کراچی کا عاشقِ زار

ہر وقت جناب کاؤس جی کی نوک زبان پر رہتی تھی، لیکن سننے والے بدمزہ نہیں ہوتے تھے ۔


Aslam Khan November 30, 2012
[email protected]

کراچی کا عاشقِ زار نہ رہا، کاؤس جی طویل اننگز کھیلنے کے بعد چل بسے، وہ اس شہرِ نا پُرسان کے دیوانے اور پروانے تھے۔ اپنے محبوب کے لیے آخری سانس تک نجانے کن کن مافیاؤں کے ساتھ الجھتے رہے، مدتوں پہلے ارد شیر کاؤس جی سے پہلا تعارف اس دن ہوا جب انھوں نے ایک آئینی تنازعے اور جونیجو حکومت کی بحالی رکوانے کے معاملے میں اس خاکسار کو گواہ نامزد کیا۔ اس اعزاز پر کالم نگار کو تا دم آخر فخر رہے گا۔

واہ کیا عجب مرد تھا۔ سالا بول چال میں رشتے سے زیادہ گالی سمجھی جاتی ہے، ہر وقت جناب کاؤس جی کی نوک زبان پر رہتی تھی، لیکن سننے والے بدمزہ نہیں ہوتے تھے کہ جناب اردشیر کاؤس جی انھیں نواز رہے تھے۔ مدتیں گزرنے کے بعد آج وہ لمحہ یاد ہے جب سپریم کورٹ کی راہداریوں میں اس بے نیاز مرد بزرگ سے عرض کی تھی۔ ''ہم پر رحم کھائیں، ہمیں کیوں حکومت سے الجھاتے ہیں؟'' تو شیروں جیسا حوصلہ رکھنے والے کاؤس جی نے مسکراتے ہوئے کہا ''سالا اگر جوانی میں تم ڈر گئے تو بڑے ہو کر کیا کرو گے؟'' خوف اور دہشت کے سنگین حالات ہنسی مذاق کی نذر ہو گئے، اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ان کا انگریزی کالم اُردو میں ترجمہ ہو کر زبانِ زدِ عام ہوا، خلقِ خدا میں مقبول عام ہوا۔

اس وقت سارا پاکستان جناب اردشیر کاؤس جی کے تند و تیز اور نوکیلے جملوں سے گونج رہا تھا۔ یہ کاؤس جی کا عوامی عہد تھا۔ حرف و قلم کے وابستگان آنے والے زمانوں میں اس بات پر فخر کریں گے کہ وہ اس عہد میں جئے، جب کاؤس جی سارے دھندے، کاروبار چھوڑ کر لفظوں سے کھیل رہے تھے۔

جناب کاؤس جی بہت سے دوستوں کے دوست تھے، لیکن ان سے اصل تعلق برادرم اکبر چوہدری کی وجہ سے استوار ہوا۔ برادرم اکبر چوہدری واشنگٹن میں کاروبار اور جنت نظیر ورجینا میں رہائش پذیر ہیں اور ان کا حلقہ دوستاں، صدر کلنٹن، نائب صدر الگور اور وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن سے اردشیر کاؤس جی تک پھیلا ہوا ہے۔ پورا ایک دن بھائی اکبر کے ہمراہ کاؤس جی کے گھر گزارنے کا موقع ملا تو اندازہ ہوا کہ بادشاہت میں قلندری کس کو کہتے ہیں اور جیتا جاگتا آدمی دنیا و مافیہا سے بیگانہ کیسے ہو جاتا ہے۔

آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ ان کی معاون خاتون ہماری موجودگی میں ان کے ایک مہمان، لاوارث اور بیمار گدھے کی خیر خیریت سے آگاہ کرنے لگی تو کاؤس جی نے اپنے معزز مہمان سے ہماری ملاقات بھی کرا دی۔ اس دن مختلف موضوعات پر بے تکان بولتے ہوئے ہمیں اپنے وسیع و عریض گھر کے باہر لے گئے، ایک پارک نما پلاٹ، جو درختوں کا جھنڈ بنا ہوا تھا، بتانے لگے کہ قبضہ گروپ اس پلاٹ پر نظریں جمائے ہوئے ہیں، لیکن میں ان ''شالوں'' کو مزہ چکھا دوں گا۔

جنرل اسلم بیگ جو آج لونڈے لپاڑوں کا ہدف بنے ہوئے ہیں، اردشیر کاؤس جی نے چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل اسلم بیگ کو بھری عدالت میں چیلنج کیا تھا۔ یہ بھی اردشیر ہی تھے جنہوں نے چیف جسٹس افضل ظلہ سے کہا تھا کہ اگر عدالت نے جنرل اسلم بیگ کو توہین عدالت کے جرم میں سزا نہ دی تو یہ عدالت بے توقیر ہو جائے گی کیونکہ جنرل اسلم بیگ نے بھری عدالت میں اعتراف جرم کر لیا تھا کہ انھوں نے وسیم سجاد کے ذریعے عدالت عظمیٰ کو دھمکی دی تھی کہ اگر جونیجو حکومت کو بحال کیا گیا تو فوج کو سڑک پار کرنے میں دیر نہیں لگے گی۔ اس زمانے کا یہ بڑا اسکوپ چونکہ اس خاکسار نے بریک کیا تھا شاید اسی لیے کاؤس جی نے اس کالم نگار کو بطور گواہ بلانے کی درخواست کی تھی۔

