فرسودہ طبقاتی نظام تعلیم اور کرپشن
ہمارے ملک کا المیہ یہی ہے کہ تعلیمی ادارے تو بہت قائم ہورہے ہیں لیکن تعلیم ناپید ہے۔
ISLAMABAD:
معیارتعلیم کی زبوں حالی اورانحطاط پذیری ہمارے ملک میں کوئی نئی بات نہیں ہے، طبقاتی نظام نے اسے اور بھی دوچند کردیا ہے۔ دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے، نت نئے سیارے دریافت کر رہی ہے اور ہم ابھی تک اسی فرسودہ وطبقاتی نظام تعلیم کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہمارے یہاں یکساں تعلیمی نظام رائج نہ ہوسکا جس کی بنیادی وجوہات معاشرے کو دو حصوں میں تقسیم کرنے، ملک کے اٹھانوے فیصد غریب و متوسط طبقے کو اعلیٰ تعلیم کے حصول سے دور رکھنے اور ملک کی عملی وٹھوس بنیادوں پر تعمیر و ترقی میں شمولیت سے محروم رکھنا ہے۔
ہمارے ملک میں جا بجا اے لیول،او لیول،انگلش میڈیم اور پیلے اسکولوں کی بہتات نظر آتی ہے۔ طے شدہ فارمولہ ترتیب دے دیا گیا ہے کہ اے لیول اور او لیول سے فارغ التحصیل طلبا کو ملک کے کلیدی شعبہ جات میں خدمات انجام دینے کے بھر پور مواقعے مہیا کیے جاتے ہیں اور پیلے اسکولوں سے تعلیم حاصل کرکے آنے والے غریب طلبا کو ہوشربا مہنگائی کے اسباب پیدا کرکے زندگی کی گاڑی کو دھکا لگانے میں جھونک دیا جاتا ہے۔ پاکستان کو جمہوری ملک گردانا جاتا ہے مگر اس ملک کی برسوں سے چلی آرہی جمہوریت کے کیا کہنے، کہ ارباب اقتدار کی اولاد بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے بھیج دی جاتی ہے تاکہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ واپس اسی ملک میں آکر اپنے آبائو اجداد کی حکومتی کرسیاں سنبھال سکیں۔
ملک کو درپیش مسائل اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ حصول پاکستان کے بعد سے اس طبقاتی اور فرسودہ نظام تعلیم کو یکساں اور جدید نظام تعلیم میں بدلنے کی خاطر خواہ سعی نہیں کی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک ترقی کرنے کے بجائے اور پیچھے چلا گیا۔ ہمارے ملک کا المیہ یہی ہے کہ تعلیمی ادارے تو بہت قائم ہورہے ہیں لیکن تعلیم ناپید ہے۔ ہماری تعلیم و تدریس سیاست کی نذر ہوچکی ہے۔ ہمارے حکمران نہیں چاہتے کہ یہ قوم، جو بدقسمتی سے اپنے اعمال کے سبب ان کی رعایا ہے، اچھی تعلیم حاصل کرے۔
اگر یہ قوم اچھی تعلیم حاصل کرلے گی تو باشعور ہوجائے گی اور باشعور ہوگئی تو وڈیروں، جاگیرداروں، زمینداروں اور سرمایہ داروں کی غلامی کون کرے گا ؟ قرآن کے ساتھ شادیاں، وٹہ سٹہ، کاروکاری اور جاگیرداروں کی نجی جیلوں کا کاروبار کیسے چلے گا؟ قوم باشعور ہوگئی تو وڈیروں، جاگیرداروں، زمینداروں کے پائوں کو چھوکر زمین پر ان کے سامنے عقیدت سے کون بیٹھے گا ؟ ہماری قوم کی اکثریت تعلیم حاصل کرلینے کے بعد بھی شعور کی منزلوں سے بہت دور نظر آتی ہے۔ اپنی شخصی آزادی، خود مختاری، خودداری اور عزت نفس کی پامالی کے خلاف خاموش نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے حکمران ہمیں تعلیمی میدان میں پیچھے رکھ کر خود کو اور اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم کے ہر میدان میں سرپٹ دوڑتے دیکھنا چاہتے ہیں۔
آج ہمارا معاشرہ پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں اترتا چلا جا رہا ہے جس کا سبب کرپشن ہے جو ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے، اوپر سے لے کر نیچے کی سطح تک ہر ادارے میں کرپٹ عناصر کی موجودگی واضح کرتی ہے کہ ہمارے حکمران خود کرپٹ ہیں اسی لیے اس کرپشن کے سد باب کی کوئی عملی صورت اختیار نہیں کی جاتی۔ تعلیم جو کسی بھی قوم کے عروج و زوال میں بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتی ہے وہ ہمارے کرپٹ حکمرانوں کی عدم دلچسپی کے سبب برائے فروخت نظر آتی ہے۔ جو رہا سہا تعلیمی معیار ہمارے ملک میں تھا وہ اساتذہ کی کمی سے مزید متاثر ہو رہا ہے۔
