لڑکی دیکھنے والوں کچھ تو خوفِ خدا کروایک ماں کی فریاد

جب میں علینا کے گھر پہنچی تو مجھے معلوم چلا کہ علینا نفسیاتی اسپتال میں داخل ہے اوراس کا علاج چل رہا ہے،دوست

جب میں علینا کے گھر پہنچی تو مجھے معلوم چلا کہ علینا نفسیاتی اسپتال میں داخل ہے اوراس کا علاج چل رہا ہے،دوست فوٹو:فائل

علینا آج نفسیاتی اسپتال میں کیوں داخل ہے، اس کا جواب شاید بہت آسان ہے کہ کیوں کہ وہ ذہنی مریضہ ہے اس لئے نفسیاتی اسپتال میں زیرعلاج ہے لیکن میرا سوال یہ ہے کہ وہ ذہنی مریضہ بنی کیسے شاید اس کا جواب آپ کے پاس نہ ہو لیکن میں آپ کو بتارہی ہوں علینا اس نہج تک کس طرح پہنچی۔

علینا میری دوست ہے اورہم نے ایک ساتھ اسکول اورکالج میں پڑھا، اس نے انٹر کے بعد تعلیم کو خیرباد کہہ دیا جب کہ میری گریجویشن کے بعد شادی ہوگئی لیکن میری اورعلینا کی دوستی قائم رہی ،ہم دونوں ہی متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، میں اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہوں جب کہ علینا کی فیملی تھوڑی بڑی ہے، اس کی 4 بہنیں اور2 بھائی ہیں، 2 بہنوں کی شادی خاندان میں ہوگئی تھی جب کہ علینا کی شادی کے لئے اس کے والدین بہت پریشان رہتے تھے،علینا کے بارے میں میرا یہ لکھنے کو دل تو نہیں چاہ رہا لیکن اصل میں شادی نہ ہونے کی جو وجہ بنی شاید اس کا واجبی سی شکل وصورت کا ہونا ہے۔

میں جب بھی اپنے میکے آتی توکبھی کبھار علیناسے ملنے اس کے گھر بھی چلی جاتی تھی کیوں کہ ہمارا اورعلینا کا گھر قریب ہی تھا جب کہ کبھی کبھاروہ بھی مجھ سے ملنے آجاتی تھی، لیکن میں ہمیشہ ایک بات نوٹ کرتی کہ وہ تھوڑی بجھی بجھی سی رہتی تھی اورمجھے یہ وہ علینا ہی نہیں لگتی تھی جو اسکول اورکالج کے زمانے میں ہوتی تھی،ہاں ایک بات جو ہے جس پر میں بھی پریشان ہوتی تھی کہ علینا کے رشتے آتے تو تھے لیکن کہیں سے بھی خاطر خواہ جواب نہیں آتا،اسی دوران وقت گزرتا گیا اورمصروفیات بھی بڑھتی گئی جب کہ میں ایک بچے کی ماں بھی بن گئی، ایک دن جب میں اپنے میکے گئی تو علینا سے موبائل پر بات کرنا چاہی تو علینا کا فون اس کی والدہ نے اٹھایا اوروہ فون اٹھاتے ہی رو پڑیں، میں بہت خوفزدہ ہوگئی کہ کیا ماجرا ہے تب انہوں نے مجھے گھر آنے کا کہا اورمیں الٹے پیر علینا کے گھر جاپہنچی تو مجھےمعلوم چلا کہ علینا نفسیاتی اسپتال میں داخل ہے اوراس کا علاج چل رہا ہے۔


جب میں نے علینا کی والدہ سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ بیٹا علینا کی شادی کے لئے جو بھی رشتہ آتا وہ منع کرکے چلا جاتا، کوئی کہتا کہ ہمار بھائی تو لاکھوں میں ایک ہے، کوئی کہتا کہ میرا بیٹا تو بہت خوبصورت ہے اورکوئی کہتا کہ ہمیں آپ کی بیٹی پسند نہیں آئی،ہربارعلینا ان کے سامنے ٹرے میں چائے یا کولڈرنک لے کر جاتی اورایک صوفے پر بیٹھ جاتی جسے لڑکے والے گھور گھور کردیکھتے اورچلے جاتے جس کی وجہ سے میں بہت پریشان تھی لیکن میں نے یہ بات بھی نوٹ کی علینا تھوڑی ڈپریشن کا شکار ہوتی جارہی ہے، ایک دن ایک رشتہ آیا تو میں نے علینا سے کہا کہ بیٹا چائے لے آؤ تو اس نے چیخ کرمجھے منع کردیا کہ میں کوئی گائے بکری نہیں ہوں جو ان کے سامنے سج دھج کرآؤں اوریہ میراتمسخراڑا کرچلے جائیں تاہم وہ اس دن وہ ان کے سامنے نہیں آئی اوروہ لوگ تھوڑی دیر بعد کر منہ ہی منہ میں باتیں کرکے چلے گئے، اس کے بعد علینا نے مجھے صاف منع کردیا کہ میں اب کسی کے سامنے نہیں آؤں گی لیکن اسی دوران اس کی ذہنی کیفیت بھی خراب ہوتی رہی اورطبیعت یہاں تک خراب ہوگئی کہ اسے ہمیں اسپتال لے جانا پڑا، وہاں چند دن داخل رہنے کے بعد ڈاکٹرز نے ہمیں بولا کہ آپ اس کو کسی سائیکاٹرس کو دکھائیں کیوں کہ اس کا مسئلہ نفسیاتی ہے۔ میں علینا کو دیکھنے اسپتال گئی تو اس کو دیکھ کر بے اختیار رو پڑی۔

اس واقعے کو لکھنے کامطلب صرف یہ ہے کہ کم از کم اسے پڑھ کر ان بے حس لوگوں کے دل میں تھوڑا سا درد کا احساس پیدا کرسکوں جو اپنے واجبی شکل بیٹوں کے لئے بھی حورپری دیکھنے نکلتی ہیں اوراس میں بھی دس کیڑے نکال کر مسترد کردیتی ہیں اور اگر آج علینا اس مقام پر پہنچی ہے تو یہ ان ہی جیسے بے حس لوگوں کی کرامت کا نتیجہ ہے جوپسند کے نام پر ہم لڑکیوں کو گائے بکری سمجھتے ہیں اورٹکا سا جواب دے کر چلے جاتے ہیں۔

ہم بتارہے ہیں معاشرے کی وہ حقیقت جس کا بہت کم نوٹس لیا جاتا ہے لیکن وہ اس مقام تک کیسے پہنچتے ہیں اس میں کہیں نہ کہیں اس ظالم سماج کا بھی ہاتھ ہوتا ہے۔ اگر آپ بھی اپنے ارد گرد ایسے لوگوں کو جانتے ہوں تو ہمیں لکھ بھیجیں ان کی کہانی۔

web@express.com.pk
Load Next Story