اسٹیٹس سمبل کا خنّاس

مصنوعات کے بدلتے ماڈل، صارفین کا جینا عذاب سرمایہ دارانہ ہتھکنڈوں کی تاریخ اور تجزیہ۔


Ghulam Mohi Uddin December 02, 2012
فوٹو: فائل

عہد حاضر میں جدید علوم و فنون نے انسان کے ''انفرادی فرق'' کو ایک الگ موضوع کی حیثیت سے بیان کردیا ہے، جس کو (Individual Differences) کی اصطلاح سے یاد کیا جاتا ہے۔

عمرانیات، سماجیات اور نفسیات کے بعد اب علم جینیات نے اِس موضوع پر ڈی این اے اور آر این اے کے حصے بخرے کرکے حتمی مہر ثبت کردی ہے کہ انسانوں میں یہ اختلاف ازل سے ہے اورتا ابد قائم رہے گا مگر اِس کے باوجود انسان قدرت کی دی ہوئی صلاحیتوں سے روگردانی پر بہ ضد ہے۔ اپنی چادر سے باہر پائوں نکال کر وہ عارضی مسرتوں کا طلب گار ہے۔ اصل میں وہ، جو کچھ ہے، اُس سے خوف زدہ ہو کر، وہ ''وہ'' بننے کا خواہاں ہے جو وہ نہیں ہے۔

دن رات اس کوشش میں ہے کہ لوگ اس کے بارے میں وہ رائے قائم کریں جو وہ چاہتا ہے۔ عظمت کے اس خبط(Megalomania)کو اہلِ علم احساس کم تری کہیں یا برتری لیکن یہ طے ہے کہ اس کیفیت نے عصر حاضر کے انسانوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔ آج سرمایہ داری نظام معیشت اپنے عروج پر ہے۔ اس نظام میں زندگی گزارنے والا ملٹی نیشنل کمپنیوں کی تیار کردہ مصنوعات کے نت نئے ماڈلز کے بل بوتے پر دوسروں کو یہ باور کرانے پر تلا ہوا ہے کہ اسے سوپر مانا جائے یہ ہے ''اسٹیٹس سمبل'' کی حقیقت۔

آج سے قریب ہزار برس قبل انسان جو اجناس یا مصنوعات پیدا کرتا تھا وہ اُسے خود ہی استعمال کرتا تھا، پھر جب فنی ترقی کی منازل طے ہو چکیں اور پیداوار ضرورت سے زیادہ ہونے لگی تو اشیاء کے بدلے اشیاء کا نظام المعروف بارٹر سسٹم سامنے آیا۔ سولہویں اور اٹھارہویں صدی میں صنعتی انقلاب آیا تو اجناس کی پیداوار اس قدر بڑھی کہ اُسے دور دراز علاقوں میں فروخت کے لیے بھیجنا پڑ گیا۔ اب یوں ہوا کہ ایک علاقے کے لوگ دوسرے علاقے کی اجناس سے واقف نہیں ہوتے تھے اِس لیے ایسی اجناس سے واقفیت کا اہتمام کیا گیا۔ اِس کے لیے ایک مخصوص طریقۂِ کار وضع کیا گیا جس سے ''اشتہار بازی'' کی ابتداء ہوئی، اس کا واحد مقصد ان اجناس یا مصنوعات سے لوگوں کو واقف کرانا تھا اور اجناس کی تعریف یا ان کی خصوصیات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرناہرگز مقصود نہیں ہوتا تھا۔

دنیا میں سب سے پہلے انگلستان میں مصنوعات کی اشتہار بازی کے رجحانات سامنے آئے کیوںکہ وہ اپنے عہد کا سب سے بڑا سرمایہ دار اور ترقی یافتہ ملک تھا، لہٰذا اٹھارہویں صدی میں انگریز سرمایہ داروں نے اجناس کی پیداوار اتنی زیادہ کر دی کہ وہ نقصان کا باعث بننے لگیں سو ضرورت پیش آئی کہ لوگوں کو فالتو اجناس خریدنے پر آمادہ کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی اپنی اجناس یا مصنوعات کی جھوٹی تعریف کرنا اور اس کی خصوصیات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا تصور سامنے لایا گیا۔

