تذکرۂ خطاطین

یہ فن ارتقائی مراحل طے کرتا ہوا بیسویں صدی میں اپنی خوبصورت ترین صورت میں ظاہر ہوا۔


Rafiuzzaman Zuberi November 30, 2012

محمد راشد شیخ نے جب یہ محسوس کیا کہ عالمِ اسلام اور مغربی ممالک میں خطاطی کے نادر شہ پاروں پر مشتمل کتابیں خاصی تعداد میں شایع ہوچکی ہیں اور یہ سلسلہ برابر جاری ہے، لیکن اُردو میں اس موضوع پر بہت کم کام ہوا ہے تو انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ خطاطی پر ایک ایسی کتاب مرتب کرکے شایع کریں گے جس میں نہ صرف برِصغیر ہند و پاکستان کے عظیم خطاطوں کی نمایندگی ہو بلکہ بیسویں صدی کے نامور خطاطوں کے کام کا عمدہ انتخاب بھی شامل ہو۔

انھیں یہ احساس تھا کہ ایک ایسی کتاب کے لیے جس میں نامور خطاطوں کی خطاطی کے نمونے ہوں، ان کے حالاتِ زندگی اور کام کی خصوصیت کا ذکر ہو اور وہ اعلیٰ معیاری طریقے پر طبع بھی ہو، محنت اورکثیر سرمایہ کی ضرورت ہوگی اور ان کے لیے یہ کام جوئے شیر لانے سے کم نہ ہوگا۔ لیکن جب انسان کوئی ارادہ کرلے اور چل پڑے تو پھر:

رہِ یک گام ہے منزل کے لیے عرشِ بریں

وہ لکھتے ہیں''چنانچہ کئی برس ضروری مواد جمع کرنے کی ابتدا کی گئی، اس کام کی اہمیت مجھے یوں بھی محسوس ہورہی تھی کہ ہمارے ہاں اکثر لوگ فنِ خطاطی کو ایک قدیم اور متروک (Out of Date) فن سمجھنے لگے ہیں، جب کہ یہ فن نہ صرف پوری توانائی کے ساتھ زندہ ہے بلکہ اس مشینی عہد میں بھی پوری دنیا میں خطاط حضرات شب و روز اس فن کے نادر شہ پاروں کی تخلیق اور اس کی ترویج میں مصروف ہیں۔''

راشد شیخ نے جو ارادہ کیا تھا وہ تمام رکاوٹوں کے باوجود پورا کیا اور پھر برسوں کی محنت کے بعد ان کی فنِ خطاطی پر کتاب ''تذکرۂ خطاطین'' چھپ کر منظرِ عام پر آئی۔

وہ لکھتے ہیں ''اس کتاب میں موجود خطاطوں کا انتخاب میں نے کافی غوروخوض اور ان کے کام کا عمیق مطالعہ کرنے کے بعد کیا ہے۔ اگر فنِ خطاطی کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ نتیجہ برآمد ہوگا کہ یہ فن ارتقائی مراحل طے کرتا ہوا بیسویں صدی میں اپنی خوبصورت ترین صورت میں ظاہر ہوا۔ بعض ماہرین کے نزدیک اب اس فن میں مزید اصلاحات کی گنجائش نہیں کیونکہ اس طرح کی فنی اصلاحات کے لیے جو پس منظر اور دقتِّ نظری درکار ہوتی ہے وہ موجودہ خطاطوں میں کہیں نظر نہیں آتی بلکہ اب تک تو یہ ہوا کہ بعض خطاطوں نے اصلاح کے نام پر مروّجہ خط میں بگاڑ پیدا کیا ہے۔''

فنِ خطاطی کے سلسلے میں ایک غلط فہمی یہ بھی ہے کہ اسے فنِ کتابت کے مماثل سمجھا جاتا ہے جب کہ یہ دونوں الگ الگ فن ہیں۔ کمپیوٹر سے کتابت کے آغاز کے بعد سے تو اب ہاتھ سے کتابت کا زمانہ گزر چکا ہے، لیکن خطاطی بہ طورِ فن زندہ ہے اور جب تک دنیا میں تحریر کا وجود ہے اور انسان کا ذوقِ جمال باقی ہے خطاطی کا فن زندہ رہے گا۔ تحریر کو زیادہ سے زیادہ خوبصورتی سے باقاعدہ اُصول پر لکھنا ہی خطاطی ہے۔ اس فن کو بقا اس لیے حاصل رہے گی کہ اللہ کے کلام کو خوبصورت سے خوبصورت انداز میں تحریر کرنے کا جذبہ کبھی سرد نہ ہوگا بلکہ بڑھتا ہی رہے گا۔

