پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ
علاقائی اور عالمی سطح پر مثبت تبدیلیوں کی نوید۔
نئی صدی کاآغاز ہوا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پاکستان میں قدرتی گیس کا بحران پیدا ہو جائے گا،لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے، ایساہوا،کیوں ہوا؟اس کی وجوہات بے شمار ہیں۔
ماضی قریب میں جب ملک کے اندر قدرتی گیس کی کمی عوام سمیت حکم رانوں کے لیے بھی عذاب بنی تھی تو ہمارے پالیسی سازوں نے ہمسایہ ملک ایران سے گیس خریدنے کا خواب دیکھاتھا مگراس وقت خواب کی تعبیر ممکن نہ تھی کیوں کہ ایران سے ہمارے گرم جوش تعلقات،کئی برسوں سے سرد مہری کا شکار تھے ۔ ایسے میں بھارت نے ایران سے قربت پیدا کر کے اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے گیس کی فراہمی کی راہ ہم وار کی تو پاکستانی سر زمین دونوں ملکوں ایران اور بھارت کی مجبوری بن گئی، یوں پاکستان کمیشن لینے والا تیسرا فریق بن گیاتھا ۔
اس وقت یہ طے پایاتھا کہ پاکستان کوراہ داری ادا کی جائے گی اور اس دور کے ہمارے چند ہونہار پالیسی ساز ایران اور بھارت کی بات قریباً مان بھی گئے تھے کیوں کہ راہ داری کی مدّ میں مفت رقم ملنے کی توقع پیدا ہو چلی تھی۔ اسی اثناء میںجب ملک کے اندر'' سی این جی'' کے شعبہ نے پر پرزے نکالنے شروع کر دئے، تو مفت خوری کی وہ تمام امیدیں ٹوٹ گئیںجو ہمارے ارباب اختیار باندھے بیٹھے تھے اور مجبورا ًپاکستان کو راہ داری لینے کی بجائے خود فعال خریدار بننے کا نیک خیال آیا یوں پاکستان بھی اس عالمی منصوبے کا حصہ دار بن گیا، لیکن منزل ابھی بہت دور تھی،بھارت ایران کے ساتھ گیس کی قیمت طے کرنے میں ناکام ہوا تو دوسری جانب پاکستان بھی اسی نوعیت کے مسائل کاشکار ہو گیا۔
مشرف دور میں یہ منصوبہ کاغذوں میں تو مکمل ہوچکا تھا مگر پاکستان کی کمزور سفارت کاری،امن وعامہ کی مخدوش صورت حال،ترقیاتی منصوبوں میں سرطان کی طرح پھیلتا ہوا بدعنوانی کا عنصر، فریقین کے درمیان گیس کی قیمتوں کا طے نہ ہوپانا،ممبی حملے کے بعد کی خطرناک صورت حال، جو زرداری دور حکومت کو ورثے میں ملی، درست ہونے کے بجائے مزید بگڑتی چلی گئی تھی، جس کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان تنائو کی کیفیت ہیجانی شکل اختیار کرگئی اور ردعمل میں بھارت نے افغانستان کے ساتھ مل کر اس خطے (بلوچستان) کو ہی کم زور کرنے کی ٹھان لی جہاں سے گیس پائپ لائن گزرنی تھی۔
بعد ازاں جب ایران پر ایٹم بم بنانے کے الزامات لگے اور یورپی یونین اور امریکا کی جانب سے ایران پر اقتصادی پابندیاں لگیں تو یہ منصوبہ پوری دنیا میں نا قا بل عمل سمجھا جانے لگااس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ امریکا بہادر نے بھی اس منصوبے کو نا قابل عمل قرار دے دیا تھا۔ پاکستان کو کہا گیا کہ وہ ترکمانستان ، افغانستان، پاکستان اورانڈیا (تائپی)گیس پائپ لائن کے منصوبے کواولیت دے اورایران کے ساتھ گیس لائن کا منصوبہ بھول جائے۔ اس حکم کے جواب میں پاکستان نے بلند بانگ دعوے کیے مگرعملی طور پر کچھ بھی نہ ہوا،جس کے بعد عالمی ماہرین نے فتوی دے دیا تھاکہ یہ منصوبہ اب کبھی مکمل نہیں ہو گا، رواں سال کے وسط میں یہ فتوی خاصی حد تک درست محسوس ہونے لگا تھا۔
