مظّفر گڑھ کے بعد بھلوال

آموں کے گڑھ یعنی مظّفر گڑھ کے بعد مجھے کنّوکے گھربھلوال میں سب ڈویژنل پولیس آفیسر لگا دیاگیا۔

zulfiqarcheema55@gmail.com

آموں کے گڑھ یعنی مظّفر گڑھ کے بعد مجھے کنّوکے گھربھلوال میں سب ڈویژنل پولیس آفیسر لگا دیاگیا۔ ضلع سرگودھا کی تحصیل بھلوال کو اب دو تحصیلوں (بھلوال اور کوٹ مومن) میں تقسیم کردیا گیا ہے مگر اُس وقت یہ آٹھ یا نو تھانوں اور کئی چوکیوں پر مشتمل پنجاب کی سب سے بڑی سب ڈویژن تھی۔

سرگودھا پہنچ کر میں سیدھا ایس ایس پی سرگودھا (اسوقت ڈی پی او اور سی پی او جیسے فضول اوربے معنی ٹائٹل ابھی ایجاد نہیں ہوئے تھے) محمد اشرف مارتھ صاحب کے دفتر پہنچا، وہ بڑی گرمجوشی سے ملے، بھلوال کے بارے میں مختصر سا بریف کیا اوریہ بھی بتایا کہ "وہاںسب ڈویژنل پولیس آفیسر کی سرکاری رہائش گاہ نہیں ہے اس لیے آپ کا عارضی بندوبست نون شوگر ملز (ملک کے سابق وزیرِ اعظم فیروز خان نون کے بیٹے نورحیات نون کی ملکیت) کے ریسٹ ہاؤس میں کردیا گیا ہے" انھوں نے مزیدکہاکہ'' ایک زیرِ تربیّت اے ایس پی کو بھی بھلوال بھیجا ہوا ہے اب آپ کو تو دو سب ڈویژنز کی کمانڈ کا تجربہ ہوچکا ہے اس لیے اس کی بھی اچھی طرح ٹریننگ کریں۔ اور اگر اسے سرگودھا واپس بھیجنا چاہیں تو یہ آپکی صوابدید پر ہے'' ۔

ایس ایس پی صاحب سے ملکر میں بھلوال روانہ ہوگیا، نون شوگر ملز کے ریسٹ ہاؤس پہنچا تو کیئرٹیکر نے کہا کہ" ایک اے ایس پی صاحب تو پہلے سے یہاں قیام پذیر ہیں آپ ان کے کمرے میں ان کے کے ساتھ ہی رہیں گے ناں؟ "میں نے کہا " آپکے پاس علیحدہ کمرہ ہے یا نہیں؟" اتنے میں زیرِ تربیّت اے ایس پی بھی پہنچ گیا میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس کا نام امجد سلیمی ہے اور وہ ایک مہینے سے یہیں رہ رہا ہے۔ پھر کہنے لگا "سر کمرے کا کوئی مسئلہ نہیں میں ابھی منیجر سے بات کرتا ہوں "میری موجودگی میں اس نے مل منیجر سے فون پربات کی کہ" دیکھیں منیجر صاحب! ایک اور اے ایس پی صاحب بھی آگئے ہیں اس لیے ہمیں ایک اور کمرے کی ضرورت پڑگئی ہے " کمرے کا بندوبست تو ہوگیا مگر مجھے زیرِ تربیّت اے ایس پی کی " ایک اور اے ایس پی" والی بات پر غصہ آیا کہ بجائے اس کے کہ وہ کہتا کہ اے ایس پی بھلوال پہنچ گئے ہیں وہ کہہ رہا ہے کہ ایک اے ایس پی تو پہلے سے موجود تھا اب ایک اضافی اے ایس پی بھی آن پہنچا ہے،گویا اس سب ڈویژن کے اب دو اے ایس پی ہوں گے۔

