’’نانا‘‘ ایدھی
ایدھی صاحب کا جذبہ خدمت امتیاز مذہب و ملت اور رنگ و نسل کی تفریق سے بالکل بالاتر تھا
عبدالستار ایدھی کو ہم سے بچھڑے ہوئے کئی روز گزر چکے ہیں اور ان کے بارے میں یہ تحریر سپرد قلم کرنے میں کافی تاخیر ہوگئی ہے۔ لیکن ''ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا'' ۔
عبدالستار ایدھی جیسے لوگ روز روز نہیں بلکہ صدیوں میں پیدا ہوا کرتے ہیں۔ایدھی صاحب جیسے لوگوں کا موت بھی کچھ نہیں بگاڑسکتی کیوں کہ وہ مرنے کے بعد فنا ہونے کے بجائے امر ہوجاتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی صاحب کا یہ شعر ان پر حرف بہ حرف صادق آتا ہے
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
عظیم مائیں ہی عظیم انسانوں کو جنم دیا کرتی ہیں اور ان ہی کی گود سب سے بڑی اور بنیادی تربیت گاہ ہوا کرتی ہے ایدھی صاحب کی والدہ صاحبہ نے انگریزی زبان کی مشہور کہاوت "charity Begins at home" کو اس وقت عملاً درست ثابت کر دکھایا جب انھوں نے انھیں خیرات کرنے کی بچپن ہی سے عادت ڈالی۔ ماں کے دیے ہوئے دو پیسوں میں سے وہ روزانہ ایک پیسہ کسی ضرورت مند نادار کو دے دیا کرتے، اس طرح حاجت مندوں کی مدد کرنا ان کی عادت بن گئی جس نے آگے چل کر ایدھی فاؤنڈیشن کا روپ دھارلیا۔ ایدھی صاحب کی فالج زدہ اور ذہنی طور پر معذور ماں کی دل سوز وفات نے ان کے جذبۂ خدمت خلق کو دو آتشہ کردیا۔ انھوں نے دھکی انسانیت کی خدمت کو اپنی زندگی کا مشن بنالیا۔
مملکت پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا جو خواب بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے دیکھا تھا اسے شرمندۂ تعبیر کرنے کی توفیق پاکستان کے کسی حکمران کو تو آج تک بھی نہیں ہوئی مگر یہ سعادت بھی ایدھی صاحب کو ہی نصیب ہوئی۔ بقول شاعر:
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
1951 میں کراچی کے گلی کوچوں سے انھوں نے عطیات جمع کرنا شروع کردیے اور ایک پرانی ... اور ایک چھوٹی سی ڈسپنسری کے ساتھ اپنے مشن کا آغاز کردیا۔ یہی پرانی گاڑی ایدھی کی سب سے پہلی ایمبولینس بنی جس پر انھوں نے اپنے ہاتھوں سے تحریر کیا تھا ''غریب آدمی کی وین'' بس پھر کیا تھا غریب آدمی کی یہ گاڑی غریبوں اور حاجت مندوں کی مدد کے لیے کراچی شہر کی گلیوں اور سڑکوں پر دوڑتی ہوئی نظر آنے لگی، کراچی کے گنجان علاقے میٹھادر میں قائم چھوٹی سی ڈسپنسری نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم الشان ادارے ایدھی فاؤنڈیشن کا روپ دھارلیا ۔
ایدھی صاحب نے خدمت خلق کا آغاز صرف ایک وین سے کیا تھا جب کہ ان کی وفات کے وقت ان کے ادارے کے زیر انتظام ایمبولینسوں کا ایک بہت بڑا بیڑہ، ہیلی کاپٹرز، یتیم خانوں، مردہ خانوں، سرد خانے، عمر رسیدہ بے سہارا لوگوں کے لیے آ شیانے اور رضاکاروں کی ایک فوج ظفر موج موجود تھی، آج ایدھی کے مراکز کی تعداد 335 ہے جب کہ ملک بھر میں ان کی 11800 ایمبولینس دن رات ہر قسم کے حالات میں خدمت خلق کے بے لوث کام میں مصروف ہیں۔ وطن عزیز کے علاوہ امریکا، کینیڈا، افغانستان، نیپال، بنگلہ دیش اور مشرق وسطیٰ میں بھی ایدھی کے مراکز قائم ہیں۔ ایدھی صاحب بھارت میں بھی خدمت خلق کے خواہاں تھے لیکن وہاں کی متعصب حکمران قیادت نے انھیں اس کی اجازت نہیں دی۔
ایدھی صاحب کا کسی سے بھی کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا حتیٰ کہ مدر ٹریسامے سے بھی نہیں کیوں کہ کسی کے بھی کام کا دائرہ اتنا وسیع نہ تھا۔ اس کے علاوہ کام اور خدمات کی نوعیت کے لحاظ سے بھی کوئی اور ایدھی صاحب کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ اس لحاظ سے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ خدمت خلق کا ایسا بے مثل جذبہ صرف اﷲ تعالیٰ ہی کی دین ہے اور وہی اس کا اجر دینے پر قادر بھی ہے۔
