جاپان میں یومیہ 500 اسکول بند ہونے لگے
ایک رپورٹ کے مطابق ہزاروں دیہات ایسے ہیں جہاں کی آبادی محض چند سو نفوس پر مشتمل ہے۔
ہارا ایزومی نامی قصبہ جاپان کے شہر کاکا گاوا کی حدود میں واقع ہے۔ پہاڑی قصبے کے سب سے بلند مقام پر واقع سُرخ چھت والا مندر کوئی دس سال قبل بند ہوگیا تھا۔ اب قصبے کے پرانے باسی یوشی ہیرو کو اس کا نام بھی یاد نہیں۔ حالاں کہ اس کی عمر چوّن سال ہے۔
یوشی ہیرو کا کہنا ہے کہ مندر کی آمدنی کا انحصار قصبے کے رہائشیوں پر تھا جو مندر میں رہنے والے بھکشوؤں کا خرچا اٹھاتے تھے۔ قصبے کی آبادی کم ہونے لگی تو مندر کے اخراجات پورے کرنا بھی مشکل ہوگیا۔ بالآخر اسے بند کردیا گیا۔ کسی زمانے میں یہاں پرائمری اور ایلیمینٹری اسکول بھی تھے، جن میں سیکڑوں بچے پڑھا کرتے تھے، مگر اب قصبے میں صرف پانچ بچے ہیں۔ ظاہر ہے صرف پانچ بچوں کے لیے حکومت اسکول نہیں چلاسکتی تھی۔ چناں چہ یہ قصبہ درس گاہوں سے بھی محروم ہوگیا۔ اسکولوں کی عمارتیں ضرور موجود ہیں مگر اب ان میں ریچھ، سور اور دوسرے جنگلی جانوروں نے ٹھکانے بنالیے ہیں۔
جاپان کی دیہی آبادی برق رفتاری سے شہروں کا رُخ کررہی ہے جس کی وجہ سے دیہات اور قصبے خالی ہوتے جارہے ہیں۔ جاپان بھر میں ہارا ایزومی کی طرح ہزاروں گاؤں ہیں جن کی آبادی محض چند درجن نفوس پر مشتمل رہ گئی ہے۔ یوشی کا کہنا ہے گاؤں کے چند مزید گھر یہاں سے نقل مکانی کا ارادہ کررہے ہیں، اور یوں لگتا ہے کہ چار پانچ برسوں میں یہ گاؤں انسانوں سے بالکل خالی ہوجائے گا۔
گاؤں دیہات سے شہروں کی جانب نقل مکانی کرنے کی اہم وجوہات میں سے ایک تعلیم ہے۔ اگرجہ جاپان میں نظام تعلیم بہترین ہے، مگر اچھے تعلیمی ادارے شہروں میں ہیں۔ جاپانی والدین اپنے بچوں کی تعلیم کو بے حد اہمیت دیتے ہیں۔ چناں چہ اولاد کے روشن مستقبل کے لیے وہ قصبوں اور دیہات سے شہروں کی جانب منتقل ہورہے ہیں۔ نقل مکانی کا ایک اور سبب روزگار ہے۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ قصبوں اور دیہات کے مقابلے میں شہروں میں روزگار کے بہتر مواقع موجود ہوتے ہیں۔ چناں چہ مالی آسودگی اور بہتر زندگی گزارنے کی خواہش لوگوں کو شہروں میں ٹھکانہ بنانے کی جانب راغب کررہی ہے۔ دیہاتیوں کے شہروں کا رُخ کرنے کی ایک اور اہم وجہ زلزلے ہیں۔ جاپان میں اکثر زلزلے آتے ہیں جن سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلتی ہے۔ جاپان کے شہر ان جگہوں پر بسائے گئے ہیں جو فالٹ لائن پر نہیں ہیں، یعنی یہاں زلزلے نہیں آتے یا شاذ ہی آتے ہیں۔ جان بچانے اور زلزلے جیسی قدرتی آفات سے محفوظ رہنے کی ضرورت بھی شہری آبادی میں تیزی سے اضافے کا سبب بن رہی ہے۔
درج بالا وجوہات کے سبب جاپان کے دیہات ویران ہوتے جارہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہزاروں دیہات ایسے ہیں جہاں کی آبادی محض چند سو نفوس پر مشتمل ہے۔ بہت سے گاؤں میں محض چند درجن باسی ہی رہ گئے ہیں۔ سکڑتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ، ہارا ایزومی کی طرح، ان دیہات میں سرکاری سہولیات ناپید ہوتی جارہی ہیں۔ مقامی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق جاپان میں اوسطاً پانچ سو اسکول یومیہ بند ہورہے ہیں! جن اسکولوں میں پہلے بچے پڑھتے نظر آتے تھے اب وہاں جانوروں نے ٹھکانے بنالیے ہیں۔ ماہرین عمرانیات کہتے ہیں اگر یہ رجحان برقرار رہا تو آنے والے برسوں میں جاپان کا دیہی علاقہ انسانوں سے یکسر خالی ہوجائے گا اور صرف شہروں میں آبادی ہوگی۔