وجہ یہ بنی کہ ایک ہی طرح کی مصنوعات دو یا دو سے زیادہ ممالک نے بنانا شروع کر دیں مثال کے طور پر انگلستان اگر سنگر سلائی مشین بنا رہا تھا تو اُدھر جرمنی بھی ''پف'' کے نام سے سلائی مشین تیار کر رہا تھا، یوں ان کے درمیان مقابلے اور مسابقت کی فضا تن گئی۔ اب اس رجحان کو تقویت ملی کہ ایک ملک اپنی مصنوعات کی تو تعریف کرنے لگا اور دوسرے ملک کی مصنوعات کی خامیوں کو سامنے لانے لگا۔ انیسویں صدی کے وسط تک اشتہار بازی سرمایہ دارانہ نظام کی ایک اہم خصوصیت بن چکی تھی اور اُس نے لوگوں میں ان کی روزمرہ کی عادات کے برعکس ضروریات کو پیدا کرنا، معاشرتی تبدیلیوں کو تیز کرنا اور ذوق کے رجحانات کو تقویت دینا شروع کر دیا۔

بیسویں صدی میں اشتہار کی تیاری کے لیے دنیا میں نفسیاتی ہتھکنڈوں کا استعمال سب سے پہلے امریکا میں آغاز ہوا۔ اب وہ صنعتی طور پر ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک کا سرخیل بن چکا تھا۔ علمِ نفسیات کے فوائد سے سرمایہ دار آگاہ ہو چکے تھے۔ 1900 میں ایک امریکی پروفیسر ہارلوگیل (Gale) نے اشتہار بازی کے نفسیاتی پہلوئوں کے متعلق دنیا کا سب سے پہلا پمفلٹ شائع کیا، بعدازاں امریکا کے نفسیات دان وولٹر ڈل سکوٹ (Scott) نے عالمی سطح پر ایک پوری کتاب لکھ ماری اور یوں پہلی مرتبہ اشتہاروں کی تیاری کے لیے نفسیاتی حربوں کا استعمال عام ہونے لگا۔

پھر مختلف ماہرین نفسیات نے اشتہاروں میں نفسیات کے اطلاق کے مختلف نظریات وضع کیے جن کی روشنی میں اشتہار تیار ہونے لگے اور وہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بھی بنے۔ کوشش کی جاتی تھی کہ صارف کے اس جذبہ کو ابھارا جائے کہ جس سے وہ مصنوعات خریدنے کی طرف راغب ہو سکے یعنی اس کے اندر ایک ایسی چیز خریدنے کی ترغیب اور اکساہٹ پیدا کی جائے، جس کی درحقیقت اسے ضرورت نہیں۔ بعد ازاں اس جدوجہد میں ماہرین نے سائنسی تحقیق کے طریقۂِ کار سے بھی استفادہ کرنا شروع کر دیا۔

اب صارفین کے نظریات اور ان کے رویوں کا مطالعہ کیا جانے لگا، اِن کو ناپنے کے لیے مختلف قسم کی پیمائشیں تیار کی گئیں، ان میں درجہ بندی (Ranking) اور شرح بندی (Rating) کے طریقۂِ پیمائش کو بے حد پذیرائی ملی۔ 1911 میں درجہ بندی اور شرح بندی کے طریقوں سے مختلف اشتہاروں کے بارے میں معلومات حاصل کی گئیں کہ وہ کس حد تک پسند کیے جاتے ہیں۔ اِن اشتہاروں کا صارفین پر کتنا اثر ہوتا ہے اور وہ ان پر کتنا یقین رکھتے ہیں۔ 1915 میں لوگوں کی یاد داشت کی پیمائش عام ہو چکی تھی۔ اس طریقۂِ کار سے یہ معلوم کیا گیا کہ اشتہاروں کے پیغامات صارفین کو کس حد تک یاد رہتے ہیں۔ 1925 میں باقاعدہ تحقیقات ہوئی کہ ایک اشتہاری مہم کس حد تک مؤثر ثابت ہو سکتی ہے جب کہ اِس وقت تک صارفین کے خیالات اور رویوں کو جاننے کے لیے سوال ناموں کا استعمال بھی شروع ہو چکا تھا۔

