بادشاہوں کا لاہور
کہ لاہور کو ہم نے جان کے بدلے خرید لیا ہے اور کون جانے ہم نے جان دے کر ایک نئی جنت خرید لی ہے۔
لاہور:
ملکہ عالم نور جہاں نے نہ جانے کس کیفیت اور نظارے میں ڈوب کر لاہور شہر کے بارے میں کہا تھا کہ
لاہور دا جان برابر خریدہ ایم
جان دا وہ ایم وجنت دیگر خریدہ ایم
کہ لاہور کو ہم نے جان کے بدلے خرید لیا ہے اور کون جانے ہم نے جان دے کر ایک نئی جنت خرید لی ہے۔ لاہور کے بارے میں یہ تاثر ایک ملکہ کا تھا میں اس کا پہلے بھی حوالہ دے چکا ہوں جس کے عاشق بادشاہ نے مئے کے دو چار پیالوں کے عوض اپنی ملکہ سے اس جنت کا سودا کیا تھا اور ہندوستان کی پوری سلطنت مئے کہنہ کے چند پیالوں کے عوض اس کے سپرد کر دی تھی۔ یہ پورا قصہ شہنشاہ جہانگیر نے اپنی یادداشتوں میں نقل کر دیا ہے جو تاریخ کا ایک دلفریب حصہ بن گئی ہیں اور ہندوستانیوں کو ان کے شاہی خاندان کے ذوق کی یاد دلاتی رہیں گی۔
میں اس وقت ملکہ عالم کے اسی شہر میں بیٹھا ہوا یہ چند سطریں لکھ رہا ہوں اور اس کوشش میں ہوں کہ ایک غلام اور رعیت کا ایک فرد کیا اپنے ان خوبصورت باذوق اور شاعر مزاج حکمرانوں کی یاد کا حق ادا کر سکتا ہے مگر وہ لاہور کہاں جو مغلوں نے آباد کر رکھا تھا اور اسے گل و گلزار بنا دیا تھا جس کے کسی محل کے جھروکے میں بیٹھ کر ملکہ نے اس شہر کو اپنی شاعری میں زندہ کر دیا تھا یہانتک کہ اس کے عوض بادشاہ کی ملکہ نے شاعرانہ انداز میں اپنی جان تک قربان کر دی تھی کہ ''ہم نے لاہور کو جان دے کر خرید کر لیا ہے''۔
اللہ جانے وہ لاہور کیسا ہو گا جس پر وقت کی حسین ترین ملکہ مر مٹی تھی اور اسے ایک نئی جنت قرار دے دیا تھا جو آج کچرے کے ڈھیروں اور ٹریفک کے غیر شاعرانہ ہنگاموں میں گم ہے اور اس کے پرستار اسے تلاش کرتے پھر رہے ہیں کہ ملکہ عالم کا شہر کہاں ہے جس پر وہ مر مٹی تھی۔ نہ جانے کہاں کہاں سے آنے والے صوفیوں نے اس کے حجروں میں ڈیرے ڈال رکھے تھے اور اپنی کرامات سے اس شہر کو تصوف کا مرکز اور نور جہاں کا شہر بنا دیا تھا جس کے درباروں پر درویشوں اور صوفیوں نے کملی بچھا دی اور جہاں حضرت داتا نے غزنی سے آکر ایک ابدی دربار سجا دیا اور اس شہر کو ایک نئی زندگی دی تھی۔
ایک ایسی زندگی کہ یہاں آج انسانوں کا ایک ہجوم دن رات فیض کی تلاش میں بے قرار دکھائی دیتا ہے اور اس دربار کے مکین کو داتا کہتا ہے۔ گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا۔ لاہور کا ایک بادشاہ ہے جس کی بادشاہت کو داتا کے دربار کا نام دیا گیا ہے۔ ایک ایسا دربار جس کے دروازے کھلے رہتے ہیں اور جس کا فیض جاری رہتا ہے۔ ان صوفیوں کی یاد میں جو نہ جانے کہاں کہاں سے آ کر اس شہر میں آباد ہوئے اور اس شہر کو صحافیوں کا ایک مرکز بنا دیا۔ ایک ایسا مرکز جو اب تک زندہ ہے اور جہاں دن ہو یا رات عقیدت کیشوں کا ہجوم رہتا ہے اور ہر کوئی اپنی اپنی قسمت کا فیض اور برکت ساتھ لے جاتا ہے۔
حضرت داتا جب اس اجنبی شہر میں آئے تو ان کا ہمنوا اور کوئی نہیں تھا۔ وہ تنہا اس کفرستان میں آباد ہو گئے، ایک مشن لے کر وہ مشن جس نے اس شہر کی ہی نہیں اس شہر کے زیارت کرنے والوں کو بھی بدل دیا۔ کوئی کہاں سے آیا مگر اس شہر اور اس کے دربار سے وہ اس قدر مانوس ہوا اور اس کا فیض اس قدر عام ہوا کہ صرف وہی محروم رہا جس کی قسمت میں کچھ نہ تھا سوائے خالی دامن کے۔ کون جانتا ہے کہ حضرت داتا کے دربار پر کتنے ہی درویش اور حق کی تلاش میں بھٹکتے ہوئے عقیدت کیش حاضر ہوتے ہیں اور حیرت زدہ ہو کر جاتے ہیں کہ اس شہر میں جو کبھی کافروں کا شہر تھا آج صوفیوں کا شہر ہے صوفی درویشوں کا شہر ہے۔
جس کے ہاں فیض عام جاری ہے اور ایک ہجوم کسی نہ کسی صوفی کے دربار پر حاضر رہتا ہے اور مرادیں پاتا ہے جس کے دل میں جتنا درد اور خلوص ہوتا ہے وہ اتنا ہی لے کر جاتا ہے اور ایسی مثالیں موجود ہیں جن کے نمونے داتا کے دربار پر خدا کے سوالی ہیں اور حضرت داتا سے ملتجی ہیں کہ ان کو راہ راست پر رکھا جائے اور وہ کسی حال میں بھٹک نہ جائیں۔ اس برصغیر کے کتنے ہی صوفی داتا کے حضور میں فیض کے لیے حاضر رہے اور جب یہاں سے رخصت کی اجازت ملی تو داتا کے فیض کی نغمہ سرائی سے برصغیر گونج اٹھا اور کون نہیں جانتا کہ برصغیر کے کونے کونے میں داتا کے نغمے بلند ہو رہے ہیں اور اس دربار کے عقیدت کیش اپنا اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔
کمال ہے آپ کسی بھی وقت حضرت داتا کے حضور حاضری دیں، آپ اپنی بے حد خواہش کے باوجود تنہا نہیں ہو سکتے، ایک ہجوم ہے جو اس بادشاہ کے دربار پر حاضر رہتا ہے۔ اگر کوئی بھوکا ہے تو اس کا پیٹ بھرا جاتا ہے اگر کوئی حق و صداقت کا پیاسا ہے تو اس کی پیاس بجھ جاتی ہے۔ یہ داتا کا دربار ہے جو سب کا داتا ہے' جو نہ جانے کس کس کا پیرومرشد ہے اور اس کی رہنمائی کہاں کہاں سایہ فگن ہوتی ہے۔