منتوں اورمرادوں بھری اولاد نے ماں کو دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کردیا

کاش جنید آج ان کے بارے میں جتنا فکر مند ہے ان کے رہتے ہوئے ہوتا تو نوبت یہاں تک پہنچتی ہی کیوں۔


July 26, 2016
جنید کے گھر جا کرامی نے دیکھا کہ آنٹی کی آنکھوں سے آنسو بے اختیار رواں ہوگئے، فوٹو:فائل

لوگ اولاد نرینہ کے لئے رب العزت سے دعائیں کرتے ہیں اوراگربیٹا پیدا نہ ہو تو بعض اوقات نوبت طلاق تک یا دوسری شادی تک پہنچ جاتی ہے جب کہ جو واقعہ میں بیان کرنے جارہا ہوں وہ ایسی ناخلق اولاد کا کارنامہ جو بڑی منتوں اورمرادوں کے بعد پیدا ہوائی اوراس کو بیان کرنے کا مطلب صرف ان لوگوں کی آنکھیں کھولنا ہے جو بیٹا نہ ہونے پر رنج وغم میں مبتلا رہتے ہیں۔

یہ کہانی ہمارے پڑوس میں رہنے والے مرزا صاحب کے گھر کی ہے،مرزا صاحب کی فیملی جب ہمارے علاقے میں شفٹ ہوئی تو وہ ایک سرکاری ادارے میں اچھے گریڈ کی نوکری کررہے تھے اوران کا ایک بیٹا اوربیٹی تھی،مرزا صاحب کی زیادہ عمر نہیں تھی جب وہ جگر کی بیماری میں مبتلا ہوکر اس جہاں فانی سے کوچ کرگئے،سرکاری نوکری ہونے کی وجہ سے ان کی فیملی کو اچھا خاصا فنڈ ملا،غرض انکل کے انتقال کے بعد اس فیملی کو معاشی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن آنٹی نے اپنی دونوں اولادوں پر خاص توجہ دی اورانہیں کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ کم عمری میں ہی یتیم ہوگئے تاہم وہ شوہر کے انتقال کے بعد انتہائی حساس ہوگئی تھیں جب کہ ان میں خودداری کا عنصر بھی کوٹ کوٹ کر بھرگیا تھا لیکن وہ نرم مزاج کے ساتھ انتہائی خوش اخلاق خاتون تھیں۔

میں اورمرزا صاحب کا لڑکا جنید دونوں ہم عمر کے ساتھ دوست بھی تھے،آنٹی نے جنید کی تعلیم پر خاص توجہ دی اوراس نے ایک پرائیویٹ یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا جس کے بعد اسے تھوڑی تگ ودو کے بعد ایک اچھی نوکری مل گئی جب کہ انہوں نے اپنی لڑکی کی گریجویشن کرنے کے بعد شادی کردی تھی، اب گھر میں یہ دونوں ماں بیٹا اکیلے ہوگئے، ایک دن آنٹی جب ہمارے گھر آئیں تو انہوں نے امی سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ موت زندگی کا کیا بھروسہ، میں نے یہ مکان اوربینک اکاؤنٹ اپنے بیٹے کے نام کردیئے ہیں اور بیٹٰی کی شادی کے بعد گھر میں بھی بہت سناٹا ہوگیا ہے، چاہتی ہوں کہ جنید کی شادی کردوں تاکہ گھر کا ویرانہ پن تو ختم ہو،امی نے آنٹی کی جنید کی شادی کی بات کی تو تائید کی لیکن کہا کہ آپ کو مکان اوربینک اکاؤنٹ ابھی بیٹے کے نام نہیں کرنے تھے، اس کو اپنے نام ہی رکھتیں تاکہ آپ کی مضبوطی رہتی لیکن آنٹی نے مذاق میں کہا کہ کیا میرا بیٹا مجھے گھر سے نکال دے گا، آنٹی کی اس بات کے بعد امی نے ان سے کچھ نہیں کہا تاہم اس کے بعد جنید کے لئے رشتے دیکھے جانے لگے،بالآخر آنٹی کو ایک لڑکی پسندآگئی اور یوں جنید دلہے میاں بن گئے۔