ایک بار سوچاکہ زیرِتربیّت اے ایس پی کی کھچائی کی جائے اور اس کی ٹریننگ اسی پوائنٹ سے شروع کروں کہ برخوردار ایک سب ڈویژن کی کمان ایک ہی افسر کے پاس ہوتی ہے اور تم ابھی زیرِ تربیّت ہو اور تمہاری باقاعدہ تعیناتی میں ابھی کچھ وقت لگے گا، لیکن میں نے اسے نوجوان افسر کی خود اعتمادی سمجھ کر درگزر کرنا مناسب سمجھا۔ ایک دو روزمیں ہی میں نے محسوس کرلیا کہ امجد سلیمی (آجکل پنجاب میں ایڈیشنل آئی جی ) ذہین بھی ہے اور اس کی گفتار میں مزاح کی شوخی بھی ہے اور طنز کی کاٹ بھی ۔ لہٰذا یہ سوچ کر کہ کمپنی اچھی رہے گی میں نے اسے سرگودھا بھیجنے کے بجائے اپنے پاس بھلوال میں ہی رکھّا۔

دفتر میں پہلے دن مَیں اسٹاف سے بریفنگ لے رہا تھا کہ اردلی نے مجھے ایک چٹ لاکر دی جس پرلِکّھا تھا 'میں ایک اسکول ٹیچر ہوں اور آپ سے فوراً ملنا چاہتی ہوں۔ میں نے بلا لیا۔ خاتون کے ساتھ اس کی نوجوان بیٹی بھی تھی، میں نے بڑی عزّت سے انھیں کرسی پر بٹھایا اور پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے، کہنے لگی" میں چک نمبر... میں اسکول ٹیچر ہوں گاؤں کے چوہدری کا اوباش لڑکا اپنے ساتھیوں سمیت میری بیٹی کو ہر روز تنگ کرتا ہے،ہمارا جینا مشکل ہوگیا ہے، ہم ایک عذاب میں مبتلا ہیں، کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی پھر سوچا کہ چلیں آپ سے بات کرکے دیکھ لیتے ہیں" ۔

میں نے اس سے چند سوالات کیے ۔ اس نے ہر ایک کا تفصیلی جواب دیا پھر خاتون نے کہا "وہ بڑے امیراور بااثر لوگ ہیں۔ ہم بے سہارا ہیں ہماری عزّت کی حفاظت کرنے والا یہاںکون ہے؟" یہ کہتے ہوئے والدہ رو پڑی اور اس کے ساتھ بیٹی بھی رونے لگی ۔ مجھے توجیسے بجلی کا کرنٹ لگا ہو، یوں لگا جیسے خاتون کا ایک ایک لفظ میری کلف لگی وردی کو نوچ رہا ہے اس کے اس فقرے کا ایک ایک لفظ میرے دل و دماغ پر کوڑے کی طرح برسنے لگا "ہماری حفاظت کرنے والا یہاں کون ہے؟"۔


میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا "میں ہوں ناں میری بہن!! آپ پریشان نہ ہوں"۔ میں نے اردلی کو بلا کر کہا فوراً گاڑی لگواؤ۔ پاس کھڑے ہوئے ریڈر نے روایتی مشیرانہ انداز میں کہا "سر! متعلقہ ایس ایچ او سے رپورٹ منگوا لیتے ہیں"( پولیس افسر یا کسی بااثر شخص کے خلاف سنگین الزام ہو تو اس کی انکوائری ہمیشہ میںخود کرتا تھا)میں نے اسے گھُورا اور اس کے مشورے اور مداخلت پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اٹھا دونوں ماں بیٹی کو بھی اپنی جیپ میں بٹھایا اور ان کے گاؤں کی جانب روانہ ہوگیا۔ آدھے گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد ہم ان کے گاؤں پہنچ گئے ۔ راستے میں ہی میں نے وائرلیس میسج کے ذریعے متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو وہیں بلا لیا تھا۔

گاؤں پہنچ کر میں نے مسجد میں ڈیرہ لگا لیا اور پچیس سے تیس متعلقہ افراد کو بلا کر ان سے علیحدہ علیحدہ حقائق دریافت کیے، اکثر نے یہ کہا کہ "آپ اجتماع میں سب کی موجودگی میں ہم سے بیان لیتے تو ہم چوہدری کے بیٹے کے خلاف کوئی بات نہ کرتے مگر یہاں خانۂ خدا میں علیحدہ ہم بالکل سچ بولیں گے"۔سب نے بتایا کہ لڑکا لوفر ہے۔ گاؤں کی کئی لڑکیوں کی زندگی برباد کرچکا ہے، معلمہ کی بیٹی کو بھی تنگ کرتا ہے، معلّمہ کا خاوند بیمار اور معذور ہے یہ بے چارے کمزور اور بے سہارا لوگ ہیں۔

لیڈی ٹیچر کی باتوں کی تصدیق ہوگئی ، انکوائری اختتام کو پہنچی تو میرے اشارے پرپولیس کے جوانوں نے چوہدری کے بدمعاش بیٹے کو گھسیٹ کر گاڑی میں ڈالا اور تھانے لے جاکر حوالات میں بند کردیا۔ اس کے کسی ملاقاتی کو تھانے میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی گئی۔ ضلعی سطح کے کچھ "معززین"کے فون آئے اور کچھ "معتبرین" نے ملنے کی کوشش کی مگر سب کومیری طرف سے ایک ہی جواب ملا کہ '' اگر اس تحصیل میں ہماری بہنیں اور بیٹیاں محفوظ نہیں ہیں تو کسی پولیس افسرکو محافظ کی وردی پہننے کا کوئی حق نہیں۔'' رات گئے تک ملزم کے دوسرے اوباش ساتھی بھی پکڑ لیے گئے اور ان سب کی ساری رات "تواضع" ہوتی رہی ۔ صبح دفتر پہنچا تو لڑکے کا والد اپنے رشتے داروں اور ساتھیوں سمیت موجود تھا، میں نے صرف لڑکے کے والدکودفتر میں بلوایا اوربڑی سختی سے کہا "اس قماش کے لوفر کم از کم پانچ سال جیل میںہی رہیں گے"، اُس نے کہا ہم معافی مانگنے آئے ہیں ۔

میں نے کہا "اب فیصلہ عدالت میں ہوگا اور معافی صرف معلّمہ اور اس کی بیٹی ہی دے سکتی ہے "۔ ملزم جیل چلے گئے اس دوران چوہدری معلّمہ کے گھر جاکر معافی مانگتا رہا، چھ مہینے کے بعد جب مدعّیہ نے بار بار آکراصرار کیا کہ "میری حق رسی ہوگئی ہے" تب ملزموں کی خلاصی ہوئی۔ مگر اس کے بعد اس گاؤں میں کسی بیٹی کو تنگ کرنے کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔

دفتر میں شام تک سائلوں اور درخواست گزاروں کا تانتا بندھا رہتا، ہفتے میں ایک روز کہیں نہ کہیں کھلی کچہری منعقد کرتا جس میں عوام کی تعداد سیکڑوں سے شروع ہوکر ہزاروں تک پہنچ گئی۔ سرکاری افسروں کی وہ سرگرمیاں جو عوام کے اعتماد سے محروم ہوں ۔ وہاں پکڑ دھکڑ سے بندے لانے پڑتے ہیں مگر جہاں لوگوں کو انصاف اور ریلیف ملتا ہوا محسوس ہو وہاں عوام خود بخود کھنچے چلے آتے ہیں۔

کھلی کچہریوں میں عوامی شکایات پر کئی پولیس اہلکاروں کی گوشمالی ہوئی اور کئی تھانیداروں کے خلاف انکوائریاں شروع ہوئیں۔ اس سے عوام کا اے ایس پی آفس کے ساتھ ایک اعتماد کا رشتہ قائم ہوگیا، کہیں بھی کوئی قابلِ ذکر بات ہوتی تو مجھے متعلقہ تھانے سے پہلے شہریوں کی طرف سے اطلاع مل جاتی۔ اس سے تھانہ اسٹاف محتاط ہوگیا اُن کا عوام کے ساتھ روّیہ بہتر ہوا اور کرپشن میں بھی خاصی کمی ہوئی، میری کھلی کچہریاں غیر روایتی ہوتی تھیں، ایس ایچ او کے منتخب کردہ ٹاؤٹ قسم کے مقررّین کو بولنے کی اجازت نہیں ملتی تھی۔ سب سے پہلے میں اپنی پالیسی اور ترجیحات بتاتا اور پھر عوام سے جرائم کے خاتمے کے لیے ان کی رائے اور مشورے طلب کرتا اور آخر میں انفرادی شکایات سنتا۔ میں اپنی تقریر میں انصاف کے متعلق اُن احکامِ الٰہی کا ذکر کرتا جسمیں فرمایا گیا ہے ''اے لوگوں جوایمان لائے ہو انصاف کے علمبردار اور خدا کے واسطے گواہ بنو۔ چاہے تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین پر اور رشتے داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو''القرآن۔

(جاری ہے)
Load Next Story