کہتے ہیں کہ ہونی ہو کر رہتی ہے اور پھر عالمی منظر نامے میں پے در پے تبدیلیوں کے نتیجے میں حالات و واقعات تیزی سے بدلتے چلے گئے،تائپی گیس پائپ لائن،فریقین کے درمیان گیس کی قیمتوں کے تعین میں ناکامی کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئی تو دوسری جانب ایران نے اپنے اوپر اقتصادی پابندیوں سے پیدا ہونے والے اثرات کودور کرنے کی حکمت عملی وضع کر لی اور پاکستان سے سرد مہری ختم کر کے تعلقات کو نئے سرے سے استوار کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔ اسی دوران افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی اور آئندہ سال سے ان افواج کے متوقع انخلاء کی خبروں نے دیگر بڑی عالمی طاقتوں کو متحرک کر دیاتو وہ خطے میں اپنے مفادات کی خاطر ہاتھ پائوں مارنے لگی تھیں،ان ہی کوششوں کی وجہ سے روس،جرمنی،جنوبی کوریا سمیت کئی ایک ممالک کی تیل اور گیس کمپنیوں نے پاک ایران گیس پائپ لائن کی تعمیر میں دل چسپی ظاہر کر دی۔
اسی طرح رواں سال کے آخر تک امریکا اور ایران بھی ایک دوسرے کو ڈرانے دھمکانے کے بعد اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ''یورینیم کی افزودگی''کے معاملے کو فوجی جارحیت کے بجائے مذاکرات سے حل کر لیا جائے تو اسی میں سب کی بہتری ہو گی،لگتایوں ہے کہ ایران کی ''بیک ڈور ڈپلومیسی''کام کر چکی تھی جس کے نتیجے میں اسرائیل کی امیدوں پر پانی پھرگیا،اوراس نے ڈپریشن میں آکر غزہ کی پٹی پر نہتے فلسطینیوں پر بم برسانے شروع کردیے تاکہ ایران غصے میں آکر اسرائیل کے خلاف کوئی کاروائی کرے اور یوں اس جنگ کا آغاز ہوجو اسرائیل کئی برسوں سے چاہتاہے۔
اسرائیلی جارحیت ابھی عروج پر ہی تھی تو دوسری دفعہ منتخب ہونے کے بعد امریکی صدر باراک اوبامااپنے پہلے عالمی دورے پر جب جنوبی ایشیاء پہنچے تو ان ہی دنوں پاکستان میں ڈی ایٹ ممالک کی کانفرنس کا انعقاد ہو رہا تھا،اس دوران جب ایران نے پاک ایران گیس پائپ لائن کی تعمیر کے لیے پاکستان کو قرضہ فراہم کرنے کا اعلان کیا توان تمام ممالک کی امیدیں ٹوٹ گیئں جو بغیر بولی دیے اس منصوبے کی تعمیر کا ٹھیکہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔ لاگت کے برابر آسان شرائط پر قرضہ جو مل رہا تھا۔
مگر یہ بھی سچ ہے کہ سال ۵۰۰۲ کے بعد اب پہلی مرتبہ یہ منصوبہ عملی شکل اختیار کرتا ہوا نظر آرہاہے۔ڈی ایٹ ممالک کانفرنس کے بعد جلد یا کچھ عرصہ بعد جب ایرانی صدر احمدی نژاد اس منصوبے کے لیے قرضہ کے معاہدے پر دستخط کردیں گے تو اس بارے میں بہت سے شکوک وشبہات اپنی موت آپ مر جائیں گے اور یہ منصوبہ اپنی راہ میں حائل رکاوٹوں کا پہلا دور عبور کر چکا ہو گا۔
اب تک کی کہانی پر غور کیا جائے تو محسوس ہوگا کہ ہونی ہو کر رہی، جس کو ٹالا نہیں جاسکا۔۔۔ بھارت نے اپنی ضروریات کے لیے ایرانی گیس خریدنے کا پروگرام بنایا، پاکستان کو راہداری کے لیے منایا ، پھر بھارت نے خود ہی اس منصوبے سے علیحدگی اختیار کر لی توایران نے اس کے باوجود اپنے حصے کی پائپ لائن تیار کر لی۔
پاکستان بدستور اپنے خالی خزانے اور امریکی دبائو کے باعث لیت و لعل سے کام چلاتا رہا، اس منصوبے میں دلچسپی رکھنے والے ممالک ، منصوبے کی تعمیر کے لیے تو تیارہوئے مگر تعمیری ٹھیکہ بغیر بولی دیے مانگنے لگے، حکومت ایسا کر بھی لیتی مگر لگتاہے کہ عدالت عظمی کا ڈر آڑے آرہا ہے،کیوں کہ بغیر بولی کے ٹھیکے کی لاگت کو کم یا زیادہ کرنے کازیادہ تر اختیار سرمایہ فراہم کرنے والے فریق کے ہاتھ میں ہی ہوتا ہے۔ منصوبے کی یہ کہانی اب ایک مقام پر آ کر رک سی گئی تھی، ایسے میں ڈی ایٹ کانفرنس کے دوران ایران کی طرف سے قرضہ فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا۔
قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ایران نے سوچا ہوگاکہ جب گیس اسی نے فروخت کرنی ہے، اپنے حصے کی پائپ لائن بھی خود ہی تعمیر کرنی ہے تو پاکستان کے حصے کی لائن بنانے اور سرمایہ کاری کرنے میں کیا برائی ہے، یوں بھی ہو سکتا ہے کہ ایران نے سوچا ہو کہ یہ ٹھیکہ جب بغیر بولی کے دیا جانا ہے تو اس کو میں خود ہی کیوں نہ حاصل کر لے،اس کا خیال ہے اس سے اس کی معیشت کو ہی تو استحکام ملے گا، اس کی گیس کے جوگاہگ آج ہیں شاید وہ کل نہ ہوں ان کو آج ہی کیوں نہ مستفید کیا جائے تاکہ مزید گاہکوں کو بھی راغب کیا جا سکے۔یہ وہ پس منظر ہے جس کے تحت حالات کروٹ لیتے لیتے خود بہ خود پاکستان کے حق میں ہوتے چلے گئے۔
پاک ایران گیس پائپ لائن کے معاہدے پر دونوں ممالک کے دستخط ہونے کے بعد اس بات کی تصدیق بھی ہو جائے گی کہ ایران اور امریکا کے درمیان برف پگھلنے والی ہے یا نہیں، دوسری جانب یہ بھی قابل غور بات ہو گی کہ جب اکتوبر میں روس کے صدر پیوٹن پاکستان آنے والے تھے اور وہ پاکستانی حکم رانوں سے اپنی گیس کمپنی گیزر پروم کے لیے اس ٹھیکے پر بات چیت کرنے کے خواہاں بھی تھے اور پھر اچانک انھوں نے اپنا دورہ اِس لیے ملتوی کر دیا کہ پاکستانی سفارت کاروں اور اعلیٰ حکام کی نیتوں پر انھیں شک ہو گیاتھا کہ یہ ٹھیکہ انھیں نہیں ملے گا اس وقت گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ کسی نے خفیہ سگنل پاکستان کو دے دیا تھا کہ ابھی رک جائو، ایران کے ساتھ تعلقات کی نوعیت بدلنے والی ہے، جو اب بہت حد تک بدلتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے،اسی لیے اب یہ منصوبہ ایک نئی جہت اختیار کرتا ہوا نظر آ رہاہے ۔
اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ امریکا نے اس منصوبے کی مخالفت چھوڑ دی ہے اور اسی وجہ سے ایران نے خود ہی سرمایہ کاری کی پیش کش بھی کر دی ہے۔ ایران نے ایسا کیوں کیا؟ اِس کا درست جواب آئندہ چند ماہ میںاس وقت ملے گا جب ایران کے صدر احمدی نژاد اپنے نئے انتخاب میں عوام کے پاس جائیں گے۔ دوسری جانب پاکستان کے موجودہ حکم ران بھی بہت جلد یا کچھ عرصہ بعد ووٹوں کے لیے اپنے عوام کے پاس جانے والے ہیں،محسوس ہو رہا ہے کہ دونوں ممالک کے حکم رانوں کے لیے یہ منصوبہ الیکشن مہم کے منشور کا ایک خوب صورت حصہ ہو گا۔
عالمی منظر نامے میں تبدیلیوں کے حوالے سے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی تعمیر سے مزید بہت کچھ اخذ کیا جا سکتا ہے، اِس منظر نامے میں یورپ کے کئی ایک ممالک کے عوام کی طرف سے اپنے اپنے حکم رانوں کے خلاف معاشی کٹوتیوں کی پالیسی کے خلاف مظاہرے، امریکا اور یورپ پر آئی ایم ایف کی جانب سے تنقید، آئی ایم ایف کے بعض حکام نے تو یہاں تک الزام لگایا ہے کہ امریکا اور یورپ کی حالیہ کساد بازاری، ان ہی ممالک کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے، جس کی وجہ سے اٹلی، ہنگری، فرانس، برطانیہ، جرمنی، پرتگال میں اب عوامی مظاہرے ہو رہے ہیں تو دوسری جانب امریکی ریاستوں کی علیحدگی کی تحریک بھی زور پکڑ رہی ہے۔
