بقرعید سے قبل ۔۔۔۔ سائیں کی قربانی

اگر اب بھی عوام کی خدمت کرلی جائے تو لوگ نہ صرف پرانے دکھ بھول جائیںگے بلکہ خدمت کرنے پر دعائیں بھی دینگے۔


حقیقت یہی ہے کہ نااہل حکومت کے پاس اپنے سر کا بوجھ اتارنے کا سب سے اچھا طریقہ وزراء کی تبدیلی ہی ہے، مسائل کو حل کرنا مقصود ہوتا تو قائم علی شاہ سے بھی کام نکلوایا جاسکتا تھا۔ فوٹو: فائل

مشہور کہاوت ہے کہ دوسروں کے لیے گڑھا کھودنے والا خود بھی اس میں گرسکتا ہے۔

رینجرز اختیارات کے معاملے پر سندھ حکومت اور وفاق میں جاری چپقلش کا بالآخر ڈراپ سین ہوگیا اور ہمیشہ کی طرح کمزور کو ہی قربانی کا بکرا بنا دیا گیا۔ پیپلزپارٹی کے پاس عزت بچانے کا اس سے بہتر کوئی طریقہ بھی نہیں تھا کہ کسی شخص کے کندھے پر رکھ کر گولی چلائی جائے اور مک مکا کرلیا جائے۔ لاڑکانہ میں پیش آنے والے واقعے نے رنجشوں کو اس قدر ہوا دی تھی کے اب حالات معمول پر آنا قدرے مشکل دکھائی دے رہے تھے۔ قائم علی شاہ کے مستعفی ہونے کے بعد وزیراعلی کے عہدے کی باگ دوڑ جس کے ہاتھ میں بھی آئے، اصل معاملہ تو رینجرز کے اختیارات کا تھا جو اب حل ہوگیا ہے۔

جب کراچی میں امن و امان کے مسئلے نے سر اٹھایا تو اُس وقت حکمراں جماعت پیپلزپارٹی نے مستقبل کی پرواہ کئے بغیر کراچی آپریشن کو خوش آمدید کہا، لیکن وقت نے یہ ثابت کیا کہ یہ فیصلہ خود پیپلزپارٹی کے لیے کسی دھچکے سے کم نہیں تھا۔ پہلے ڈاکٹر عاصم کو کرپشن اور خردبرد کے الزام میں حراست میں لیا گیا، اگرچہ یہ عمل پیپلزپارٹی کو ایک آنکھ بھی نہ بھایا لیکن مجبوری کہیں یا کچھ اور، پیپلزپارٹی نے اِس عمل کو تو کڑوا گھونٹ سمجھ کر پی لیا لیکن جب رینجرز آپریشن کا دائرہ اندرون سندھ تک وسیع کرنے کی بات ہوئی تو پیپلزپارٹی پر جیسے بجلی بن کر گری۔ حال ہی میں قادر پٹیل اور اسد کھرل کی گرفتاری نے تابوت میں آخری کیل کا کردار ادا کیا، بس پھر کیا تھا، ساری قیادت دبئی جا پہنچی اور بالآخر قائم علی شاہ کو بقرعید سے قبل قربان کرکے یہ پیغام دیا گیا کہ وہ ساری باتیں ماننے کے لیے تیار ہیں۔

اِس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ کراچی میں رینجرز کو اختیارات ملنے سے قبل یہاں کے حالات واقعی بہت خراب تھے اور یقیناً رینجرز نے قیام امن میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ کراچی میں امن کی ذمہ دار سندھ پولیس کیا کررہی ہے؟ اگر پولیس کی کارکردگی قابل تعریف ہوتی تو بھلا کیونکر رینجرز کو غیر معمولی اختیارات دینے کی ضرورت محسوس ہوتی؟ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سندھ حکومت کے نذدیک امن و امان کبھی بڑا مسئلہ رہا ہی نہیں، اور اِسی خرابی کی وجہ سے آج وہ مشکلات کا شکار ہے۔

دوسری اہم بات پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی باہمی مشاورت تھی۔ دونوں ہی جماعتیں اگر سوچ سمجھ کر مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکمت عملی طے کرتیں تو شاید یہ حالات نا ہوتے۔ اگر دونوں جماعتیں خود سے ہی کرپشن، امن و امان، پولیس کی کارکردگی اور صوبے کی ترقی کے لیے متفق ہوجاتی تو کبھی مشکلات کا شکار نہیں ہوتیں۔ اگر سچ پوچھا جائے تو میرے خیال میں اب بھی معاملات جوں کے توں ہی رہیں گے اور جتنی بھی تبدیلی سننے کو مل رہی ہے یہ سب توجہ کو تقسیم کرنے کی ایک چال ہے۔ اچھا لگے یا بُرا، لیکن حقیقت یہی ہے کہ نااہل حکومت کے پاس اپنے سر کا بوجھ اتارنے کا سب سے اچھا طریقہ وزراء کی تبدیلی ہی ہے، مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کے لیے اگر یہ لوگ سنجیدہ ہوتے تو قائم علی شاہ سے بھی کروا سکتے تھے۔

حال ہی میں ترکی میں فوجی بغاوت کا معاملہ سامنے آیا لیکن ترک عوام اپنے لیڈر طیب اردگان کی ایک آواز پر جمہوریت کی بقاء کی خاطر سڑکوں پر نکل آئے، اور اپنی جان پر کھیل کر بھی جمہوریت کا دفاع کیا۔ اگر یہی معاملہ خدانخواستہ پاکستان میں ہوتا تو معاملہ شاید اس کے برخلاف ہوتا، شاید نہیں بلکہ یقیناً ایسا ہی ہوتا۔ ویسے یہاں جمہوریت کے لیے قربانی دی بھی کیوں جائے کہ جس ملک میں سیاست دان کرپشن کے ریکارڈ توڑ دیں اور بے حسی کی تصویر بن جائیں وہاں لوگوں کا جمہوریت پر اعتماد بھلا کیسے بحال ہوسکتا ہے؟

سچ پوچھیں تو ذوالفقارعلی بھٹو اور بی بی شہید کی پیپلزپارٹی اب ختم ہی ہوچکی ہے۔ ہاں البتہ موجودہ سندھ حکومت اسکی بقایاجات کو بھی کسی گڑھے میں دفن کردینا چاہتے ہیں۔

اس لیے اب صرف گیند ہی نہیں پورا کھیل بلاول بھٹو کے ہاتھ میں ہے۔ انہوں نے اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اپنے نانا کے نقش قدم پر چلنا ہے یا والد آصف زرداری کے نقش قدم پر۔ اگر تو ذوالفقار علی بھٹو کی پیروی کی گئی تو یہ اُمید ضرور کی جاسکتی ہے کہ کم از کم سندھ میں تو پیپلزپارٹی کی پوزیشن بہتر ہوگی، اور یہ دائرہ سندھ سے نکل کر پورے ملک تک بھی پھیل سکتا ہے، لیکن اگر والد صاحب کو اپنا ہیرو بنایا گیا تو بہت دور کی بات نہیں جب سندھ میں بھی پیپلزپارٹی کی جگہ کوئی اور پارٹی برسرِاقتدار ہوگی۔

انتخابات میں اب بھی وقت ہے، اگر اب بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرلیا گیا تو نہ صرف لوگ پُرانے دکھ بھول جائیں گے بلکہ خدمت کرنے پر دعائیں بھی دینگے کہ ہماری عوام کی یادداشت واقعی بہت کمزور ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگرجامعتعارفکےساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں