کراچی کا مقدمہ آخری حصہ
شہر کی تازہ صورتحال یہ ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب معصوم انسانوں کے خون سے شہر کی شاہراہیں رنگین نہ ہوتی ہوں۔
مشرف دور میں شہری حکومتوں کا نظام کراچی میں نہایت کامیاب رہا، پہلے نعمت اﷲ خان اور پھر مصطفیٰ کمال نے شہرمیں کئی ترقیاتی منصوبے مکمل کیے مگر اس دور میں سیاسی مخالفین کو ٹھکانے لگانے کا سلسلہ عروج پر رہا۔ شہر میں فعال تقریباً تمام ہی سیاسی جماعتوں کو اپنے قیمتی رہنماؤں اور کارکنان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس عرصے میں سانحہ نشتر پارک، سانحہ 12 مئی، سانحہ کارساز جیسے افسوسناک واقعات بھی پیش آئے۔
صوبے میں ایم کیو ایم، مسلم لیگ ق کی اہم ترین اتحادی جماعت تھی، کراچی و حیدرآباد کی شہری حکومتوں کی نظامت بھی ایم کیوایم کے پاس تھی، گورنر سندھ اور صوبائی وزیر داخلہ کا تعلق بھی ایم کیو ایم سے تھا، یوں شہر کراچی پر ایم کیوایم کی گرفت غالباً 80 کی دہائی کے اواخر سے بھی زیادہ مضبوط تھی مگر فروری 2008 کے بعد یہ صورتحال نہ رہی۔
پیپلزپارٹی نے انتخابات میں کامیابی کے بعد حکومت بنائی تو ایم کیوایم اور اے این پی صوبے اور وفاق میں اس کے اتحادی ٹھہرے ۔اس کے ساتھ ہی کراچی میں ایک نئی جنگ کا آغاز ہوا۔ یہ پہلا موقع تھا جب عوامی نیشنل پارٹی کراچی سے اپنے 2 ارکان صوبائی اسمبلی تک پہنچانے میں کامیاب رہی تھی۔ اے این پی اور پیپلز امن کمیٹی (پی پی کے بعض رہنما اس کی سرپرستی کرتے ہیں اور شہری اسے پی پی پی کی ذیلی تنظیم ہی سمجھتے ہیں) نے مختلف علاقوں میں سرگرمیوں کا آغازکیا تو شہرمیں نئی محاذ آرائی شروع ہوگئی، دیکھتے ہی دیکھتے علاقوں پر قبضے کی جنگ شروع ہوئی، تاجروں سے پہلے اگر ایک گروہ بھتہ لیتا تھا تو اب مزید کئی گروہ سامنے آگئے۔
شہر کی تازہ صورتحال یہ ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب معصوم انسانوں کے خون سے شہر کی شاہراہیں رنگین نہ ہوتی ہوں۔ گزشتہ پانچ سال میں نہ صرف ہزاروں معصوم شہریوں کا خون بہا بلکہ تاجروں سے بھتہ وصولی کا سلسلہ بھی عروج پر ہے، سیکڑوں صنعتی یونٹس بند ہوچکے ہیں اور سرکاری تعلیمی ادارے تباہ حال ہیں۔
کراچی میں امن و امان کے قیام کے لیے 35 ہزار سے زائد پولیس فورس، 12 ہزار سے زائد رینجرز اہلکار اور 1 ہزار سے زائد ایف سی کے جوان تعینات ہیں مگر یہ سب مل کر بھی شہر کے حالات پر قابو پانے میں مکمل ناکام ہوچکے ہیں۔ کراچی پولیس کے متعلق سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران اُس وقت کے آئی جی سندھ واجد علی درانی نے اعتراف کیا کہ پولیس میں 30 سے 40 فیصد بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر ہوئی ہیں، یہ اہلکار اپنی جماعتوں کے مجرموں کی حمایت کرتے ہیں اور ہماری پریشانی یہی ہے کہ ہماری صفوں میں ملزمان کے حامی موجود ہیں۔