جو اساتذہ ہمیں میسر ہیں ان میں سے بھی چند اساتذہ تعلیمی اداروں میں تعلیم دینے کے بجائے پرائیویٹ کوچنگ سینٹرز میں بھاری فیسوں کے عوض طلبا پر اپنی تدریسی مہارت لٹا رہے ہیں۔ کچھ اساتذہ نے اس غریب قوم کے طلبا میں علم کی شدید پیاس کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے محسوس کیا تو اپنے ذاتی کوچنگ سینٹرز کھول لیے۔ بعض اساتذہ کی تعداد تو ایسی بھی ہے جو اپنی ڈیوٹی پر جانے کے بجائے دونوں شفٹوں میں یعنی صبح و شام اپنے ذاتی کوچنگ سینٹرز میں ان علم کے پیاسوں کو سیراب کرتے نظر آتے ہیں، یہی نہیں بلکہ پریکٹیکلز میں شاندار نمبرز دلانے کے وعدے تو جگہ جگہ شہر کی دیواروں اور بڑے بڑے بینرز پر لکھوا کر لگوا دیتے ہیں کہ کہیں کوئی بیچارہ طالب علم اس نعمت سے محروم نہ رہ جائے، یعنی کھیتوں کو دے لو پانی ، اب بہہ رہی ہے گنگا۔
افسر شاہی کی ملی بھگت کا یہ حال ہے کہ جن اساتذہ کو کالج و اسکول میں طلبا کو تعلیم دینے پر مامور ہونا چاہیے تھا انھیں حکومت کے مختلف دفاتر میں ان نشستوں پر زبردستی لا کر براجمان کرا دیا ہے جن پر غیر تدریسی عملے کا حق ہے۔ غضب کرپشن کی عجب کہانی یہیں ختم نہیں ہوجاتی، ملک کی اکثر سیاسی جماعتوں کے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی تک جعلی ڈگر ی حاصل کرکے انتخابات میں حصہ بھی لیتے ہیں اور راز کھل جانے پر نہایت ڈھٹائی سے اس کا بھر پور دفاع بھی کرتے ہیں۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ پڑھی لکھی قوم کی تقدیر کے فیصلے بھی ان جعلی ڈگری والوں کے دست شفقت سے ہورہے ہیں۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی تعلیمی کمیٹی کی جانب سے ایک رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا کہ پاکستان میں اس وقت تین ہزار گھوسٹ اسکولز موجود ہیں جن پر قومی خزانے سے بے پناہ رقم خرچ کی جارہی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ غریبوں کے بچوں کو بھی دیگر بچوں کی طرح بہترین تعلیم کا حق حاصل ہے جب کہ صوبہ سندھ کے نجی اسکولز تیس سے چالیس فیصد زائد فیسیں وصول کرکے قانون کی صریح خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اس جیسی کتنی ہی رپورٹیں ہر سال منظر عام پر آتی ہیں مگر ہمارے حکمران کوئی موم کے بنے ہوئے نہیں ہیں کہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے پگھل جائیں اور اپنا قبلہ درست کرلیں۔
مہنگائی میں اضافے کے ساتھ ہی فیسوں اور کتابوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ پاکستانی عوام جو پہلے ہی مہنگائی اور افراط زر کی بڑھتی ہوئی شرح سے پریشان ہیں، ان کے لیے اپنے بچوں کی تعلیم کو جاری رکھنا ایک مشکل امر بن گیا ہے مگر حکمرانوں کی عیش پرستی عروج پر ہے، ان کے اپنے بچے موجودہ فرسودہ و طبقاتی تعلیمی نظام سے دور امریکا اور برطانیہ میں جدید اور بہتر تعلیم حاصل کررہے ہیں، جب کہ غریب کا بچہ بمشکل ہی کچھ تعلیم حاصل کر پاتا ہے جو کہ ملک کے طبقاتی نظام تعلیم کے سبب کسی شمار میں نہیں، اس پر مستزاد نجی اسکولوں کے مالکان زیادہ سے زیادہ فیسیں وصول کرنے کے چکر میں تعلیم کو کاروبار بنا بیٹھے ہیں، ہائیر ایجوکیشن کی تحلیل سونے پہ سہاگہ کا درجہ اختیار کرگئی ہے۔
نصاب سے اہم ابواب کا خاتمہ بچوں کو حقائق سے دور کرتا جارہا ہے، ہمارے طلبا پہلی سے آٹھویں کلاس تک جو کتابیں پڑھتے ہیں ان کی اردو کی کتاب میں مسلمانوں کے کارنامے سرے سے درج ہی نہیں، معاشرتی علوم میں سندھ کو باب الاسلام بنانے والا فاتح کون ہے ہمارے طلبا کو نہیں معلوم۔ راشد منہاس نے کم عمری میں کیا کارنامہ انجام دیا، ٹیپو سلطان نے حملہ آور فرنگیوں کے خلاف کیا جدوجہد کی، موئن جو دڑو اور ہڑپہ کی معلومات اور پاکستان کو حاصل کرنے میں کن لوگوں کی کیا کیا قربانیاں شامل ہیں ان سب سے ہمارے آج کے طلبا نابلد ہیں۔ ہمارے حکمران اور اساتذہ مستقبل کے ان معماروں کو ایڈیسن، شیکسپیئر اور ہیملٹن نہیں بنا سکتے، نہ بنائیں کم از کم اتنی مہربانی تو کریں کہ انھیں کچھ پڑھ لکھ کر معزز اور مفید شہری تو بننے دیں۔