سول سوسائٹی کیا چاہتی ہے
کراچی کا نامزد مئیر، لارڈ مئیرکی کرسی پرتو نہ بیٹھ سکا، البتہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے جاچکا ہے۔
کراچی کا نامزد مئیر، لارڈ مئیرکی کرسی پرتو نہ بیٹھ سکا، البتہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے جاچکا ہے۔ وسیم اختر کی گرفتاری نے ثابت کردیا کہ ریاستی مقتدرہ کی نظر میں عوامی مینڈیٹ کی کتنی قدر ہے، کیونکہ انھیں جن الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے، وہ خاصے مضحکہ خیز ہیں۔
اب جہاں تک بلدیاتی نظام کا تعلق ہے، سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کو مکمل ہوئے آٹھ ماہ ہونے کو آئے ہیں، مگر نہ تو مخصوص نشستیں پر کی جاسکی ہیں اور نہ ہی مئیر،ڈپٹی مئیر اور چیئرمینوں وغیرہ کا انتخاب مکمل ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ لولا لنگڑا ادارہ بھی تکمیل پذیر نہیں ہوسکاہے۔کم وبیش ایسی ہی صورتحال خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں ہے،جہاں یہ ادارہ تشکیل تو پاگیا ہے، مگر اسے اختیارات تفویض نہ ہونے کے باعث بے عملی کا شکار ہیں۔
چاروں صوبوں اور وفاقی دارالحکومت کے لیے بلدیاتی حکومتی نظام کے جو مسودے وفاقی حکومت اور چاروں صوبوں نے منظورکیے ہیں، وہ کسی بھی طور اقتدار و اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی نہیں ہے۔ بلکہ منتخب ہونے والی کو نسلیں، ہر لحاظ سے صوبائی حکومت کی محتاج اور دست نگررکھی گئی ہیں۔کراچی اور لاہور سمیت تمام بڑے شہروں کے مئیر کی حیثیت بلدیاتی ادارے کے کلرک سے زیادہ نہیں ہے۔ مگر اس کے باوجود بھی ان کونسلوں کو فعال نہیں کیا جارہاہے، بلکہ مختلف حیلوں بہانوں سے ان کے قیام کی راہ میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں۔
اس وقت سول سوسائٹی کے سامنے دو اہم ایشوز ہیں:اول، چاروں صوبوں نے جو ایکٹ منظورکیے ہیں، ان کے تحت انتخابات میں کامیاب ہونے والے اراکین کو فوری اختیارات منتقل کیے جائیں۔تاکہ جو بھی لولا لنگڑانظام ہے، وہ چل سکے اور عوام کی کسی حد تک تو ریلیف مل سکے۔دوئم، سول سوسائٹی چاروں صوبوں میں ان ایکٹس(Acts)کو تبدیل کرنے اور پورے ملک کے لیے یکساں مقامی حکومتی نظام کی تشکیل کے لیے مہم چلائے اور ایک ایسے نظام کے لیے پیروی (Advocacy)کرے، جس میں حقیقی معنی میں اقتدارواختیار کی نچلی سطح پر منتقلی ممکن ہوسکے۔جب ہم اقتدار واختیار کی نچلی سطح پر حقیقی معنی میں منتقلی کی بات کرتے ہیں، تو اس کا مطلب سیاسی، انتظامی اورمالیاتی بااختیاریت ہوتی ہے۔
برصغیر میں جدید بلدیاتی نظام انگریز حکمرانوں نے1870کے قوانین کے تحت 1883سے بلدیاتی نظام رائج کیاگیاتھا۔جس میں مقامی طورپر منتخب اراکین ضلع بیوروکریسی کے تابع کام کیا کرتے تھے۔ ایوب خان اور جنرل ضیاالحق کے متعارف کردہ بلدیاتی نظام اسی نوآبادیاتی بلدیاتی نظام کا چربہ تھے، جب کہ چاروں صوبوں میں 2013 میں متعارف کرائے جانے والے لوکل گورنمنٹ ایکٹس ایوب خان اورضیاالحق کے بلدیاتی نظاموں کا چربہ ہیں۔