یہ تو سندھ پولیس کے اعلیٰ ترین افسر کا اعتراف ہے جب کہ رینجرز کی شہر میں موجودگی پر بھی سپریم کورٹ سوال اٹھاچکی ہے۔ یکم نومبر 2012 کو کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے سوال اٹھایا کہ 18 سال میں رینجرز نے کیا نتیجہ دیا، انھیں واپس سرحدوں پر بھیجا جائے اوراس کا بجٹ پولیس پر خرچ کیا جائے۔ ادھر ،اعلیٰ پولیس حکام کا شکوہ ہے کہ ہم دہشگردوں کے خلاف کارروائی کیسے کریں جب کہ دہشتگرد ہم سے زیادہ بااثر اور مسلح ہیں ۔کراچی آپریشن میں شریک بیشتر پولیس اہلکاروں کو باقاعدہ نشانہ بناکر قتل کیا گیا ۔
کراچی میں دہشتگردی اور بھتہ خوری اور اس کے اثرات کے متعلق کراچی تاجر اتحاد کے ذرایع نے بتایا کہ شہر میں آخری دوسال میں ڈیڑھ سو سے زائد تاجر قتل ہوئے۔تاجروں سے یومیہ تین کروڑ روپے بھتہ وصول کیا جاتاہے ،خراب حالا ت کی وجہ سے اربوں روپے کا سرمایہ بیرون شہر جیسے فیصل آباد، لاہور ،سیالکوٹ اور بیرون ملک جیسے بنگلہ دیش،سری لنکا،سنگاپور ،مالدیپ اور تھائی لینڈ وغیرہ منتقل ہورہا ہے ۔
خراب حالات کے سبب چند سال میں 2000 کے قریب چھوٹی بڑی صنعتیں بند ہوچکی ہیں ۔ شہر میں کبھی کبھار فرقہ وارانہ کشیدگی بھی دیکھنے میں آتی ہے مگر یہ عوام کی سطح پر نہیں بلکہ محض چند گروپس تک ہی محدود رہتی ہے ۔اصل مسئلہ لسانیت کا ہے گو شہر کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ بلکہ اکثریتی حصہ لسانیت کی بنیاد پر ہونے والے جھگڑوں سے لاتعلق رہتا ہے مگر جب مختلف قومیتوں کے نمایندہ گروپس آپس میں ٹکراتے ہیں تو پھر معصوم شہری بھی اس مسلح تصادم کا نشانہ بنتے ہیں ۔اور اب تک بے شمار بیگناہ شہری اس جنگ زرگری کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔پوری لیاری گینگ وار کارندوں کے قبضے میں ہے۔
عشروں سے جاری کشیدگی کے بعد یہ ثابت ہوچکا ہے کہ موجودہ اور مختلف ادوار کی حکومتیں شہر میں قیام امن ،پولیس و رینجرز شہریوں کو تحفظ کی فراہمی میں اور عدالتیں انصاف کی فوری فراہمی میں مکمل ناکام ہوچکی ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اب 2کروڑ سے زائد آبادی والے اس شہر اور منی پاکستان میں جمے جمائے اس نظام کو گرا کر نیا نظام تشکیل کیا جائے جو شہر میں آباد تمام قومیتوںکو انصاف فراہم کرسکے ،کسی قوم یا فرقے کو یہ خوف نہ لاحق ہوکہ اس کے ساتھ ناانصافی ہوگی ۔دراصل ناانصافی ہی کسی شخص یا قوم میں بسا اوقات شدید ردعمل کو جنم دیتی ہے لہٰذا جب تک شہر میں وہ بنیادی مسائل باقی رہیں گے جو احساس محرومی ، عدم اعتماد اور ایک دوسرے سے خوف کی فضاء کو جنم دیتے ہیں ،شہر میں مستقل بنیادوں پر امن قائم نہیں ہوسکتا ۔