دوسری جنگ عظیم تک صارفین کے کردار کو جاننے کے لیے ''طریقِ جائزہ'' (Survey) بھی سامنے آ چکا تھا، اِس طریق کار کو مزید بہتر بنانے کے لیے نمونہ بندی (Sampling) کا طریقہ بھی آزمایا جانے لگا تاکہ زیادہ سے زیادہ درست حقائق سامنے آ سکیں اور پھر اس کام کے لیے باقاعدہ تحقیقی مراکز قائم کر دیے گئے۔

دوسری جنگ عظیم میں امریکا کی شمولیت سے امریکی عوام کو متعدد مشکلات پیش آئیں، ضروری اشیاء کی راشن بندی ہو گئی، فوجی بھرتی لازمی قرار دے دی گئی۔ اس نئی صورت حال میں امریکی حکام کو علم نہ تھا کہ امریکی عوام اس حوالے سے کیا سوچتے اور کیا رائے رکھتے ہیں۔ حکام جنگ سے پیدا شدہ مسائل سے متعلق عوام کی سوچ اور ممکنہ ردعمل کو جاننا چاہتے تھے تاکہ جنگ کے بعد عام استعمال کی اشیاء کی قلت کے مسئلے کو قابو میں رکھا جا سکے۔ ان ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر ملک گیر سروے شروع کر دیا گیا۔ امریکا کی مشی گن یونی ورسٹی نے دنیا کا پہلا اور سب سے بڑا سروے شروع کیا اور اس کے لیے ایک باقاعدہ تحقیقی مرکز بھی بنایا گیا جسے ماہرین نفسیات کنٹرول کر رہے تھے۔ اِس مرکز نے بعد ازاں صارفین کے رویوں پر بھی ہزاروں سروے مکمل کیے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ جوں جوں سرمایہ دارانہ نظام میں بحران بڑھتا گیا توں توں سرمایہ دار کو زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لیے عوام کو ایسی چیزیں بیچنے کی ضرورت پڑی جو عوام کے لیے غیر ضروری تھیں۔ اِس کام کے لیے یہ بہت ضروری تھا کہ عوام کے اندر خواہش اور ضرورت کو پیدا کیا جائے اور نفسیات دانوں نے یہ کام بڑے احسن طریقے سے کیا۔ اب تک سرمایہ دار طبقے نے شعوری سطح پر صارفین میں نئی سے نئی ضروریات پیدا کرنے کی کوشش کی تھی جو ایک جگہ پر آ کر رک گئی تو سرمایہ دار نے صارفین کے لاشعوری محرکات جاننا چاہے تاکہ اِن لاشعوری محرکات کی بنیاد پر صارفین کی مزید کھال اُدھیڑی جا سکے۔

سرمایہ دار طبقے کی اِس ضرورت کو آسٹریا کے ایک تربیت یافتہ ماہر نفسیات ارنسٹ ڈِکٹر (Dichter) نے پورا کیا۔ ڈکٹر نے بتایا ''کردار کی اصل وجوہات معلوم کرنے کے لیے ہر صارف کے لاشعوری نفسیاتی محرکات کا مخصوص طریقوں سے مطالعہ کرنا ضروری ہے'' مثلاً کئی لڑکیاں لکس صابن اس لیے استعمال کرتی ہیں کہ ان کے خیال میں وہ اس صابن کے استعمال سے فلمی ستاروں کی طرح خوب صورت ہو جائیں گی لیکن جب جائزہ لینے والوں نے ان سے صابن کے استعمال کی وجوہات پوچھیں تو اکثر لڑکیاں صابن کے رنگ، خوشبو ، جھاگ وغیرہ کی تعریف سے آگے نہ بڑھ پائیں کیوںکہ وہ اصل وجہ نہیں جانتی تھیں، اس لیے سرمایہ دار کو صارف کے کردار کی اصل وجوہات جاننے کی ضرورت پیش آئی۔