پاکستان میں اب تک تین بلدیاتی یا مقامی حکومتی نظاموں کا تجربہ ہوچکاہے۔ایوب خان کامتعارف کردہ نظام1959سے1969تک جاری رہا۔ اس نظام کے تحت دو انتخابات ہوئے۔ضیاالحق کا متعارف کردہ بلدیاتی نظام 1973کے ّئین سے مستعار لیا گیاتھا۔یہ نظام1979سے1992تک سندھ اور بلوچستان میں جاری رہا، جب کہ پنجاب اور KPKمیں 1996تک چلا۔اس نظام کے تحت سندھ اور بلوچستان میں تین جب کہ پنجاب اورKPKمیں چار بار انتخابات ہوئے۔ پرویز مشرف نے جو مقامی حکومتی نظام متعارف کرایا، وہ 2001سے2010تک جاری رہا۔
سول سوسائٹی کی سماجی بااختیاریت پر کام کرنے والی تنظیمیںاس بات پر متفق ہیں کہ متذکرہ بالا دوفوجی آمروں کے متعارف کردہ بلدیاتی نظام کسی بھی طورپر اقتدارواختیار کی نچلی سطح پر منتقلی قرار نہیں دیے جاسکتے۔کیونکہ منتخب کونسلوں کو نوکر شاہی کے زیر اثر کام کرنے پر مجبورکیا جاتا ہے جب کہ پرویز مشرف کے دور میںمتعارف کردہ نظام کے بارے میں PILDAT سمیت مختلف تنظیموں کی رائے ہے کہ یہ اقتدار واختیار کی نچلی سطح تک منتقلی کی جانب مثبت پیش رفت تھا۔اس نظام پر مختلف سیاسی جماعتوں کا صرف ایک ہی اعتراض رہا ہے کہ اس میں صوبوں کی حیثیت ثانوی کردی گئی ہے، مگر18ویںآئینی ترمیم میں صوبوں کی خود مختاری کو خاصی حد تک تحفظ حاصل ہوگیا ہے، اس لیے مقامی حکومتی نظام میں صوبوں کوBye Passکرنے کا تاثر ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ جس کمزوری کی نشاندہی کی گئی، اسے مناسب آئینی ترامیم کے ذریعہ باآسانی ختم کیا جاسکتا ہے۔
اس سلسلے میں امریکا،برطانیہ،جرمنی اوربھارت میں مروج مقامی حکومتی نظام کا مطالعہ بھی سود مند ثابت ہوسکتاہے، جہاں وقت گذرنے کے ساتھ مقامی حکومتوں کے اختیارات میں مسلسل اضافہ ہواہے۔ لندن کے مئیرکے اختیارات تو بہت زیادہ ہیں، اس سے متصل چھوٹے سے شہر چیلسی جہاں کچھ عرصہ قبل ایک پاکستانی نژاد برطانوی مشتاق لاشاری مئیر رہ چکے ہیں، کراچی اور لاہور سے زیادہ بااختیار مقامی حکومت ہے۔
پاکستان کی سول سوسائٹی یہ سمجھتی ہے کہ ملک میں دودرجاتی(Two tier)کے بجائے تین درجاتی (Three tier) ریاستی نظام رائج کیا جائے۔ جس میں وفاق، ریاست ( وفاقی یونٹ) اور ضلع مکمل انتظامی یونٹ ہوں۔ اس کے بعد ضلع کو چار درجات(Tier)میں تقسیم کیاجائے،یعنی ضلع، تعلقہ(تحصیل)، یونین کونسل اور وارڈ۔ لیکن انتظامی ڈھانچہ تین درجات یعنی ضلع، تعلقہ اور یونین کونسل پر مشتمل ہو۔سول سوسائٹی اس بات پر متفق ہے کہ پرویز مشرف کے دور میں متعارف کردہ مقامی حکومتی نظام کو چند کلیدی تبدیلیوں کے ساتھ متعارف کرایا جائے۔اس طرح مقامی حکومتوں کے ریاستی انتظام کی تیسری سطح(Third tier)بننے کے قومی امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔
پاکستانی سول سوسائٹی یہ سمجھتی ہے کہ PILDAT نے اس سلسلے میں تجاویزمرتب کی ہیں، وہ انتہائی معقول اور عوامی خواہشات کی آئینہ دار ہیں۔یہ تجاویز درج ذیل ہیں:1۔ایک یونین کونسل میں ایک کونسلر کا حلقہ زیادہ سے زیادہ 3ہزارووٹرز پر مشتمل ہو۔2۔حلقوں کی حد بندیاں صوبائی حکومت کے بجائے الیکشن کمیشن جیسا غیر جانبدار اورNon-Partisanادارہ کرے۔3۔منتخب سیاسی نمایندوں اور نوکرشاہی کا کردار واضح ہونا چاہیے،تاکہ اختیارات کے غلط استعمال کو روکا جاسکے۔4۔اس نظام کو مکمل آئینی تحفظ فراہم کیاجائے۔5۔تمام کلیدی میونسپل افعال (Functions)،جن میں مقامی ترقی، تعلیم، صحت،جائیداد کی خرید وفروخت،ٹرانسپورٹ اور ریونیو کو مکمل طورپر Devolve کیا جائے۔
6۔مالیاتی بااختیاریت یونین کونسل کی سطح تک منتقل کی جائے۔7۔صوبائی مالیاتی کمیشن تشکیل دیا جائے،تاکہ ضلع اوریونین کونسل تک وسائل کی تقسیم کو منصفانہ بنایا جاسکے۔8۔لوکل گورنمنٹ کمیشن میں صوبائی حکومت اور مقامی نمایندوں کی نمایندگی میں توازن ہونا چاہیے۔ 9۔پولیس کو مقامی حکومت کے احکامات ماننے اوراس کو جوابدہی کا پابندبنایا جائے۔10۔ 2001کے قانون میں سٹیزن کمیونٹی بورڈزکا جو تصور پیش کیا گیا تھا، اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔11۔ منتخب کونسلوںاوراراکین کی کارکردگی کو جانچنے کا واضح اور شفاف طریقہ وضع کیا جائے۔
اس کے علاوہ سول سوسائٹی یہ بھی سمجھتی ہے کہ : 1۔مقامی حکومتیں سیاسی، انتظامی اور مالیاتی طورپر بااختیار ہوں۔2۔جس طرح قومی سطح پر نیشنل فنانس کمیشن موجود ہے، اسی طرزپر صوبائی فنانس کمیشن تشکیل دیا جائے ،جو ہر ضلع کو اس کی آبادی، رقبہ اور ضروریات کے مطابق فنڈز کا تعین کرے۔3۔ترقیاتی منصوبہ بندی یونین کونسل کی سطح پر کی جائے۔یونین کونسل اور ضلع حکومتیں ان منصوبوں پر عمل درآمدکی مجاز ہوں۔4۔سینٹرل سپیرئیرسروسز(CSS)اور پرونشیل سول سروسز(PCS)کی طرز پر میونسپل ایڈمنسٹریشن سروسز(MAS)متعارف کرائی جائے۔ 5۔ جائیداد اور زمین کی خریدو فروخت اور الاٹمنٹ کے لیے ضلع مئیر کاNoCلازمی قرار دیا جائے،تاکہ سرکاری زمینوں کی بندر بانٹ کو روکا جاسکے۔
یہاں ایک اہم مسئلہ یہ پیدا ہورہاہے کہ مقامی حکومتوں کے لیے موجودہ ایکٹ صوبائی اسمبلیوں نے منظور کیے ہیں۔جس کی وجہ سے ہر صوبے میں ایک الگ اور مختلف نظام متعارف کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔سوال یہ ہے کہ پورے ملک میں یکساں اور باختیار نظام رائج کرنے کے لیے ضروری ہوگا کہ 2013میں منظورکیے گئے ایکٹ متعلقہ صوبائی اسمبلیاں خود منسوخ کریں اور پورے ملک کے لیے یکساں نظام کے لیے سیاسی عزم کا مظاہرہ کریں۔ اس سلسلے میں قانونی پیچیدگیوں اور موشگافیوں سے نمٹنے کے لیے وکلا برادری کو آگے آنا پڑے گا۔