شہر قائدکے ماضی اور حال پر ایک نظر ڈالنے کے بعد ہمارے ذہن میں کراچی کے محفوظ مستقبل کے حوالے سے چند تجاویز ہیں ۔ امید ہے کہ ان تجاویز پر عملدآمد کے بعد شہر کومستقبل میں دوبارہ ایک پرامن شہر بنایاجا سکے گا۔لہٰذ ا ضروری ہے کہ درج ذیل اقدامات کیے جائیں:
1 ۔1985 سے 2012 تک شہر کراچی میں قتل کیے گئے ، ہزاروں افراد بشمول سیاسی رہنما وکارکنان، مذہبی رہنما،طلباء کے قتل کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا جائے۔کمیشن میں مختلف قومیتوں کے اچھی شہرت کے حامل سابق ججز کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔یہ کمیشن جہاں کراچی میں مختلف ادوار میں ہونے والے قتل عام کے ذمے داران تعین کرے ، مجرمان کو سزائیں سنائے وہیں ان اسباب و محرکات کا بھی کھوج لگائے جس کے باعث شہرکے حالات اس نوبت کو پہنچے اور پھر ان مسائل کے مستقل بنیادوں پر حل کے لیے ٹھوس اقدامات و سفارشات پیش کرے۔
2۔کراچی میں منصفانہ اور شفاف انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن تمام ضروری اقدامات کرے۔ٹارگٹ کلنگ کے حالیہ واقعات کے بعد یہ کسی طور پر ممکن نہیں کہ ووٹر اپنا حق رائے دہی آزادانہ استعمال کرسکے۔خوف کی زبردست فضاء کے سبب ووٹرز کی اکثریت اپنا ووٹ استعمال نہیں کرتی۔12 مئی 2007 کو 3 نشستوں پر ضمنی انتخابات میں صرف ایک دن میں 50 سے زاید شہری و سیاسی کارکنان کو قتل کیا گیا تھا ۔کراچی میں فوج کی نگرانی اور انتخابی نگرانی کے اداروں کی موجودگی میں انتخابات کرائے جائیں ۔ ووٹنگ کا نظام ایسا فول پروف کہ ایک شہری کا ووٹ کوئی دوسرا نہ ڈال سکے ۔امن کی خاطر تمام اسٹیک ہولڈرز کو مشترکہ طور پر شہر کی خدمت کے لیے اپنی توانائیاں صرف کرنی چاہییں۔
3۔ایک بااختیار شہری حکومت تشکیل دی جائے جو شفات انتخابات کے بعد عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آئے اور اہل کراچی کی حقیقی نمایندہ ہو ، پولیس اس کے ماتحت ہو مگرفرائض کی ادائیگی میں بالکل آزاد ہو اور سیاسی مداخلت و اثرات سے پاک ہو ۔
4۔کراچی میں پولیس جرائم کا ایک بہت بڑا سبب ہے۔شہری ایف آئی آر کٹواتے ہوئے ڈرتے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ شہر میں جس قوم کی آبادی کا جس قدر تناسب ہے اسی تناسب سے پولیس میں انھیں نمایندگی دی جائے۔رینجرز اور ایف سی کو واپس بلایا جائے اور جدید ترین خطوط پر میٹروپولیٹن پولیس تشکیل دی جائے ، جس میں سیاسی بنیادوں پر بھرتی کی کوئی گنجائش نہ ہو۔
5۔ دو کروڑ سے زائد آبادی والے شہر کے لیے موجودہ عدالتی نظام شہریوں کو فوری اور سستے انصاف کی فراہمی میں ناکام ہوچکا ہے ، لہٰذا ضروری ہے کہ شہر کی سطح پر ایک ایسا عدالتی نظام تشکیل دیا جائے جس سے شہریوں کو فوری اور سستا انصاف میسر آسکے ، انھیں اپیل در اپیل کے چکر سے آزاد کیا جائے ۔شہری سطح پر ایک مرکزی عدالت ہو جب کہ ٹاؤن اور یوسیز کی سطح پر ذیلی عدالتیں ہوں ۔بااختیارعدالتیں نہ صرف انصاف کی فوری فراہمی میں بلکہ سیاسی قیادت اور شہری انتظامیہ پر موثر چیک رکھنے کا باعث بھی ہوں گی۔
6۔پورے پاکستان میں شہری اور دیہی کی تقسیم کہیں بھی موجود نہیں ہے۔سندھ میں بھی کوٹہ سسٹم کالازماً خاتمہ کیا جائے اور میرٹ کو معیار بنایا جائے،یہی نظام ماضی میں نظام فساد اور ناانصافی کی جڑ بنا ہے ۔
7۔ٹرانسپورٹ مافیا کراچی میں موجود مسائل کا ایک بہت بڑا سبب ہے۔اس مافیاکو بااثر افراد کی سرپرستی حاصل ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کراچی کو ٹرانسپورٹ مافیا کے چنگل سے آزاد کرایا جائے۔دنیا کے تمام بڑے شہروں میں لائٹ ٹرین یا انڈر گرائونڈ ریلوے موجود ہیں۔کراچی ہی وہ بدقسمت شہر ہے جو اس ضرورت سے محروم ہے ۔
ایک بار اگر لائٹ ٹرین کا نظام آگیا تو یہ ایک جانب ہزاروں افراد کو روزگار فراہم کرے گا تو دوسری جانب اہل کراچی مافیا کے قبضے سے آزاد ہوجائیں گے۔شہر میں بڑی سی این جی بسیں چلائی جائیں اور منی بسوںکو یا ختم کیا جائے یا پھر شارٹ روٹس تک محدود کیا جائے ۔کرایوں کے تعین کا اختیار بھی ٹرانسپورٹ مافیا کے بجائے صوبائی وزارت یا پھر شہری اور ٹرانسپورٹ نمایندوں پر مشمل کمیٹی کرے ۔
8۔ کراچی میں زمینوں پر قبضہ عام ہے جس کی وجہ سے ہزارہا افراد اپنی زمینوں سے محروم ہوچکے ہیں۔زمین پر قبضوں میں بااثر لوگ ملوث ہیں۔لینڈ مافیا پوری طرح متحرک ہے۔اب سرکاری زمین پر بھی قبضے کا سلسلہ عروج پر ہے حکومت ایک کمیشن تشکیل دے جو قبضہ کی گئی ہزارہا ایکڑ زمین کی تحقیقات کرے۔جو زمین سرکار کی ہے وہ سرکار اپنے قبضے میں لے اور جو شہریوں سے چھینی گئی ہے وہ انھیں واپس کی جائے ۔
9۔شہر میں سرکاری تعلیمی ادارے تباہی سے دوچار ہیں ، ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکاری اسکولوں، کالجوں اور جامعات جہاں طلباء کی اکثریت زیر تعلیم ہے پر خصوصی توجہ دی جائے اور محکمہ تعلیم کو سیاسی اثر ورسوخ سے مکمل پاک کرکے ماہرین تعلیم کے سپرد کیا جائے ،سرکاری کالجوں اور اسکولوں میں کم از کم 75 فیصد حاضری کے اصول پر نہایت سختی کے ساتھ عمل کرایا جائے تاکہ نوجوان شرپسند عناصر کی منفی سرگرمیوں کا حصہ بننے کے بجائے ملک و قوم کا سرمایہ ثابت ہوسکیں۔
یہ وہ کم از کم تجاویز ہیں جن پر عملدرآمد سے کراچی کے مسائل حل ہوسکتے ہیں ، مگرسوال یہ ہے کہ ان پر عمل کون کرے گا ، موجودہ حکمران یا منتخب نمایندے یا پھر مقتدر اشرافیہ؟ بہرحال جو کوئی بھی ہو، بالادست طبقات کو ہمارا مشورہ ہے کہ انھیں ماضی میں پیرس اور تہران اور حال ہی میں قاہرہ میں آنے والے انقلاب سے سبق سیکھنا چاہیے ،اور اہل کراچی کو کم ازکم ایک بار بیلٹ یعنی شفاف انتخابات کے ذریعے پرامن تبدیلی کا موقع ضرور فراہم کرنا چاہیے ۔