علاوہ ازیں امریکا اور یورپ میں بے روزگاری کو کم کرنے کے لیے بے نتیجہ اقدامات، آئندہ چار سے پانچ سال کساد بازاری کے اثرات قائم رہنے کی باتیں، روس کی اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیاریاں اور باریک بینی پر مبنی جائزے، عالمی معیشت کا رخ مغرب کی جانب ہونے کے امکانات، ایشیا اور بحرالکاہل کے خطے میں روس کی بڑھتی ہوئی معاشی سرگرمیاں، خاص طور پر روس کی جانب سے تیل اور گیس کی ترسیل کو یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی قوانین کی منظوری پر زور، ایران پر اقتصادی پابندیوں کے بعد یورپ کو تیل کی کمی کا سامنا۔
دوسری جانب تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے یورپی ممالک پر مالیاتی بوجھ کا تیزی سے بڑھنا، ایران اسرائیل تنازعے میں امریکا کی نئی حکمت عملی جس کے تحت امریکا ایران کے خلاف اب حد سے زیادہ آگے نہیں بڑھے گا، افغانستان سے نیٹو افواج کے ممکنہ انخلاء کے بعد پاکستان کی معاشی حالت میں بہتری لانے کے لیے عالمی برادری کو احساس ہونااور اس کے نتیجے میں پاکستان کے اندر سب سے پہلے انرجی کے بحران کو ختم کرنے کے لیے امریکا اور یورپ کا آگے بڑھنا تا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان معاشی سطح پر خود کفیل ہو سکے اور اصل میں یہ خوف کہ کہیں دہشت گردی کی یہ جنگ امریکا اور یورپ تک نہ پھیل جائے۔
یہ وہ عوامل ہیں جو سب کے سامنے ہیں۔رہی بات یہ کہ امریکا کی جانب سے گزشتہ دو سال سے صرف پاکستان پر ہی دبائو کیوں تھا کہ وہ ایران سے گیس پائپ لائن سے گریز کرے حالاں کہ اس نوعیت کا معاہدہ ایران سے ترکی بھی کر چکا تھا اس پر امریکا نے دبائو کیوں نہیں ڈالا اور نہ ہی عراق اور شام سے کہاکہ وہ ایران سے گیس کی خریداری کے معاہدے نہ کریں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی نظر آتی ہے کہ امریکا پاکستان کو کم زور رکھ کر اپنی جنگ میں شامل رکھنے کا خواہاں تھا، لیکن اب صورت حال بدلتی نظر آ رہی ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پاکستان نے کئی ایک اہم طالبان رہ نمائوں کو رہا کرکے دہشت گردی کی جنگ سے جہاں امریکا کو نکلنے میں آسانیاں فراہم کر دی ہیں وہاں اپنے لیے بھی عذاب کم کرنے کی راہ دیکھ لی ہے۔شاید محاورہ سچ ہونے لگا ہے ''ہونی ہو کر رہتی ہے'' لیکن اس کے باوجود ابھی خاصی مسافت باقی ہے، قدرت نے پاکستان سے انرجی بحران کو ختم کرنے کا ایک نادر موقع اس گیس پائپ لائن کی صورت میں ممکن توکر دیا ہے جس کے بعد اب ہمارے سفارت کاروں اور حکم رانوں کا کام شروع ہو گیا ہے کہ وہ اس منصوبے کو بدعنوانی سے بچا کر کس طرح مکمل کرتے ہیں اور ایران سے گیس کی قیمتوں کے تعین سمیت دیگر آپریشنل امور کو کتنی ذمے داری سے سرانجام دیتے ہیں۔
ماہرین اقتصادیات کے مطابق اگر یہ منصوبہ 2015 تک مکمل ہو جاتا ہے تو آئندہ بیس سے تیس سال تک پاکستان میں معاشی شرح نمو میں کمی نہیں آئے گی بل کہ اس کا گراف مسلسل اوپر جانے کا امکان ہی ظاہر کیا گیا ہے۔اس منصوبے کی تکمیل سے ملک میں جہاں عوام کو سستا ایندھن میسر ہو سکے گا وہاں کھاد بنانے کے لیے اور ٹیکسٹائل سیکٹر کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے میں بہت زیادہ آسانیاں حاصل ہو سکیں گی ، عین ممکن ہے کہ یہاں سے اپنے سرمایے کو باہر منتقل کرنے والے سرمایہ کار دوبارہ پاکستان آنے کا پروگرام بھی بنا لیں، لیکن شرط صرف ایک ہی ہے کہ اِس منصوبے کو آئندہ دس سے بیس سال تک بدعنوانی کے عنصر سے مکمل طور پر محفوظ رکھنا ہو گا۔