یوشی ہیرو کا کہنا ہے کہ مندر کی آمدنی کا انحصار قصبے کے رہائشیوں پر تھا جو مندر میں رہنے والے بھکشوؤں کا خرچا اٹھاتے تھے۔ قصبے کی آبادی کم ہونے لگی تو مندر کے اخراجات پورے کرنا بھی مشکل ہوگیا۔ بالآخر اسے بند کردیا گیا۔ کسی زمانے میں یہاں پرائمری اور ایلیمینٹری اسکول بھی تھے، جن میں سیکڑوں بچے پڑھا کرتے تھے، مگر اب قصبے میں صرف پانچ بچے ہیں۔ ظاہر ہے صرف پانچ بچوں کے لیے حکومت اسکول نہیں چلاسکتی تھی۔ چناں چہ یہ قصبہ درس گاہوں سے بھی محروم ہوگیا۔ اسکولوں کی عمارتیں ضرور موجود ہیں مگر اب ان میں ریچھ، سور اور دوسرے جنگلی جانوروں نے ٹھکانے بنالیے ہیں۔
جاپان کی دیہی آبادی برق رفتاری سے شہروں کا رُخ کررہی ہے جس کی وجہ سے دیہات اور قصبے خالی ہوتے جارہے ہیں۔ جاپان بھر میں ہارا ایزومی کی طرح ہزاروں گاؤں ہیں جن کی آبادی محض چند درجن نفوس پر مشتمل رہ گئی ہے۔ یوشی کا کہنا ہے گاؤں کے چند مزید گھر یہاں سے نقل مکانی کا ارادہ کررہے ہیں، اور یوں لگتا ہے کہ چار پانچ برسوں میں یہ گاؤں انسانوں سے بالکل خالی ہوجائے گا۔
گاؤں دیہات سے شہروں کی جانب نقل مکانی کرنے کی اہم وجوہات میں سے ایک تعلیم ہے۔ اگرجہ جاپان میں نظام تعلیم بہترین ہے، مگر اچھے تعلیمی ادارے شہروں میں ہیں۔ جاپانی والدین اپنے بچوں کی تعلیم کو بے حد اہمیت دیتے ہیں۔ چناں چہ اولاد کے روشن مستقبل کے لیے وہ قصبوں اور دیہات سے شہروں کی جانب منتقل ہورہے ہیں۔ نقل مکانی کا ایک اور سبب روزگار ہے۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ قصبوں اور دیہات کے مقابلے میں شہروں میں روزگار کے بہتر مواقع موجود ہوتے ہیں۔ چناں چہ مالی آسودگی اور بہتر زندگی گزارنے کی خواہش لوگوں کو شہروں میں ٹھکانہ بنانے کی جانب راغب کررہی ہے۔ دیہاتیوں کے شہروں کا رُخ کرنے کی ایک اور اہم وجہ زلزلے ہیں۔ جاپان میں اکثر زلزلے آتے ہیں جن سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلتی ہے۔ جاپان کے شہر ان جگہوں پر بسائے گئے ہیں جو فالٹ لائن پر نہیں ہیں، یعنی یہاں زلزلے نہیں آتے یا شاذ ہی آتے ہیں۔ جان بچانے اور زلزلے جیسی قدرتی آفات سے محفوظ رہنے کی ضرورت بھی شہری آبادی میں تیزی سے اضافے کا سبب بن رہی ہے۔
درج بالا وجوہات کے سبب جاپان کے دیہات ویران ہوتے جارہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہزاروں دیہات ایسے ہیں جہاں کی آبادی محض چند سو نفوس پر مشتمل ہے۔ بہت سے گاؤں میں محض چند درجن باسی ہی رہ گئے ہیں۔ سکڑتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ، ہارا ایزومی کی طرح، ان دیہات میں سرکاری سہولیات ناپید ہوتی جارہی ہیں۔ مقامی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق جاپان میں اوسطاً پانچ سو اسکول یومیہ بند ہورہے ہیں! جن اسکولوں میں پہلے بچے پڑھتے نظر آتے تھے اب وہاں جانوروں نے ٹھکانے بنالیے ہیں۔ ماہرین عمرانیات کہتے ہیں اگر یہ رجحان برقرار رہا تو آنے والے برسوں میں جاپان کا دیہی علاقہ انسانوں سے یکسر خالی ہوجائے گا اور صرف شہروں میں آبادی ہوگی۔