آزاد کشمیر انتخابات کے چند پیغامات
سب سے پہلے مبارکباد برادرم مشتاق منہاس کو۔ اس لیے کہ وہ ہماری صحافی برادری کے نمایاں رکن رہے ہیں،
سب سے پہلے مبارکباد برادرم مشتاق منہاس کو۔ اس لیے کہ وہ ہماری صحافی برادری کے نمایاں رکن رہے ہیں، انھوں نے آزاد کشمیر کے تازہ انتخابات میں (ایل اے 34 وسطی باغ سے) تحریکِ انصاف کے راجہ خورشید صاحب کو بھاری ووٹوں سے شکست دی ہے۔ راجہ صاحب تجربہ کار سیاستدان ہیں۔ کشمیری سیاست کا ایک جانا پہچانا نام۔ انھیں چِت کرنا آسان نہیں تھا۔ وہ کشمیری سیاست میں داخل ہوئے۔
زیروسے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کرنا پڑا۔ واقعہ یہ ہے کہ انھوں نے ایک ناممکن الحصول مہم کو ممکن بنا دیا۔ مشتاق منہاس کی فتح دراصل وزیراعظم نواز شریف کی فتح ہے۔ اس لیے اصل مبارکباد کے مستحق تو جناب محمد نواز شریف ہیں۔ جمہوریت اگر ''بہترین انتقام'' ہے تو کشمیریوں نے بیڈ گورننس کا اظہار کرنے والوں سے نہایت شائستگی سے انتقام لیا ہے۔ آزاد کشمیر کے ان انتخابات کا ایک پیغام یہ بھی ہے۔ پیغام یہ دیا گیا ہے کہ آیندہ انتخابات میں گورننس ہی کو مرکزی کردار ملنے والا ہے۔
اس لیے جو بھی سیاسی پارٹیاں رواں لمحوں میں برسرِ اقتدار ہیں، انھیں کان ہو جانے چاہئیں کہ تقریباً دو سال بعد جو قومی الیکشن ہونے والے ہیں، ان میں وہی پارٹیاں اور شخصیات کامیاب ہوں گی جو اس وقت گُڈ گورننس کا مظاہرہ کر رہی ہیں، جو لاء اینڈ آرڈر کی طرف متوجہ ہیں اور جو عوامی بہبود کا عملی مظاہرہ کر رہی ہیں۔ بُری گورننس کا مظاہرہ کرنے والوں کی مستقل چھٹی ہوجائے گی، جس طرح آزاد کشمیر میں حکمران جماعت یعنی پیپلز پارٹی کا صفایا ہوگیا ہے؛ چنانچہ سندھ کی مقتدر جماعت اپنی گورننس اور آزاد کشمیر کے تازہ انتخابات کے آئینے میں اپنے مستقبل کی تصویر دیکھ سکتی ہے۔
آزاد کشمیر کے تازہ انتخابات کے آئینے میں پی ٹی آئی اور عمران خان بھی اپنا چہرہ ملاحظہ کرسکتے ہیں کہ آنے والے ایام میں ووٹرز ان کے بارے میں کیا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ جلسے کرکے اور جلوس نکال کر جتنا رولا اور شور و غوغا کپتان صاحب نے مچایا تھا، تازہ انتخابات میں کشمیریوں نے اس نسبت سے ان کی طرف متوجہ ہونے سے صاف انکار کردیا ہے۔ پی ٹی آئی کے سب سے بڑے امیدوار اور آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم، بیرسٹر سلطان محمود چوہدری، بھی شکست کھا گئے ہیں۔ صدرِ آزاد کشمیر کی صاحبزادی بھی ہار گئیں۔
ہر طرف فتح کے شادیانے بجے ہیں تو مسلم لیگ نون کے۔ نارووال، شکر گڑھ اور ظفروال ایسے دور افتادہ مقامات میں بھی مسلم لیگ ن کے امیدوار، یاسر رشید، نے بھاری ووٹوں سے پی ٹی آئی کے امیدوار کو شکست دی ہے۔ کپتان نے آزاد کشمیر کے ووٹروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی تمام ممکنہ کوششیں کیں لیکن کشمیریوں نے کپتان کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ آزاد کشمیر کے تازہ انتخابات کا ایک پیغام یہ بھی ہے کہ نجی ٹی وی کی اسکرینوں پر بعض اینکرز اور تجزیہ نگاروں کے شور مچانے کے باوصف عوام پانامہ لیکس کو در خورِ اعتناء نہیں سمجھ رہے۔
