پہلے ہی اپنا کون تھا اے دوست
اس بستی کے حالات سدھر جائیں، اسی آس کی جوت جگائے کچھ لوگ تھے
معراج محمد خان بھی چلے گئے۔ 21 جولائی 2016 بروز جمعرات کی شب دو اور تین بجے کے درمیان انھوں نے آخری سانسیں لیں اور ادھر چل دیے جدھر ان کے بہت سے سنگی ساتھی پہلے سے ہی موجود ہیں۔ ادھر بڑی رونق ہے۔ ادھر ہی سب کچھ ہے۔ اِدھر اب کچھ نہیں۔ ایک ایک کرکے بستی کے سارے لوگ جاتے رہے۔ معراج محمد خان بستی کا آخری آدمی رہ گیا تھا، وہ بھی چلا گیا۔ وہ جو بستی کے لیے طلوع ہونے والے سورج کا تمنائی تھا، آخرکار وہ بھی چلا گیا۔ یہ بستی ایسے لوگوں کی تھی جن کے دن رات دکھ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ گھپ اندھیرے تھے، دنیا بھر کے مسائل تھے، گھاس پھونس کے بنے جھونپڑے، کہیں مٹی کے گھروندے، رات کی تاریکی سے لڑتے ہوئے چراغ، کوئی بیمار ہوجائے تو دوا نہیں۔ اﷲ ٹھیک کردے تو کردے ورنہ مٹی کا ایک اور ڈھیر مقدر ٹھہرتا ہے۔
اس بستی کے حالات سدھر جائیں، اسی آس کی جوت جگائے کچھ لوگ تھے جن کے دل بستی والوں کے ساتھ دھڑکتے تھے، ان لوگوں کے سامنے دنیا بھر کے آرام و آسائش کے ڈھیر لگے ہوئے تھے، مگر یہ لوگ بستی والوں کی طرف چلے گئے۔ ساری زندگی انھی کے ساتھ گزار دی، کچھ دنیادار لوگ کہتے ''ان سرپھروں کو بستی والوں کے ساتھ ہی مزا آتا ہے، چلو یونہی سہی مگر یہ عجیب مزا تھا۔ جو رستوں میں بیٹھنا، تھڑوں پر مجلس سجانا، کچی گلیوں میں پھرنا، مزدوروں، ریڑھی بانوں، ہاری، کسانوں کے ساتھ رہنا، پولیس کی لاٹھیاں کھانا، جیل جانا، انتہا درجے کے عقوبت خانوں میں اسیر ہونا، فوجی آمروں سے ٹکرا جانا، یہ کیسا مزا تھا''۔ مگر یہ لوگ اسی مزے میں جئے اور اسی میں مر گئے۔ یہ بڑے لوگ تھے، جنھوں نے ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر جمہور کے تانے بانے نہیں بنے، یہ تپتے میدانوں میں، کھیتوں کھلیانوں میں، مزدوروں کے ساتھ دہکتے کارخانوں میں، غریب بستیوں میں بیٹھ کر آزادیٔ انساں کے لیے سوچتے تھے، پلان بناتے تھے اور پھر ان پر عمل بھی کرتے تھے۔
یہ چند ہی لوگ تھے جن کا طرز زندگی ایسا تھا جو مظلوموں، مجبوروں کے ساتھ جئے اور مرے، معراج محمد خان اس سلسلے کا آخری آدمی تھا، سو اب وہ بھی نہیں رہا۔
یادیں ہیں کہ امڈی چلی آرہی ہیں۔ 1964 میں لاہور کے مسلم ماڈل ہائی اسکول سے میٹرک پاس کرکے میں کراچی آگیا۔ اسلامیہ کالج میں داخلہ ملا، جنرل ایوب دھاندلی، دھونس، دھن کے ذریعے قائداعظم کی بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو بظاہر شکست دے چکا تھا مگر عوام نے یہ فیصلہ یکسر مسترد کردیا تھا۔ معراج محمد خان نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے صدر تھے۔ کراچی میں طلبا بھی فوجی آمر کے خلاف سڑکوں پر تھے۔
میں بھی اس تحریک میں شامل تھا۔ مجھے خوب یاد ہے ڈی جے سائنس کالج کا جلسہ جس میں میرے صدر معراج محمد خان نے خود میرے لیے اناؤنسمنٹ کرتے ہوئے کہا ''ہماری یہ خوش نصیبی ہے کہ عوامی شاعر حبیب جالب کے چھوٹے بھائی ہماری صفوں میں شامل ہیں اور وہ آپ کو حبیب جالب کی نظم سنائیںگے''۔ میں اٹھارہ بیس سال کا لڑکا تھا، آواز میں دم خم تھا اور جالب صاحب کے ترنم میں پڑھتا تھا، مجھے یہ بھی خوب یاد ہے ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب سے الگ ہوگئے تھے، پاکستان کی متحدہ اپوزیشن بھٹو صاحب کے لیے نرم گوشہ رکھتی تھی، معراج محمد خان ذوالفقار علی بھٹو کو طلبا میں لے کر آئے۔ گرومندر پر سہوانی کلب میں ایک استقبالیہ ترتیب دیا گیا۔ بھٹو خاص مہمان تھے، اسلامیہ کالج قریب ہی تھا۔