اس سے قبل ماہرینِ تحلیل نفسی، افراد کے لاشعوری محرکات کا مطالعہ عموماً اپنے کلینک میں کیا کرتے تھے، اب صارفین کے محرکات جاننے کے لیے تحلیل نفسی کا طریقہ بھی شروع کر دیا گیا۔ صارفین سے مصنوعات کے بارے میں تفصیلی سوالات پوچھے جانے لگے، ایک ہی موضوع کو مختلف زاویوں سے دیکھا جانے لگا۔ ایسے جوابات کے بارے میں مزید سوال کیے جانے لگے جو آپس میں متضاد ہوتے تھے۔ صارفین کے عمیق انٹرویو Depth Interview) ( In کیے جانے لگے۔

اس تحقیقات کو محرکی تحقیق (Motivational Research) کا نام دیا گیا جس میں صارفین کے لاشعوری محرکات جاننے کے لیے ماہرین نفسیات نے کلینکی نفسیات کے اضلالی طریقہ ہائے کار (Projective) کو خاص طور پر استعمال کیا، مثال کے طور پر کسی عورت سے یہ سوال کہ ''آپ کس طرح کا میک اپ پسند کرتی ہیں'' کے بجائے یہ پوچھا جائے، کہ ''آپ اپنے ذہن میں خوب صورت ترین عورت کی تصویر لائیں'' جب وہ ایسا کر لیتی تو اسے کہا جاتا کہ اِس عورت نے کس طرح کا میک اپ کیا ہوا ہے، عورت اپنی پسند اس خوب صورت ترین خیالی عورت پر پروجیکٹ کر دیتی، اس طرح عورت کی ذاتی پسند کا پتہ چل جاتا اور یوں مصنوعات کی فروخت کے لیے سرمایہ داروں کو سہولت مل جاتی۔

سرمایہ دارانہ نظام معیشت کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اِس میں ایک ہی جنس کو مختلف ناموں سے بیچا جا سکتا ہے، مثلاً ایک ہی چائے کی پتی کے مختلف تجارتی نام رکھ دیے جاتے ہیں، اِس طرح ایک ہی جنس میں ہر سال کچھ معمولی تبدیلی کرکے اُسے نئے ماڈل کا نام دے دیا جاتا ہے، لوگ اس خیال سے نیا ماڈل خریدتے ہیں کہ پچھلا ماڈل پرانا ہو گیا ہے۔ یہ ہی طریقۂِ کار کپڑوں، جوتوں اور دوسری چیزوں کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اس سارے قضیے میں ماہرین نے لوگوں کی خواہشات، ان کے خیالات اور تصورات معلوم کرکے سرمایہ داروں کی بہت مدد کی۔ تجربے یوں بھی کیے گئے کہ کچھ سگریٹ پینے والے صارفین کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی اور انھیں مختلف برانڈ کے سگریٹ پلائے گئے بعد میں ان صارفین سے پوچھا گیا کہ وہ بتائیں کہ ان میں سے ان کا پسندیدہ برانڈ کون سا ہے تو کوئی بھی صارف اپنا پسندیدہ سگریٹ نہیں بتا سکا، حال آںکہ عام حالات میں وہ اپنے پسندیدہ سگریٹ کے علاوہ کوئی سگریٹ پینا پسند ہی نہیں کرتا تھا۔

اس تجربے سے سرمایہ دار نے صارف کی پسند کو سراہنا اور اُس پسند کو تقویت دے کر قائم رکھنا سیکھ لیا اور یوں سرمایہ دار نے صارف کو اِس بات پر بھی آمادہ کرلیا کہ وہ اپنی پسند کو تبدیل نہ کرے یعنی سرمایہ دار طبقہ اشتہار بازی کے ذریعے نہ صرف لوگوں میں نئی نئی خواہشات اور ضروریات پیدا کرتا ہے بل کہ جہاں وہ صارفین کو اِن خواہشات کی تسکین کے لیے مخصوص کمپنیوں کی اشیاء کے استعمال پر آمادہ کرتا ہے تو وہاں کچھ اشیاء سے روکتا بھی ہے۔