ماضی قریب میں جب ملک کے اندر قدرتی گیس کی کمی عوام سمیت حکم رانوں کے لیے بھی عذاب بنی تھی تو ہمارے پالیسی سازوں نے ہمسایہ ملک ایران سے گیس خریدنے کا خواب دیکھاتھا مگراس وقت خواب کی تعبیر ممکن نہ تھی کیوں کہ ایران سے ہمارے گرم جوش تعلقات،کئی برسوں سے سرد مہری کا شکار تھے ۔ ایسے میں بھارت نے ایران سے قربت پیدا کر کے اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے گیس کی فراہمی کی راہ ہم وار کی تو پاکستانی سر زمین دونوں ملکوں ایران اور بھارت کی مجبوری بن گئی، یوں پاکستان کمیشن لینے والا تیسرا فریق بن گیاتھا ۔
اس وقت یہ طے پایاتھا کہ پاکستان کوراہ داری ادا کی جائے گی اور اس دور کے ہمارے چند ہونہار پالیسی ساز ایران اور بھارت کی بات قریباً مان بھی گئے تھے کیوں کہ راہ داری کی مدّ میں مفت رقم ملنے کی توقع پیدا ہو چلی تھی۔ اسی اثناء میںجب ملک کے اندر'' سی این جی'' کے شعبہ نے پر پرزے نکالنے شروع کر دئے، تو مفت خوری کی وہ تمام امیدیں ٹوٹ گئیںجو ہمارے ارباب اختیار باندھے بیٹھے تھے اور مجبورا ًپاکستان کو راہ داری لینے کی بجائے خود فعال خریدار بننے کا نیک خیال آیا یوں پاکستان بھی اس عالمی منصوبے کا حصہ دار بن گیا، لیکن منزل ابھی بہت دور تھی،بھارت ایران کے ساتھ گیس کی قیمت طے کرنے میں ناکام ہوا تو دوسری جانب پاکستان بھی اسی نوعیت کے مسائل کاشکار ہو گیا۔
مشرف دور میں یہ منصوبہ کاغذوں میں تو مکمل ہوچکا تھا مگر پاکستان کی کمزور سفارت کاری،امن وعامہ کی مخدوش صورت حال،ترقیاتی منصوبوں میں سرطان کی طرح پھیلتا ہوا بدعنوانی کا عنصر، فریقین کے درمیان گیس کی قیمتوں کا طے نہ ہوپانا،ممبی حملے کے بعد کی خطرناک صورت حال، جو زرداری دور حکومت کو ورثے میں ملی، درست ہونے کے بجائے مزید بگڑتی چلی گئی تھی، جس کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان تنائو کی کیفیت ہیجانی شکل اختیار کرگئی اور ردعمل میں بھارت نے افغانستان کے ساتھ مل کر اس خطے (بلوچستان) کو ہی کم زور کرنے کی ٹھان لی جہاں سے گیس پائپ لائن گزرنی تھی۔
بعد ازاں جب ایران پر ایٹم بم بنانے کے الزامات لگے اور یورپی یونین اور امریکا کی جانب سے ایران پر اقتصادی پابندیاں لگیں تو یہ منصوبہ پوری دنیا میں نا قا بل عمل سمجھا جانے لگااس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ امریکا بہادر نے بھی اس منصوبے کو نا قابل عمل قرار دے دیا تھا۔ پاکستان کو کہا گیا کہ وہ ترکمانستان ، افغانستان، پاکستان اورانڈیا (تائپی)گیس پائپ لائن کے منصوبے کواولیت دے اورایران کے ساتھ گیس لائن کا منصوبہ بھول جائے۔ اس حکم کے جواب میں پاکستان نے بلند بانگ دعوے کیے مگرعملی طور پر کچھ بھی نہ ہوا،جس کے بعد عالمی ماہرین نے فتوی دے دیا تھاکہ یہ منصوبہ اب کبھی مکمل نہیں ہو گا، رواں سال کے وسط میں یہ فتوی خاصی حد تک درست محسوس ہونے لگا تھا۔