سول سوسائٹی کاخیال ہے کہ پورے ملک کے لیے یکساں مقامی حکومتی نظام کی تشکیل کے لیے وفاقی حکومت تمام صوبوں کے بلدیاتی وزرا، سیکریٹریوں کے علاوہ سول سوسائٹی کی تنظیموں، وکلا اور Academiaپرمشتمل ایک کمیشن تشکیل دے جو نئے بلدیاتی نظام کا مسودہ تیار کرے۔ اس مسودے کی پہلے تمام صوبائی اسمبلیوں میں بحث ومباحثے کے بعد منظوری لی جائے اور اس کے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری کے بعد آئین کا حصہ بنایا جائے، تاکہ اس نظام کو آئینی تحفظ حاصل ہوسکے۔
اب جہاں تک بلدیاتی نظام کا تعلق ہے، سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کو مکمل ہوئے آٹھ ماہ ہونے کو آئے ہیں، مگر نہ تو مخصوص نشستیں پر کی جاسکی ہیں اور نہ ہی مئیر،ڈپٹی مئیر اور چیئرمینوں وغیرہ کا انتخاب مکمل ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ لولا لنگڑا ادارہ بھی تکمیل پذیر نہیں ہوسکاہے۔کم وبیش ایسی ہی صورتحال خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں ہے،جہاں یہ ادارہ تشکیل تو پاگیا ہے، مگر اسے اختیارات تفویض نہ ہونے کے باعث بے عملی کا شکار ہیں۔
چاروں صوبوں اور وفاقی دارالحکومت کے لیے بلدیاتی حکومتی نظام کے جو مسودے وفاقی حکومت اور چاروں صوبوں نے منظورکیے ہیں، وہ کسی بھی طور اقتدار و اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی نہیں ہے۔ بلکہ منتخب ہونے والی کو نسلیں، ہر لحاظ سے صوبائی حکومت کی محتاج اور دست نگررکھی گئی ہیں۔کراچی اور لاہور سمیت تمام بڑے شہروں کے مئیر کی حیثیت بلدیاتی ادارے کے کلرک سے زیادہ نہیں ہے۔ مگر اس کے باوجود بھی ان کونسلوں کو فعال نہیں کیا جارہاہے، بلکہ مختلف حیلوں بہانوں سے ان کے قیام کی راہ میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں۔
اس وقت سول سوسائٹی کے سامنے دو اہم ایشوز ہیں:اول، چاروں صوبوں نے جو ایکٹ منظورکیے ہیں، ان کے تحت انتخابات میں کامیاب ہونے والے اراکین کو فوری اختیارات منتقل کیے جائیں۔تاکہ جو بھی لولا لنگڑانظام ہے، وہ چل سکے اور عوام کی کسی حد تک تو ریلیف مل سکے۔دوئم، سول سوسائٹی چاروں صوبوں میں ان ایکٹس(Acts)کو تبدیل کرنے اور پورے ملک کے لیے یکساں مقامی حکومتی نظام کی تشکیل کے لیے مہم چلائے اور ایک ایسے نظام کے لیے پیروی (Advocacy)کرے، جس میں حقیقی معنی میں اقتدارواختیار کی نچلی سطح پر منتقلی ممکن ہوسکے۔جب ہم اقتدار واختیار کی نچلی سطح پر حقیقی معنی میں منتقلی کی بات کرتے ہیں، تو اس کا مطلب سیاسی، انتظامی اورمالیاتی بااختیاریت ہوتی ہے۔
برصغیر میں جدید بلدیاتی نظام انگریز حکمرانوں نے1870کے قوانین کے تحت 1883سے بلدیاتی نظام رائج کیاگیاتھا۔جس میں مقامی طورپر منتخب اراکین ضلع بیوروکریسی کے تابع کام کیا کرتے تھے۔ ایوب خان اور جنرل ضیاالحق کے متعارف کردہ بلدیاتی نظام اسی نوآبادیاتی بلدیاتی نظام کا چربہ تھے، جب کہ چاروں صوبوں میں 2013 میں متعارف کرائے جانے والے لوکل گورنمنٹ ایکٹس ایوب خان اورضیاالحق کے بلدیاتی نظاموں کا چربہ ہیں۔
پاکستان میں اب تک تین بلدیاتی یا مقامی حکومتی نظاموں کا تجربہ ہوچکاہے۔ایوب خان کامتعارف کردہ نظام1959سے1969تک جاری رہا۔ اس نظام کے تحت دو انتخابات ہوئے۔ضیاالحق کا متعارف کردہ بلدیاتی نظام 1973کے ّئین سے مستعار لیا گیاتھا۔یہ نظام1979سے1992تک سندھ اور بلوچستان میں جاری رہا، جب کہ پنجاب اور KPKمیں 1996تک چلا۔اس نظام کے تحت سندھ اور بلوچستان میں تین جب کہ پنجاب اورKPKمیں چار بار انتخابات ہوئے۔ پرویز مشرف نے جو مقامی حکومتی نظام متعارف کرایا، وہ 2001سے2010تک جاری رہا۔
سول سوسائٹی کی سماجی بااختیاریت پر کام کرنے والی تنظیمیںاس بات پر متفق ہیں کہ متذکرہ بالا دوفوجی آمروں کے متعارف کردہ بلدیاتی نظام کسی بھی طورپر اقتدارواختیار کی نچلی سطح پر منتقلی قرار نہیں دیے جاسکتے۔کیونکہ منتخب کونسلوں کو نوکر شاہی کے زیر اثر کام کرنے پر مجبورکیا جاتا ہے جب کہ پرویز مشرف کے دور میںمتعارف کردہ نظام کے بارے میں PILDAT سمیت مختلف تنظیموں کی رائے ہے کہ یہ اقتدار واختیار کی نچلی سطح تک منتقلی کی جانب مثبت پیش رفت تھا۔اس نظام پر مختلف سیاسی جماعتوں کا صرف ایک ہی اعتراض رہا ہے کہ اس میں صوبوں کی حیثیت ثانوی کردی گئی ہے، مگر18ویںآئینی ترمیم میں صوبوں کی خود مختاری کو خاصی حد تک تحفظ حاصل ہوگیا ہے، اس لیے مقامی حکومتی نظام میں صوبوں کوBye Passکرنے کا تاثر ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ جس کمزوری کی نشاندہی کی گئی، اسے مناسب آئینی ترامیم کے ذریعہ باآسانی ختم کیا جاسکتا ہے۔
اس سلسلے میں امریکا،برطانیہ،جرمنی اوربھارت میں مروج مقامی حکومتی نظام کا مطالعہ بھی سود مند ثابت ہوسکتاہے، جہاں وقت گذرنے کے ساتھ مقامی حکومتوں کے اختیارات میں مسلسل اضافہ ہواہے۔ لندن کے مئیرکے اختیارات تو بہت زیادہ ہیں، اس سے متصل چھوٹے سے شہر چیلسی جہاں کچھ عرصہ قبل ایک پاکستانی نژاد برطانوی مشتاق لاشاری مئیر رہ چکے ہیں، کراچی اور لاہور سے زیادہ بااختیار مقامی حکومت ہے۔
پاکستان کی سول سوسائٹی یہ سمجھتی ہے کہ ملک میں دودرجاتی(Two tier)کے بجائے تین درجاتی (Three tier) ریاستی نظام رائج کیا جائے۔ جس میں وفاق، ریاست ( وفاقی یونٹ) اور ضلع مکمل انتظامی یونٹ ہوں۔ اس کے بعد ضلع کو چار درجات(Tier)میں تقسیم کیاجائے،یعنی ضلع، تعلقہ(تحصیل)، یونین کونسل اور وارڈ۔ لیکن انتظامی ڈھانچہ تین درجات یعنی ضلع، تعلقہ اور یونین کونسل پر مشتمل ہو۔سول سوسائٹی اس بات پر متفق ہے کہ پرویز مشرف کے دور میں متعارف کردہ مقامی حکومتی نظام کو چند کلیدی تبدیلیوں کے ساتھ متعارف کرایا جائے۔اس طرح مقامی حکومتوں کے ریاستی انتظام کی تیسری سطح(Third tier)بننے کے قومی امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔
پاکستانی سول سوسائٹی یہ سمجھتی ہے کہ PILDAT نے اس سلسلے میں تجاویزمرتب کی ہیں، وہ انتہائی معقول اور عوامی خواہشات کی آئینہ دار ہیں۔یہ تجاویز درج ذیل ہیں:1۔ایک یونین کونسل میں ایک کونسلر کا حلقہ زیادہ سے زیادہ 3ہزارووٹرز پر مشتمل ہو۔2۔حلقوں کی حد بندیاں صوبائی حکومت کے بجائے الیکشن کمیشن جیسا غیر جانبدار اورNon-Partisanادارہ کرے۔3۔منتخب سیاسی نمایندوں اور نوکرشاہی کا کردار واضح ہونا چاہیے،تاکہ اختیارات کے غلط استعمال کو روکا جاسکے۔4۔اس نظام کو مکمل آئینی تحفظ فراہم کیاجائے۔5۔تمام کلیدی میونسپل افعال (Functions)،جن میں مقامی ترقی، تعلیم، صحت،جائیداد کی خرید وفروخت،ٹرانسپورٹ اور ریونیو کو مکمل طورپر Devolve کیا جائے۔
6۔مالیاتی بااختیاریت یونین کونسل کی سطح تک منتقل کی جائے۔7۔صوبائی مالیاتی کمیشن تشکیل دیا جائے،تاکہ ضلع اوریونین کونسل تک وسائل کی تقسیم کو منصفانہ بنایا جاسکے۔8۔لوکل گورنمنٹ کمیشن میں صوبائی حکومت اور مقامی نمایندوں کی نمایندگی میں توازن ہونا چاہیے۔ 9۔پولیس کو مقامی حکومت کے احکامات ماننے اوراس کو جوابدہی کا پابندبنایا جائے۔10۔ 2001کے قانون میں سٹیزن کمیونٹی بورڈزکا جو تصور پیش کیا گیا تھا، اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔11۔ منتخب کونسلوںاوراراکین کی کارکردگی کو جانچنے کا واضح اور شفاف طریقہ وضع کیا جائے۔
اس کے علاوہ سول سوسائٹی یہ بھی سمجھتی ہے کہ : 1۔مقامی حکومتیں سیاسی، انتظامی اور مالیاتی طورپر بااختیار ہوں۔2۔جس طرح قومی سطح پر نیشنل فنانس کمیشن موجود ہے، اسی طرزپر صوبائی فنانس کمیشن تشکیل دیا جائے ،جو ہر ضلع کو اس کی آبادی، رقبہ اور ضروریات کے مطابق فنڈز کا تعین کرے۔3۔ترقیاتی منصوبہ بندی یونین کونسل کی سطح پر کی جائے۔یونین کونسل اور ضلع حکومتیں ان منصوبوں پر عمل درآمدکی مجاز ہوں۔4۔سینٹرل سپیرئیرسروسز(CSS)اور پرونشیل سول سروسز(PCS)کی طرز پر میونسپل ایڈمنسٹریشن سروسز(MAS)متعارف کرائی جائے۔ 5۔ جائیداد اور زمین کی خریدو فروخت اور الاٹمنٹ کے لیے ضلع مئیر کاNoCلازمی قرار دیا جائے،تاکہ سرکاری زمینوں کی بندر بانٹ کو روکا جاسکے۔
یہاں ایک اہم مسئلہ یہ پیدا ہورہاہے کہ مقامی حکومتوں کے لیے موجودہ ایکٹ صوبائی اسمبلیوں نے منظور کیے ہیں۔جس کی وجہ سے ہر صوبے میں ایک الگ اور مختلف نظام متعارف کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔سوال یہ ہے کہ پورے ملک میں یکساں اور باختیار نظام رائج کرنے کے لیے ضروری ہوگا کہ 2013میں منظورکیے گئے ایکٹ متعلقہ صوبائی اسمبلیاں خود منسوخ کریں اور پورے ملک کے لیے یکساں نظام کے لیے سیاسی عزم کا مظاہرہ کریں۔ اس سلسلے میں قانونی پیچیدگیوں اور موشگافیوں سے نمٹنے کے لیے وکلا برادری کو آگے آنا پڑے گا۔
سول سوسائٹی کاخیال ہے کہ پورے ملک کے لیے یکساں مقامی حکومتی نظام کی تشکیل کے لیے وفاقی حکومت تمام صوبوں کے بلدیاتی وزرا، سیکریٹریوں کے علاوہ سول سوسائٹی کی تنظیموں، وکلا اور Academiaپرمشتمل ایک کمیشن تشکیل دے جو نئے بلدیاتی نظام کا مسودہ تیار کرے۔ اس مسودے کی پہلے تمام صوبائی اسمبلیوں میں بحث ومباحثے کے بعد منظوری لی جائے اور اس کے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری کے بعد آئین کا حصہ بنایا جائے، تاکہ اس نظام کو آئینی تحفظ حاصل ہوسکے۔