مندرجہ بالا صورت حال سے قارئین کو شاید یہ تاثر ملے کہ نفسیاتِ صارفین کا عوام کے نقطۂِ نگاہ سے کوئی مثبت تعلق نہیں تاہم یہ درست نہیں۔ صارفین کی نفسیات کے کئی پہلو ایسے بھی ہیں جو کہ کسی ملک کے عوام کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں اور ہو بھی رہے ہیں، مثلاً طریقِ جائزہ سے اجناس پیدا کرنے والوں کو صارفین کی پسند اور ان کی ضروریات کا پتا چلتا ہے اس طرح وہ اپنی اجناس کو صارفین کی خواہش کے مطابق تیار کر سکتے ہیں اور جنس میں خامیوں کو دور بھی کرتے ہیں اس کے علاوہ یہ پتا بھی چلتا ہے کہ لوگ کس قسم کی نئی اشیاء کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ اشتہار بازی کا مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ اس سے صارفین کو مختلف مصنوعات سے واقفیت حاصل ہوتی ہے لیکن اِس ضمن میں بری بات یہ ہے کہ ان اجناس کو خریدنے کی مصنوعی ضرورت پیدا کی جاتی ہے۔

فرد اپنی بد صورتی کو نقاب پہنانے کی تگ و دو میں مصروف نظر آتا ہے۔ معمولی حیثیت کا حامل ہے تو بتانے سے ڈرتا ہے اور اگر صاحب حیثیت ہے تو مسکین بن کر مزید مستفید ہونے کے بہانے ڈھونڈتا ہے لیکن اصلیت بہ ہر حال کھل ہی جاتی ہے اور اعتبار اٹھ جاتا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ جدید سرمایہ داری نظام اِس بات کو اظہار آزادی، شخصی آزادی اور حقوق کی پائمالی کے تناظر میں کچھ اس طرح سے پینٹ کرتا ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی انسان اُس کیفیت میں پہنچ جاتا ہے جہاں سب کچھ مصنوعی ہوتا ہے۔ وہاں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی وہ مصنوعات ہوتی ہیں جن کے ماڈل اتنی تیزی سے بدلتے ہیں کہ انسان کو چھوڑنا اور انتخاب کرنامشکل ہو جاتا ہے اور پھر یہیں سے ''اسٹیٹس سمبل'' کا آغاز ہو جاتاہے۔

ماضی کے سوشلسٹ ممالک میں جہاں کوئی سرمایہ دار طبقہ نہیں تھا وہاں مصنوعات کو بیچنے کے لیے اس طرح کے ہتھکنڈوں سے کام نہیں لیا جاتا تھا بل کہ کئی سوشلسٹ ممالک میں اشتہار بازی سرے سے موجود ہی نہیں تھی اگر موجود تھی بھی تو اس کا مقصد صارفین کو اشیاء سے محض واقف کرانا تھا، اشیاء بیچنے کے لیے مصنوعات کا استعمال کرنے والوں کو امیر اور ماڈرن دکھانا ہرگز نہیں تھا۔ اِس کے برعکس سرمایہ دار ممالک میں اشیاء بیچنے کے لیے اس قسم کے نفسیاتی طریق ہائے کار کثرت سے استعمال کیے جاتے ہیں اور ڈھٹائی سے جاری ہیں، اس پر لطف یہ، کہ ان کو غیر اخلاقی بھی نہیں سمجھا جاتا اور نہ ہی دھوکا بازی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اِس ضمن میں ماہرین نفسیات سرمایہ دار طبقے کا پورا پورا ساتھ دے رہے ہیں حال آںکہ ان ماہرین کو چاہیے کہ وہ اپنے مثبت کردار کو سمجھیں اور سرمایہ دار کی بجائے صارف کے مفادات کا بھی تحفظ کریں۔

انسان سٹیٹس سمبل سے کبھی خود متاثر ہوتا ہے اور کبھی دوسروں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دونوں ہی صورتیں اُس کے لیے عذاب ہیں، اگر وہ ہیرو بنتا ہے تو ولن اُس کے مقابل آ کھڑا ہوتا ہے اور اگر وہ ولن بنے تو ہیرو کا خوف اُسے مارے دیتا ہے۔ آیے ! ہم اپنا اور اپنے اردگرد رہنے والے لوگوں کا جائزہ لیں کہ اِس ''اسٹیٹس سمبل'' نے ہماری زندگیوں کو کس قدر اجیرن کر دیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں