’’ فائرفشنگ‘‘ مچھلیوں کو آگ دکھا کر پکڑنے کا انوکھا طریقہ

ایک زمانے میں تین سو سے زائد کشتیاں رات میں آگ سے مچھلیاں پکڑنے کے لیے جاتی تھیں،

ایک زمانے میں تین سو سے زائد کشتیاں رات میں آگ سے مچھلیاں پکڑنے کے لیے جاتی تھیں،:فوٹو : فائل

PESHAWAR:
ماہی گیری کی تاریخ غالباً اتنی ہی قدیم ہے جتنی خود حضرت انسان کی۔ خالق کائنات نے جب انسان کو سطح ارض پر بھیجا تو اس کی بقا کے ذرائع اس سے پہلے تخلیق کردیے۔ انسان کے ارتقا کے ساتھ ساتھ اس کی خوراک بھی متنوع ہوتی چلی گئی۔

سطح زمین پر موجود چیزوں کے ساتھ ساتھ وہ زیرآب پائی جانے والی نعمتوں سے بھی شکم سیری کرنے لگا۔ سمندر سے حصول خوراک کے لیے اس نے مختلف طریقے اپنائے۔ آج ماہی گیری کا سب سے مقبول طریقہ جال کے ذریعے مچھلیاں پکڑنا ہے۔ مگر کچھ علاقوں میں ماہی گیری کے منفرد اور قدیم روایتی طریقے بھی رائج ہیں۔ مثال کے طور پر بنگلادیش میں ماہی گیر شکار کے لیے اودبلاؤ سدھاتے ہیں۔ اسی طرح سری لنکا کے ساحلوں پر بانس گاڑ کر ماہی گیر ان پر چڑھ جاتے ہیں اور مچھلیاں پکڑتے ہیں۔


تائیوان کے ساحل پر دوسری مچھلیوں کے ساتھ ساتھ چھوٹی جسامت کی سارڈین مچھلیاں بڑی تعداد میں پائی جاتی ہیں۔ ان مچھلیوں کو پکڑنے کے لیے تائیوانی مچھیرے کئی صدیوں سے ایک منفرد طریقہ استعمال کرتے چلے آرہے ہیں۔ سارڈین کا شکار شب کی تاریکی میں کیا جاتا ہے۔ ماہی گیر کشتی میں سوار ہوکر سمندر میں اس مقام کی طرف روانہ ہوتے ہیں جہاں یہ مچھلیاں زیادہ تعداد میں پائی جاتی ہیں۔ کشتی پر جال کے علاوہ ایک بانس بھی ہوتا ہے۔ مطلوبہ مقام پر پہنچ کر وہ پہلے سمندر میں جال ڈالتے ہیں اور پھر بانس کے ایک سرے کو آگ لگادیتے ہیں۔

ایک شخص بانس کو اس طرح پکڑ لیتا ہے کہ اس کا جلتا ہوا سرا کشتی سے باہر ہوتا ہے۔ بانس کے سرے کو سلفر میں بھگویا گیا ہوتا ہے۔ سلفر کے جلنے سے بڑا شعلہ پیدا ہوتا ہے۔ سارڈین مچھلیاں آگ کی دیوانی ہوتی ہیں۔ شعلہ دیکھتے ہی وہ پانی میں سے اُچھل اُچھل کر اس کی طرح لپکتی ہیں اور کشتی کے ساتھ بچھائے گئے جال میں گر جاتی ہیں۔ یہ بہت عجیب منظر ہوتا ہے۔ بہ یک وقت سیکڑوں مچھلیاں شعلے کی طرف لپکتی ہیں اور پھر جال میں جاگرتی ہیں۔ آگ کی روشنی ان کے جسموں سے منعکس ہوکر اطراف میں بکھرتی ہے اور عجیب سماں پیدا کردیتی ہے۔

آگ کے ذریعے ماہی گیری کا یہ طریقہ کئی صدی پہلے رائج ہوا تھا مگر اسے فروغ تائیوان پر جاپانی دور حکومت میں ملا۔ پھر بہ تدریج اس کی مقبولیت کم ہوتی چلی گئی اور اب صرف جن شان کے ساحلی علاقے میں یہ طریقہ رائج ہے، صرف چند ہی مچھیرے اس روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔


ایک زمانے میں تین سو سے زائد کشتیاں رات میں آگ سے مچھلیاں پکڑنے کے لیے جاتی تھیں، مگر اب یہ تعداد محض تین رہ گئی ہے، حالاں کہ اس طریقے سے مختصر وقت میں بڑی مقدار میں شکار ہاتھ آتا ہے۔


ایک ماہی گیر کے مطابق چھے گھنٹے کے شکار کے دوران ایک بڑی کشتی پر تین سے چار ٹن مچھلیاں جمع ہوجاتی ہیں! اس طرح ماہی گیروں کی ایک ٹیم ایک ہی رات میں 4500 امریکی ڈالر ( ساڑھے چار لاکھ روپے) کے مساوی رقم کما سکتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر نفع بخش ہونے کے باوجود ماہی گیری کی یہ قدیم روایت لب مرگ کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ سارڈینا مچھلیاں ہی آگ سے عشق کرتی ہیں، اور ان کے شکار کا سیزن صرف تین ماہ، مئی تا جولائی، رہتا ہے۔ علاوہ ازیں مچھیروں کی نئی نسل آبائی پیشے کو اپنانے میں دل چسپی نہیں رکھتی۔ آگ دکھا کر مچھلی پکڑنے کی اس انوکھی روایت کو جو ماہی گیر زندہ رکھے ہوئے ہیں، ان کی عمریں ساٹھ برس سے اوپر ہیں۔
Load Next Story