دنیا کے ہر بڑے آدمی کی پشت پر عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ عبدالستار ایدھی کے بچپن میں ان کی پشت پر ان کی والدہ اور بعد کے ایام میں ان کی شریک حیات محترمہ بلقیس ایدھی صاحبہ کا ہاتھ تھا لاوارث بے نام نوزائیدہ بچوں کے لیے جھولے کے انتظام کے حوالے سے بلقیس ایدھی صاحبہ نے اپنے شوہر کا جس طرح سے ہاتھ بٹایا وہ ناقابل فراموش اور انتہائی لائق تحسین ہے گمشدہ بچوں کی تلاش کے حوالے سے بھی ایدھی صاحب کی خدمات کو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا اس سلسلے میں ''یہ بچہ کس کا ہے'' کے عنوان سے ریڈیو پاکستان سے مسلسل نشریات ہونے والا روزانہ پروگرام خاص طور پر قابل ذکر ہے جس کی بدولت اپنے والدین سے بچھڑے ہوئے ہزاروں لاکھوں گم شدہ بچے دوبارہ اپنے اپنے گھروں کو واپس جانے کے قابل ہوسکے۔
ایدھی صاحب کا جذبہ خدمت امتیاز مذہب و ملت اور رنگ و نسل کی تفریق سے بالکل بالاتر تھا انھیں صرف اور صرف انسانیت سے عشق تھا۔ اسی عشق کے لیے انھوں نے اپنی پوری زندگی وقف کردی تھی، اپنی ذات کے لیے ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ حتیٰ کہ ایک لمحہ بھی۔ بقول شاعر
عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم جس کے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کرسکتے
وہ رابرٹ فراسٹ کے اس خیال کی جیتی جاگتی تفسیر تھے۔
The woods are lovely, dark and deep, But I have promises to keep, And miles to go before I sleep وہ سادگی، بے لوث خدمت خلق اور انسان دوستی کی بہترین مثال تھے۔ وطن سے محبت کا یہ عالم کہ طویل بیماری کے باوجود انھوں نے اپنا علاج دیار غیر میں نہیں بلکہ وطن عزیز میں ہی کرانے کو ترجیح دی جوکہ ہمارے حکمرانوں اور دیگر سیاسی قائدین کے لیے ایک قابل تقلید مثال ہے۔
اپنی زندگی میں ایدھی صاحب نے 250 ایوارڈ حاصل کیے مگر وہ ان تمام ایوارڈز سے قطعی بے نیاز تھے۔ ان کے لیے سب سے بڑا ایوارڈ ان کے یتیم خانوں کے بچوں کی معصوم مسکراہٹ تھی جو انھیں بڑے پیار سے ''نانا'' کہہ کر پکارا کرتے تھے۔
عبدالستار ایدھی جیسے لوگ روز روز نہیں بلکہ صدیوں میں پیدا ہوا کرتے ہیں۔ایدھی صاحب جیسے لوگوں کا موت بھی کچھ نہیں بگاڑسکتی کیوں کہ وہ مرنے کے بعد فنا ہونے کے بجائے امر ہوجاتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی صاحب کا یہ شعر ان پر حرف بہ حرف صادق آتا ہے
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
عظیم مائیں ہی عظیم انسانوں کو جنم دیا کرتی ہیں اور ان ہی کی گود سب سے بڑی اور بنیادی تربیت گاہ ہوا کرتی ہے ایدھی صاحب کی والدہ صاحبہ نے انگریزی زبان کی مشہور کہاوت "charity Begins at home" کو اس وقت عملاً درست ثابت کر دکھایا جب انھوں نے انھیں خیرات کرنے کی بچپن ہی سے عادت ڈالی۔ ماں کے دیے ہوئے دو پیسوں میں سے وہ روزانہ ایک پیسہ کسی ضرورت مند نادار کو دے دیا کرتے، اس طرح حاجت مندوں کی مدد کرنا ان کی عادت بن گئی جس نے آگے چل کر ایدھی فاؤنڈیشن کا روپ دھارلیا۔ ایدھی صاحب کی فالج زدہ اور ذہنی طور پر معذور ماں کی دل سوز وفات نے ان کے جذبۂ خدمت خلق کو دو آتشہ کردیا۔ انھوں نے دھکی انسانیت کی خدمت کو اپنی زندگی کا مشن بنالیا۔
مملکت پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا جو خواب بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے دیکھا تھا اسے شرمندۂ تعبیر کرنے کی توفیق پاکستان کے کسی حکمران کو تو آج تک بھی نہیں ہوئی مگر یہ سعادت بھی ایدھی صاحب کو ہی نصیب ہوئی۔ بقول شاعر:
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