راشد شیخ لکھتے ہیں ''اگرچہ فنِ خطاطی کا فروغ اور تسلسل جاری ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ بیسویں صدی میں جس پائے کے خطاط عالم اسلام میں موجود تھے وہ شاید اب کبھی نہ ہوں گے۔ دیگر ممالک سے قطع نظر کرتے ہوئے خود پاکستان ہی پر غور کریں، کیا استاد محمد یوسف دہلوی، عبدالمجید پروین رقم، سید نفیس الحسینی کے پائے کا خطاط پیدا ہونا ممکن ہے؟

افسوس کی بات یہ ہے کہ ان عظیم خطاطوں پر انفرادی نوعیت کا کام جیساکہ ایران، مصر اور ترکی میں ہوا ہے، ہمارے ہاں نہیں ہوا۔ ایران میں مرزا محمد حسین سیفی عماد الکتاب اور مرزا غلام رضا کلہر، مصر میں محمد عبدالقادر عبداللہ اور ترکی میں عبدالعزیز الرفاع، سامی آفندی، شیخ حمد اللہ وغیرہ پر مفصل کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ انفرادی خطاطوں پر ترکی میں معیاری تحقیقی کتابیں شایع ہوئی ہیں۔ عہدِ حاضر میں خطاطی کے موضوع پر معیارِ طباعت کے اعتبار سے سب سے بہتر کام ترکی اورایران میں ہوا ہے۔ اسلامی خطاطی کے موضوع پر دبئی سے ایک نہایت خوبصورت معیاری رسالہ ''حروفِ عربیہ'' کے نام سے شایع ہورہا ہے، فنِ خطاطی کی اصل روح اور خصوصیات کو برقرار رکھنے کی کوششوں میں اسلامی ورثے کے تحفظ کے عالمی کمیشن کے تحت خطاطی کے عالمی مقابلے بھی بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔

محمد راشد شیخ کی ''تذکرۂ خطاطین'' میں بیسویں صدی کے بیس ممتاز خطاطوں کے حالاتِ زندگی، اسلوب اور ان کے کمالِ فن کے نادر و نایاب اور اس کی تاریخ پر ان کی گہری نظر ہے۔ انھوں نے فنِ خطاطی کی اصطلاحات کو متعارف کرایا ہے، مختلف خطوط کی وضاحت کی ہے اور ان کے ایجاد کرنے والوں کا اور ان میں کمال پیدا کرنے والی شخصیات کا ذکر بھی کیا ہے۔

''تذکرۂ خطاطین'' میں جن پانچ ممتاز پاکستانی خطاطوں کا ذکر اور ان کے کمالِ فن کے نمونے شامل ہیں ان میں شفیق الزماں کی یہ منفرد حیثیت ہے کہ وہ بائیس سال سے مسجد نبویؐ میں خطاطی کر رہے ہیں۔

آج دنیائے خطاطی میں عالمی سطح پر ان کا جو اعلیٰ مقام ہے وہ انھوں نے اپنی انتھک محنت اور لگن سے حاصل کیا ہے، مسجد نبویؐ میں خطاطی کے پرانے کام کی تجدید و ترمیم کے علاوہ انھوں نے نئے سرے سے مسجد کے گنبدوں میں خطاطی کی ہے اور کر رہے ہیں جو بڑی سعادت ہے۔

مشفق خواجہ نے کیا خوب کہا ہے کہ ''صریرِ خامہ دنیا کی قدیم ترین موسیقی ہے جو حروف میں منجمد ہوکر مصوری کی انتہاؤں کو چھو لیتی ہے۔'' راشد شیخ کی ''تذکرۂ خطاطی'' کتاب نہیں عشق و جنون اور محنت و مشقت کے سفر کا حامل ہے اور کتاب کی معنوی و صوری خوبیاں ان کے ذوقِ علمی اور ذوقِ جمال کی آئینہ دار ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