کہتے ہیں کہ ہونی ہو کر رہتی ہے اور پھر عالمی منظر نامے میں پے در پے تبدیلیوں کے نتیجے میں حالات و واقعات تیزی سے بدلتے چلے گئے،تائپی گیس پائپ لائن،فریقین کے درمیان گیس کی قیمتوں کے تعین میں ناکامی کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئی تو دوسری جانب ایران نے اپنے اوپر اقتصادی پابندیوں سے پیدا ہونے والے اثرات کودور کرنے کی حکمت عملی وضع کر لی اور پاکستان سے سرد مہری ختم کر کے تعلقات کو نئے سرے سے استوار کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔ اسی دوران افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی اور آئندہ سال سے ان افواج کے متوقع انخلاء کی خبروں نے دیگر بڑی عالمی طاقتوں کو متحرک کر دیاتو وہ خطے میں اپنے مفادات کی خاطر ہاتھ پائوں مارنے لگی تھیں،ان ہی کوششوں کی وجہ سے روس،جرمنی،جنوبی کوریا سمیت کئی ایک ممالک کی تیل اور گیس کمپنیوں نے پاک ایران گیس پائپ لائن کی تعمیر میں دل چسپی ظاہر کر دی۔
اسی طرح رواں سال کے آخر تک امریکا اور ایران بھی ایک دوسرے کو ڈرانے دھمکانے کے بعد اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ''یورینیم کی افزودگی''کے معاملے کو فوجی جارحیت کے بجائے مذاکرات سے حل کر لیا جائے تو اسی میں سب کی بہتری ہو گی،لگتایوں ہے کہ ایران کی ''بیک ڈور ڈپلومیسی''کام کر چکی تھی جس کے نتیجے میں اسرائیل کی امیدوں پر پانی پھرگیا،اوراس نے ڈپریشن میں آکر غزہ کی پٹی پر نہتے فلسطینیوں پر بم برسانے شروع کردیے تاکہ ایران غصے میں آکر اسرائیل کے خلاف کوئی کاروائی کرے اور یوں اس جنگ کا آغاز ہوجو اسرائیل کئی برسوں سے چاہتاہے۔
اسرائیلی جارحیت ابھی عروج پر ہی تھی تو دوسری دفعہ منتخب ہونے کے بعد امریکی صدر باراک اوبامااپنے پہلے عالمی دورے پر جب جنوبی ایشیاء پہنچے تو ان ہی دنوں پاکستان میں ڈی ایٹ ممالک کی کانفرنس کا انعقاد ہو رہا تھا،اس دوران جب ایران نے پاک ایران گیس پائپ لائن کی تعمیر کے لیے پاکستان کو قرضہ فراہم کرنے کا اعلان کیا توان تمام ممالک کی امیدیں ٹوٹ گیئں جو بغیر بولی دیے اس منصوبے کی تعمیر کا ٹھیکہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔ لاگت کے برابر آسان شرائط پر قرضہ جو مل رہا تھا۔
مگر یہ بھی سچ ہے کہ سال ۵۰۰۲ کے بعد اب پہلی مرتبہ یہ منصوبہ عملی شکل اختیار کرتا ہوا نظر آرہاہے۔ڈی ایٹ ممالک کانفرنس کے بعد جلد یا کچھ عرصہ بعد جب ایرانی صدر احمدی نژاد اس منصوبے کے لیے قرضہ کے معاہدے پر دستخط کردیں گے تو اس بارے میں بہت سے شکوک وشبہات اپنی موت آپ مر جائیں گے اور یہ منصوبہ اپنی راہ میں حائل رکاوٹوں کا پہلا دور عبور کر چکا ہو گا۔
اب تک کی کہانی پر غور کیا جائے تو محسوس ہوگا کہ ہونی ہو کر رہی، جس کو ٹالا نہیں جاسکا۔۔۔ بھارت نے اپنی ضروریات کے لیے ایرانی گیس خریدنے کا پروگرام بنایا، پاکستان کو راہداری کے لیے منایا ، پھر بھارت نے خود ہی اس منصوبے سے علیحدگی اختیار کر لی توایران نے اس کے باوجود اپنے حصے کی پائپ لائن تیار کر لی۔
پاکستان بدستور اپنے خالی خزانے اور امریکی دبائو کے باعث لیت و لعل سے کام چلاتا رہا، اس منصوبے میں دلچسپی رکھنے والے ممالک ، منصوبے کی تعمیر کے لیے تو تیارہوئے مگر تعمیری ٹھیکہ بغیر بولی دیے مانگنے لگے، حکومت ایسا کر بھی لیتی مگر لگتاہے کہ عدالت عظمی کا ڈر آڑے آرہا ہے،کیوں کہ بغیر بولی کے ٹھیکے کی لاگت کو کم یا زیادہ کرنے کازیادہ تر اختیار سرمایہ فراہم کرنے والے فریق کے ہاتھ میں ہی ہوتا ہے۔ منصوبے کی یہ کہانی اب ایک مقام پر آ کر رک سی گئی تھی، ایسے میں ڈی ایٹ کانفرنس کے دوران ایران کی طرف سے قرضہ فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا۔
قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ایران نے سوچا ہوگاکہ جب گیس اسی نے فروخت کرنی ہے، اپنے حصے کی پائپ لائن بھی خود ہی تعمیر کرنی ہے تو پاکستان کے حصے کی لائن بنانے اور سرمایہ کاری کرنے میں کیا برائی ہے، یوں بھی ہو سکتا ہے کہ ایران نے سوچا ہو کہ یہ ٹھیکہ جب بغیر بولی کے دیا جانا ہے تو اس کو میں خود ہی کیوں نہ حاصل کر لے،اس کا خیال ہے اس سے اس کی معیشت کو ہی تو استحکام ملے گا، اس کی گیس کے جوگاہگ آج ہیں شاید وہ کل نہ ہوں ان کو آج ہی کیوں نہ مستفید کیا جائے تاکہ مزید گاہکوں کو بھی راغب کیا جا سکے۔یہ وہ پس منظر ہے جس کے تحت حالات کروٹ لیتے لیتے خود بہ خود پاکستان کے حق میں ہوتے چلے گئے۔
پاک ایران گیس پائپ لائن کے معاہدے پر دونوں ممالک کے دستخط ہونے کے بعد اس بات کی تصدیق بھی ہو جائے گی کہ ایران اور امریکا کے درمیان برف پگھلنے والی ہے یا نہیں، دوسری جانب یہ بھی قابل غور بات ہو گی کہ جب اکتوبر میں روس کے صدر پیوٹن پاکستان آنے والے تھے اور وہ پاکستانی حکم رانوں سے اپنی گیس کمپنی گیزر پروم کے لیے اس ٹھیکے پر بات چیت کرنے کے خواہاں بھی تھے اور پھر اچانک انھوں نے اپنا دورہ اِس لیے ملتوی کر دیا کہ پاکستانی سفارت کاروں اور اعلیٰ حکام کی نیتوں پر انھیں شک ہو گیاتھا کہ یہ ٹھیکہ انھیں نہیں ملے گا اس وقت گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ کسی نے خفیہ سگنل پاکستان کو دے دیا تھا کہ ابھی رک جائو، ایران کے ساتھ تعلقات کی نوعیت بدلنے والی ہے، جو اب بہت حد تک بدلتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے،اسی لیے اب یہ منصوبہ ایک نئی جہت اختیار کرتا ہوا نظر آ رہاہے ۔
اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ امریکا نے اس منصوبے کی مخالفت چھوڑ دی ہے اور اسی وجہ سے ایران نے خود ہی سرمایہ کاری کی پیش کش بھی کر دی ہے۔ ایران نے ایسا کیوں کیا؟ اِس کا درست جواب آئندہ چند ماہ میںاس وقت ملے گا جب ایران کے صدر احمدی نژاد اپنے نئے انتخاب میں عوام کے پاس جائیں گے۔ دوسری جانب پاکستان کے موجودہ حکم ران بھی بہت جلد یا کچھ عرصہ بعد ووٹوں کے لیے اپنے عوام کے پاس جانے والے ہیں،محسوس ہو رہا ہے کہ دونوں ممالک کے حکم رانوں کے لیے یہ منصوبہ الیکشن مہم کے منشور کا ایک خوب صورت حصہ ہو گا۔
عالمی منظر نامے میں تبدیلیوں کے حوالے سے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی تعمیر سے مزید بہت کچھ اخذ کیا جا سکتا ہے، اِس منظر نامے میں یورپ کے کئی ایک ممالک کے عوام کی طرف سے اپنے اپنے حکم رانوں کے خلاف معاشی کٹوتیوں کی پالیسی کے خلاف مظاہرے، امریکا اور یورپ پر آئی ایم ایف کی جانب سے تنقید، آئی ایم ایف کے بعض حکام نے تو یہاں تک الزام لگایا ہے کہ امریکا اور یورپ کی حالیہ کساد بازاری، ان ہی ممالک کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے، جس کی وجہ سے اٹلی، ہنگری، فرانس، برطانیہ، جرمنی، پرتگال میں اب عوامی مظاہرے ہو رہے ہیں تو دوسری جانب امریکی ریاستوں کی علیحدگی کی تحریک بھی زور پکڑ رہی ہے۔
علاوہ ازیں امریکا اور یورپ میں بے روزگاری کو کم کرنے کے لیے بے نتیجہ اقدامات، آئندہ چار سے پانچ سال کساد بازاری کے اثرات قائم رہنے کی باتیں، روس کی اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیاریاں اور باریک بینی پر مبنی جائزے، عالمی معیشت کا رخ مغرب کی جانب ہونے کے امکانات، ایشیا اور بحرالکاہل کے خطے میں روس کی بڑھتی ہوئی معاشی سرگرمیاں، خاص طور پر روس کی جانب سے تیل اور گیس کی ترسیل کو یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی قوانین کی منظوری پر زور، ایران پر اقتصادی پابندیوں کے بعد یورپ کو تیل کی کمی کا سامنا۔
دوسری جانب تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے یورپی ممالک پر مالیاتی بوجھ کا تیزی سے بڑھنا، ایران اسرائیل تنازعے میں امریکا کی نئی حکمت عملی جس کے تحت امریکا ایران کے خلاف اب حد سے زیادہ آگے نہیں بڑھے گا، افغانستان سے نیٹو افواج کے ممکنہ انخلاء کے بعد پاکستان کی معاشی حالت میں بہتری لانے کے لیے عالمی برادری کو احساس ہونااور اس کے نتیجے میں پاکستان کے اندر سب سے پہلے انرجی کے بحران کو ختم کرنے کے لیے امریکا اور یورپ کا آگے بڑھنا تا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان معاشی سطح پر خود کفیل ہو سکے اور اصل میں یہ خوف کہ کہیں دہشت گردی کی یہ جنگ امریکا اور یورپ تک نہ پھیل جائے۔
یہ وہ عوامل ہیں جو سب کے سامنے ہیں۔رہی بات یہ کہ امریکا کی جانب سے گزشتہ دو سال سے صرف پاکستان پر ہی دبائو کیوں تھا کہ وہ ایران سے گیس پائپ لائن سے گریز کرے حالاں کہ اس نوعیت کا معاہدہ ایران سے ترکی بھی کر چکا تھا اس پر امریکا نے دبائو کیوں نہیں ڈالا اور نہ ہی عراق اور شام سے کہاکہ وہ ایران سے گیس کی خریداری کے معاہدے نہ کریں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی نظر آتی ہے کہ امریکا پاکستان کو کم زور رکھ کر اپنی جنگ میں شامل رکھنے کا خواہاں تھا، لیکن اب صورت حال بدلتی نظر آ رہی ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پاکستان نے کئی ایک اہم طالبان رہ نمائوں کو رہا کرکے دہشت گردی کی جنگ سے جہاں امریکا کو نکلنے میں آسانیاں فراہم کر دی ہیں وہاں اپنے لیے بھی عذاب کم کرنے کی راہ دیکھ لی ہے۔شاید محاورہ سچ ہونے لگا ہے ''ہونی ہو کر رہتی ہے'' لیکن اس کے باوجود ابھی خاصی مسافت باقی ہے، قدرت نے پاکستان سے انرجی بحران کو ختم کرنے کا ایک نادر موقع اس گیس پائپ لائن کی صورت میں ممکن توکر دیا ہے جس کے بعد اب ہمارے سفارت کاروں اور حکم رانوں کا کام شروع ہو گیا ہے کہ وہ اس منصوبے کو بدعنوانی سے بچا کر کس طرح مکمل کرتے ہیں اور ایران سے گیس کی قیمتوں کے تعین سمیت دیگر آپریشنل امور کو کتنی ذمے داری سے سرانجام دیتے ہیں۔
ماہرین اقتصادیات کے مطابق اگر یہ منصوبہ 2015 تک مکمل ہو جاتا ہے تو آئندہ بیس سے تیس سال تک پاکستان میں معاشی شرح نمو میں کمی نہیں آئے گی بل کہ اس کا گراف مسلسل اوپر جانے کا امکان ہی ظاہر کیا گیا ہے۔اس منصوبے کی تکمیل سے ملک میں جہاں عوام کو سستا ایندھن میسر ہو سکے گا وہاں کھاد بنانے کے لیے اور ٹیکسٹائل سیکٹر کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے میں بہت زیادہ آسانیاں حاصل ہو سکیں گی ، عین ممکن ہے کہ یہاں سے اپنے سرمایے کو باہر منتقل کرنے والے سرمایہ کار دوبارہ پاکستان آنے کا پروگرام بھی بنا لیں، لیکن شرط صرف ایک ہی ہے کہ اِس منصوبے کو آئندہ دس سے بیس سال تک بدعنوانی کے عنصر سے مکمل طور پر محفوظ رکھنا ہو گا۔