Facebook
رابطے اور تحقیق پر پتا چلا کہ یہ تو ان کی اپنی بیٹی ہے۔ اسپتال کے اسٹاف کی لاپرواہی سے بچیاں بدل گئیں۔
کتابی چہرہ ، فیس بک کا ترجمہ ہوسکتا ہے۔اردو ادب میں شاعروں نے اس پر بڑی شاعری کی لیکن نئی صدی میں اس لفظ نے نئے معنی سمجھائے ہیں۔ ٹیکنالوجی نے ایسے دوستوں کو ملادیا جس سے بیس پچیس سال سے رابطہ منقطع تھا۔کئی بچھڑے بھائی بہن مل گئے توکئی بچوں کو ماں باپ۔ایک خاتون کو محسوس ہوا کہ فیس بک پر ایک لڑکی ان کی بڑی ہم شکل ہے۔
رابطے اور تحقیق پر پتا چلا کہ یہ تو ان کی اپنی بیٹی ہے۔ اسپتال کے اسٹاف کی لاپرواہی سے بچیاں بدل گئیں۔ یہ واقعہ خوشی کے ساتھ ساتھ ایک المیہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ دو عشروں سے شکل سے واقف وکلا کے ناموں سے اور ناواقف وکلا کے ناموں سے ناواقفیت تھی۔ نام پوچھتے ہوئے بھی شرمندگی ہوتی۔ فوجیوں اور پولیس کی وردی پر تو ان کا نام ہوتا ہے۔ فیس بک نے اس گتھی کو بھی سلجھا دیا کہ اب برسوں سے شکل سے واقف ساتھیوں کے نام بھی جاننے لگے ہیں۔ پروین شاکر چہرہ و نام ایک ساتھ یاد نہ آنے پر خوبصورت شعرکہہ چکی ہیں۔
اخبار میں کوئی خبر غلط ہو تو ایڈیٹر پکڑ لیتے ہیں اور ٹی وی پر ریٹنگ کا مسئلہ نہ ہو تو غیر معیاری بات آن ایئر نہیں ہوتی۔ سوشل میڈیا پر نہ کوئی روک ٹوک ہے اور نہ کوئی سینسر کا نظام۔ جس انداز سے قومیت، فرقہ واریت، لسانیت اور سیاسی و مذہبی پارٹیوں کے حامی اپنے تبصرے کرتے ہیں وہ نہایت ہی اذیت ناک ہے۔ یہ سہولت و ایجاد ایک بٹی ہوئی قوم کو مزید تقسیم کر رہی ہے۔ اسلام پسند اورلبرلز کی جنگ بھی دھواں دھار ہے لیکن یہ نظریاتی جنگ اتنی خوفناک نہیں جتنی کہ دوسری جنگیں ہیں۔ معاشرہ کس قدر تقسیم در تقسیم ہے؟ ہم میں ایک دوسرے کے خلاف کتنا زہر بھرا ہوا ہے؟ یہ فیس بک سے پتا چلتا ہے۔ سوشل میڈیا پکار کر کہہ رہا ہے کہ ''تیری صبح کہہ رہی ہے تیری شب کا فسانہ''۔ آئیے اب حوصلے سے اور دل مضبوط کرکے اس چار طرفہ برائی کا جائزہ لیتے ہیں۔
سیاسی پارٹیوں کے حامی اپنی مخالف سیاسی پارٹیوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، ایم کیو ایم، جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی اور اے این پی اس جنگ میں کسی کو تختہ مشق بناتی ہیں توکسی کے ہاتھوں تختہ مشق بنتی بھی ہیں۔ دوسری شدت فرقہ وارانہ ہے۔ مخالف مذہبی قائد کو بے عزت کرنے اور اپنی پسندیدہ شخصیت کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں۔ تیسری جنگ اسلام پسندوں اور لبرلز کے درمیان ہے۔ ہر ہفتے کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ہوجاتا ہے جو ایک دوسرے پر تنقید کا بہانہ فراہم کردیتا ہے۔ چوتھی جنگ اپنی ناپسندیدہ شخصیات کو بدنام کرنے کے لیے غیر مناسب جملوں کے حوالے سے ہے۔ یہ جنگ سماجی، ثقافتی، گھریلو اور کاروباری رقابت کی بنیاد پر لڑی جا رہی ہے۔
تیونس سے ترکی تک کے واقعات نے بھی فیس بک کی اہمیت کو دوچند کردیا ہے۔ عزیزی نامی نوجوان نے اپنے جسم کو آگ لگالی۔ پڑھے لکھے اور بے روزگار لڑکے نے ٹھیلہ لگایا تو پولیس نے ہٹا دیا۔ شعلوں میں گھرے مظلوم کی تصویر سوشل میڈیا پر آگئی۔ ایک سے دوسرے اور سیکڑوں سے ہزاروں اور لاکھوں سے کروڑوں لوگوں تک پہنچ گئی۔ اس ایک تصویر نے ''عرب بہار'' جیسے جملے کو متعارف کروایا۔ ترکی کے صدر نے بغاوت پر قابو پندرہ بیس اسکوائر انچ کے موبائل فون سے پایا۔ ان کے پیغام پر ترک عوام باہرنکل آئے اور جدید دنیا کی تاریخ کا انوکھا واقعہ ظہور پذیر ہوا۔ فوجی ٹینکوں کے آگے لیٹ کر نہتے عوام نے جمہوریت کو کچلنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔
سوشل میڈیا ایک دیوار ہے جس پر آپ جو چاہیں لکھ سکتے ہیں۔ اس میں نہ اخبارکے ایڈیٹر کی قینچی ہوتی ہے اور نہ ٹی وی پروڈیوسرکی ایڈیٹنگ اور نہ فلموں کی طرح کا کوئی سینسر بورڈ۔ یوں یہ شتر بے مہار آزادی اپنے فوائد کے ساتھ ساتھ کئی نقصانات بھی ساتھ لائی ہے۔ ایک عام آدمی اب اپنی بات ہزاروں لاکھوں لوگوں تک پہنچانے کے لیے نہ کسی سرکاری ریڈیو، ٹی وی کا محتاج ہے اور نہ کسی سرمایہ دار کے میڈیا کا۔ عوام اب اپنی بات کہنے کے لیے نہ کسی حکمراں کے محتاج ہیں اور نہ کسی مالک اخبارومدیر کے۔ اس آزادی نے عوام میں کئی ایک نفسیاتی بیماریاں پیدا کی ہیں۔
خود نمائی ایک نفسیاتی بیماری ہے اور خوشامد دوسری۔ سوشل میڈیا کی بدولت یہ دونوں بیماریاں ایک تصویر میں سما گئی ہیں۔ لوگ اپنی تصویر لگا کر خودنمائی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو دوسری طرف دوست احباب ایسی خوشامدانہ تعریف کرتے ہیں جو کسی صورت میں برحق نہیں ہوتیں۔ کبھی چہرے سے حماقت ٹپک رہی ہوتی ہے تو کہیں شیطانیت چھلک رہی ہوتی ہے۔ اس پر ان کے دوستوں کے خوشامدانہ تبصروں پر عقلمند لوگ یا غیر جانبدار مبصرین سر پیٹ لیتے ہیں۔ جب ایسی تصاویر پر ''درد تنہا'' کے تبصرے کیے گئے اور ان ہی لوگوں کی قومی تصاویر پر ''غم زمانہ'' لکھا گیا تو فرق محسوس کرکے اصلاح کی گئی۔
خواتین بالخصوص خوبصورت خواتین کی تصاویرکو حیرت انگیز طور پر چند منٹوں میں سیکڑوں ہزاروں مردانہ Likes مل جاتے ہیں۔ یہ عادت اس معاشرے کے لیے جسے مردوں کا معاشرہ کہا جاتا ہے، یہ اس کی ذہنی بیماری کا پتا دیتی ہے۔ مردوں کی ذہانت بھری تحریرکوئی دن گزرنے کے باوجود بھی صرف چند لوگ پسندیدگی کا سرٹیفکیٹ دیتے ہیں۔ کھانوں بالخصوص ہوٹلوں میں پیزا اور برگر کی تصاویر مسلسل لگائی جاتی تھیں۔ چند سمجھدار یا دل جلوں نے اس پر''صدیوں کی بھوک'' اور Hunger of Centuries کے تبصرے لکھے۔ کچھ لوگ سمجھ گئے اور پھرگریز کرنے لگے۔ ناسمجھوں کے لیے ایک پیغام سامنے آیا کہ ''رمضان میں افطار کی تصاویر نہ لگائیں، ممکن ہے اگر لوگوں کو ایسی چیزیں میسر نہ ہوں تو ان کے دل دکھیں۔'' ایسی پوسٹ سے بھی اچھے خاصے لوگ ہوشیار ہوگئے۔ ان کی سمجھ میں آگیا کہ خوراک کی اس طرح کی تصاویرکو پسند نہیں کیا جاتا۔
کسی بھی ایجاد سے زیادہ سے زیادہ فوائد سمیٹے جائیں اور خامیوں کو الگ کیا جائے تو وہ ایجاد صحیح معنوں میں نعمت بن جاتی ہے۔ نقصانات زیادہ ہوں تو اسے زحمت کہا جاسکتا ہے۔ اگر فرقہ واریت سے گریز کیا جائے تو کیا کہنا۔ اگر سیاسی و نظریاتی جنگ کو مہذب طریقے کے ساتھ لڑا جائے تو کیا خوب۔ اگر خودنمائی اور خوشامد سے پرہیز کیا جائے تو واہ واہ۔ اگر خواتین سوشل میڈیا پر آ ہی گئی ہیں تو کیا ضروری ہے کہ غیر محرم مردوں یا انجانے لوگوں کے لیے اپنی تصاویر بدل بدل کر ضرور ہی لگائیں۔ اگر کسی خاتون نے تصویر لگا دی ہے تو مردوں کی اچھی تحریر پرکنجوسی کرنے والے مردوں کو سخاوت کا مظاہرہ کرنا زیب دیتا ہے؟ کیا یہ کالم دوستوں کو مائل کرے گا کہ کیا مقصد ہے سوشل میڈیا کا؟ اور کیا ہے یہ کتابی چہرہ یا facebook۔