1951 میں کراچی کے گلی کوچوں سے انھوں نے عطیات جمع کرنا شروع کردیے اور ایک پرانی ... اور ایک چھوٹی سی ڈسپنسری کے ساتھ اپنے مشن کا آغاز کردیا۔ یہی پرانی گاڑی ایدھی کی سب سے پہلی ایمبولینس بنی جس پر انھوں نے اپنے ہاتھوں سے تحریر کیا تھا ''غریب آدمی کی وین'' بس پھر کیا تھا غریب آدمی کی یہ گاڑی غریبوں اور حاجت مندوں کی مدد کے لیے کراچی شہر کی گلیوں اور سڑکوں پر دوڑتی ہوئی نظر آنے لگی، کراچی کے گنجان علاقے میٹھادر میں قائم چھوٹی سی ڈسپنسری نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم الشان ادارے ایدھی فاؤنڈیشن کا روپ دھارلیا ۔
ایدھی صاحب نے خدمت خلق کا آغاز صرف ایک وین سے کیا تھا جب کہ ان کی وفات کے وقت ان کے ادارے کے زیر انتظام ایمبولینسوں کا ایک بہت بڑا بیڑہ، ہیلی کاپٹرز، یتیم خانوں، مردہ خانوں، سرد خانے، عمر رسیدہ بے سہارا لوگوں کے لیے آ شیانے اور رضاکاروں کی ایک فوج ظفر موج موجود تھی، آج ایدھی کے مراکز کی تعداد 335 ہے جب کہ ملک بھر میں ان کی 11800 ایمبولینس دن رات ہر قسم کے حالات میں خدمت خلق کے بے لوث کام میں مصروف ہیں۔ وطن عزیز کے علاوہ امریکا، کینیڈا، افغانستان، نیپال، بنگلہ دیش اور مشرق وسطیٰ میں بھی ایدھی کے مراکز قائم ہیں۔ ایدھی صاحب بھارت میں بھی خدمت خلق کے خواہاں تھے لیکن وہاں کی متعصب حکمران قیادت نے انھیں اس کی اجازت نہیں دی۔
ایدھی صاحب کا کسی سے بھی کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا حتیٰ کہ مدر ٹریسامے سے بھی نہیں کیوں کہ کسی کے بھی کام کا دائرہ اتنا وسیع نہ تھا۔ اس کے علاوہ کام اور خدمات کی نوعیت کے لحاظ سے بھی کوئی اور ایدھی صاحب کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ اس لحاظ سے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ خدمت خلق کا ایسا بے مثل جذبہ صرف اﷲ تعالیٰ ہی کی دین ہے اور وہی اس کا اجر دینے پر قادر بھی ہے۔
دنیا کے ہر بڑے آدمی کی پشت پر عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ عبدالستار ایدھی کے بچپن میں ان کی پشت پر ان کی والدہ اور بعد کے ایام میں ان کی شریک حیات محترمہ بلقیس ایدھی صاحبہ کا ہاتھ تھا لاوارث بے نام نوزائیدہ بچوں کے لیے جھولے کے انتظام کے حوالے سے بلقیس ایدھی صاحبہ نے اپنے شوہر کا جس طرح سے ہاتھ بٹایا وہ ناقابل فراموش اور انتہائی لائق تحسین ہے گمشدہ بچوں کی تلاش کے حوالے سے بھی ایدھی صاحب کی خدمات کو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا اس سلسلے میں ''یہ بچہ کس کا ہے'' کے عنوان سے ریڈیو پاکستان سے مسلسل نشریات ہونے والا روزانہ پروگرام خاص طور پر قابل ذکر ہے جس کی بدولت اپنے والدین سے بچھڑے ہوئے ہزاروں لاکھوں گم شدہ بچے دوبارہ اپنے اپنے گھروں کو واپس جانے کے قابل ہوسکے۔
ایدھی صاحب کا جذبہ خدمت امتیاز مذہب و ملت اور رنگ و نسل کی تفریق سے بالکل بالاتر تھا انھیں صرف اور صرف انسانیت سے عشق تھا۔ اسی عشق کے لیے انھوں نے اپنی پوری زندگی وقف کردی تھی، اپنی ذات کے لیے ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ حتیٰ کہ ایک لمحہ بھی۔ بقول شاعر
عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم جس کے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کرسکتے
وہ رابرٹ فراسٹ کے اس خیال کی جیتی جاگتی تفسیر تھے۔
The woods are lovely, dark and deep, But I have promises to keep, And miles to go before I sleep وہ سادگی، بے لوث خدمت خلق اور انسان دوستی کی بہترین مثال تھے۔ وطن سے محبت کا یہ عالم کہ طویل بیماری کے باوجود انھوں نے اپنا علاج دیار غیر میں نہیں بلکہ وطن عزیز میں ہی کرانے کو ترجیح دی جوکہ ہمارے حکمرانوں اور دیگر سیاسی قائدین کے لیے ایک قابل تقلید مثال ہے۔
اپنی زندگی میں ایدھی صاحب نے 250 ایوارڈ حاصل کیے مگر وہ ان تمام ایوارڈز سے قطعی بے نیاز تھے۔ ان کے لیے سب سے بڑا ایوارڈ ان کے یتیم خانوں کے بچوں کی معصوم مسکراہٹ تھی جو انھیں بڑے پیار سے ''نانا'' کہہ کر پکارا کرتے تھے۔