2.8 فیصد جبکہ شمالی پنجاب میں 1.7 فیصد ہے۔ اگر ہرسال اڑھائی لاکھ لوگ ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہوں اور ایک لاکھ سے زائد مریضوں کا علاج کرلیا جائے تو تب بھی ہم اس مرض کا خاتمہ نہیں کرسکتے ۔
اس کیلئے اب ہم نے اپنا زیادہ فوکس پرہیز اور احتیاط پر رکھنا ہوگا۔ ہماری تنظیم اپنی مدد آپ کے تحت جگر دوست مہم کا آغاز کررہی ہے اور لوگوں کو گھر گھر جاکر جگر کی حفاظت اور اس سے منسلک بیماریوں کے بارے میں آگاہی دی جائیگی۔ ہمیں شہر کی تاجر برادری کا تعاون حاصل ہے، امید ہے بہت جلد حکومت کی مدد بھی حاصل ہوجائے گی۔ ہمیں ابھی وسائل کی کوئی کمی نہیں مگر ہم چھوٹی سطح تک تو انفرادی طور پر کام کر سکتے ہیں مگر بڑے پیمانے پر حکومت اور اداروں کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
حکومت پر اس حوالے سے بہت بھاری ذمہ داری ہے کہ لوگوں میں شعور و آگاہی پیدا کرے۔ میرے نزدیک صرف علاج ، بھرپور آگاہی کے بغیر موثر ثابت نہیں ہوسکتا۔حکومت کو تمام متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر ایک پالیسی وضع کرنی چاہیے تاکہ ایک پلیٹ فارم پر یک زبان ہوکر کام کیا جائے۔ ہم نے اپنے طور پر پنجاب میں ہیپاٹائٹس کے حوالے سے کام کرنے والی این جی اوز کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ ایک سٹرٹیجی بنائی جاسکے۔حکومت اور این جی اوز مل کر ایک سٹرٹیجی بنالیں تو ہم آنے والی نسلوں کیلئے ہیپاٹائٹس فری پاکستان بنا سکتے ہیں۔