کالج کے طلبا کی بہت بڑی تعداد اس استقبالیہ میں شریک تھی۔ جلسہ گاہ کھچاکھچ بھری ہوئی تھی، بھٹو کا طلبا سے میل جول کامیاب رہا۔ پھر بھٹو کے ساتھ مل کر معراج محمد خان نے پیپلزپارٹی بنائی، بھٹو، معراج محمد خان اور غلام مصطفیٰ کھر کو اپنا جانشین کہا کرتے تھے، معراج محمد خان اس جانشینی سے کہیں زیادہ بڑے آدمی ثابت ہوئے۔ بھٹو کی حکومت بنی، معراج محمد خان کو مرکزی وزیر محنت و عوامی امور بنایاگیا مگر جب لانڈھی کے مزدوروں پر اندھادھند فائرنگ کی گئی، جس کے نتیجے میں کئی مزدور مارے گئے تھے تو اسی رات معراج محمد خان وزارت کو لات مار کر اور حکومت کو چھوڑ کر مزدوروں کے ساتھ جاکر کھڑے ہوگئے۔
بھٹو سے اختلاف ہوا اور معراج محمد خان اصولوں پر ڈٹے رہنے کی پاداش میں سڑکوں پر پولیس کی لاٹھیاں کھاتے رہے۔ اسی لاٹھی چارج کے نتیجے میں ان کی ایک آنکھ کی بینائی بھی متاثر ہوئی اور جیل خانے مقدر بنے۔ مجھے یہ بھی خوب یاد ہے کہ جنرل ضیا نے بھٹو صاحب کی حکومت کا تختہ الٹا، انھیں قتل کے جھوٹے مقدمے میں پھنسایا، جیل میں ڈالا تو جیل خانے سے بھٹو صرف دو آدمیوں کو سلام کہلواتے تھے ایک معراج محمد خان اور دوسرے حبیب جالب مگر ''حالات'' پر ''عوام دشمن'' قوتوں کا بڑا ہی مضبوط کنٹرول قائم ہوچکا تھا۔ کہیں ''باہر'' یہ طے ہوچکا تھا کہ بھٹو کو پھانسی دینا ہے اور زیادہ تفصیل کا موقع نہیں ہے، معراج اور جالب کو سلام کہلوانے سے کہیں آگے حالات جاچکے تھے، لندن پاکستانیوں سے آباد تھا اور غریب کارکن، صحافی پاکستان میں ضیا الحق کے کوڑے کھا رہے تھے یا کارکن خود سوزی کررہے تھے۔
معراج محمد خان نے اصولوں کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا، آخری سانس تک اپنے اصولوں پر قائم رہے، جن لوگوں کے ساتھ انھوں نے آغاز کیا تھا وہی لوگ ان کو رخصت کرنے کے لیے نماز جنازہ اور تدفین میں شریک تھے۔ اﷲ کا شکر ہے حکمران کوئی نہیں تھا۔ معراج محمد خان کو یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ پاکستان کا سب سے بڑا عوامی ایوارڈ حبیب جالب امن ایوارڈ (سال 2013) انھیں دیا گیا اور وہ اس ایوارڈ یافتگان کی فہرست میں شامل ہیں جہاں سوبھوگیان چندانی، وکلا تحریک کے اعتزاز احسن، عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر ادیب رضوی، ڈاکٹر روتھ فاؤ، فخرالدین جی ابراہیم، معراج محمد خان، عبدالحمید چھاپرا، جسٹس رانا بھگوان داس اور ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ موجود ہیں۔ یہ ایوارڈ ہر سال کسی ایک شخصیت کو دیا جاتا ہے۔
احمد ریاض بہت بڑے عوام دوست شاعر تھے۔ پچاس کی دہائی میں ان کا انتقال ہوا تھا۔ غربت میں خودداری کے ساتھ زندگی گزاری، ''غریب'' اخبار لائل پور (فیصل آباد) کے ایڈیٹر تھے۔ ساحر لدھیانوی کے جگری دوست تھے۔ حبیب جالب نے اپنا پہلا مجموعہ کلام ''برگ آوارہ'' احمد ریاض کے نام کیا تھا، ان کی وفات پر جالب کی لکھی نظم دہرا رہا ہوں۔ معراج محمد خان کو یاد کرتے ہوئے کہ دلی کیفیت وہی ہے، جو جالب کی تھی۔
پہلے ہی اپنا کون تھا اے دوست
اب جو تو ہو گیا جدا اے دوست
ساتھ کس نے دیا کسی کا یہاں
ساری دنیا ہے بے وفا اے دوست
تو جلا شمع کی طرح سرِ بزم
نور تھا، تیرا ہمنوا اے دوست
کتنی خوش بخت ہے زمین وہ بھی
اب جو دے گی ترا پتا اے دوست
صبح آئے گی لے کے وہ خورشید
جس پہ تو ہو گیا فدا اے دوست
حق مغفرت کرے۔ (آمین)