شادی کے کچھ دنوں تک ان کے گھر کے حالات ٹھیک رہے،پھر ان کے گھر سے کبھی کبھار جنید کی بیوی کے چیخنے کی آوازیں آنے لگیں،جنید کی بیوی سخت مزاج خاتون ثابت ہوئی اوراسے اپنی ساس کی ایک عام بات بھی بہت بری لگتی اوراس کا برملا اظہار وہ انہیں جواب کی صورت میں دیتی تاہم اس دوران جنید کچھ نہیں بولتا، تھوڑا اوروقت گزرا توگھر میں کوئی بات ہوتی تو جنید میاں اپنی بیوی کی حمایت میں کھڑے ہوجاتے جس پر آنٹی بالکل خاموشی اختیار کرلیتیں لیکن جنید کی بیوی کو اپنی ساس کی موجودگی بھی کھٹکنے لگی تھی، ایک دن گھر میں کوئی بات ہوگئی تو جنید اپنی والدہ پر بہت چیخا کہ امی کو ان کے گھر جانا پڑ گیا، امی کے سامنے ہی بولنے لگا کہ آنٹی میں تو تنگ آگیا ہوں اپنی والدہ سے،ہروقت میری بیوی سے الجھتی رہتی ہیں، دل چاہتا ہے یہ گھر ہی چھوڑ دوں، جنید کا یہ لفظ کہنا تھا کہ جھٹ اس کی بیوی بولی کہ ہم کیوں گھر چھوڑیں یہ تو ہمارا گھر ہے، اگر کسی کو چھوڑنا ہی ہے تو یہ کیوں نہیں چھوڑ دیتیں،اس دوران امی نے دیکھا کہ آنٹی کی آنکھوں سے آنسو بے اختیار رواں ہوگئے، اگلی دن رات کو جنید آیا اورکہنے لگا امی تو نہیں ہیں،رات 12 سے زیادہ کا وقت تھا امی نے کہا کہ نہیں آپا گھرنہیں آئیں لیکن وہ کب سے گھر پر نہیں ہیں تو اس نے کہا کہ صبح سے ہی وہ نہیں تھیں تو میں سمجھا کہ وہ آپ کے گھر میں ہوں گی، خیروہ دن گزرگیا اورآنٹی نہیں آئیں، میں نے جنید کو دیکھا کہ اُس کے چہرے سے ایسی کوئی پریشانی نہیں جھلک رہی تھی کہ اس کی والدہ گھر پر نہیں، اس نے بہن کے گھر فون کیا آنٹی وہاں بھی نہیں تھیں بلکہ وہ تو بیٹی کے گھر جاتی ہی کم تھیں، بہرحال آنٹی کا کچھ پتہ نہیں چلا کہ وہ کہاں چلی گئیں،آنٹی کو بہت ڈھونڈا گیا، پولیس سے بھی رابطہ کیا گیا جب کہ اس واقعے کو دوسال کا عرصہ بیت گیا لیکن آنٹی کا کچھ پتہ چل سکا۔

ہمیں پتہ ہے کہ آنٹی بہت حساس اورخوددار خاتون تھیں، وہ اپنے بیٹے اوربہو کی آئے دن کی گئی بے عزتی برداشت نہیں کرپائیں، تو انہوں نے اپنے گھر کو ہی چھوڑ دیا،ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ ہمارے والدین ہی ہیں جو اپنا پیٹ کاٹ کر اولاد کی ہر خواہش کو پوری کردیتے ہیں لیکن یہ اولاد بھی ان کے ساتھ کیسا سلوک کرتی ہے کہ آنٹی کے بارے میں سوچ کر میرے تو رونگٹھے کھڑے ہوجاتے ہیں، لیکن آج جنید کے گھر کے حال پربھی اللہ رحم کرے، اس کی اولاد ابھی تک نہیں ہوئی اوربیوی ہے کہ ایک پل اسے سکون سے بیٹھنے نہیں دیتی اوراب میں نوٹ کرتا ہوں کہ اسے اپنی والدہ کی یاد شدت سے آتی ہے اوران کی تلاش اُس نے ابھی بھی جاری رکھی ہوئی ہے، لیکن اب پچھتانے کا کیا فائدہ،کاش جنید آج ان کے بارے میں جتنا فکر مند ہے ان کے رہتے ہوئے ہوتا تو نوبت یہاں تک پہنچتی ہی کیوں۔

ہم اٹھا رہے ہیں معاشرے کی ان حقیقتوں سے پردہ جو ہمیں سننے یا دیکھنے کو ملتی ہیں اور اگر آپ بھی کسی ایسے واقعے سے آگاہ ہیں تو ہمیں لکھ بھیجیں ان کی کہانی۔ [email protected]

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں