صحافت اور سازش

بدنیتی نہ تو قانون سازی ہونے دیتی ہے اور نہ لوگوں کو ظلم سے بچانے کا اہتمام کرنے دیتی ہے۔


Syed Talat Hussain November 30, 2012
www.facebook.com/syedtalathussain.official

آج کل ہر محفل میں ایک موضوع زور و شور سے زیر بحث ہے۔ پاکستان میں صحافیوں کو نت نئے خطرات اور دبائو کا سامنا ہے۔ اس ضمن میں جذبات، احساسات اور حقائق تینوں اکٹھے ہو کر ایک واضح خوف کی صورت میں دورانِ گفتگو کھل کر سامنے آتے ہیں۔ کیونکہ یہ معاملہ انتہائی سنجیدہ اور حساس نوعیت کا ہے لہذا وقت کا تقاضا ہے کہ حقیقت کو فسانے سے علیحدہ کیا جائے اور مشکلات کو اُن کے اصل تناظر میں بیان کیا جائے۔

پاکستان دنیا میں صحافیوں کو درپیش خطرات کے حوالے سے تیسرا ملک ہے۔ حالت یہ ہو گئی ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارے اب صحافیوں کی حفاظت کے لیے باقاعدہ بین الاقوامی مہم چلا رہے ہیں۔ پاکستان میں یونیسکو نے حالیہ اعلامیہ جاری کیا جس میں ذرایع ابلاغ کو مختلف چیلنجز سے نبٹنے کے لیے وسائل اور تنظیمی و انتظامی پیچیدگیوں کو اجاگر کیا گیا اور اِن کے لیے بطور حل راہ بھی تجویز کی گئی۔ یقینا بین الاقوامی اداروں کو ایسی کاوش کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی اگر سب کچھ اچھا ہوتا۔

صحافیوں کو سب سے بڑا خطرہ جان کا ہے۔ مردہ صحافی نہ تجزیہ کرتا ہے اور نہ معلومات فراہم کرتا ہے۔ دوسرے شعبوں کی نسبت صحافی خود کو انتہائی غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ اُن کے کام کی نوعیت کچھ اس قسم کی ہے کہ کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی کو اُن کو راستے سے ہٹانے کی ترکیب کرنے کا خیال آ ہی جاتا ہے۔ جس معاشرے میں انصاف نہ ملتا ہو۔ ظالم اور قاتل دندناتے پھرتے ہوں۔ پولیس مجرموں کی بندوقوں کے سامنے بھگوڑا بن گئی ہو اور ریاست کے حاکم اپنی حفاظت پر زیادہ اور عوام کے تحفظ پر کم خرچ کرتے ہوئے وہاں پر صحافیوں کا کام مشکل ہی ہو گا۔ جان کے اس خطرے کو صرف اسی وقت کم یا ختم کیا جا سکتا ہے کہ جب ریاست اس صلاحیت کو استعمال کرنے کا ارادہ کرے جو اس کی بنیادی ذمے داری ہے۔ اس صلاحیت کے لیے نیت کا ہونا بہت ضروری ہے۔ بد نیتی نہ تو قانون سازی ہونے دیتی ہے اور نہ لوگوں کو ظلم سے بچانے کا اہتمام کرنے دیتی ہے۔

اگر دہشت گردی کے قانون میں پانچ سال کے بعد چند واجبی ترامیم ممکن ہو پائیں تو صحافیوں کے لیے مخصوص انتظامات کی توقع کرنا حماقت ہی ہو گی۔ ریاست کمزور نہیں ہے طاقت رکھنے والے نالائق اور بد نیت ہیں۔ اِن حالات کے پیش نظر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں یہ خطرات کم نہیں ہوں گے بلکہ بڑھیں گے۔ الیکشن کے قریب تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ طاقت کے کھیل میں خون خرابہ بطور ہتھیار استعمال ہو گا۔ بم پھٹیں گے، قاتلانہ حملے ہوں گے، صحافیوں کی حالت بھی عینی شاہدین جیسی ہو گی۔ حقائق کو قلم بند کرنے والے مقدمے میں شہادت دینے والوں کی طرح آنکھ میں کھٹکیں گے۔

دوسرے خطرات اگرچہ اتنے واضح نہیں ہیں مگر پھر بھی شدید پریشانی اور مصیبت کا باعث ہیں۔ اِن میں سے چند ایک کا تعلق ہمارے شعبے کے اندرونی حالات سے ہے جن سے کوئی دیانت دار صحافی مطمئن نہیں ہو سکتا۔ بد ترین حالات میں ہمارے لیے سب سے بڑی ڈھال لوگوں کا اعتماد رہا ہے۔ معاشرے کے مختلف شعبوں کی طرف سے بر وقت مدد نے ہماری آواز کو دبنے سے روکا، ہمیں تقویت دی اور ہمیں اپنے دیرینہ مسائل حل کرنے میں مدد بھی ملی۔ بدقسمتی سے اعتماد سے بنی یہ ڈھال اب کمزور ہو گئی ہے۔ ہمارے شعبے سے متعلق بدترین تنقید صحیح ثابت ہو رہی ہے۔ سالہا سال سے اپنے اندر کی خرابی کو دور نہ کر کے ہم نے خود کو کمزور کر دیا ہے۔ اپنی عزت پر خود بٹہ لگایا ہے اور ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں کہ ہر کوئی ہمارے منہ سونگھتا پھر رہا ہے کہ کہیں اس میں سے بددیانتی کی بو تو نہیں آ رہی۔

