ارد شیر کاوس جی‘ ایک عہد‘ ایک جدوجہد

میں نے کاوس جی کو بہت بڑا انسان پایا، بڑا انسان وہی ہوتا ہے جس کے افکار بلند اور حوصلہ ہمالیہ کی طرح ہو۔

ارد شیرکاوس جی کے بارے میں، میں کیا لکھوں، اور کیا کہوں، میرے والد پروفیسر ڈاکٹر محمد علی صدیقی ایک نقاد، ماہرِ تعلیم، ادیب، صحافی ہیں، دنیائے ادب کی کئی نامور ہستیوں سے ابا جی کے حوالے سے بالمشافہ مل چکا ہوں۔ ان میں احمد فرازؔ ہوں کہ علی سردار جعفری، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ہوں کہ عطاء الحق قاسمی، جون ایلیا ، اقبال مہدی ہوں کہ میر افروز، چترا پریتم ، طارق جاوید ہوں کہ ڈیوڈ میتھیوز، یا علی امام ۔ میری کاوس جی سے پہلی اور آخری ملاقات 2001ء کے اوائل میں علی امام مرحوم، پاکستان کے نامور مصوّر کے گھر بوٹ بیسن پر ہوئی تھی۔

رسمی سی ملاقات ہی تھی، میں نے کاوس جی کو بہت بڑا انسان پایا، بڑا انسان وہی ہوتا ہے جس کے افکار بلند اور حوصلہ ہمالیہ کی طرح ہو، وہ پارسی مذہب سے تعلق رکھتے تھے، لیکن ان کے اندر ایک اچھے انسان کے تمام اوصاف تھے۔ کاوس جی اپریل 1926ء میں کراچی میں پیدا ہوئے، ان کے والد کا شمار اس وقت کے امراء میں ہوتا تھا ان کی ذاتی شپنگ کمپنی تھی، لیکن من الحیث المجموعی کاوس جی میں امارت کے بعد آجانے والی رعونت نام کو بھی نہیں تھی۔

انھوں نے BVS اسکول سے میٹرک کیا اور DJ کالج سے انٹر، دوسری جنگ عظیم کے بعد انھوں نے اپنے والد صاحب کا کاروبار سنبھالا، لیکن بھٹو دور حکومت میں غالباً 1974ء میں جب ان کی کمپنی نیشنلائزڈ ہوئی تو کاوس جی، ارد شیر کاوس جی بن گئے جو 25 دسمبر 2011ء تک رہے، لیکن بھٹو مردم شناس آدمی تھے انھوں نے کاوس جی کو پاکستان ٹوررزم ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا مینیجنگ ڈائریکٹر بنا دیا، کہتے ہیں کہ آدمی اگر اپنے اصولوں پر کاربند ہو، اس کو آپ اپنے طور سے نہیں چلا سکتے، کاوس جی کو جب احساس ہوا کہ ان کے ساتھ یہی صورتحال ہے تو انھوں نے وہ کام ہی چھوڑ دیا اس کے بعد وہ پورٹ قاسم کے چیئرمین بنا دیے گئے، اس زمانے میں پورٹ قاسم میں ایک روپے کی بھی ہیرا پھیری نہیں ہوئی، جہاں حق ہوتا ہے وہاں بدی کی قوتیں پر نہیں مار سکتیں۔

ایک واقعہ ان کے اصولوں کے خلاف ہوا تو وہاں ان کی بے باکی آڑے آگئی لہٰذا وہ نوکری بھی گئی۔ پھر 1976ء میں ان کو بغیر کسی وجہ کے 72 دنوں کے لیے سینٹرل جیل میں پابند سلاسل کردیا گیا، ضیاء الحق کا دور آیا تو آمریت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں کاوس جی نے حق کو حق کہا، ان کے اندازِ بیان میں بے باکی آگئی، وہ کسی آمر کسی بادشاہ سے نہیں ڈرتے تھے، ڈرتے وہ ہیں جن کے دل کالے ہوتے ہیں اور ہاتھ رنگے ہوئے۔ وہ ضیاء الحق کے لیے اذیت بن گئے، لیکن 1988ء میں ضیاء الحق کی وفات کے بعد جب نگران حکومت بنی تو میڈیا پر دورِ آمریت کی وجہ سے جو سختیاں تھیں وہ کم ہوگئیں، اس میں نمایاں کردار کاوس جی کا تھا، انھوں نے آزادیٔ صحافت کے لیے بھرپور جدوجہد کی اور آواز حق کو مرحوم ہونے سے بچا لیا۔