سابق بینکار یونس حبیب اور جنرل اسلم بیگ کے درمیان مشکوک تعلقات کی کہانی آج تو چہار سُو گونج رہی ہے۔ یہ کاؤس جی ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے اس گٹھ جوڑ کو اپنے کالموں میں واشگاف انداز میں بے نقاب کیا تھا۔ اردشیر کاؤس جی خود دولت کے کھیل کے کھلاڑی رہے تھے۔ ان کا شمار ایسے خوش نصیبوں میں ہوتا تھا جو حقیقی معنوں میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ اردشیر منفرد مقام رکھتے تھے کہ اپنا دامن کبھی آلودہ نہ ہونے دیا، اکل کھرے، دیانتدار اور باوقار کاؤس جی کو دولت کی دیوی بھی لبھا نہ سکی اور وہ ہوسِ زر کے کھیل سے بھی سرخرو نکلے۔ اپنے قدیم دوستوں کے ساتھ بھی قلم کار کائوس جی بے تکلفی سے گریز نہیں کرتے تھے۔

اپنے قدیم دوست شریف الدین پیرزادہ کے لیے ''جدہ کا جادوگر'' کی اصطلاح تخلیق کی۔چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم بھی ان کے حلقہ دوستاں میں شامل تھے۔ گورنر سندھ ہوتے ہوئے چیمبر پریکٹس کے دوران کسی کلائنٹ سے فیس لے کر رسید دے دی جو کہ ضابطے کی معمولی خلاف ورزی تھی۔ کاوس جی نے اپنے فخرو بھائی کو معاف نہ کیا، اپنے کالم میں سارا واقعہ بیان کر دیا۔ اور مدتوں اپنے بے تکلف دوستوں کو اس بے ضابطگی کے بارے میں بتاتے رہے۔

پارسی برادری سے تعلق رکھنے والے کاؤس جی کسی ایرے غیرے کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ وہ اور ان کی شہری حقوق کے لیے نعرۂ مستانہ بلند کرنے والی تنظیم ''شہری'' کراچی میں بروئے کار قبضہ گروپوں اور بلڈرز مافیا کو چیلنج کر رہی تھی اور کاؤس جی تھے کہ خطرات کی پرواہ کرنے پر تیار نہیں تھے۔ جب تک اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کے قابل رہے، تن تنہا قریبی پارک میں واک کرتے رہے۔ 86 سال جئے، طویل 86 برس ہمیشہ سر بلند رہے، وقار اور شائستگی کی علامت بنے رہے۔

جناب ذوالفقار علی بھٹو کے قدیم ترین اور اوّلین دوستوں میں سے تھے، غالباً محترمہ نصرت بھٹو کی شادی میں بھی انھوں نے حق دوستی ادا کرتے ہوئے اہم کردار ادا کیا تھا۔ جناب بھٹو کے دور میں وہ 72 دن تک بندی خانے میںرہے، لیکن روایت پسند کاؤس جی نے کبھی اس کا ذکر کرنا بھی گوارا نہ کیا۔ آئین اور قانون کا نفاذ، بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ اور کراچی کا عشق یہ کاؤس جی کا اثاثہ تھا اور وہ آخری سانس تک اس کے لیے دیوانہ وار لڑتے رہے۔

حرفِ آخر یہ کہ اردشیر کاؤس جی کے محبوب شہر میں ایک اور تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا۔ سپریم کورٹ نے پر اسرار طریقے سے 30 لاکھ ووٹروں کی کراچی سے اُن کے آبائی علاقوں میں منتقلی کے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے اس کو رُکوا دیا ہے کہ جب تک ووٹر خود ذاتی طور پر اپنا ووٹ منتقل کرنے کی درخواست نہیں کرے گا ایسا کرنا غیر قانونی ہے۔ ایک واقف حال نے بڑی دل سوزی سے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ووٹر لسٹوں اور نئی حلقہ بندیوں کا تنازعہ فسادات میں بدل سکتا ہے۔

اس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن اور مجوزہ اور متوقع نگران حکومت کے لیے کراچی اور بلوچستان میں غیر جانبدارانہ، منصفانہ اور پُر امن عام انتخابات کرانا کوہِ گراں ہو گا، خود چیف الیکشن کمشنر جناب فخر الدین جی ابراہیم کا اس منصب پر ہونا بھی کچھ نادیدہ طاقتوں کے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اس طرح کے خدشات بھی موجود ہیں کہ ایسے حالات پیدا کر دیے جائیں کہ نگران حکومت کی تشکیل اور کراچی میں از سرِ نو حلقہ بندیوں، ووٹر لسٹوں اور مردم شماری کے متنازعہ اعداد و شمار کے حوالے تنازعات پر جذباتی فخرو بھائی از خود مستعفی ہو جائیں، جس کے بعد عام انتخابات کا مقررہ وقت پر انعقاد سوالیہ نشان بن جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