طیب اردگان کا مستقبل
نو ہزار کے قریب سرکاری اہلکاروں کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا ہے،
ترکی میں 15جولائی کو ہونے والی فوجی بغاوت ناکام ہو گئی۔ اس ناکام فوجی بغاوت کے الزام میں کئی جرنیل اور ایڈمرلز کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ جب کہ تقریباً تین ہزار ججز سمیت گرفتار افراد کی تعداد ساڑھے سات ہزار ہو گئی ہے۔
نو ہزار کے قریب سرکاری اہلکاروں کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا ہے، ان میں 8ہزار پولیس اہلکار، ایک صوبائی گورنر اور ٹاؤن کے 29گورنر شامل ہیں جب کہ ترک وزارت خارجہ نے بھی فتح اللہ گولن سے تعلق کے الزام میں پندرہ سو ملازمین کو برطرف کر دیا ہے۔ اردوان حکومت گولن پر الزام لگا رہی ہے کہ موجودہ فوجی بغاوت میں ان کا ہاتھ ہے۔ جب کہ فتح اللہ گولن نے الزام لگایا ہے کہ ترکی کی فوجی بغاوت میں خود اردوان حکومت کا ہاتھ ہے تاکہ اس بہانے فوج سمیت ملک کے تمام اداروں سے حکومت کے مخالفین کا صفایا کیا جا سکے۔ تجزیہ کاروں کو یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ فوجی بغاوت ہو اور صدر بچ جائے۔ فوجی بغاوت یہیں سے مشکوک ہو جاتی ہے۔ کیونکہ فوجی بغاوت کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے چیف ایگزیکٹو صدر یا وزیراعظم کو ابتدائی مرحلے میں ہی پکڑ لیا جائے۔
فتح اللہ گولن کا تعلق ایک مذہبی خاندان سے ہے، ان کے والد امام مسجد تھے۔ والدہ قرآن پڑھاتی تھیں ۔ انھوں نے خود بھی ایک مدرسے میں تعلیم پائی اور مسجد کے امام کے طور پر اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ گولن صاحب نے کمال اتاترک کے دور میں دینی سرگرمیوں کا آغاز کیا جب اتاترک دور میں سخت مذہبی پابندیاں عائد تھیں۔ یہ پابندیاں مذہبی رجعت پسندانہ سوچ کا ردعمل تھیں جس نے نہ صرف خلافت عثمانیہ کو تباہ کر دیا بلکہ یہاں تک ہوا کہ ترکی کی ایک خود مختار ملک کے طور پر اپنی حیثیت برقرار رکھنا مشکل ہو گیا۔ بہرحال اگر مذہبی رجعت پسندی ایک انتہا تھی تو اتاترک کا ردعمل دوسری انتہا تھی جس کی ہرگز تعریف نہیں کی جا سکتی۔ اس انتہائی سخت گیر مذہبی پابندیوں کے نتیجے میں ترک معاشرہ دو انتہاؤں میں تقسیم ہو گیا۔
اس طرح دو طبقے وجود میں آ گئے۔ ایک طرف اسلام پسند تھے تو دوسری طرف سیکولر ترک مسلمان۔ سیکولر ترک مسلمان یہ چاہتے تھے کہ کوئی فرد ،گروہ یا جماعت اپنے مفادات کے لیے اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے عوام کے مذہبی جذبات کا استحصال نہ کرے۔فتح اللہ گولن اور اردگان ایک ہی مذہبی فکر سے تعلق رکھتے ہیں چنانچہ فتح اللہ گولن اور ان کی خدمت تحریک نے ایک طویل عرصہ اردگان کی حمایت کی لیکن گولن کی اعتدال پسندی اور اردگان کی انتہا پسندی دونوں کو ایک دوسرے سے دور لے گئی۔ گولن مذہبی اعتدال پسنندی کے قائل ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ترکی میں ایسی مذہبی اعتدال پسندی ہو جس پر نہ ترک فوج اعتراض کر سکے اور نہ ہی مغرب۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ترک اور ترکی دونوں ہی تباہ ہو جائیں گے۔ ان کے پیش نظر پوری مسلم دنیا تھی جو امریکا اور مغرب کے غلام ہیں اور ان کی معیشت کا مکمل انحصار مغرب پر ہے چنانچہ اعتدال پسندی ہی کسی مسلم ملک کو امریکا اور مغرب کی سازشوں سے بچا سکتی ہے۔
لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اردگان گولن سمیت ترکی کے اعتدال پسند طبقات سے بھڑ گئے۔ ان پر اعتراضات بڑھنے لگے۔ ان کے مخالفین نے پچھلے دس سالوں میں ان پر سنگین الزامات عائد کیے۔ ان پر کرپشن، منی لانڈرنگ اور اقربا پروری کے سنگین الزامات عائد کیے گئے۔ وہ شخص جو بچپن میں ٹافیاں اور ڈبل روٹی بیچتا تھا، وہ ترکی کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہونے لگا۔ وہ اور ان کے خاندان کی کمپنیاں قائم ہو گئیں۔ اردگان کا بیٹا اٹلی میں منی لانڈرنگ اور کرپشن کے الزامات کی زد میں آ گیا۔ اردگان کی خفیہ ٹیپس بھی سامنے آ گئیں۔
اور تو اور اردگان نہ صرف آمریت کی راہ پر چل پڑے بلکہ ان کے اندر کا بادشاہ سلامت بھی زندہ ہو گیا۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق انھوں نے ایک بیش قیمت محل بنا یا ۔ جب ترک میڈیا نے اردگان کے ان معاملات کو بیان کیا تو حکومت نے میڈیا کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔ ترکی کے دو بڑے اخبارات بند کر دیے گئے اور تنقید کرنے والے صحافیوں کو پکڑ لیا گیا۔ ترک شہری حقوق کے علمبردار گروپوں نے اردوان کے خلاف ایک رٹ دائر کی تھی جس میں ان پر مل کرد مسلمانوں کے خلاف انسداد دہشت گردی آپریشنوں میں جنگی جرائم اور انسانیت سوز مظالم کے الزامات لگائے۔ اس کے علاوہ روس اور امریکی نائب صدر جوبائیڈن نے پچھلے سال کے آخر میں ترک صدر اردوان پر داعش کو فنڈنگ اسلحہ کی فراہمی ٹریننگ اور سہولت کاری کے سنگین الزامات عائد کیے۔
لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اردگان نے گڈ گورننس کے ذریعے عوام کو مفت تعلیم اور صحت کی سہولتیں دیں۔ عوام کا معیار زندگی بڑھا۔ خوش حالی آئی۔ معیشت نے بہت زیادہ ترقی کی۔ اردگان حکومت ترک عوام کی زندگی میں حقیقی تبدیلی لے کر آئی جس نے انھیں اعتماد امن اور بین الاقوامی سطح پر عزت اور مضبوطی دی۔ ترکی اور پاکستان کے حالات کا تقابل کرنے والے بتائیں کہ کیا پاکستانیوں کی زندگی میں بھی ایسی ہی تبدیلی آ گئی ہے۔
جس ملک کی آدھی آبادی یعنی دس کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہو ، ان کا دماغ خراب ہے کہ وہ ان سیاستدانوں کے لیے سڑکوں پر آ کر جانیں دیں جنہوں نے جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم کی ہوئی ہے ۔ جمہوریت کی صبح شام مالا جپنے والوں کی اپنی پارٹی میں کبھی انتخابات نہیں ہوئے۔ گڈ گورننس کا یہ حال ہے کہ لاہور کی ایک سڑک جس پر پندرہ ارب خرچ ہوئے اسی سڑک کنارے سرکاری اسپتال میں مریضوں کو فرش پر لٹا کر ڈرپ لگائی جا رہی ہے ۔ امن و عامہ کا یہ حال ہے کہ درجنوں ڈاکے روز کا معمول ہے ۔
اور آخری بات ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے حوالے سے کہ وہ مصر سے سبق سیکھیں کہ وہاں اخوان کے صدر مرسی نے راتوں رات اسلام نافذ کرنے کے چکر میں مصر میں بدترین آمریت قائم کر دی۔ امریکا یورپ اردگان کو مذہب کے نام پر کبھی ریڈ لائن عبور نہیں کرنے دیں گے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان طویل آزمائشی دور میں داخل ہو گئے ہیں۔ اگست ستمبر احتیاط طلب وقت ہے۔
نو ہزار کے قریب سرکاری اہلکاروں کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا ہے، ان میں 8ہزار پولیس اہلکار، ایک صوبائی گورنر اور ٹاؤن کے 29گورنر شامل ہیں جب کہ ترک وزارت خارجہ نے بھی فتح اللہ گولن سے تعلق کے الزام میں پندرہ سو ملازمین کو برطرف کر دیا ہے۔ اردوان حکومت گولن پر الزام لگا رہی ہے کہ موجودہ فوجی بغاوت میں ان کا ہاتھ ہے۔ جب کہ فتح اللہ گولن نے الزام لگایا ہے کہ ترکی کی فوجی بغاوت میں خود اردوان حکومت کا ہاتھ ہے تاکہ اس بہانے فوج سمیت ملک کے تمام اداروں سے حکومت کے مخالفین کا صفایا کیا جا سکے۔ تجزیہ کاروں کو یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ فوجی بغاوت ہو اور صدر بچ جائے۔ فوجی بغاوت یہیں سے مشکوک ہو جاتی ہے۔ کیونکہ فوجی بغاوت کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے چیف ایگزیکٹو صدر یا وزیراعظم کو ابتدائی مرحلے میں ہی پکڑ لیا جائے۔
فتح اللہ گولن کا تعلق ایک مذہبی خاندان سے ہے، ان کے والد امام مسجد تھے۔ والدہ قرآن پڑھاتی تھیں ۔ انھوں نے خود بھی ایک مدرسے میں تعلیم پائی اور مسجد کے امام کے طور پر اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ گولن صاحب نے کمال اتاترک کے دور میں دینی سرگرمیوں کا آغاز کیا جب اتاترک دور میں سخت مذہبی پابندیاں عائد تھیں۔ یہ پابندیاں مذہبی رجعت پسندانہ سوچ کا ردعمل تھیں جس نے نہ صرف خلافت عثمانیہ کو تباہ کر دیا بلکہ یہاں تک ہوا کہ ترکی کی ایک خود مختار ملک کے طور پر اپنی حیثیت برقرار رکھنا مشکل ہو گیا۔ بہرحال اگر مذہبی رجعت پسندی ایک انتہا تھی تو اتاترک کا ردعمل دوسری انتہا تھی جس کی ہرگز تعریف نہیں کی جا سکتی۔ اس انتہائی سخت گیر مذہبی پابندیوں کے نتیجے میں ترک معاشرہ دو انتہاؤں میں تقسیم ہو گیا۔
اس طرح دو طبقے وجود میں آ گئے۔ ایک طرف اسلام پسند تھے تو دوسری طرف سیکولر ترک مسلمان۔ سیکولر ترک مسلمان یہ چاہتے تھے کہ کوئی فرد ،گروہ یا جماعت اپنے مفادات کے لیے اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے عوام کے مذہبی جذبات کا استحصال نہ کرے۔فتح اللہ گولن اور اردگان ایک ہی مذہبی فکر سے تعلق رکھتے ہیں چنانچہ فتح اللہ گولن اور ان کی خدمت تحریک نے ایک طویل عرصہ اردگان کی حمایت کی لیکن گولن کی اعتدال پسندی اور اردگان کی انتہا پسندی دونوں کو ایک دوسرے سے دور لے گئی۔ گولن مذہبی اعتدال پسنندی کے قائل ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ترکی میں ایسی مذہبی اعتدال پسندی ہو جس پر نہ ترک فوج اعتراض کر سکے اور نہ ہی مغرب۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ترک اور ترکی دونوں ہی تباہ ہو جائیں گے۔ ان کے پیش نظر پوری مسلم دنیا تھی جو امریکا اور مغرب کے غلام ہیں اور ان کی معیشت کا مکمل انحصار مغرب پر ہے چنانچہ اعتدال پسندی ہی کسی مسلم ملک کو امریکا اور مغرب کی سازشوں سے بچا سکتی ہے۔
لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اردگان گولن سمیت ترکی کے اعتدال پسند طبقات سے بھڑ گئے۔ ان پر اعتراضات بڑھنے لگے۔ ان کے مخالفین نے پچھلے دس سالوں میں ان پر سنگین الزامات عائد کیے۔ ان پر کرپشن، منی لانڈرنگ اور اقربا پروری کے سنگین الزامات عائد کیے گئے۔ وہ شخص جو بچپن میں ٹافیاں اور ڈبل روٹی بیچتا تھا، وہ ترکی کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہونے لگا۔ وہ اور ان کے خاندان کی کمپنیاں قائم ہو گئیں۔ اردگان کا بیٹا اٹلی میں منی لانڈرنگ اور کرپشن کے الزامات کی زد میں آ گیا۔ اردگان کی خفیہ ٹیپس بھی سامنے آ گئیں۔
اور تو اور اردگان نہ صرف آمریت کی راہ پر چل پڑے بلکہ ان کے اندر کا بادشاہ سلامت بھی زندہ ہو گیا۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق انھوں نے ایک بیش قیمت محل بنا یا ۔ جب ترک میڈیا نے اردگان کے ان معاملات کو بیان کیا تو حکومت نے میڈیا کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔ ترکی کے دو بڑے اخبارات بند کر دیے گئے اور تنقید کرنے والے صحافیوں کو پکڑ لیا گیا۔ ترک شہری حقوق کے علمبردار گروپوں نے اردوان کے خلاف ایک رٹ دائر کی تھی جس میں ان پر مل کرد مسلمانوں کے خلاف انسداد دہشت گردی آپریشنوں میں جنگی جرائم اور انسانیت سوز مظالم کے الزامات لگائے۔ اس کے علاوہ روس اور امریکی نائب صدر جوبائیڈن نے پچھلے سال کے آخر میں ترک صدر اردوان پر داعش کو فنڈنگ اسلحہ کی فراہمی ٹریننگ اور سہولت کاری کے سنگین الزامات عائد کیے۔
لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اردگان نے گڈ گورننس کے ذریعے عوام کو مفت تعلیم اور صحت کی سہولتیں دیں۔ عوام کا معیار زندگی بڑھا۔ خوش حالی آئی۔ معیشت نے بہت زیادہ ترقی کی۔ اردگان حکومت ترک عوام کی زندگی میں حقیقی تبدیلی لے کر آئی جس نے انھیں اعتماد امن اور بین الاقوامی سطح پر عزت اور مضبوطی دی۔ ترکی اور پاکستان کے حالات کا تقابل کرنے والے بتائیں کہ کیا پاکستانیوں کی زندگی میں بھی ایسی ہی تبدیلی آ گئی ہے۔
جس ملک کی آدھی آبادی یعنی دس کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہو ، ان کا دماغ خراب ہے کہ وہ ان سیاستدانوں کے لیے سڑکوں پر آ کر جانیں دیں جنہوں نے جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم کی ہوئی ہے ۔ جمہوریت کی صبح شام مالا جپنے والوں کی اپنی پارٹی میں کبھی انتخابات نہیں ہوئے۔ گڈ گورننس کا یہ حال ہے کہ لاہور کی ایک سڑک جس پر پندرہ ارب خرچ ہوئے اسی سڑک کنارے سرکاری اسپتال میں مریضوں کو فرش پر لٹا کر ڈرپ لگائی جا رہی ہے ۔ امن و عامہ کا یہ حال ہے کہ درجنوں ڈاکے روز کا معمول ہے ۔
اور آخری بات ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے حوالے سے کہ وہ مصر سے سبق سیکھیں کہ وہاں اخوان کے صدر مرسی نے راتوں رات اسلام نافذ کرنے کے چکر میں مصر میں بدترین آمریت قائم کر دی۔ امریکا یورپ اردگان کو مذہب کے نام پر کبھی ریڈ لائن عبور نہیں کرنے دیں گے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان طویل آزمائشی دور میں داخل ہو گئے ہیں۔ اگست ستمبر احتیاط طلب وقت ہے۔