انھوں نے ایک انگریزی اخبار میں تسلسل کے ساتھ کالم لکھے جو 24 سال پر محیط ہیں۔ کاوس جی نے (لیٹر ٹوایڈیٹر) میں بھی لکھا، انھوں نے 1984ء سے 2011ء تک انگریزی اخبار میں کالم لکھے اور اس 24 سالہ دورِ صحافت میں کوئی بھی ان کو خرید نہیں سکا، انھوں نے استحصالی قوتوں، جابرانہ طرزِ حکومت، کرپشن ، لینڈ مافیا اور بھتہ خوری پر کھل کر اظہارِ خیال کیا، وہ ایک نڈر، بے باک، بے خوف صحافی تھے، دورِ آمریت ہو کہ دورِ شہنشاہی یا دورِ'' امیر المومنین'' ان کا قلم نہ جھکا، نہ بکا، ان کو متعدد بار قتل کی دھمکیاں دی گئیں، لیکن ان کا کہنا تھا جب تک حق، باطل پر قابض نہیں ہوجائے گا مجھے کوئی نہیں مار سکتا، سوائے اللہ کے، خدا تعالیٰ پر ان کا یقین بہت پختہ تھا۔


ان کے خاندان کے 85 فیصد لوگ بیرون ملک چلے گئے، صرف پاکستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر، ان کے کئی رشتے داروں نے ان سے کہا کہ آپ بھی چلیں، لیکن کاوس جی جیسے محب الوطن شخص نے کہا ''میں کراچی میں پیدا ہوا ہوں اور کراچی ہی میں مروں گا، میں کراچی چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا''۔ ان کو پاکستان کے بگڑتے ہوئے سیاسی، سماجی، اقتصادی، فلاحی، ریاستی حالات پر حد درجہ تشویش تھی، وہ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملنا بھی نہیں چاہتے تھے۔ ان کو قائد اعظم سے والہانہ عقیدت تھی، وہ کہتے تھے اس عظیم قائد نے اتنا خوبصورت ملک اس ملک کی عوام کو دیا تھا لیکن افسوس آج اکیسویں صدی میں پاکستان پھر 1960ء کے دور میں آگیا ہے۔

جہاں انسانیت سے زیادہ فرقہ وارانہ اونچ نیچ آگئی ہے، ان کے کسی بھی طرزِ حکمرانی میں کسی بھی سیاستدان سے تعلقات نہ بن پائے، ہر سیاستدان ان سے خائف تھا، وہ ناحق کسی کی بھی اچھائی نہیں کرتے تھے، سوچنے کی بات ہے آج تک کوئی ایسا سیاستدان پیدا نہیں ہوا جس میں اچھائی کا وصف ہو اور وہ ارد شیر کاوس جی سے ملا ہو یا ارد شیر کاوس نے اچھائی لکھی ہو اس کی تعمیراتی سوچ کی۔ ان کا آخری کالم 25؍ دسمبر 2011ء میں انگریزی اخبار میں چھپا۔

کاوس جی کا طرزِ بیان خاصہ کھردرا، بے باک، نڈر تھا وجہ یہ تھی کہ ان کو کسی بھی قسم کی مراعات کی ضرورت نہ تھی، جیسے کہ آج کل دیکھنے میں آرہی ہے، وہ معاشرے کے کھاتے پیتے شخص تھے، لہٰذا انھوں نے بے خوف ہوکر غلط کو غلط لکھا، دن کو دن لکھا، رات کو رات لکھا، ان کے ترجمہ شدہ کالم ''ایکسپریس'' میں بھی چھپے جو بہت زیادہ پسند کیے گئے، ان کی ریڈرشپ بہت زیادہ تھی، کاوس جی کے کالموں میں جو بات بہت وضاحت طلب رہی وہ ملک میں جاگیردارانہ نظامِ زندگی سے بیزاری، کرپشن کی افزائش سے نفرت، مفاد پرست سیاستدانوں سے بیر، انسان کو کیڑے مکوڑوں کی طرح استعمال کیا جانا اور پھر ان کی عزتِ نفس کے ساتھ کھلواڑ، آمریت اور آمرانہ روایت سے کوفت، فوج کا سیاست میں عمل دخل کے خلاف ہونا، حکومتی زمینوں پر قبضہ کرنا، آوازِ حق کو روندھے جانا کاوس جی کے کالموں کا بنیادی وطیرہ رہے۔

ان کے کاٹ دار جملے، طنزیہ اندازِ بیان، بے باک تبصرے، بے خوف و خطر کسی بھی جابر حکمران کے خلاف کھل کر لکھنا منفرد تھا، وہ ایوانِ بالا میں کچھ خاص جگہ نہ بنا پائے اور بناتے بھی کیسے؟ جو شخص شخصی آزادی اور اجتماعی خودمختاری کے لیے لڑتا ہو وہ کیسے پیچھے ہٹ سکتا ہے؟ ایک زمانے میں ان کے کالموں پر پابندی بھی لگی، ان کو بیرونِ ملک رہائش کی پیشکش متعدد بار ہوئیں، لیکن انھوں نے ہنس کر ٹال دیا۔ ارد شیر کاوس جی نے تعلیم سے بے بہرہ عوام کو حکمرانوں کے مکروہ چہرے دکھائے، فیضؔ صاحب سے ان کی دوستی مثالی رہی، فیض صاحب بھی حق گوئی کہنے پر پابند سلاسل ہوئے اور جلاوطن بھی رہے، کائوس جی بھی۔ سر پھرے جب کچھ ٹھان لیں تو ہمالیہ رائی کے دانے کے برابر لگتا ہے، انسانی استحصال کی صورت میں نوازشات و مراعات وہی قبول کرتا ہے جس کا ضمیر دل و ذہن مفلوج ہوچکا ہوتا ہے۔

جالب نے ایوب خان جیسے جابر سے ٹکر لی، مراعات مل سکتی تھیں، لیکن انھوں نے اپنے لیے کال کوٹھڑی کو صحیح جانا، ایک ایسے معاشرے میں جہاں سچ کو جھوٹ، جھوٹ کو سچ لکھنے کا رواج جگہ بنا رہا تھا وہاں کاوس جی نے حق کا ساتھ دیا۔ وہ سامراجی قوتوں کے خلاف لکھتے رہے، وہ پاکستان میں جمہوریت کے خواہاں رہے، انسانی حقوق کی تنظیموں کے رکن خاص رہے، انھوں نے کالم نگاری کو ایک نیا رنگ دیا۔

وہ قلم کی حرمت کے پاسدار تھے، وہ سیاست میں اعتدال اور انصاف کی فراہمی کے خواہاں تھے، وہ جہاں انصاف کے ساتھ مذاق ہوتا دیکھتے ان کا قلم ایک فوجی بن جاتا جو انصاف کے منافی کرداروں کو جہنم رسید کرواتا۔ انھوں نے آنے والے کالم نگاروں کو یہ بتلایا کہ حق لکھنا اور کہنا اوصافِ پیغمبری ہے۔ وہ قائد اعظم کے وژن کو پاکستان ہی میں رائج کرنے کے درپے تھے اور مایوس ہی رہے۔ ضمیر نیازی صاحب کی کتابWeb of Journalism پر انھوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ Yellow Journalism کا قلع قمع کرنے کا وقت آگیا ہے، وہ دینِ اسلام کو بہترین دین اور مسلمان قوم کے موجودہ کردار کو درست تصور نہیں کرتے تھے۔
Load Next Story