ممکن ہے اس ضمن میں بے ضابطگیاں ہوئی ہوں لیکن آزاد کشمیر کی تقریباً ساٹھ لاکھ آبادی نے اکثریت کی بنیاد پر یہ تہمتیں ماننے سے صاف انکار کردیا ہے۔ پی ٹی آئی کو جھونگے میں ملنے والی تین سیٹیں زبانِ حال سے بتا رہی ہیں کہ کشمیریوں نے پی ٹی آئی کو مسترد کردیا ہے۔ یہ پیغام ملفوف نہیں ہے۔ گریٹ خان نے اگست طلوع ہوتے ہی جناب نواز شریف کے خلاف جس دھرنے اور احتجاج کی ''نوید'' قوم کو سنائی ہے، آزادی کشمیر کے انتخابات کے حالیہ نتائج کے پیش منظر میں بآسانی بتایا جاسکتا ہے کہ اس دھرنے کے نتائج کیا ہوں گے! عمران مگر نوشتۂ دیوار پڑھنے سے انکاری ہیں۔
سامنے دیوار پر لکھی گئی تحریر بلاول بھٹو زرداری، بھی پڑھنے سے قاصر ہے، حالانکہ آزاد کشمیر کے انتخابات نے ایک غیر مبہم پیغام انھیں بھی پہنچا دیا ہے۔ تین سال قبل کے عام انتخابات نے پنجاب بھر میںپیپلز پارٹی کی شکست فاش نے بھی ایک پیغام دیا تھا مگر اس پیغام کو بھی نہیں سمجھا گیا ۔ اب آزاد کشمیر کے انتخابات نے ایک بارپھرپی پی پی، اس کی مقامی قیادت اور خصوصاً مرکزی قیادت کو یہ پیغام دیا ہے کہ محض الزامات عائد کرنے سے کامیابی نہیں ملتی۔ کمزور ووٹرز اور سپورٹرز، جو ناراض بھی ہیں، طاقتور اور نہایت دولتمند قیادت کا کچھ بگاڑ تو نہیں سکتے لیکن انتخابات میں ضرور انتقام لیتے ہیں۔ سو کشمیر کے پپلیوں نے انتقام لے لیا ہے۔
بلاول بھٹو نے ''مودی کے یار کو ایک دھکا اور دو'' کا نعرہ لگا کر جناب نواز شریف کو گرانے کی ناتمام کوشش تو کی لیکن یہ نعرہ بھی اپنی کشش کھو بیٹھا۔ آزاد کشمیر کے انتخابات کا ایک پیغام یہ بھی تو ہے کہ کشمیریوں نے یک زبان اور یک مشت ہوکر اس پروپیگنڈے پر ''ایمان'' لانے سے صاف انکار کردیا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف، بھارتی وزیراعظم کے ''یار'' ہیں اور یہ کہ جناب نواز شریف پاکستان کے ازلی دشمنوں سے ساز باز کرکے کشمیری مفادات کا سودا کر سکتے ہیں۔ اس کے چھینٹے نواز شریف کے دامن پر ہیں نہ دیکھے جاسکتے ہیں۔
کشمیری نژاد نواز شریف کی کشمیر اور مسئلہ کشمیر سے کمٹمنٹ کا تازہ ترین بڑا اظہار یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے انتخابات کے نتائج نکلنے کے دوسرے دن ہی وزیراعظم صاحب نے عسکری اور سیاسی قیادت سے ایک بڑی میٹنگ کی ہے۔ اس میٹنگ کا مرکزی نقطہ مقبوضہ کشمیر میں تازہ بھارتی مظالم کے خلاف لائحہ عمل تیار کرنا تھا۔ چنانچہ اعلان کیا گیا ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کے مظلوم کشمیریوں پر بھارت کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کی تحقیقات کے لیے یو این او سے رابطہ کررہا ہے۔ یہ مستحسن فیصلہ ہے اور اس کی باز گشت دہلی تک بھی پہنچی ہے۔ آزاد کشمیر کے انتخابات کا ایک پیغام یہ بھی ہے کہ نواز شریف اب زیادہ قوی ہوکر عالمی فورموں پر مسئلہ کشمیر اٹھا سکیں گے۔ انشاء اللہ العزیز۔