ہم اس نہج پر نہ پہنچتے اگر ہم نے اپنے شعبے کو افراد کے ہاتھوں میں چھوڑنے کے بجائے پروفیشنل اقدار کے تحت چلانے کی کوئی منظم کوشش کی ہوتی۔ ایسا نہیں ہوا لہذا آج کل ذرایع ابلاغ کے نام پر ہر قسم کا کام صحافت بن جاتا ہے۔ ایک ایسا سرکس بن گیا ہے جس کے اصطبل میں ہر قسم کے جانور کو اکٹھا کر دیا گیا ہے۔ تاریخ کو مسخ کرنے والے مسخرے، دھوکادینے والے عیار اور منافق دیانتدار صحافیوں کی صفوں میں ایسے گھس گئے ہیں جیسے سنڈی کپاس کی فصل میں۔ اِس گروپ کا ایک بہت بڑا حصہ ماضی میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے پروان چڑھایا۔ چونکہ ہمارا اجتماعی حافظہ کمزور ہے لہذا آج کل بیان کی جانے والی طوطا مینا کی کہانیاں ہمیں تاریخ کی نسبت بہتر انداز میں یاد ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ضیاء الحق کے دور سے شروع ہونے والے صحافتی گروہ اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلق نے پچھلے تمام ادوار کی خرابیوں کو پیچھے چھوڑ دیا اور آنے والی دہائیوں میں ایک ایسے پالتو گروپ کو میڈیا میں داخل کر دیا جو آج کل فالتو ہونے کے بعد باولا ہو گیا ہے۔

1980ء اور 90ء میں اس گروپ کے بہت سے اراکین آئی ایس آئی کے دفتر میں ایک مہذب طالبعلم کی طرح حاضری دیا کرتے تھے۔ مراعات کے ساتھ معلومات بھی لیتے تھے۔ ان میں مدیر بھی تھے اور عام رپورٹر بھی۔ مگر اُن دنوں میں یہ لوگ واضح انداز سے پہچانے جاتے تھے۔ اچھے اور بکے ہوئے صحافی کی تفریق بعد کے ادوار میں غائب ہو گئی۔ الیکٹرانک میڈیا کی آمد نے رائی کو پہاڑ بنا دیا اور کیمرے کے کرشمے نے ایک ایسا نظر کا دھوکا کھڑا کیا کہ منافق اور ایمان رکھنے والوں کی صف ایک ہی ہو گئی۔ اگر ان ادوار میں جرنیلوں کے بوٹوں میں بٹی ہوئی دال کو کھاکر پلنے والے اس شعبے میں کسی احتساب کا سامنا کرتے تو شاید آج ان کی خرافات کی وجہ سے ہمارے شعبے کے بارے میں لوگ اُنگلیاں نہ اٹھا رہے ہوتے۔

اُس وقت کا بکائو مال اب سیاستدانوں کی منڈی میں اپنے دام لگوا چکا ہے۔ وہ طاقت کی شطرنج پر ایک مہرہ بن چکا ہے۔ وہ رات کی تاریکی میں مختلف ایوانوں سے ''بریفنگز'' لیتا ہے اور پھر ان ''بریفنگز'' کو اپنے نام سے شایع کرتا ہے۔ اس طبقے کے ممبران کی صحافت نہ پہلے صراط مستقیم پر تھی اور نہ اب ہے۔ فرق اتنا ہے کہ پہلے ان کا چوغا خاکی رنگ کا تھا اور اب اس نے واسکٹ پہنی ہوئی ہے۔ پہلے اسٹیبلشمنٹ کے لیے کام کر کے یہ نام کماتا تھا اور اب پرانے آقائوں کے خلاف محاذ جما کر واشنگٹن، لندن، دہلی اور اسلام آباد سے مال بٹور رہا ہے۔ اِن عناصر کی موجودگی میں عام صحافی کی آواز دب گئی ہے۔ وہ پاکستان کے دور دراز کے علاقوں میں بے موت مارا جاتا ہے اور کوئی اس کی خبر نہیں دیتا، کوئی غم گساری نہیں کرتا، کوئی اس کی آواز نہیں بنتا۔ باہر کے حالات کی وجہ سے دیانتدار صحافی کی جان جا رہی ہے۔ اندر کے حالات کی وجہ سے اِس کی روح جکڑی ہوئی ہے۔ اصل صحافی کی حالت پاکستان کی طرح ہے۔ سازش باہر سے بھی ہو رہی ہے اور اندر سے بھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں